پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے درمیان تمام معاملات طے پا گئےہیں اور اس ضمن میں وزیراعظم کو آئی ایم ایف وفد نے پاکستان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات سے آگاہ د یا گیا ہے ۔
پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات اسلام آباد میں ہوئے ہیں ،آئی ایم ایف کا قیام 1944 میں ہوا تھا جبکہ پاکستان 11 جولائی 1950 کو آئی ایم ایف کا رکن بنا تھا۔ پاکستان کی آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت کے بارے عالمی ادارے کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی تک 23 پروگرام ہوئے اور پہلا پروگرام دسمبر 1958 میں طے پایا جس کے تحت پاکستان کو ڈھائی کروڑ ڈالر دینے کا معاہدہ طے ہوا۔
اس کے بعد آئی ایم ایف پروگراموں کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ آخری بار آئی ایم ایف بورڈ نے اگست 2022 میں ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی کے ساتویں اور آٹھویں ریویو کے تحت پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر قرض دیا تھا۔
ایگزیکٹیو بورڈ نے جولائی 2019 میں پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر قرض کی منظوری دی تھی۔
آئی ایم ایف پروگرام کی تاریخ کے مطابق فوجی صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے تین پروگرام ہوئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں بننے والی پہلی حکومت کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے چار پروگرام ہوئے۔
فوجی صدر جنرل ضیاالحق کے دور میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے دو پروگراموں میں شرکت کی۔
پی پی پی کی دوسری حکومت میں بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کے دو پروگراموں میں شامل ہوا۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پہلی حکومت میں ایک آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان نے شمولیت اختیار کی۔
بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کے تین پروگراموں میں شامل ہوا تو نواز شریف کی دوسری وزارت عظمیٰ میں پاکستان نے دو آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت اختیار کی۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں دو آئی ایم ایف پروگرام ہوئے، پی پی پی کی 2008 سے 2013 میں بننے والی حکومت میں ایک پروگرام، پاکستان مسلم لیگ نواز کی 2013 سے 2018 میں حکومت میں ایک پروگرام اور پاکستان تحریک انصف کے دور میں ایک آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان شامل ہوا جو تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد نواز لیگ کی سربراہی میں مخلوط حکومت نے جاری رکھا۔آئی ایم ایف نے پاکستان کو دیے جانے والے قرض کی قسط کو روک رکھا ہے اور حکومت سے ٹیکس اکھٹا کرنے کے حوالے سے سخت مطالبات رکھے ہیں جن پر گفت و شنید ہوئی ہے۔آئی ایم ایف 190 رکن ممالک پر مشتمل ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔ یہ سب مل کر عالمی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی بھی ملک تقاضے پورے کر کے اس میں شمولیت کی درخواست دے سکتا ہے۔ ان تقاضوں میں معیشت سے متعلق معلومات اور کوٹا سبسکرپشن کہلائی جانے والی واجب ادا رقم شامل ہے۔ سبسکرپشن کے لیے جو ملک جتنا امیر ہوتا ہے، اسے اتنے زیادہ پیسے ادا کرنے ہوتے ہیں۔کسی معیشت کی نگرانی اور اس کی حمایت کے لیے آئی ایم ایف تین کام کرتا ہےآئی ایم ایف وفد کی وزیراعظم سے ویڈیو لنک پر بات چیت ہوئی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم سے آئی ایم ایف کی ویڈیو لنک ملاقات میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی موجود تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے معاملات کی منظوری دے دی ہے۔ باہمی اقتصادی اور مالیاتی پالیسی کا مسودہ فائنل کرلیا گیا،گزشتہ روز آئی ایم ایف وفد اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا آخری دن تھا ۔ اس سے قبل وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ قوم کو اچھی خبر دیں گے اور آج ہی آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پا جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات آن ٹریک ہیں، کوئی اختلاف نہیں، آج فائنل راؤنڈ چل رہا ہے، پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات میں اصلاحات اور ان پر اقدامات پر اتفاق رائے ہو گیا۔
