آئی ایم ایف کی شرط پراتحادی حکومت کا منی بجٹ منظور

 
0
102

آئی ایم ایف کی شرط پراتحادی حکومت کا پیش کردہ منی بجٹ منظور قومی اسمبلی نے منظور کرلیا ہے جس سے امید ہے کہ پاکستان کی ڈوبتی معیشیت کو سہارا اور عوام کو مہنگائی سے نجات ملے گی ،
تاہم آئندہ انتخبات میں عوام سے ووٹ کیلئے اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کو بہت پاپڑ بیلنا پڑیں گے ، یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے پانچ سالہ دور میں مجموعی قومی پیداوار کے حجم میں 112 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ پی ٹی آئی کے چار سالہ دور حکومت میں ناقص معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں جی ڈی پی میں صرف 26 ارب ڈالر کا اضافہ ہو سکا۔اتحادی حکومت کے منی بجٹ کے اہم نکات میں سگریٹ اور مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ،لگژری آئٹم پر جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کا فیصلہ
سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں ڈیڑھ سے 2 روپے فی کلوگرام اضافہ ،جنرل سیلز ٹیکس 17 فیصد سے 18 فیصد کردیا گیا،بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کا فنڈ 360 ارب سے بڑھا کر 400 ارب روپے،شادی کی تقریبات کے بلوں پر 10 فیصد کی شرح سے ودہولڈنگ ایڈجسٹیبل ایڈوانس انکم ٹیکس کا نفاذ کردیا گیاہے
اسحٰق ڈار کا ماننا ہے کہ جب 2013 میں میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو پاکستان میں فی کس آمدنی 1389 ڈالر تھی، اس میں مضبوط معاشی پالیسیوں اور ہمارے قائد نواز شریف کے وژن کی بدولت یہ 379 ڈالر کے واضح اضافے کے ساتھ 1768 ڈالر تک پہنچ گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ آنے والی حکومت اپنے سطحی قسم کے اقدامات کی وجہ سے چار سال کے عرصے میں فی کس آمدن میں صرف 30 ڈالر کا اضافہ کر کے اس آمدنی کو 1798 ڈالر تک لے جا سکی۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی 2018 میں مارکیٹ کیپیٹلائزیشن 100 ارب ڈالر کے قریب تھی اور پاکستان پر سرمایہ داروں کے اعتماد کو ظاہر کرتی تھی، اس کو پی ٹی آئی کی حکومت نے 26 ارب ڈالر پر لا کر کھڑا کیا، یہ سرمایہ داروں کے پی ٹی آئی حکومت پر عدم اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) ملکی قرضوں میں ہمیشہ کم سے کم اضافے کی کوشش کرتی ہے لیکن 2018 میں پی ٹی آئی حکومت آئی تو 1947 سے اس سال تک پاکستان کے مجموعی قرضوں کا حجم 24ہ زار 953 ارب تھا جو پی ٹی آئی کے چار سالہ دور حکومت میں بڑھ کر 44 ہزار 383ارب ہو گیا، یہ قرضوں کا حجم جو 2018 میں جی ڈی پی کا 63.7 فیصد تھا، وہ بڑھ کر 2022 میں 73.5 فیصد ہو گیا، اس کے نتیجے میں ہماری سالانہ قرضوں کی سروسنگ بدقسمتی سے پانچ ہزار ارب روپے سے تجاوز کر جائے گی۔ 2013 سے 2018 کے دوران پائیدار بلند شرح نمو کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت دنیا میں 24ویں نمبر پر آگئی تھی، دنیا کے معتبر ادارے پاکستان کی ترقی کے معترف تھے، جاپان کے معروف ادارے جیٹرو نے براہ راست سرمایہ کاری کے حوالے سے پاکستان کو دوسرا پسندیدہ ملک قرار دیا تھا۔ اسی طرح پاکستان اسٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں نمبر ایک پر تھی، 18-2017 میں معیشت کی شرح نمو چھ فیصد سے تجاوز کر چکی تھی، افراط زر کی شرح 5 فیصد تھی، کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی صرف اوسطاً دو فیصد تھی، ان حالات میں اس ملک میں اچانک ایک غیر سیاسی تبدیلی لائی گئی جس نے ایک کامیاب اور بھرپور مینڈیٹ کی حامل حکومت کو اپاہج کر کے رکھ دیا۔