وزیراعظم شہباز شریف ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے دن رات کوشاں ہیں ،اس ضمن میں وزیراعظم شہباز شریف کو امید ہے کہ رواں ماہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدہ ہوجائے گا جس کے بعد پاکستان مشکلات سے باہر نکل آئے گا ۔ مارگلہ ریلوے اسٹیشن اسلام آباد پر گرین لائن ایکسپریس ٹرین سروس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئےوزیراعظم کا کہنا تھا کہ ” پاکستان اس وقت انتہائی مشکل دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ایک ایک پائی بچانے کی کوشش کررہے ہیں”۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو سامنے رکھ کر ترجیح کردہ فہرست بنائی ہے جس میں طے کیا جائے گا کہ امپورٹ میں کن چیزوں کو فوقیت حاصل ہونی چاہیے، درآمدکنندگان، ادویات اور خوراک کے بغیر معاشرہ نہیں چل سکتا۔وزیراعظم نے کہا امید ہے کہ رواں ماہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہو جائے گا اور پاکستان مشکلات سے باہر نکل آئے گا جس کے بعد کثیرالجہتی اور دوطرفہ ادارے ہمارے ساتھ کام کریں گے۔وزیراعظم
کا کہنا تھا کہ کہ ہم نے انتہائی مشکل حالات میں اقتدار سنبھالا لیکن اتحادی حکومت دن رات محنت کررہی ہے، ہم ان مشکلات حالات سے جلد نکل جائیں گے۔ خیال رہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف ایک عالمی مالیاتی ادارہ ہے جو ملکی معیشتوں اور ان کی باہمی کارکردگی بالخصوص زر مبادلہ، بیرونی قرضہ جات پر نظررکھتا ہے اور ان کی معاشی فلاح اور مالی خسارے سے نبٹنے کے لیے قرضے اور تیکنیکی معاونت فراہم کرتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے بہت سے یورپی ممالک کا توازن ادائیگی کا خسارہ پیدا ہو گیا تھا۔ ایسے ممالک کی مدد کرنے کے لیے یہ ادارہ وجود میں آیا۔ یہ ادارہ جنگ عظیم دوم کے بعد بریٹن وڈز کے معاہدہ کے تحت بین الاقوامی تجارت اور مالی لین دین کی ثالثی کے لیے دسمبر 1945 میں قائم ہوا۔ اس کا مرکزی دفتر امریکہ کے دار الحکومت واشنگٹن میں ہے۔ اس وقت دنیا کے 185 ممالک اس کے رکن ہیں۔ شمالی کوریا، کیوبا اور کچھ دوسرے چھوٹے ممالک کے علاوہ تمام ممالک اس کے ارکان میں شامل ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پر بڑی طاقتوں کا مکمل راج ہے جس کی وجہ اس کے فیصلوں کے لیے ووٹ ڈالنے کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ یہ ادارہ تقریباً تمام ممالک کو قرضہ دیتا ہے جو ان ممالک کے بیرونی قرضہ میں شامل ہوتے ہیں۔ ان قرضوں کے ساتھ غریب ممالک کے اوپر کچھ شرائط بھی لگائی جاتی ہیں جن کے بارے میں ناقدین کا خیال ہے کہ یہ شرائط اکثر اوقات مقروض ملک کے معاشی حالت کو بہتر بنانے کی بجائے اسے بگاڑتے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جیسے بین الاقوامی اداروں کے ڈھانچے کو بدلنے کی ضرورت وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔1930 کے معاشی مسائل اور اس کے بعد دوسری جنگ عظیم نے یورپی ممالک کی معیشت کو سخت نقصان پہنچایا۔ خصوصاً جنگ کے اخراجات کی وجہ سے ان کا ادائیگیوں کا توازن بہت بگڑ گیا۔ اس کے علاوہ برطانیہ نے جنگی اخراجات سے نبٹنے کے لیے خوب نوٹ چھاپے جو اس اصول کے خلاف تھے کہ نوٹ چھاپنے میں اس بات کو مدِ نظر رکھا جائے کہ بنک آف انگلینڈ کے پاس سونے کے ذخائر کتنے ہیں۔ برطانیہ کے زرِ مبادلہ برطانوی پونڈ پر دوسرے ممالک کا اعتماد کم ہو گیا۔ اس وقت پونڈ کو بین الاقوامی مالیاتی معاملات میں مرکزیت حاصل تھی جو ختم ہو رہی تھی۔ بریٹن ووڈز کا معاہدہ جو 1945 میں ہوا، اس کے مطابق ایک ایسے ادارہ کی ضرورت تھی جو دنیا کے لیے ایک نیا اور پراعتماد مالیاتی نظام تشکیل دے اور ان ممالک کی مدد کرے جو توازنِ ادائیگی کے مسائل کا شکار ہیں۔ مزید یہ کہ ارکان ممالک کی زر مبادلہ کی شرح کا درست تعین کرنا اور اس کے لیے ایک نظام وضع کرنا تھا ۔ چنانچہ دسمبر 1945 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا قیام عمل میں آیا۔ ابتدا میں اس کے 29 ارکان تھے جن میں کیوبا شامل تھا جو بعد میں نکل گیا۔کوئی بھی ملک اپنے کوٹہ کے پچیس فی صد کے برابر قرضہ صرف ادائیگیوں کے توازن کو درست کرنے کے لیے حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ غریب ممالک غربت میں کمی کے پروگرام کے تحت منڈی سے سستے قرضے حاصل کر سکتے ہیں۔ مزید قرضے جو تمام ممالک حاصل کر سکتے ہیں ،تاریخی طور پر دیکھا گیا ہے کہ جن ممالک نے مکمل طور پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے قرضے حاصل کیے اور ان کے ساتھ ملحق شرائط کو من و عن نافذ کیا وہ معاشی طور پر تباہ ہو گئے۔ یہ بات لاطینی امریکہ کے ممالک پر صادق آتی ہے جن کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی شرائط کی وجہ سے 1980 کی دہائی میں مالیاتی بحران کا شکار ہونا پڑا۔ 1997 کے جنوب مشرقی ایشیا کے مالیاتی بحران کو بھی ان پالیسیوں کا نتیجہ کہا جاتا ہے جو ان ممالک نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے کہنے پر نافذ کیے تھے۔ ترقی پزیر ممالک کو شکایت ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ غریب ملکوں میں بجلی اور ذرائع رسل و رسائل و مواصلات کی قیمت کے بڑھنے کی ذمہ دار ہے۔ مثلاً پاکستان کو دیے جانے والے قرضوں کے ساتھ جو شرائط رکھی جاتی ہیں ان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ٹیلی فون کی اور بعض دوسری اشیاء مثلاً پٹرول پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھائی جائے۔ اس کا براہ راست اثر غریب لوگوں اور غربت پر پڑتا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی واحد کامیابی 1940 کے آخر اور 1950 کی دہائی میں ان مغربی ممالک کی تعمیر و مدد ہے جو دوسری جنگِ عظیم سے بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ ان ممالک میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں۔ بعض لوگ اس بات کو بھی کامیابی سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے دنیا کو ایک مالیاتی نظام دیا جو امریکی ڈالر پر انحصار کرتا ہے۔ مگر دنیا یہ بھی دیکھ چکی ہے کہ یہ نظام بھی کامیابی سے نہیں چل سکا اور دنیا کو جلد ایک نئے نظام کو وضع کرنا پڑا جس میں زرِمبادلہ کی قیمت آزاد بنیادوں پر رسد و طلب کے مطابق متعین ہوتی ہے۔ معیشت دانوں کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے منصوبے افراطِ زر پیدا کرتے ہیں جو تیسری دنیا کے ممالک کے لیے زہرِ قاتل سے کم نہیں۔1947ء میں اپنے قیام کے بعد گیارہ سالوں تک آئی ایم ایف کی بارہا پیشکش کے باوجود پاکستان نے آئی ایم ایف سے کوئی قرضہ نہیں لیا تھا۔
