دہشتگردوں کے سہولت کار قوم کے غدار ؟

 
0
134

وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ” اس سے زیادہ بدقسمتی کی کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ دہشت گردی کی لہر دوبارہ سر اٹھا رہی ہے”، سوال پیدا ہورہا ہے کہ ان دہشت گردوں کو دوبارہ کون واپس لایا؟ دوسری جانب سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیوں کیے جارہے ہیں، ان سے کب تک ڈریں گے، ریاست کہاں ہے؟ سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران پشاور خودکش حملے کے حوالے سے ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دہشت گردوں سے کب تک ڈریں گے؟ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کو یہ دو وہ دو، کبھی کہا جاتا ہے دہشت گردوں سے مذاکرات کرو، اس دوران ریاست کہاں ہے؟
سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیوں کیے جارہے ہیں؟ آج دہشت گرد 2 بندے ماریں گے، کل کو 5 بندے مار دیں گے، پتہ نہیں ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک جج نے دہشت گردی کے واقعے پر رپورٹ دی اس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا، ہمارے ایک جج کو مار دیا گیا کسی کو پرواہ ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ لمبی داڑھی رکھنے سے بندہ مسلمان یا اچھا انسان نہیں بن جاتا۔


.دھشتگردی کےخلاف جنگ میں افواج پاکستان کے مثالی کردار کی دنیا معترف ہے راقم الحروف کےسگے بھائی مظہرعلی مبارک بھی راولپنڈی میں ٹارگٹ کلنگ میں دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہادت کے رتبے پر فائز ہوئےدہشت گردی کے بیشتر کیسوں میں عدالتیں معمولی شک پر دہشتگردوں کو بری کرکے سارے ثبوتوں کو یکسر نظر انداز کرکے قومی سلامتی کے اداروں کی محنت کو مٹی میں ملا دیتی ہیں دہشتگردوں کے خلاف کم ہی لوگ عدالتوں میں کھڑے ہوتے ہیں اور جو آتے ہیں انکو بھی تحفظ نہیں ملتا، انسداددہشتگردی کی عدالت نے افغانستان میں تربیت حاصل کرکے فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلر کو نشان عبرت بنانے کے بجائے انہیں عدالتوں سے معمولی تیکنکی بیناد پر بےقصور کرکے عوام کے قتل عام کیلئے لائسنس ٹو کل عطا کردیا اب وہ پھر ملک دشمن سرگرمیوں میں پہلے سے زیادہ متحرک ہیں انسداد دہشتگردی عدالتوں کو بالکل بند کردیاگیا ہے اور نیشنل ایکشن کو عضو معطل بنا کر رکھ دیاگیا نتیجہ یہ ہواکہ پاکستان میں کالعدم تنظمیں پھرسے سرگرم عمل ہیں میرا سوال زمہ داروں سےیہ ہے کہ ”کیا امن وامان کیلئے صرف پاک فوج کو ہی قربانیاں دینا ہیں” کیا آزاد عدلیہ کا فرض نہیں ” وہ بھی اپنا کردارادا کرے ، سیکورٹی فورسز دہشت گردوں کو گرفتار کرکے قانون کے حوالے کرتی ہے عدلیہ انہیں تیکنکی بنیاد پر معاف کر دیتی ہیں کوئی ٹرائل کورٹ سزا دے بھی دے تو اعلی عدلیہ معاف کر دیتی ہیں ،ایسا نہیں ہونا چاہیے ورنہ دہشت گردوں منظم ہوکر دشمن قوتوں سے ملکر ہمیں نشانہ بناتے رہیں گے پہلے ہی سویلین شہداء کے لواحقین کا کوئی پرسان حال نہیں۔ فرقہ ورنہ دہشت گردی ہی پاکستان کے انسداد دہشتگردی ایکٹ میں دہشتگردی کی مکمل قسم ہے خیال رے کہ دہشتگردی کا شکار افراد کے نام پرسیاستدانوں نے شہدا کے نام پر بیرون ممالک سے امداد حاصل کیں۔ مگر آج ان خاندانوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں جو مارے گئے انہیں معلوم نہیں کیوں ناحق مارے گئے گزشتہ سال راقم الحروف نے اے پی ایس کے شہدا کی فیملیز کے ہمراہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر احتجاج ریکارڈکراتے ہوئے مطالبہ کیاتھاکہ امن دشمن قوتوں کو معاف کرنے کےبجائے انہیں انصاف کٹہرے میں لایا جائے،اور آج سب یہ مطالبہ کر رہے ہیں ،


اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں انسداد دھشتگردی عدالتیں ختم کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ دھشتگردی ختم ہوگئی ھے مگر ایسا ہرگز نہیں ۔ عدالتوں نے سیکورٹی ایجنسوں کی شبانہ روز کی محنت پر پانی پھیرتے ہوئے دہشتگردوں کو شک کا فائدہ دے کر “قتل کرنےکا لائسنس”دے دیا دھشت گردی کے خلاف عدالتوں میں تاحال انصاف کے حصول کیلئے سرگرداں ہے مگر کوئی امید بر نظر نہیں آتی۔ سرکاری حکومتی مشینری بھی اس مستعدی سے دھشتگردی کے کیسز میں موثر نظر نہیں آتی جس کا تقاضاکیاجاتاہے اور بطور مدعی مقدمہ تھانہ رتہ امرال مقدمہ نمبر582 سال 2013 کا تلخ تجربہ ہوچکاہے جہاں ناحق قتل ہونے والوں کےبجائے دھشتگردوں کی مالی معاونت کے لئے درجنوں سفید پوش سامنے آجاتےہیں خیال رہےکہ شمالی وزیرستان میں 2014 میں جب دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی فوج نے آپریشن ضرب عضب شروع کیا تحریک طالبان پاکستانی ریاست کے خلاف ماضی میں انتہائی طاقتور حملے کر چکی تھی ۔ ٹی ٹی پی ایک وقت میں اتنی مضبوط تھی کہ اس ٹی ٹی پی نے پاکستان کے قبائلی علاقوں کی قریب ساری ایجنسیوں میں اپنے آپ کو پھیلا لیا تھا۔ پاکستانی فوج نےکئی سال جاری رہنے والے عسکری آپریشنز کے ذریعے اس تنظیم کا قلع قمع کیا۔ ٹی ٹی پی ایک مرتبہ پھر طاقت ور حملے کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے،ماضی میں دہشتگروں کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائی کو انسداد دہشت گردی کی کامیاب مہم تصور کیا جاتا ہے۔اعداد وشمارکے مطابق دھشت گردی کےخلاف جنگ میی 80ھزار شہری 10 ھزار سے ذائد فوجی افسران و جوان شہید ہوئےوزیر اعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا کے بہادر اور غیور عوام کی ہمت کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے، پشاور حملے میں جانیں قربان کرنے والے شہدا کو پاکستان ہمیشہ یاد رکھے گا۔انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے اقدامات کی مد میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت گزشتہ 10 برسوں میں 417 ارب روپے خیبرپختونخوا کو ادا کیے جاچکے ہیں تاکہ اس حوالے سے ان کی جائز ضروریات پوری ہوسکیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ 417 ارب روپیہ خاص طور پر انسداد دہشت گردی کے اقدامات کے لیے مختص تھا، خدا جانے اتنے بڑی رقم کہاں چلی گئی، 10 سال وہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت رہی، آج وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں تو یہ 417 ارب روپے کہاں گئے؟ کہاں استعمال ہوئے؟انہوں نے کہا کہ اس تمام عرصے کے دوران کسی اور صوبے کو اس مد میں کوئی رقم نہیں دی گئی، صرف خیبرپختونخوا کو یہ رقم ادا کی گئی، میں یہاں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کر رہا بلکہ حقائق پر بات کر رہا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ آپ کو 40 ارب روپیہ سال کا مل رہا ہو تو پھر آپ کا یہ شکوہ بنتا نہیں ہے کہ ہمارے محکمہ انسداد دہشت گردی میں کمزوریاں ہیں یا ان کے پاس مطلوبہ سامان اور تربیت نہیں ہے، یہ سب باتیں ناقابل یقین ہیں، فنڈز نہ ملنے کا شکوہ کرنا حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ آپریشن ’ردالفساد‘ اور آپریشن ’ضرب عضب‘ کے ذریعے دہشت گردوں کو کاری ضرب لگی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب نے حصہ ڈالا ہے، راولپنڈی کی کسی مسجد میں ہونے والے ایک دھماکے میں فوجی افسران اور ان کے بچے بھی شہید ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے زیادہ بدقسمتی کی کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ دہشت گردی کی لہر دوبارہ سر اٹھا رہی ہے، یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ ان دہشت گردوں کو دوبارہ کون واپس لایا؟ آج پوری قوم یہی سوال پوچھ رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا دوبارہ کس طرح دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے، فی الفور مناسب اقدامات نہ کیے تو یہ دہشت گردی دوبارہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں پھیل جائے گی۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، ہمیں اس کا جائزہ لینا ہوگا، کس نے کہا تھا کہ یہ دہشت گرد جہادی ہیں اور پاکستان کے دوست ہیں، کس نے کہا تھا کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور یہ پاکستان کے امن اور ترقی کا حصہ ہوں گے۔ خیبرپختونخوا کے بہادر اور غیور عوام کی ہمت کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے، پشاور حملے میں جانیں قربان کرنے والے شہدا کو پاکستان ہمیشہ یاد رکھے گا۔انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے اقدامات کی مد میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت گزشتہ 10 برسوں میں 417 ارب روپے خیبرپختونخوا کو ادا کیے جاچکے ہیں تاکہ اس حوالے سے ان کی جائز ضروریات پوری ہوسکیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ یہ 417 ارب روپیہ خاص طور پر انسداد دہشت گردی کے اقدامات کے لیے مختص تھا، خدا جانے اتنے بڑی رقم کہاں چلی گئی، 10 سال وہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت رہی، آج وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں تو یہ 417 ارب روپے کہاں گئے؟ کہاں استعمال ہوئے؟ انہوں نے کہا کہ اس تمام عرصے کے دوران کسی اور صوبے کو اس مد میں کوئی رقم نہیں دی گئی، صرف خیبرپختونخوا کو یہ رقم ادا کی گئی، میں یہاں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کر رہا بلکہ حقائق پر بات کر رہا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ آپ کو 40 ارب روپیہ سال کا مل رہا ہو تو پھر آپ کا یہ شکوہ بنتا نہیں ہے کہ ہمارے محکمہ انسداد دہشت گردی میں کمزوریاں ہیں یا ان کے پاس مطلوبہ سامان اور تربیت نہیں ہے، یہ سب باتیں ناقابل یقین ہیں، فنڈز نہ ملنے کا شکوہ کرنا حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ آپریشن ’ردالفساد‘ اور آپریشن ’ضرب عضب‘ کے ذریعے دہشت گردوں کو کاری ضرب لگی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب نے حصہ ڈالا ہے، راولپنڈی کی کسی مسجد میں ہونے والے ایک دھماکے میں فوجی افسران اور ان کے بچے بھی شہید ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے زیادہ بدقسمتی کی کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ دہشت گردی کی لہر دوبارہ سر اٹھا رہی ہے، یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ ان دہشت گردوں کو دوبارہ کون واپس لایا؟ آج پوری قوم یہی سوال پوچھ رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا دوبارہ کس طرح دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے، فی الفور مناسب اقدامات نہ کیے تو یہ دہشت گردی دوبارہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں پھیل جائے گی۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، ہمیں اس کا جائزہ لینا ہوگا، کس نے کہا تھا کہ یہ دہشت گرد جہادی ہیں اور پاکستان کے دوست ہیں، کس نے کہا تھا کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور یہ پاکستان کے امن اور ترقی کا حصہ ہوں گے۔ہ خیبرپختونخوا کے بہادر اور غیور عوام کی ہمت کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے، پشاور حملے میں جانیں قربان کرنے والے شہدا کو پاکستان ہمیشہ یاد رکھے گا۔انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے اقدامات کی مد میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت گزشتہ 10 برسوں میں 417 ارب روپے خیبرپختونخوا کو ادا کیے جاچکے ہیں تاکہ اس حوالے سے ان کی جائز ضروریات پوری ہوسکیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ یہ 417 ارب روپیہ خاص طور پر انسداد دہشت گردی کے اقدامات کے لیے مختص تھا، خدا جانے اتنے بڑی رقم کہاں چلی گئی، 10 سال وہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت رہی، آج وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں تو یہ 417 ارب روپے کہاں گئے؟ کہاں استعمال ہوئے؟ انہوں نے کہا کہ اس تمام عرصے کے دوران کسی اور صوبے کو اس مد میں کوئی رقم نہیں دی گئی، صرف خیبرپختونخوا کو یہ رقم ادا کی گئی، میں یہاں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کر رہا بلکہ حقائق پر بات کر رہا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ آپ کو 40 ارب روپیہ سال کا مل رہا ہو تو پھر آپ کا یہ شکوہ بنتا نہیں ہے کہ ہمارے محکمہ انسداد دہشت گردی میں کمزوریاں ہیں یا ان کے پاس مطلوبہ سامان اور تربیت نہیں ہے،یہ سب باتیں ناقابل یقین ہیں، فنڈز نہ ملنے کا شکوہ کرنا حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ آپریشن ’ردالفساد‘ اور آپریشن ’ضرب عضب‘ کے ذریعے دہشت گردوں کو کاری ضرب لگی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب نے حصہ ڈالا ہے، راولپنڈی کی کسی مسجد میں ہونے والے ایک دھماکے میں فوجی افسران اور ان کے بچے بھی شہید ہوگئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے زیادہ بدقسمتی کی کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ دہشت گردی کی لہر دوبارہ سر اٹھا رہی ہے، یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ ان دہشت گردوں کو دوبارہ کون واپس لایا؟ آج پوری قوم یہی سوال پوچھ رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا دوبارہ کس طرح دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے، فی الفور مناسب اقدامات نہ کیے تو یہ دہشت گردی دوبارہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں پھیل جائے گی۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، ہمیں اس کا جائزہ لینا ہوگا، کس نے کہا تھا کہ یہ دہشت گرد جہادی ہیں اور پاکستان کے دوست ہیں، کس نے کہا تھا کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور یہ پاکستان کے امن اور ترقی کا حصہ ہوں گے۔دریں اثنا خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں 2 روز قبل پولیس لائنز کے قریب واقع مسجد میں ہونے والے دھماکے سے شہید ہونے والوں کی تعداد 101 ہوگئی ہے۔ محکمہ صحت کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ دھماکے میں زخمی ہونے والا ایک اور شہری ہسپتال میں دم توڑ گیا ہے۔محکمہ صحت کے مطابق دھماکے میں زخمی ہونے والے 59 شہری ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں، ان میں سے 8 زخمیوں کی حالت تشویشن ناک ہے جبکہ 51 کی حالت خطرے سے باہر ہے۔