ضمنی مالیاتی بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزا نہ اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ ضمنی مالیاتی بل کا قدم مجبوراً اٹھایا ہے، اس حوالے سے اراکین کی تجاویز اور خیالات سنے ہیں اور تمام تجاویز میرے ذہن میں ہیں۔” ایوان کو یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ اگلے چند روز میں وزیر اعظم شہباز شریف حکومتی اخراجات میں واضح کمی کا جامع پروگرام ایوان میں پیش کریں گے”۔ کفایت شعاری اور سادگی اپنانے کے لیے حکومت مؤثر اقدامات کرے گی۔ان کا کہنا تھا کہ میں دونوں ایوانوں کا مشکور ہوں جنہوں نے فنانس بل پر جواب دیا ہے جس میں بہت عمدہ تجاویز ہیں۔اگلے فنانس بل کے لیے کام شروع ہوچکا ہے، وہ طویل مدتی ایکسرسائز نہیں بلکہ درمیانی ہے اور مئی یا جون 2023 میں بل ایوان میں پیش ہوگا اس میں ہم اراکین کی دی گئی تجاویز مدنظر رکھیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کو خود کا محاصرہ کرنا چاہیے، وہ ملک جس کے تمام شعبے مثبت تھے اور ملک ترقی کی راہ پر تھا آج وہ تھوڑی تھوڑی امداد کے لیے کیوں پریشان ہے، مزید کہا کہ خراب حکمرانی اور نااہلی کی وجہ سے دنیا کی 24ویں معیشت 47 ویں نمبر پر آگئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ دونوں ایوانوں کی کاوشوں سے ہم ملک کو درپیش مالی بحران سے نکالنے کے صحیح اقدام میں کامیاب ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ فنانس بل کے منظور ہونے سے حکومت کے دیگر معاشی اقدامات کے نتیجے میں ہم مل کر موجودہ معاشی مشکلات سے ملک کو نکالیں گے اور پاکستان جلد ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ اسحٰق ڈارکا کہنا تھا کہ ہم سب کو دیکھنا چاہیے کہ ہم نے کیا غلطیاں کی ہیں، ان سب کو ٹھیک کریں اور پاکستان کو دوبارہ اس ڈگر پر لے جائیں کیونکہ ہم نے تو پیش گوئی کی تھی کہ ہم دنیا کی جی20 میں شامل ہونے جارہے ہیں۔ ہم ایٹمی قوت ہیں اور کتنا اچھا ہوتا کہ اگر ہم معاشی قوت بن کر جی 20 میں بیٹھے ہوتے تو آج ہماری لین دین کچھ مختلف ہوتی، بہرحال وقت نہیں گیا، ہم دوبارہ مل کر محنت کریں گے اور ملک کو ترقی کی راہ پر لے جائیں گے۔اسحٰق ڈارکا کہنا تھا کہ اس سے قبل کہ میں فنانس ضمنی بل پر اس ایوان کو اعتماد میں لوں، میں آپ کی اجازت سے ماضی قریب کی معاشی تاریخ کا ایک مختصر جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔خیال رہے کہ 15 فروری کو وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے آئی ایم ایف کی شرائط پر مبنی بجٹ پیش کیا تھا، جس میں جنرل سیلز ٹیکس 18 فیصد اور لگژری آئٹمز پر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی تھی تاہم بنیادی اشیائے ضروریہ پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اسحٰق ڈار نے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوانوں میں منی بجٹ پیش کیا تھا اور قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ فنانس سپلیمنٹری بل 2023 کو متعارف کرا رہا ہوں جس میں مزید ٹیکسز عائد کیے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے 5 سالہ دور میں مجموعی قومی پیداوار کے حجم میں 112 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ پی ٹی آئی کے 4 سالہ دور حکومت میں ناقص معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں جی ڈی پی میں صرف 26 ارب ڈالر کا اضافہ ہو سکا۔ بعد ازاں 16 فروری کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے سپلیمنٹری فنانس بل 2023 کی منظوری دی تھی۔ سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا تھا، اجلاس میں چیئرمین کمیٹی نے کہا تھا کہ ایئر لائن کمپنیوں نے کمیٹی کو درخواست لکھی ہے، ایئر لائن کمپنیوں نے فکس ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے، امریکا یا کینیڈا کے لیے ایک لاکھ فکس ٹیکس عائد ہونا چاہیے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا تھا کہ اس بل پر بات کریں لیکن عوام پر بوجھ پڑے گا، یہ بل 170 ارب روپے کا نہیں بلکہ 510 ارب روپے کا ہے، میں اس بجٹ کو اپنی پارٹی کے توسط سے مسترد کرتا ہوں، حکومت نے اس بل کو منظور کرا لینا ہے لیکن اس سے تباہی ہوگی، شرح سود کو 2 فیصد کم کریں تو آپ کو یہ رقم مل جائے گی۔
سینیٹر محسن عزیز نے مزید کہا تھا کہ ایک آٹے کی بوری بھارت سے اسمگل نہیں ہوئی، وہاں آٹے کا ریٹ کم ہے یہاں زیادہ ہے لیکن ان کا قانون سخت ہے، اس لیے وہاں سے اسمگلنگ نہیں ہوسکتی۔ اجلاس کے دوران چیئرمین ایف بی آر نے کہا تھا کہ 30 جون 2023 تک 170 ارب روپے اکٹھے کرنے ہیں، ساڑھے 4 ماہ میں یہ ٹیکس اکٹھا کرنا ہے۔چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ پاکستان ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کی جنت بن چکا ہے، بجٹ میں ان پر ہی ٹیکس لگا ہے جو ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ رکن ایف بی آر نے کہا کہ شادی ہالز میں فنکشن پر 10 فیصد ایڈوانس ٹیکس وصول کیا جائےگا۔ اجلاس کے دوران سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ نے سپلیمنٹری فنانس بل 2023 کی منظوری دے دی۔واضح رہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کی شرائط پر منی بجٹ پیش کیا جس میں جنرل سیلز ٹیکس 18 فیصد اور لگژری آئٹمز پر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاہم بنیادی اشیائے ضروریہ پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔وزیرخزانہ قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کرنے کے بعد سینیٹ پہنچے تھے اور بل پیش کیا جہاں اپوزیشن اراکین نے شدید نعرے بازی کی اور چیئرمین کی ڈائس کا گھیراؤ کیا۔اپوزیشن کے احتجاج کے دوران وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے بل پیش کیا، چیئرمین صادق سنجرانی نے کہا کہ ’اراکین منی بل پر سفارشات کے لیے تجاویز جمعرات 16 فروری 2023 تک سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کراسکتے ہیں‘، انہوں نے کہا کہ ’سفارشات مذکورہ بل سےمتعلق ہونی چاہیئں، بل سے غیرمتعلقہ سفارشات آئین کے آرٹیکل 73 کے ذمرے میں آئیں گے اور ناقابل قبول ہوں گی‘۔ان کا کہنا تھا کہ منی بل پر سفارشات کے لیے موصول تجاویز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس اور ریونیو کو بھیج دی جائیں گی جو اپنی رپورٹ 17 فروری 2023 کو پیش کرے گی، چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ سینیٹ میں کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے اور قومی اسمبلی کے لیے تجاویز دی جائیں گے۔ وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کیے گئے منی بجٹ میں سگریٹ اور مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا، اس کے علاوہ لگژری آئٹم پر جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اس میں سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں ڈیڑھ سے 2 روپے فی کلوگرام اضافہ کیا گیا۔ پیش کردہ بل میں جنرل سیلز ٹیکس 17 فیصد سے 18 فیصد کردیا گیا، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کا فنڈ 360 ارب سے بڑھا کر 400 ارب روپے کردیا گیا جب کہ شادی کی تقریبات کے بلوں پر 10 فیصد کی شرح سے ودہولڈنگ ایڈجسٹیبل ایڈوانس انکم ٹیکس کا نفاذ کیا گیا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل صدر مملکت کی جانب سے آرڈیننس جاری کرنے سے ’انکار‘ کے فوری بعد وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں ٹیکس ترمیمی بل، فنانس بل 2023 کی منظوری دی گئی تھی۔ابتدا میں حکومت نے ایک کھرب 70 ارب روپے کے فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے ’ٹیکس اور نان ٹیکس اقدامات‘ متعارف کرانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ تاہم آخری لمحات میں اس نے نان ٹیکس اقدامات بالخصوص ایک کھرب روپے اکٹھے کرنے کے لیے فلڈ لیوی کی تجویز چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے مقامی سطح پر تیار ہونے والی سگریٹس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کے لیے ایس آر او 178 جاری کیا جس سے تمباکو کی مصنوعات پر عائد ٹیکس سے 60 ارب روپے اکٹھے ہوں گے۔حکومت جنرل سیلز ٹیکس کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے سے مزید 55 ارب روپے حاصل کرے گی۔اس کے علاوہ بقیہ 55 ارب روپے ہوائی جہاز کے ٹکٹس، چینی کے مشروبات پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھا کر اور ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر کے اکٹھے کیے جائیں گے۔عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت ریونیو بڑھانے کے لیے حکومت نے مختلف اشیا اور خدمات پر لاگو سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کردی ہے ۔ وزارت خزانہ کے نوٹی فکیشن کے مطابق سیلز ایکٹ 1990 کے تحت حکومت نے قابل ٹیکس اشیا پر ٹیکس کی شرح کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کردیا۔ اس اقدام کے تحت خدمات کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا سے لے کر میک اَپ کا سامان، گھریلو ضروریات کی چیزیں مثلاً صابن شیمپو وغیرہ مزید مہنگی ہوجائیں گی۔ خیال رہے کہ پاکستان نے 31 جنوری سے 9 فروری تک اسلام آباد میں آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ 10 روز کی تفصیلی بات چیت کی تھی لیکن وہ معاہدے تک نہیں پہنچ سکے تھے۔ البتہ پالیسی سطح پر بات چیت کے اختتام پر دونوں فریقین نے ٹیکس اور نان ٹیکس اقدامات سے آئندہ ساڑھے 4 ماہ کے عرصے میں ایک کھرب 70 ارب روپے کی وصولی پر اتفاق کیا تھا۔آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان مجوزہ اقدامات پر عملدرآمد شروع کردے اور آئی ایم ایف اٹل ہے کہ عمل درآمد کے بغیر کوئی معاہدہ نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے ٹیکس اقدامات نافذ کرنے کی کوشش کی، تاہم صدر مملکت عارف علوی نے اس معاملے پر پارلیمان کو اعتماد میں لینے کا ’مشورہ‘ دیا۔لہٰذا وفاقی کابینہ سے منظور کرانے کے بعد حکومت نے ٹیکس ترمیمی بل، فنانس بل 2023 کو دونوں ایوانوں میں پیش کیا ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے مقامی سطح پر تیار ہونے والی سگریٹس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کا ایس آر او 178 جاری کیا تھا جس سے تمباکو کی مصنوعات پر عائد ٹیکس سے 60 ارب روپے اکٹھے ہوں گے۔ مزید برآں حکومت جنرل سیلز ٹیکس کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے سے مزید 55 ارب روپے حاصل کرے گی۔