1958ء میں جنرل ایوب خان کے دور میں آئی ایم ایف نے پہلا قرضہ پاکستان کو دیا۔ پاکستان گذشتہ 69 برسوں میں قرضے کے حصول کے لیے 21 مرتبہ آئی ایم ایف جا چکا ہے۔ سنہ 1988 سے پہلے پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین ہونے والے معاہدے قلیل مدتی بنیادوں پر ہوتے تھے جن میں عمومی طور پر قرض معاشی اصلاحات سے مشروط نہیں ہوتے تھے۔ تاہم سنہ 1988 کے بعد ’اسٹرکچلرل ایڈجسمنٹ پروگرامز` شروع ہو گئے۔ ’اسٹرکچلرل ایڈجسمنٹ پروگرامز‘ یعنی ایس اے پی وہ ہوتے ہیں جن میں قرض دینے والا ادارہ شدید معاشی مشکلات کے شکار قرض حاصل کرنے والے ممالک کو مخصوص شرائط کے تحت نیا قرض دیتا ہے۔ 2019ء کی پہلی سہ ماہی تک پاکستان پر قرضے 106 ارب امریکی ڈالر ہو چکے تھے جو خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے 72.5 فیصد سے زیادہ ہو گئے2008 سے 2013 تک کے پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے خاتمے پر بیرونی قرضہ 59 ارب ڈالر تھا، یعنی پیپلز پارٹی نے پاکستان کو 25 ارب ڈالر کا مقروض کیا۔ 2013 میں نون لیگ کا روشن دور شروع ہوا، جس کے اختتام پر بیرونی قرضہ 93 ارب ڈالر تھا، یعنی 34 ارب ڈالر کا قرض صرف اسی دور میں لیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے صرف 10 سال کے دوران مجموعی طور پر پاکستان کو 59 ارب ڈالر کا مقروض کیا، جبکہ اس سے پہلے کے 60 سال میں پاکستان کُل 34 ارب ڈالر کا مقروض تھا۔ مشرف دور میں ہر پاکستانی 40 ہزار روپے کا مقروض تھا، پیپلزپارٹی کے دور میں 80 ہزار روپے کا، نون لیگ دور میں ڈیڑھ لاکھ روپے اور آج تقریباً پونے دو لاکھ روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔ آئین کے مطابق قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے ساٹھ فیصد سے زائد نہیں ہونا چاہیے، تاہم مسلم لیگ نون کے پانچ سال مکمل ہونے پر قرضے جی ڈی پی کا 70 فیصد سے زائد ہوچکے تھے یعنی نصف کے قریب بجٹ محض قرضوں اور سود کی ادائی کے لیے خرچ کر دیا جائے گا۔2012 میں آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لگارڈی نے بیان دیا تھا کہ “جب آئی ایم کے اطراف کی دنیا پر زوال آتا ہے تو ہم ترقی کرتے ہیں۔ اُس وقت ہم بہت فعال ہو جاتے ہیں کیونکہ ہم قرضے دیتے ہیں۔ ہمیں سود، فیس اور بہت کچھ ملتا ہے اور ادارے کو خوب منافع ہوتا ہے۔ لیکن جب دنیا بہتری کی جانب گامزن ہوتی ہے اور سالوں تک ترقی ہوتی ہے جیسا کہ 2006-2007 میں ہوا تھا تو آئی ایم ایف کی کارکردگی مالیاتی اور دیگر لحاظ سے گر جاتی ہے ۔” آئی ایم ایف کی سربراہ دس سال پہلے فرانس کی وزیر خزانہ تھی۔ 19 دسمبر 2016 ء کو فرانس کی ایک عدالت نے اسے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دیا مگر نہ کوئی سزا دی نہ جرمانہ کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرق کی طرح مغرب میں بھی قانون بڑے لوگوں کو سزا نہیں دے سکتاعالمی مالیاتی ادارہ ملکی معیشتوں اور ان کی باہمی کارکردگی بالخصوص زر مبادلہ، بیرونی قرضہ جات پر نظررکھتا ہے اور ان کی معاشی فلاح اور مالی خسارے سے نبٹنے کے لیے قرضے اور تیکنیکی معاونت فراہم کرتا ہےپاکستان اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے مسائل کا شکار ہے کیونکہ درآمدات کے لیے بیرون ملک جانے والے ڈالروں کی تعداد برآمدات اور ترسیلات زر کے ذریعے اندرون ملک آنے والے ڈالروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور آئی ایم ایف کی جانب سے 2019 میں طے پانے والے قرض پروگرام کی بحالی نہ ہونے سے بیرونی فنانسنگ مکمل طور پر رک چکی ہے۔