گزشتہ روز وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا کا کہنا تھا کہ حکومت اور آئی ایم ایف وفد سے مذاکرات میں ہونے والے فیصلوں کی وزیراعظم سے منظوری لے لی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ پاکستان کی ضرورت ہے۔آئی ایم ایف سے مذاکرات میں اب چیزوں کے اختتام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات میں اصلاحات اور ان پر اقدامات پر اتفاق رائے ہوگیا مالیاتی پالیسیوں پر بات ہوئی، باہمی اقتصادی اور مالیاتی پالیسی کا مسودہ فائنل کیا گیا۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کے 9 ویں روز وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے آئی ایم ایف مشن چیف کی وفد کے ہمراہ ملاقات ہوئی، آئی ایم ایف مشن چیف نے وزیر خزانہ کو مذاکرات میں اب تک کی پیش رفت سے آگاہ کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف مشن چیف نے کہا کہ مذاکرات کا میوچل اکنامک اینڈ فسکل پالیسی مسودہ مرتب کر رہے ہیں، ایم ای ایف پی کا ڈرافٹ فائنل کر لیا جائے گا۔ آئی ایم ایف مشن چیف نے بتایا آج کے مذاکرات میں فسکل پالیسیوں پر تفصیلی بات چیت ہوئی، مذاکرات میں اصلاحات اور ان کے نتیجے میں کیے گئے اقدامات پر اتفاق رائے پایا گیا۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف کی مدد حاصل کرنا کسی ملک کے لیے معاشی طور پر کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہےکیونکہ معاشی استحکام کے لیے آئی ایم ایف جو اقدامات تجویز کرتا ہے ان کی بنیاد سخت معاشی اصلاحات پر ہوتی ہے جس سے لامحالہ غریب اور متوسط طبقے کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔آئی ایم ایف کی مدد اور ’لیٹر آف کانفیڈنس‘ کے بغیر اکثر ممالک پر ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلانے لگتا ہے کیونکہ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے ملنے والے قرضوں کا انحصار آئی ایم ایف سے ہری جھنڈی ملنے پر ہوتا ہے۔ اس کے بغیر عالمی مالیاتی مارکیٹ اس ملک کے لیے شرح سود میں بےتحاشہ اضافہ کردیتی ہے۔پاکستان گزشتہ 30 سالوں میں تقریباً درجن بھر آئی ایم ایف پروگرامز میں جاچکا ہے اور ان میں سے صرف 2 ہی کامیابی کے ساتھ مکمل ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزام لگایا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے جبکہ ہمارے معاشی پالیسی ساز کہتے ہیں کہ ان پروگرامز کی قیمت فوائد کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ اس بات پر زور کیوں دیا جارہا ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم کرلینا چاہیے اور تعطل کا شکار آئی ایم ایف پروگرام کا دوبارہ آغاز کرنا چاہیے؟اس کی فوری وجوہات میں تو اگلے 6 مہینوں کے دوران آنے والا بیرونی فنانسنگ کا بہت بڑا فرق، قرضوں کی ناگزیر ادائیگی اور اس ادائیگی کے لیے تیزی سے کم ہوتے زرِمبادلہ کے ذخائر شامل ہیں اور یہ ڈیفالٹ کے خطرے کو بھی بڑھا رہے ہیں۔ لیکن اس کی اصل وجہ بہت پیچیدہ اور گہری ہے۔ہم نے ترقی کا وہ ماڈل اختیار کیا ہوا ہے جس میں کھپت اور درآمدات پر توجہ دی جاتی ہے اور اسے پورا کرنے کے لیے غیر ملکی امداد پر انحصار کیا جاتا ہے۔ اس وقت عالمی معاشی صورتحال کے پیش نظر ہمیں امداد دینے والوں کا بھی ہاتھ تنگ ہے اور اب ہمارے پاس سودے بازی کے لیے کچھ زیادہ چیزیں نہیں ہیں۔ہماری معاشی منتظمین اور سیاستدانوں کو بھی اب حقیقت کا احساس کرلینا چاہیے، آئی ایم ایف کی شرائط بھی اس تلخ حقیقت کی ہی یاددہانی ہیں۔