اس کے علاوہ بقیہ 55 ارب روپے ہوائی جہاز کے ٹکٹس، چینی کے مشروبات پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھا کر اور ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر کے اکٹھے کیے جائیں گے۔عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے ٹیکس اقدامات میں غیر متوقع ریلیف کی روشنی میں حکومت نے ایک فعال نقطہ نظر اپنانے اور ٹیکس اور نان ٹیکس اقدامات کو یکم مارچ کے بجائے 15 فروری سے نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لیے درکار اقدامات اٹھانے کے لیے عالمی قرض دہندہ کی تجویز کردہ آخری تاریخ یکم مارچ ہے۔ تاخیر سے ہونے والے مذاکرات کے آغاز سے قبل حکومت توقع کر رہی تھی کہ آئی ایم ایف تقریباً 4 کھرب روپے کے ٹیکس اور نان ٹیکس اقدامات کا تقاضا کرے گا لیکن پالیسی سطح پر بات چیت کے اختتام پر دونوں فریقین نے ٹیکس اور نان ٹیکس اقدامات سے آئندہ ساڑھے 4 ماہ کے عرصے میں ایک کھرب 70 ارب روپے کی وصولی پر اتفاق کیا۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے دو آرڈیننسز کا مسودہ تیار کیا جس میں ایک کھرب روپے کے نئے ٹیکس اور درآمدات پر ایک کھرب روپے کی فلڈ لیوی لگائی گئی ہے ۔ٹیکس کے حوالے سے آئی ایم ایف کی جانب سے مزید مطالبات کی توقع کر رہے تھے لیکن پالیسی سطح کے مذاکرات کے آخری دو روز میں چیزیں بدل گئیں،آئی ایم ایف کی جانب سے اس تبدیلی کی وضاحت نہیں کی، واحد جواز جو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ فنڈ نے مجموعی معیشت پر سیلاب کے اثرات پر غور کیا ہوگا، مزید یہ کہ ایف بی آر کو روپے کی قدر میں کمی سے بھی اربوں روپے اضافی مل رہے ہیں۔سیلاب کے باوجود حکومت کو یکم مارچ سے برآمدی شعبے میں بجلی کی سبسڈی کے ساتھ کسان پیکج بھی بند کرنا پڑے گا، ایف بی آر کے متفقہ ٹیکس اقدامات کے مطابق حکومت جنرل سیلز ٹیکس کو 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے سے آئندہ ساڑھے 4 ماہ میں تقریباً 70 ارب روپے کمائے گی۔ اس رقم کی وصولی ایک کھرب 70 ارب روپے کے متفقہ ٹیکس اور غیر ٹیکس اقدامات کا 41.2 فیصد ہے۔دیگر ٹیکس اقدامات میں ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ، لگژری اور غیر ضروری اشیا کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے ٹیکس کی شرح میں اضافہ اور تمباکو کے شعبے پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں مزید اضافہ شامل ہیں۔نان ٹیکس اقدامات میں فلڈ لیوی لاگو کی جائے گی، جس پر آئی ایم ایف کے ساتھ پالیسی کی سطح کے مذاکرات کے دوران بات چیت ہوئی، لیوی کی شرح اور اس کے نفاذ کا فیصلہ بھی وزیر خزانہ کریں گے، ایف بی آر حکومت سے درآمدات کی سطح پر فلڈ لیوی وصول کرے گا۔پالیسی کے طور پر آئی ایم ایف نے درآمدات کی سطح پر ٹیکس اقدامات کی حمایت نہیں کی، تاہم حکومت لیوی کے نفاذ پر زور دے گی کیوں کہ اس کی وصولی کو صوبوں کے ساتھ بانٹنا نہیں پڑے گا۔پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) کے تحت آئی ایم ایف نے پہلے ہی 3 کھرب روپے سے زائد کے شارٹ فال کا تخمینہ لگایا ہے۔فلڈ لیوی کو پی ڈی ایل کا شارٹ فال دور کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا اور پی ڈی ایل میں مزید اضافے کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا۔ تاہم حکومت ڈیزل کی فی لیٹر قیمت پر 5 روپے 15 فروری کو اور 5 روپے یکم مارچ کو لیوی بڑھائے گی، یہ روپے کی قدر میں کمی کے علاوہ بین الاقوامی قیمتوں کے اثرات آگے پہنچانے کے علاوہ ہوگا۔ وزیر خزانہ ایف بی آر کے ٹیکس اقدامات اور نان ٹیکس اقدامات (فلڈ لیوی) کے کوانٹم شیئر کا فیصلہ آئندہ 4 ماہ میں جمع کیے جانے والے ایک کھرب 70 ارب روپے میں سے کریں گے۔اکستان اور آئی ایم ایف کی تکنیکی ٹیموں نے 10 روز تک مذاکرات کے متعدد ادوار کیے جس کا اختتام عملے کی سطح کے معاہدے کے لیے رسمی کارروائیوں کو مکمل کرنے کے لیے مفاہمت کے ساتھ ہوا تھا,,