مقبوضہ کشمیر؛غیر قانونی‘ اقدامات واپس لیے جانے تک بھارت سے مذاکرات ناممکن ”ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف کا دو ٹوک اعلان

 
0
71

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ بھارت کے ساتھ بات چیت اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک وہ 5 اگست 2019 کے اپنے ’غیر قانونی‘ اقدام کو واپس نہیں لے لیتا۔ وزیر اعظم افس نے وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئےکہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ بات چیت صرف اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب وہ اگست 2019 میں اٹھائے گئے غیرقانونی اقدام کو منسوخ نہیں کرتا جس کا مقصد مسلم اکثریتی علاقے مقبوضہ کشمیر کی ڈیموگرافی غیرقانونی طریقے سے تبدیل کرنا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’بھارت کی طرف سے اٹھائے گئے اس اقدام کو منسوخ کیے بغیر مذاکرات کا عمل ناممکن ہے۔‘ واضح رہے کہ وزیر اعظم کے دفتر کی طرف سے وضاحتی بیان وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے ’العربیہ‘ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو کے بعد آیا ہے جس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر سمیت تمام حل طلب مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ بات چیت کریں جبکہ متحدہ عرب امارات کی قیادت بھارت اور پاکستان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔
وزیراعظم کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم دفتر کے ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم مسلسل اس بات پر زور دیتے آرہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کو باہمی مسائل مذاکرات اور پرامن طریقے سے حل کرنے ہوں گے۔ ترجمان نے کہنا تھا کہ ’وزیراعظم نے بار بار ریکارڈ پر یہ بھی کہا ہے کہ بات چیت صرف اس وقت ہوسکتی ہے جب بھارت اگست 2019 میں اٹھائے گئے غیر قانونی اقدام کو واپس لے، بھارت کی طرف سے غیر قانونی اقدام واپس لیے بغیر مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔‘ ترجمان وزیراعظم نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے، وزیراعظم نے اپنے حالیہ دورہ متحدہ عرب امارات کے دوران ’العربیہ‘ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ مؤقف بالکل واضح کیا۔دوسری جانب وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کی اہم شرط 5 اگست 2019 کو اٹھائے گئے غیرقانونی اقدام کو واپس لینا ہے جس نے وادی کشمیر کی قانونی حیثیت ختم کردی ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ یکطرفہ قدم کی منسوخی تک دونوں ممالک کے درمیان کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔


خیال رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کا ’العربیہ‘ ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ” بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو یہ پیغام ہے کہ وہ ہمارے ساتھ بیٹھیں اور تمام حل طلب مسائل جیسا کہ مقبوضہ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ بات چیت کریں”۔ ”مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، یہ بند ہونی چاہئیں”۔” کشمیریوں کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت ملنے والے حقوق یکطرفہ طور پر 5 اگست 2019 کے اقدام سے ختم کر دیے گئے”۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے وہ سب کے سامنے ہے، بھارت کو اسے روکنا چاہیے اور دنیا کو پیغام دینا چاہیے کہ وہ نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے تیار ہے، ” بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے، گو کہ ہم اپنی پسند سے ہمسائے نہیں ہیں، یہ ہم پر ہے کہ ہمیں امن و خوشحالی سے رہنا چاہیے”، پاکستان نے ماضی سے سبق سیکھا ہے”، ”پاکستان اور بھارت کے درمیان 3 جنگیں ہو چکی ہیں”، ان جنگوں کے نتائج مزید غربت، بے روزگاری اور لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں ابتری کے طور پر سامنے آئے”۔ ان کا کہنا تھا کہ” میرا بھارت کی قیادت اور وزیر اعظم نریندر مودی کو یہ پیغام ہے کہ وہ ہمارے ساتھ بیٹھیں اور تمام حل طلب مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ بات چیت کریں”،” مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، یہ بند ہونی چاہئیں اور دنیا کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ بھارت بات چیت کے لیے تیار ہے، ہم مکمل طور پر بات چیت کے لیے تیار ہیں”۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ” دونوں ممالک جوہری طاقتیں ہیں، اگر خدانخواستہ جنگ چھڑ جائے تو کون زندہ رہے گا کہ یہ بتائے کہ کیا ہوا تھا”۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی طرح پاکستان کا دیرینہ دوست ملک ہے، پاکستان کے وجود میں آنے سے سیکڑوں سال پہلے برصغیر میں بسنے والے لاکھوں مسلمان سمندر اور صحر ا کے راستے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے جاتے تھے اس لیے سعودی عرب کے ساتھ یہ تعلقات سیکڑوں سال پرانے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ان کا دورہ متحدہ عرب امارات انتہائی کامیاب رہا، یو اے ای میرا اور لاکھوں پاکستانیوں کا دوسرا گھر ہے اور اس کے پاکستان کے ساتھ انتہائی قریبی برادرانہ اور دوستانہ تعلقات ہیں۔


وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ متحدہ عرب امارات کی قیادت کے مشکور ہیں بالخصوص صدر شیخ محمد بن زاید النہیان کے جو پاکستان کے دیرینہ مددگار اور مہربان ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور یہاں کے عوام خوشحال ہوں، اسی طرح شیخ زاید پاکستان کے ایک بڑے خیرخواہ اور دوست تھے۔یاد رہے کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیرکی حیثیت ختم کرنے، لاک ڈاؤن، کرفیو مسلسل، بربریت اور جارحیت کے خلاف ریاستی عوام نے دنیا بھر میں سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ۔ 5 اگست 2019 کو بھارتی صدر کے ایک صدارتی حکم نامے کے بعد مودی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کی دفعات کو منسوخ کرنے کا اقدام کیا جس نے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی ریاستوں کے دیگر باشندوں کے مقابلے میں الگ الگ قوانین کے تحت شہریت، جائیداد کی ملکیت اور بنیادی حقوق کے تحت خصوصی حیثیت دی تھی، بھارت کی طرف سے مقبوضہ علاقے میں فوج، پولیس اور دیگر نوعیت کے ظلم و ستم بدستور جاری رہے2019 میں نریندر مودی کی حکومت نے 5اگست کو 80 لاکھ سے زائد آبادی کا حامل خطہ کو متنازع طور پر تقسیم کرکے رکھ دیا گیا جہاں تعلیمی ادارے بند ،غذائی اجناس کی قلت ، ہسپتالوں میں ڈاکٹر نہیں مگر بھارتی فوج کی کثرت ہے جس کی مدد سے مقبوضہ کشمیر میں اسلحے کے زور پر ظلم و جبر کا نیا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔5 اگست 2019 سے آج تک کشمیر میں انسانی حقوق کا چراغ گل ہے اور روشنیوں کے اس خطے میں جبر کی گھنگور گھٹائیں تڑ تڑا رہی ہیں۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ کرنے اور جموں و کشمیر اور لداخ کے دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کا بھارتی اقدام متنازع علاقوں پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کا 5 اگست 2019 کو کیا گیا اقدام ایک گہری سازش تھی، جس کا مقصد مقبوضہ وادی میں خصوصی شناخت، ثقافت اور روایت کو ختم کرنا اور مسلم اکثریتی خطے کی جغرافیائی حیثیت تبدیل کرنا تھا۔ آرٹیکل 35 اے کے خاتمے کے بعد 40 لاکھ غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل جاریکرنا بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیر قانونی اور یک طرفہ اقدامات کو 3 سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے ، بھارت غیر انسانی فوجی محاصرے اور کشمیری عوام کے مصائب پر بے حسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھارتی حکومت چوتھے جنیوا کنونشن اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے، مقبوضہ کشمیر کی اعلی حریت قیادت بدستور قید ہے، کشمیری نوجوان بھارتی قابض افواج کے ماورائے عدالت قتل کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق اور ہر قسم کی آزادی سے مسلسل محروم رکھا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ بھارتی حکومت آبادیاتی ڈھانچہ تبدیل کرنے کے لیے ہندوتوا کے ایجنڈے کو ڈھٹائی سے آگے بڑھا رہی ہے۔ بھارتی قابض افواج نے مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ کشمیری بدترین جبر کے باوجود اپنے مقصد کے حصول کے لیے پرعزم ہیں اور اس کے لیے انہوں نے لاتعداد قربانیاں دی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارتی حکومت اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ تنازع کشمیر کا حل کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دیے بغیر حل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ان پر ظالم فورسز کے استعمال سے حل ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی حکومتوں نے 75 برسوں سے مسلسل کشمیریوں کا ساتھ دیا ہے، کشمیری اپنی شناخت اور عزت پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔یاد رہے کہ بھارت کے زیرِ تسلط کشمیر اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ریفرنڈم کے نتائج کو تبدیل کرنے کے مقصد سے کشمیریوں کو ان کے آبائی وطن میں اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے بھارتی غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر (IIOJK) میں 3.4 ملین سے زائد جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے ہیں۔ حراست میں تشدد سے اب تک پچاس ہزار سے زائد افراد کو بدترین قسم کے تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ تشدد کی تکنیکوں میں واٹر بورڈنگ، جبری فاقہ کشی، نیند کی کمی اور لاشوں کو جلانا شامل ہیں۔ڈریکونین قوانین میں خصوصی قوانین نے ایسے ڈھانچے بنائے ہیں جو قانون کے معمول کی راہ میں رکاوٹ بنتے اور ریاست کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متاثرین کے علاج کے حق کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غیر قانونی قبضہ صدی کے سب سے بڑے انسانی بحران اور المیے میں تبدیل ہو چکا ہے جو عالمی برادری کی بے حسی کو بھی بیان کرتا ہے۔ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ مضبوطی اور ولولے کے ساتھ کھڑا ہے بھارت کو اس کے ہر ظلم کا جوابدہ ہونا پڑے گا کیونکہ شہید کشمیریوں کا خون کشمیریوں کو آزادی کا راستہ دے گا۔ 5 اگست 2019 کو مودی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت کو تبدیل کیا اور کشمیریوں پر ظلم کا ایک نیا دور شروع کیا۔ آئین ہند میں کشمیر پر دو بنیادی آرٹیکل شامل تھے۔ آرٹیکل 370 جو مقبوضہ ریاست کو خصوصی حیثیت دیتا تھا اور آرٹیکل 35 اے کے تحت یہ واضح کیا گیا تھا کہ کون مقبوضہ کشمیر کا مستقل شہری ہے اور کون زمین خرید سکتا ہے۔

