ریکوڈک ریفرنس،سپریم کورٹ کا منصوبے پر باقاعدہ اتھارٹی، حکومتی پالیسی بنانے کا مشورہ

 
0
112

سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کو ریکوڈک منصوبے پر باقاعدہ اتھارٹی اور حکومتی پالیسی بنانے کا مشورہ دے دیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے حکومت کو ریکوڈک منصوبے پر باقاعدہ اتھارٹی اور حکومتی پالیسی بنانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک منصوبے کا پچھلا معاہدہ مخصوص کمپنی کے لیے رولز میں نرمی دینے پر کالعدم ہوا۔انہوں نے استفسار کیا کہ ریکوڈک منصوبے میں دی جانے والی چھوٹ اور رولز میں نرمی کو پالیسی کا حصہ بنایا جاسکتا ہے اور اگر ایک بار پالیسی بن جائے گی تو عدالت کے لیے فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تمام بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے ملک کی یکساں پالیسی سے شفافیت آئے گی، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکوڈک منصوبے میں 10 ارب ڈالر کی ملک کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکوڈک منصوبے سے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی ہچکچاہٹ ختم ہوگی اور ملک میں سرمایہ آئے گا۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ابھی تک آپ مطمئن نہیں کر سکے کہ ایک مخصوص کمپنی کے لیے حکومت نئی قانون سازی کیوں کر رہی ہے؟انہوں نے استفسار کیا کہ بار بار یہ کہہ کر ڈرایا جارہا ہے کہ ریکوڈک منصوبہ 15 دسمبر تک طے نہ ہوا تو 10 ارب ڈالر کا بوجھ پڑ جائے گا، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو ڈرا نہیں رہے لیکن اگر 10 ارب ڈالر کا جرمانہ پڑ گیا تو قوم ہی بھگتے گی اور بلوچستان حکومت اس معاہدے میں برابر کی حصہ دار ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان حکومت کوئی بہت مضبوط اتھارٹی نہیں ہے

، ریکوڈک معاہدہ اور اس کے بعد پورے منصوبے کی نگرانی کون کرے گا؟انہوں نے تجویز دی کہ سی پیک کی طرز کی ایک اتھارٹی بنائیں جو ریکوڈک منصوبے کا جائزہ لیتی رہے، دوبارہ ریکوڈک منصوبے کو تباہ ہونے نہیں دینا چاہتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ریکوڈک معاہدے میں ملک پر ابھی بھی 4.5 ارب ڈالر کا بوجھ ہے، آپ ایک معاہدے کی آسانی کے لیے رولز میں نرمی کر سکتے ہیں لیکن اپنا معیار نہیں گرا سکتے۔عدالت نے کہا کہ ریکوڈک سے ملحقہ علاقوں میں آبادی کے حقوق بھی متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 14 نومبر تک ملتوی کردی۔