سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کو انکا یوم پیداٸش بہت بہت مبارک ہو.

 
0
119

سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کو انکا یوم پیداٸش بہت بہت مبارک ہو. باجوہ ڈاکٹرائن عالمی برادری کی نظر میں پاکستان کی پہچان ایک امن پسند اور مستحکم ملک کے طور پر بنانے کا دوسرا نام ہے، لیکن اگر کوئی دوسرا ملک پاکستان کی طرف میلی نگاہ سے دیکھنے کی جسارت کرتا ہے توافواجِ پاکستان ایسے اقدام کا منہ توڑجواب دینے کی اہمیت بھی سمجھتی ہیں، دُنیا کی ایک بہترین فوج کے سپہ سالار کی خدمات کو قوم ہمیشہ یاد رکھے گی

مسٹر خالد اطہر پاکستان کے سب سے سینئر صحافی ہیں اور صحافت کے میرے استادوں میں سے ایک ہیں اور میری زیر اشاعت کتاب ’’باجوہ ڈاکٹرائن ‘‘ کے پبلشر بھی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہر محاذ پر کامیابی حاصل کرکے ملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کیلئے اپنا کردار ادا کیا اس لئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو چاہئے کہ جنرل باجوہ کو فیلڈ مارشل کے عہدے سے نوازیں, جنرل ایوب خان نے صرف ایک جنگی محاذ پر حصہ لیا اور فیلڈ مارشل کا عہدہ ملااس میں کوئی شک نہیں کہ تجربہ کار صحافی کا یہ کہنا جنرل باجوہ کے لیے بھی زبردست ریمارکس ہیں۔جی ایچ کیو راولپنڈی میں یوم دفاع کی تقریب سے خطاب میں آرمی چیف نے کہا تھا کہ اگر کوئی دشمن ہمیں آزمانا چاہتا ہے تو وہ ہر لمحہ اور ہر محاذ پر ہمیں تیار پائے گا۔ پھر سب نے دیکھا ہے کہ وہ تمام محاذ پر کامیاب ہوئے۔ آج مسلّح افواج کی بنیادی ذمّے داری جنگیں جیتنا نہیں، بلکہ یہ یقینی بنانا ہے کہ جنگوں کی نوبت ہی نہ آئے۔ اس کا دارومدار ہماری اجتماعی صلاحیت پر ہے کہ ہم اکھٹے ہوں اور تصادم کی بجائے امن و تعاون کا راستہ اپنائیں۔باہمی روابط مضبوط کریں اور ذاتی تحفّظ کی بجائے کثیرالجہتی تحفّظ کا راستہ اختیار کریں۔‘‘ یہ الفاظ اُس تقریر کا حصّہ ہیں، جو پاک فوج کے سربراہ، جنرل قمر جاوید باجوہ نے برطانیہ کی رائل ملٹری اکیڈمی سے خطاب کرتے ہوئے کی۔کوئی فوجی ماہر ہی بتا سکتا ہے کہ کیا یہ باجوہ ڈاکٹرائن ہے، جو اُنہوں نے اپنے طویل تجربے سے حاصل کیا یا پھر یہی وہ نظریہ ہے، جو جدید دنیا میں فوجوں کی ذمّے داریوں سے متعلق اپنایا گیا جنرل باجوہ کابڑی طاقتوں اور ممالک کی سیاسی، فوجی قیادت سے مسلسل قریبی رابطہ ہے۔اُنہوں نے گزشتہ سالوں میں مُلک کو معاشی اور سیاسی بحرانوں سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔اُنہوں نے حکومت کو سعودی عرب، یو اے ای اور قطر سے اربوں ڈالرز کی امداد دلوائی جنرل باجوہ نے مُلک کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا جنرل قمر جاوید باجوہ ایک فور اسٹار رینک آرمی جنرل ہیں۔ سابقہ وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں 16واں سربراہ پاک فوج مقرر کیا جنرل قمر جاوید باجوہ کے خاندان کا تعلق گکھڑ منڈی گوجرانوالہ سے ہے۔ انہوں نےکینیڈین آرمی کمانڈ اینڈ سٹاف کالج، نیول پوسٹ گریجوایٹ اسکول اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، پاکستان سے تعلیم حاصل کی۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوجی کیریئر کا آغاز 16 بلوچ ریجمنٹ سے اکتوبر 1980ء میں کیا تھا۔ وہ کینیڈا اور امریکا کے دفاعی کالج اور یونیورسٹیوں سے پڑھ چکے ہیں۔ وہ کوئٹہ میں انفرینٹری اسکول میں انسٹریکٹر کے طور پر فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔ وہ کانگو میں اقوام متحدہ کی امن فوج کی کمانڈ سنبھال چکے ہیں۔وہ راولپنڈی کی انتہائی اہم سمجھی جانے والی کور دہم کو بھی کمانڈ کرچکے ہیں۔ سپہ سالار تعیناتی سے قبل وہ جی ایچ کیو میں جنرل ٹرینیگ اور ایولیوشین کے انسپکٹر جنرل تھے۔ آپ کے اندرونِ مُلک کیسے بھی نظریات ہوں، دنیا جمہوریت، معاشی مضبوطی، انسانی حقوق، گڈ گورنینس اور محنتی قوموں ہی کی قدر کرتی ہے۔ہائبرڈ نظام، فِفتھ جنریشن وار فیئر اور نہ جانے ایسے کتنے تجربے ماضی اور حال میں ہوئے، جب کہ اس سے پہلے بنیادی جمہوریت، نظریۂ پاکستان اور نظریۂ ضرورت کے نام پر قوم کو بے وقوف بنایا گیا۔ آج بھی ایسے عقل مند لیڈر موجود ہیں، جو ساٹھ کے عشرے کی تباہ کُن سیاست کو مُلکی ترقّی کی مثال قرار دیتے ہیں۔ ماضیٔ قریب میں کمیونی کیشن ٹیکنالوجی بروئے کار لانے سے متعلق بھی ایک نظریہ سامنے آیا۔ جنرل باجوہ نے موجودہ حکومت کے دور میں آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جنرل باجوہ نے فوج کی ذمّے داری کا تعیّن کرتے ہوئے کہا کہ اصل کام یہ ہے کہ جنگ کی نوبت نہ آنے دی جائے۔ فوجی سفارت کاری سے بطور سپہ سالار کردار مثالی رہا ہے۔

ماضی میں جنرل محمد ایوب خان کو مردِ حریت کا خطاب اُس وقت ملا جب اُنہوں نے 6 ستمبرکو بھارتی جارحیت کے جواب میں ریڈیو پر اپنی ولولہ انگیز تقریر کی 1947-48ء میں جنگِ کشمیر کے ہیرو میجر جنرل محمد اکبر خان اور جنگ ستمبر1965 ء میں شاندار خدمات سرانجام دینے والے جنرل اختر حسین ملک کو بھی بیحد پذیرائی ملی۔ جنرل ٹکا خان , جنرل حمید گل اور جنرل راحیل شریف کا شمار بھی پاک فوج کے ہردلعزیز جرنیلوں میں ہوتا ہے۔ملک گیر سطح پر عزت و شہرت صرف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حصہ میں آتی ہے جسے پاک فوج کے افسر اور جوان ایک نڈر، بہادر، دلیر، جری، مخلص، محب وطن اور دیانتدار کمانڈر سمجھتے ہیں۔عزت و شہرت صرف ایسے ہی سپہ سالارکے حصہ میں آتی ہے جسے پاک فوج کے افسر اور جوان ایک نڈر، بہادر، دلیر، جری، مخلص، محب وطن اور دیانتدار کمانڈر سمجھتے ہوں۔ وہ جو کئی ہزار فٹ کی برف پوش بلندیوں پر جوانوں کے پاس پہنچ کر انہیں گلے لگالے۔ اگلے مورچوں پر جاکر جوانوں کا حوصلہ بڑھائے۔ عید اُنکے ساتھ گزارے۔ اُنکی ہر خوشی اور غم کا ساتھی ہو۔ ہر شہید افسر یا جوان کے جنازے میں شریک ہو۔ ہر زخمی کی عیادت کرے۔ شہید یا زخمی مجاہدوںکے اہلِ خانہ کی ڈھارس بندھائے۔ وہ جو سیلاب، طوفان یا کسی بھی قومی سانحہ اور بحران میں اپنی سپاہ اور قوم کے ساتھ کھڑا ہو۔ جو قومی وسیاسی قیادت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان مثالی ہم آہنگی کا مظہر ہو۔اگر کوئی سپہ سالار اپنے حاضر سروس، ریزرو اور پیرا ملٹری فورس پر مشتمل چودہ لاکھ سے زائد جوانوں کے دِل جیت لے۔ اُنکی آنکھوں کا تارہ اور ماتھے کا جھومر بن جائے تو پھرپاکستانی قوم بھی ایسے سپہ سالار سے والہانہ عقیدت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔قوم نے پاسبانِ گلشن سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کو جس عزت و توقیر سے نوازا ہے پاکستان کی تاریخ میںاِس قدر محبت ، چاہت اور احترام سے لبریز جذبات کسی بھی سپہ سالار کے حصہ میں نہیں آئے۔ماضی میں قومیں اپنے اُن سپہ سالاروں کے سر پر محبت اور عقیدت کے تاج سجایا کرتی تھیں جو اپنی جان سے بے پرواہ دشمنانِ وطن کے منحوس وجود کو نیست و نابود کردیا کرتے تھے۔ اپنے دیس کی سرحدوں کو ناقابلِ تسخیر بنا دیتے ۔ اپنے اہلِ وطن کو نیا عزم، اعتماد اور حوصلہ بخشتے۔ نتائج سے بے نیاز ہوکر ماں دھرتی کی تقدیس ، حرمت اور عفت کی خاطر ہر آخری حد عبور کر تے ہوئے بادوباراں اور طوفان کی زَد میں آئے ہوئے بادباں کو ساحل سے ہمکنار کردیتے تھے۔تاریخ اسلام میں خلفاء راشدین کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ فاتح فلسطین و شام، طارق بن زیادؒ فاتح اُندلس (اسپین)، صلاح الدین ایوبیؒ فاتح یروشلم کو اُنکی سنہری خدمات کے باعث عالم ِ اسلام میں وہ دائمی عزت و تکریم ملی جسکا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ جنگ عظیم کے دوران امریکہ کے جنرل جارج ایس پیٹن اور جنرل آئزن ہاور، جرمنی کے ارون رومیل، برطانیہ کے جنرل برنارڈ منٹگمری اور فرانس کے جنرل چارلس ڈیگال نے بہادری اور جرأت کی جو نادر مثالیں قائم کیں اُنکی وجہ سے وہ آج بھی اپنی قوموں کے دِلوں میں زندہ و جاوید ہیں,پاکستان دُنیا کی بہترین فوج کا سربراہ بننا اعزاز ہوتاہےجنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان کی تاریخ کے جس موڑ پر ایک عظیم سپاہ کے سالار بنے وہاں بہت سی نیک نامیاں اور بہت سے چیلنج بھی درپیش تھیں۔ ان میں سے کچھ معرکے نئے تھے کچھ گزشتہ سے پیوستہ تھے۔ کچھ، بلکہ زیادہ، ہمارے ایک ’اتحادی‘ کے پیدا کردہ تھے۔ اس سے کہیں زیادہ ہمارے ہمسائے کے شر سے تخلیق ہوتے رہتے ہیں جس نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ایسی سماجی اور سیاسی بحرانی صورت حال میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی کمان سنبھالی ، مگر جنرل قمر جاوید باجوہ کو ورثے میں ایک عظیم مثالی تربیت اور ترقی یافتہ ادارہ ملا ہےجنرل قمر جاوید باجوہاپنی مستعدی، سچی سوچ، پختہ ارادوں اور بروقت فیصلوں کی وجہ سے بہت ہی نیک نام اور مقبول جنرل بن گئے۔اتنے پسندیدہ کہ قوم کی اکثریت کی آرزو تھی کہ ان کو توسیع دی جائے۔ لیکن وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض تک محدود رہے انہیں جہاں جس وقت ہونا چاہئے تھا، وہیں ہوتے تھے۔ فاصلے، لمحے ان پر حاوی نہیں ہوسکے۔فرائض کی انجام دہی کو انہوں نے اپنے کسی ذاتی آرام، معاملے کو اس پر ترجیح نہیں دی۔پاکستان کے ماضی میں اتنے نشیب و فراز آئے ہیں ایسے ایسے المیے برپا ہوئے ہیں کہ یہاں کی تاریخ اور تمدن دوسرے جمہوری ملکوں سے مختلف ہیں۔ یہاں مسلح افواج کی تربیت، فرائض کی انجام دہی میں ایک تسلسل ہے۔ عالمی تناظر میں پاک فوج کا کیا کردار ہونا چاہئے، یہ نظریہ بھی واضح ہے۔ بھارت کے عزائم اور خواہشوں کے بارے میں بھی پاک فوج کی پالیسیاں قطعی ہیں ۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے منصب سنبھالاتوبہت سے چیلنجز تھےقوم دہشت گردی کے حصار میں تھی۔ بیچارگی وطن کا سماں تھا۔ شہریوں کی حفاظت تو ایک جانب، جی ایچ کیو، پاک فضائیہ، پاک نیوی، کامرہ و مہران بیس، آئی ایس آئی، رینجرز، پولیس اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں پر یکے بعد دیگرے حملوں کے باعث ملکی سلامتی دائو پر لگی ہوئی تھی۔ کوئی شخص اور کوئی مقام محفوظ نہیں تھا۔بلاشبہ پاک فوج کے پہلے سپہ سالار ہیں جنہیں فوج اور قوم کے تمام طبقات کی جانب سے اِس قدر محبت ، چاہت اور احترام ملا ۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے منصب سنبھالتے ہیاغواء برائے تاوان، بھتہ مافیا، ٹارگٹ کلنگ اور منی لانڈرنگ میں ملوث دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچایا ۔ اب صورتحال یہ ہےکہ باغی ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ جلاوطن بلوچ مذاکرات پر آمادہ نظر آتے ہیں دہشت گردی کے شکار علاقوں میں پہلی مرتبہ عیدالفطر، یومِ آزادی اور یومِ دفاع کی تقریبات قومی جوش و جذبہ کیساتھ منائی گئیں۔مایوسی میں مبتلاپاکستانی قوم کو ایک نیا عزم، حوصلہ اور اعتمادملاکشمیریوں کی خواہشں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کی بات کرکے نظریہ پاکستان سے گہری وابستگی کا اظہار کیا,قوم ایک طویل عرصے سے فوجی قیادت کی جانب سے اِسی جذبہ کے عملی مظاہرے کی منتظر تھی۔ آج قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ پاک فوج کا وقار اُفق کی بلندیوں کو چھورہا ہے۔ قوم، جنرل قمر جاوید باجوہ کی خدمات کے اعتراف میں والہانہ عقیدت کے پھول نچھاور کررہی ہے۔اُنہیں پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین سپہ سالار کے طور پر عزت وتکریم سے نوازا جا رہا ہے۔جنرل باجوہ کاکہنا کہ جنگ کی نوبت نہ آنے دی جائےکسی ایک مُلک کی بات نہیں،بلکہ علاقے کے سارے ممالک کے تحفظ کی ذمّے داری کی بات ہےجنرل باجوہ اسے’’ کثیر الجہتی تحفّظ‘‘ کہتے ہیں۔اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ امن کی صُورت میں نکلتا ہے۔باہمی امن جو دو ممالک کے درمیان ہو،علاقائی امن، جو علاقے میں قائم ہو اور پھر اِن دونوں کا نتیجہ عالمی امن کی صُورت نکلتا ہے، جس سے اجتماعی ترقّی ممکن ہے۔ یقیناً ماہرین جنرل صاحب کی رائے کو بحث مباحثے کا موضوع بنائیں گے۔ خارجہ امور میں اس پر بات ہوگی، لیکن اس کا سب سے زیادہ اثر پاکستان کی دفاعی اور خارجہ پالیسی کا رُخ متعیّن کرنے پر ہوگا۔ جنرل باجوہ نے یہ بھی کہا تھا کہ دوسرے ممالک کے تنازعات میں بعد میں الجھیں، ثالثی کا شوق چھوڑیں، اپنے مُلکی معاملات سلجھائیں اور اپنے مُلک میں سیاسی ثالثی کر کے دیکھیں، لیکن جو بھی لیڈر اُٹھتا ہے، کشمیر، فلسطین کا مقدمہ لڑنے اور اسلاموفوبیا کا چمپیئن بننے کھڑا ہو جاتا ہے۔ خوشامدیوں کی ایک فوج ظفر موج ہے، جو اُن کی واہ واہ کرتی ہےشور شرابا، گالم گلوچ، گریبانوں پر ہاتھ ڈالنا سیاسی کلچر بن چُکا ہے اور ہجوم اکھٹا کرنا قومی ریفرنڈم قرار پایا ہے، تو ایسے میں مُلک و قوم کی درستی کیسے ہو، معیشت کیسے سنواری جائے، فوج جنگ جیتنے کی بجائے جنگ نہ ہونے کی نوبت پر کیسے مامور کی جائے، یہ سوال قوم کو خود سے کرنا چاہیے اور جواب بھی خود ہی تلاش کرنا چاہیے، پاکستان مملکت خداداد۔ قدرت کے بہترین وسائل سے آراستہ ہے۔ یہ ایسی سر زمین ہے جہاں تاریخ ہزار ہا سال سے انگڑائیاں لے رہی ہے، جہاں فاتحین کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی چاپ اب بھی سنائی دیتی ہے۔ عظیم فاتح سکندر بھی اس سر زمین کی آرزو میں پہنچ گیا تھا، سالٹ رینج میں اس کے گھوڑے نمک کی خوشبو اور ذائقے سے مسحور ہوئے تھے، مغل شاہسوار، اسی مقدس زمین سے گزر کر تخت دہلی تک پہنچتے رہے ہیں، غزنوی، ابدالی، درّانی بھی اپنی تلوار کی دھار سے یہاں کی وادیوں کی آنکھیں خیرہ کرتے رہے ہیں۔اس خطّے کی اہمیت کبھی بھی کم نہیں رہی ہے۔ صرف قرون اولیٰ نہیں، قرون وسطی، یا اب جدید دَور کی صدیاں، کبھی مغل اس کی خوبصورتی کی کشش میں یہاں آکر تخت نشیں ہوتے رہے، اپنے ساتھ فارسی، ترکی، روایات، تاتاریوں کی قہر سامانیاں لاتے رہے۔ سولہویں صدی سے اٹھارہویں صدی ان کی تھی۔ اٹھارہویں صدی کے وسط سے انگریز کا جبر اس خطّے پر مسلط ہوا۔ 1947 سے ہم ایک آزاد مملکت ہیں۔ کوئٹہ سے پشاور تک اور ادھر ڈھاکے سے چٹاگانگ تک قائد اعظم کی قیادت میں دُنیا کی سب سے بڑی مسلم مملکت کا وجود عمل میں آیا۔تاریخ کے جس مقام پر بھی کسی کو ذمہ داری ملتی ہے اس مقام اور اس موڑ کو پورے ماضی کے تناظر میں دیکھنے سے ہی وہ روڈمیپ تشکیل دیا جاسکتا ہے جس سے منزل مقصود تک پہنچا جاسکتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان کی تاریخ کے جس موڑ پر ایک عظیم سپاہ کے سالار بنے وہاں بہت سی نیک نامیاں اور بہت سے چیلنج بھی درپیش تھیں۔ ان میں سے کچھ معرکے نئے تھے کچھ گزشتہ سے پیوستہ تھے۔ کچھ، بلکہ زیادہ، ہمارے ایک ’اتحادی‘ کے پیدا کردہ تھے۔ اس سے کہیں زیادہ ہمارے ہمسائے کے شر سے تخلیق ہوتے رہتے ہیں جس نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ یکے بعد دیگرے مختلف نسلوں کے ذہن میں یہ بات بٹھائی گئی کہ پاکستان بھارت ماتا کے جسم کو کاٹ کر بنایا گیا ہے۔ اس خبط کے ذریعے بھارتی قیادتیں اپنی نئی نسل کو بھی پیچیدگیوں میں الجھاتی رہتی ہیں۔ اپنے سنگین مسائل پر پردہ ڈالنے کے لئے انہیں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور افسانہ طرازی ہی زیادہ نتیجہ خیز لگتی ہے۔1979 سے پاکستان نے افغانستان اور روس کی جنگ کے تناظر میں امریکی پالیسیوں پر عملدرآمد کرکے اپنے لئے، اپنے مستقبل کے لئے خطرناک رُجحانات کی بنیاد رکھ دی۔ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی سے ہم سکیورٹی۔ سرمایہ کاری، اقتصادی انحطاط کے ساتھ ساتھ معاشرتی، سماجی، اخلاقی بحرانوں میں اُلجھتے جارہے ہیں۔ بین الاقوامی سازشیں بڑھتی جارہی ہیں۔ بھارت بھی اس صورت حال سے پورا فائدہ اٹھارہا ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہماری قومی قیادتیں اس دورانئے میں تجربہ کار تھیں نہ پختہ کار۔ آپس میں اتنی دست و گریباں کہ ملک دشمنوں کے خلاف بھی متحدہ نہ ہوسکیں۔ اس لئے گزشتہ چند دہائیوں اور بالخصوص نئے ہزاریے کے آغاز، اکیسویں صدی کی پہلی دہائی سے سیاسی خلاء کے باعث پاک فوج کے کندھوں پر زیادہ ذمہ داری آن پڑی ہے۔ پاکستان کے مایوس، بے کس، بے بس عوام اپنی فلاح اور صورت حال میں بہتری کے لئے فوج کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ذہنوں میں یہ سوچ واضح ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج بہترین پیشہ ور ادارہ ہیں، جنہیں وہ اپنا پیٹ کاٹ کا انتہائی اعلیٰ تربیت کا موقع بھی دیتے ہیں۔ پاک فوج میں ڈسپلن ہے ، مملکت کا درد ہے ۔اپنے وطن کی سلامتی کے لئے فوج کے عام سپاہی سے لے کر اعلیٰ ترین عہدیدار اپنی جان دینے سے گریز نہیں کرتے۔ جبکہ ملک میں ایک سیاسی، سماجی اور اخلاقی افراتفری رہی ہے۔ دوسری طرف دُنیا میں ناانصافیوں، مسلمان حکمرانوں کی نا اہلیوں، دہشت گردی کے نام پر مسلم دُنیا کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایک مسلسل جنگ برپا کر رکھی ہے۔ فلسطین اور کشمیر میں تو اسرائیل اور انڈیا کے مظالم 1948 سے جاری تھے۔ بعد میں عراق، لیبیا، مصر،الجزائر، یمن، شام اور دوسرے ملکوں میں مغرب کی خوفناک پالیسیوں نے القاعدہ، داعش، جیسی انتہا پسند اور خطرناک تنظیموں کو جنم دے دیا ہے جن کی سوچ تو بارہویں صدی کے قبائل کی ہے۔ لیکن انہیں اکیسویں صدی کے مہلک ہتھیار میسر آگئے ہیں۔جب ہمارے ہاں متعدد ادارے اپنی اپنی ذمہ داریاں اُس انداز میں نبھا نہیں پائے جس طرح نبھانے چاہئے تھے۔ مگر یہ امر باعث فخر ہے کہ ہماری مسلح افواج ہر خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں، تربیت یافتہ ہیں، مسائل کی سنگینی کا ادراک رکھتی ہیں۔ فوج کے تعلیمی ادارے وطن عزیز کے بے پایاں معدنی وسائل کے بارے میں تحقیق کرتے رہتے ہیں اور عظیم وطن کو درپیش مسائل کی شناخت، تشخیص اور ان کا علاج بھی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ فوج کی درسگاہیں، فوج کے اسپتال بین الاقوامی معیار کے حامل ہیں,پاکستان کا مستقبل سیاسی اور فوجی قیادت میں بہترین مفاہمت سے ہی محفوظ ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے عوام کی دلی تمنا ہے کہ یہاں بہتر حکمرانی ہو،قوم نے پاسبانِ گلشن سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کو جس عزت و توقیر سے نوازا ہے پاکستان کی تاریخ میںاِس قدر محبت ، چاہت اور احترام سے لبریز جذبات کسی بھی سپہ سالار کے حصہ میں نہیں آئے۔اک بھارت جنگ 1965ء کو گزرے ستاون برس ہوچکے ہیں لیکن آج بھی ہمارے خطے میں ایسی عالمی قوتیں سرگرم ہیں جو علاقے میں غلبہ حاصل کرنا چاہتی ہیں، بین الاقوامی طاقتوں کے مابین نادیدہ چپقلش سے ہمارے پیارے وطن کو ملکی سالمیت اور علاقائی استحکام کے حوالے سے سنجیدہ خطرات لاحق ہیں،تاہم پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیربنانے کیلئے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی عسکری حکمت عملی ہر محاذ پر کامیاب ثابت ہوئی,باجوہ ڈاکٹرائن سوفیصد درست ثابت ہوئی جب افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعدپاکستان نے امریکی افواج سمیت عالمی طاقتوں کو افغانستان سے انخلاء کیلئے تعاون فراہم کیا ۔ اندرونی امن واستحکام کو یقینی بنانے کیلئے دہشت گردی کامکمل صفایاضروری ہے اور دہشت گردوں کو ملک میں محفوظ پناہ گاہیں میسر نہیں ہونی چاہئے،جنرل باجوہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی صورت پاکستان دشمن عناصر کے ہاتھوں استعمال نہ ہو اور کسی نئی جنگ کے شعلے پاکستان کے پڑوس میں نہ بھڑکیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو مقدم جانتے ہوئے سعودی عرب،قطر ، چین، برطانیہ اور امریکہ سمیت دیگر دوست ممالک کیساتھ قریبی دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کیلئے بھرپور کوشش کی اور اس عظیم مقصد کے حصول میں حائل مختلف رکاوٹوں کوبھی دور کیا۔جنرل باجوہ کو اس بات کا بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کے دور میں محب وطن غیرمسلم شہریوں کو دفاع وطن کیلئے بہترین خدمات سرانجام دینے کے یکساں مواقع میسر آئے، پاکستان کی عسکری تاریخ میں2019ء میں پہلی مرتبہ ایک ہندو افسر کیلاش کو میجر کے عہدے پر ترقی دیکر غیرمسلم فوجیوں کیلئے ترقی کے دروازے کھول دئیے گئے، ففتھ جنریشن وار فیئر کے دور میں زہریلا پروپیگنڈہ پاکستانی قوم کا مورال ڈاؤن کرنے کیلئے بطور جنگی ہتھیار استعمال کیاجارہا ہے سوشل میڈیا پر نفرت آمیز ہیش ٹیگ چلائے جاتے ہیں، ہمارے کچھ ناسمجھ سیاستدان /تجزیہ نگارایسے غیرذمہ دارانہ بیانات دیتے ہیں جس سے عسکری اداروں کی ساکھ مجروح ہوتی ہے ، ملکی سالمیت پرسوال اٹھانے والے یہ امر فراموش کردیتے ہیں کہ آج پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔پاکستان کے 29 نومبر کو ریٹائر ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے الوداعی دوروں کا آغاز کر دیا ہے۔ئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق ’آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مختلف فارمیشنز کے الوداعی دوروں کے طور پر سیالکوٹ اور منگلا گیریژن کا دورہ کیا۔‘آرمی چیف نے افسران اور جوانوں سے ملاقات اور خطاب بھی کیا ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا ہے کہ ۔ مارچ میں آرمی چیف کو مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت کی پیش کش میرے سامنے کی گئی جسے جنرل قمر جاوید باجوہ نے ٹھکرا دیا تھا تحریک عدم اعتماد ناکام بنانےکے لیے جنرل قمر جاوید باجوہ کو غیرمعینہ مدت تک توسیع کا کہا گیا تو سربراہ پاک فوج نے کہا کہ آئین وقانون کے تحت آپ نے جو کرنا ہے وہ کریں اور ہم کوئی ایسی مدد فراہم نہیں کرسکتے جو آئین و قانون کے مطابق نہ ہو۔ پاکستان کا دفاع مضبوط ہے کیونکہ اس کی ذمہ داری 22 کروڑ عوام نے لی ہے پاک فوج اور قیادت کے خلاف سازشی بیانیے کو فروغ دیا اور لفظ نیوٹرل کو گالی بنادیا گیا اور ہمارے شہدا کا مذاق بنایا گیا جنرل باجوہ نے پاکستان کے لئے ہر شعبے میں گرانقدر خدمات انجام دیں جس پر فیلڈ مارشل کہلانے کے حقدار ہیں