اسکے ختم ہونے کے بعد سے وہاں بدترین مظالم شروع ہو گئےہیں ۔ کشمیری عوام بیرونی دنیا سے کٹ گئے اور وادی کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ کشمیریوں پر ظلم و ستم گزشتہ ایک صدی سے جاری ہیں ، لیکن آرٹیکل 370 اور 35 اے کے منسوخ ہونے کے بعد سے صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔ کشمیری عوام پر ہر لمحہ بھاری ہوہو چکا ہے ۔ہزاروں فوجی اہلکار ہر وقت سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور علاقے میں کسی احتجاج یا اجتماع کی صورت میں فوری کارروائی کرتے ہوئے نہتے کشمیریوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے ، بچیوں کی معصومیت کو پاؤں تلے روند دیا جاتا ہے ، کشمیریوں کو قید کی سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان پر بارود کی بارش کی جاتی ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ بات چیت اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک وہ 5 اگست 2019 کے اپنے ’غیر قانونی‘ اقدام کو واپس نہیں لے لیتا۔ایک حقیقت ہے ، اتحادی حکومت کی کاوشوں سے کشمیر کازدنیا بھر میں اجاگرہورہا ہے اور وہ دن دور جب پاکستان کی سفارتی ،سیاسی اور اخلاقی حمایت سے کشمیری اپنا حق حاصل کر لیں گے پاکستان، عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مقبوضہ خطے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے بھارت کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے عملی اقدامات کے ساتھ ساتھ سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق دیرینہ تنازعہ کے پرامن اور منصفانہ حل میں سہولت فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