نقیب اللہ محسود قتل کیس میں ایس ایس پی راؤ انوار بری

 
0
74

کراچی: انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 5 سال بعد ہائی پروفائل نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق ایس ایس پی راؤ انوار، ڈی ایس پی قمر سمیت 18 ملزمان کو باعزت بری کردیا، نقیب اللہ کے ورثا نے فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا۔

کراچی سینٹرل جیل میں انسداد دہشت گردی کی کمپلیکس میں خصوصی عدالت نمبر 16 نے ہائی پروفائل نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا جس میں استغاثہ جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ عدالت نے ملزمان کو بری کرتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کے خلاف شواہد ناکافی ہیں، جو مقدمہ پولیس نے درج کیا تھا استغاثہ اسے ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

عدالت کے مطابق استغاثہ کے دو گواہوں حضرت علی اور قاسم کے بارے میں استغاثہ ثابت نہیں کرسکا کہ یہ نقیب اللہ کے ساتھی تھے۔ استغاثہ نے کہا کہ مقابلہ مبینہ تھا، نقیب اللہ سمیت 4 افراد کا قتل ہوا لیکن جن لوگوں کو ملوث کیا گیا ان میں سے کسی کے خلاف ٹھوس شواہد پیش نہیں کئے جاسکے۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ نقیب اللہ اور دیگر کو جس پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا وہ جعلی تھا، عدالت نے قتل کے واقعہ کو سفاکانہ قرار دیا، عدالت نے کہا کہ ایک اخبار نے آرٹیکل لکھا اور اس معاملے کو ٹیسٹ کیس قرار دیا یہ بہت ہی غلط اقدام تھا ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر 14 جنوری کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ مقدمے میں 51 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے۔ نقیب اللہ قتل کیس کا مقدمہ 23 جنوری 2018ء کو درج کیا گیا تھا اور 5 سال بعد 23 جنوری 2023ء کو فیصلہ سنایا گیا۔ مقدمہ کے چالان میں 90 سے زائد گواہوں کو شامل کیا گیا تھا۔ مقدمے میں 7 ملزمان مفرور، 12 جیل میں جبکہ 6 ضمانت پر تھے۔

آج عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے سابق ایس ایس پی راؤ انوار سمیت 18 ملزمان کو باعزت بری کردیا۔ بری ہونے والوں میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار، ڈی ایس پی قمر احمد، یاسین، خضر حیات، سپرد حسین، رئیس جعفری، اللہ یار کاکا، محمد اقبال، ارشد علی، غلام نازک، شفیق احمد، محمد انار، خیر محمد، فیصل محمود، علی اکبر، سید عمران کاظمی، عبد العلی اور شکیل فیروز شامل ہیں۔

پراسیکیوشن کے 7 گواہ پولیس کو دیئے گئے بیانات سے منحرف ہوگئے تھے۔ نسیم اللہ عرف نقیب اللہ سمیت چار افراد کے اغوا اور مبینہ جعلی مقابلے میں ہلاکت کے الزام سے سابق ایس ایس پی کے ساتھی ،اٹھارہ پولیس افسران واہلکاروں پربھی جرم ثابت نہیں ہوسکا۔

18 جنوری 2018ء کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں ہونے والے مقابلے کا ریٹائرڈ چیف جسٹس ثاقب نثار نے سوموٹو ایکشن لیا تھا، جبکہ جاں بحق ہونے والے نقیب اللہ محسود کے لواحقین نے کراچی اور اسلام آباد میں دھرنے دے کر شدید احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ معاملہ ٹاپ ٹرینڈ رہا۔

20 جنوری کو راؤ انوار کو ایس ایس پی ملیر کے عہدے سے ہٹا کر معطل کردیا گیا۔ 21 مارچ کو ایس ایس پی سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے اور انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس نے راؤ انوار کو انسداد دہشتگردی کی عدالت نمبر 2 میں پیش کیا اور اسی عدالت نے درخواست ضمانت بھی منظور کی تھی جبکہ 25 مارچ 2018 کو فرد جرم عائد کردی گئی تھی۔

راؤ انوار کے وکیل عامر منسوب ایڈووکیٹ نے اپنے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ میرے موکل کے خلاف استغاثہ ایک بھی گواہ یا ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکا جس کا مقدمہ اس وقت کے ایس ایچ او امان اللہ مروت نے درج کیا، اسے بی کلاس کردیا گیا تھا، امان اللہ مروت نے مقدمے میں میرے موکل کا ذکر تک نہیں کیا اور مقابلے وقت 3 بجے سے 3 بج کر 20 منٹ لکھا تھا۔ اس مقدمے کو بی کلاس کرکے دوسرا مقدمہ اسی مقابلے کا درج کیا گیا اور اس میں راؤ انوار اور دیگر کو نامزد کردیا گیا۔