وہ وقت گزر چکا ہے جب آپ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو بڑھا سکتے تھے اور پھر شرح مبادلہ کے ساتھ بلائنڈ مین بف کھیل کر یہ دکھاوا کرسکتے تھے کہ اصل ریٹ مارکیٹ ریٹ سے بہت کم ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس بار ڈالر مارکیٹ سے غائب ہوچکے ہیں۔ نہ ہی آج آپ عالمی مالیاتی منڈیوں سے قرض لے سکتے ہیں کیونکہ آپ کے بین الاقوامی بانڈز ردی کے درجے تک گرچکے ہیں۔ اب 10 فیصد کے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کے ساتھ معیشت کو نہیں چلاسکتے، نہ ہی آپ بڑے مالیاتی خسارے کو پورا کرسکتے ہیں اور نہ ہی بجلی اور ایندھن پر سبسڈی دے کر اس امید پر گردشی قرضوں میں اضافہ کرسکتے ہیں کہ آپ کو دوست ممالک سے بیل آؤٹ پیکج مل جائے گا۔
آپ کو اس بارے میں بھی کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ممالک نئے قرض دینا تو دور کی بات پرانے قرضوں کو رول اوور کرنے کی درخواستوں کو بھی اب پہلے سے زیادہ نظرانداز کررہے ہیں۔اپنے نظام کی ساختی کمزوریوں اور عدم توازن پر گفتگو کرسکتے ہیں لیکن اس سے عالمی معاشی صورتحال اور آئی ایم ایف کی جانب سے معاشی اصلاحات پر زور دیے جانے کی وجہ کا احساس مزید پختہ ہوگا۔ دوسری صورت میں تو معیشت بلآخر ڈوب جائے گی۔سیلاب کے بعد کی معاشی صورتحال کے پس منظر میں یہ مطالبہ نامناسب معلوم ہوتا ہے لیکن قلیل مدت میں بہت کم چیزیں ہی کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں جبکہ وسط اور طویل مدت میں تو ایسا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔لیکن آئی ایم ایف کے علاوہ بھی ہمیں اپنے بل بوتے پر ترقی کرنے کا کوئی منصوبہ بنانا ہوگا۔ آئی ایم ایف کا اصلاحاتی پیکج ٹیرف کو کم کرنے اور خام مال کی درآمدات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے برآمدات پر مبنی ترقی کی بات کرتا ہے۔ بدقسمتی سے اس طرح درآمدی بل میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمیں ترقی کے نئے راستوں کو کھولنے کی ضرورت ہے جو علم اور ٹیکنالوجی پر مبنی ہوں اعلیٰ تعلیم میں ہماری بڑی سرمایہ کاری کے پیش نظر جس کا اب تک کوئی فائدہ نہیں ہوا آئی ٹی برآمدات میں حالیہ اضافہ اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ ترقی کی نئی حکمتِ عملی میں زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لیے بھی جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو ترجیح دینے کی ضرورت ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شعبے میں منافع سب سے زیادہ ہوگا اور یہ ہمیں خوراک میں خود کفیل بھی بنائے گا۔ اس وقت آئی ایم ایف کی تجاویز مان کر ڈیفالٹ سے بچنے اور خود تیار کی گئی حکمتِ عملی کی بنیاد پر معاشی اصلاحات لانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ امید ہے کہ اس کے بعد ہم آئی ایم ایف سے جان چھڑا سکیں گے۔ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرِ معیشت کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے اثرات کا تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ جاننا ناممکن ہے کہ ’آیا اس کی مداخلت نے کسی ملک میں معاملات کو بہتر بنایا ہے یا بدتر اور اس کا متبادل کیا ہو سکتا تھا۔‘سال 2002 میں برازیل نے اپنے قرضوں کی وجہ سے ڈیفالٹ (دیوالیہ) ہونے سے قبل آئی ایم ایف کا قرض حاصل کیا۔ اس کی حکومت جلد ہی معیشت کو بحال کرنے میں کامیاب ہوئی اور اس نے دو سال قبل ہی اپنا تمام قرضہ ادا کر دیا۔ئی ایم ایف قرض دیتے ہوئے بعض اوقات رکن ممالک پر سختیاں عائد کرتا ہے جن پر یہ کہہ کر تنقید کی جاتی ہے کہ یہ ضرورت سے زیادہ مشکل ہیں۔ان میں حکومتی قرضے میں کمی، کارپوریٹ ٹیکسوں میں کمی اور ملکی معیشت کو بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کھولنا شامل ہیں۔
2009 میں جب یورپ کا معاشی بحران شروع ہوا تو یونان سب سے زیادہ متاثر ہوا اکثر آئی ایم ایف کو قرض کے حصول کا ’آخری راستہ‘ سمجھا جاتا ہے۔ معاشی بحران سے متاثرہ کسی بھی ملک کی آخری امید آئی ایم ایف سے امیدیں وابستہ کرتا ہے۔