آئی ایم ایف کی شرائط پوری, اسحاق ڈار کا بجٹ 9 جون کو پیش کرنے کا اعلان

 
0
46

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارکا کہنا ہے کہ مالی سال 2023-24 کا بجٹ 9 جون کو پیش کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف نے معاہدہ کرنا ہے تو کرے اگر نہیں کرنا چاہتا تو نہ کرے۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر مزید مشکل فیصلے نہیں کر سکتے، آئی ایم ایف معاہدہ ہو یا نہ ہو پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔۔پاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں، پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق معاہدے کیلئے اقدامات کیے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ عالمی اداروں کو پاکستان سے متعلق ڈیفالٹ کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں، دوست ممالک کی جانب سے فنانسنگ کے وعدے کیے گئے جو جلد پورے ہوں گے۔آئی ایم ایف نے جتنے پیشگی اقدامات کہے کر لیے، اب مزید نہیں کر سکتے۔ مئی اور جون میں 3.7 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیوں کا پلان ہے، 3.7 ارب ڈالر کی ادائیگیوں میں کوئی پریشانی نہیں۔ چین پاکستان کا مزید 2.4 ارب ڈالر کا قرضہ رول اوور کردے گا، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ چین پاکستان کا مزید 2.4 ارب ڈالر کا قرضہ رول اوور کردے گا، آئی ایم ایف نے معاہدہ کرنا ہے تو کرے اگر نہیں کرنا چاہتا تو نہ کرے۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ بہت مشکل اصلاحات ہوچکی ہیں اور آئی ایم ایف معاہدے کی تاخیر میں کوئی تکنیکی وجہ نہیں۔ یہ بڑا مشکل فیصلہ تھا کہ گزشتہ حکومت کو چلنے دیں اور تباہی ہوجائے یا پھر فیصلہ لیا جائے، پھر سب جماعتوں نے مل کر فیصلہ کیاکہ سیاست ہوتی رہتی ہے، پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے لبیک کہا تو ہم نے ذمہ داری لے لی، پہلے 1998، پھر 2013 اور آج پھر ملک کو ہماری ضرورت ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام سب سے نقصان دہ چیز ہے، حکومت اب تک معیشت میں جدوجہد کررہی ہے۔وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا کہنا ہے کہ ملک دیوالیہ نہیں ہوگا،ہر وقت یہ کہنا کہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے یہ ٹھیک نہیں، نہ ملک دیوالیہ ہے نہ ہی ہوگا۔ آثار بتا رہے ہیں کہ معاشی تنزلی کا رجحان تھم چکا ہے، اب معاملات کو بہتری کی جانب لے جانا ہے۔ 9 جون کو ہمیں بجٹ پیش کرنا ہے، آپ سب کو یہ ذہن میں رکھنا ہے کہ پاکستان کے حالات ایک پیچیدہ دور سے گزر رہے ہیں، ہمیں اس صورتحال کا مل کر مقابلہ کرنا ہے اور ہم مقابلہ کریں گے۔ میں پُرامید ہوں کہ یہ مشکل دور گزر جائے گا، آثار بتا رہے ہیں کہ معاشی تنزلی کا رجحان تھم چکا ہے، اب معاملات کو بہتری کی جانب لے جانا ہے۔ اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے عالمی اداروں سے کیے گئے کئی وعدوں کی 2020 سے 2022 کے دوران پاسداری نہیں کی گئی، موجودہ حکومت نے تمام تر مشکل حالات میں کوشش کی کہ پچھلے تمام وعدے پورے کیے جائیں۔ پچھلے وعدے پورے کرنے کی کوششوں کا کافی بوجھ کاروباری طبقے اور عوام پر پڑا ہے، بجلی، گیس کی قیمتوں اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کی 22ویں بڑی معیشت تھا لیکن سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے 2022 میں 47ویں نمبر پر آگیا، یہ ہم سب کے لیے تکلیف دہ تھا، اس دھچکے سے نمٹنے کے لیے موجودہ حکومت جدوجہد کررہی ہے۔وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا کہنا ہے کہ 2 آپشنز تھے کہ گزشتہ حکومت کو چلنے دیا جاتا اور ملک کا مزید نقصان ہوتا رہتا یا ہم ذمہ داری لیتے، پی ڈی ایم جماعتوں نے لبیک کہا اور ہم نے یہ ذمہ داری لینے کا فیصلہ کیا، بےشک ہمیں اس کا سیاسی طور پر نقصان ہوا۔ مشکل ترین اصلاحات ہوچکی ہیں اور اس کے اثرات کا بھی ہم سامنا کرچکے ہیں، کچھ کثیر الجہتی معاملات طے ہونا باقی ہیں لیکن آئی ایم معاہدے میں تاخیر کسی تکنیکی وجوہات کی بنا پر نہیں ہوئیں، ہم واحد جماعت ہیں جس نے 16-2013 میں آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا معاہدہ تکمیل تک پہنچایا۔وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ہماری پہلی ترجیح یہی ہے کہ پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے وعدوں میں ایک دن کی بھی تاخیر نہ ہو، الحمداللہ اس پورے عرصے میں کسی قسم کی کوئی تاخیر نہیں ہوئی۔ کچھ لوگوں کو دیوالیہ کی تاریخ دینے کا شوق ہے، گزشتہ ایک سال سے دیکھ رہا ہوں کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان فلاں مہینے میں دیوالیہ ہوجائے گا، ان لوگوں کو شرم آنی چاہیے۔ لوگوں کو حوصلہ دینے کے بجائے دیوالیہ سے ڈرایا جاتا ہے، اگر پاکستان پر کھربوں روپے قرض ہے تو پاکستان کی اربوں روپے کی معیشت بھی ہے، اس لیے ہمیں دیوالیہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا پاکستان کو کم از کم رواں برس ایک فیز سے گزرنا ہے، آپ سب کو یہ سوچنا ہے کہ آپ اس ملک کو کیا دے سکتے ہیں۔ اس وقت جو حکومت بیٹھی ہوئی ہے اس نے گزشتہ برس اپریل میں یہ اصولی فیصلہ کیا تھا کہ ریاست کو بچانا ہے یا سیاست کو۔عمران نیازی پاکستان کو ڈبو چکا تھا اور اس وقت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے تھے جس پر میں نے مضامین بھی لکھے تھے۔موجودہ حکومت نے حکومت لینے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ قابل ستائش ہے اور اپنی سیاست پر ریاست کو ترجیح دی، موجودہ حکومت نے جو فیصلہ کیا وہ بہت اچھا کیا کیونکہ پاکستان تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا اور کچھ لوگوں نے تو کہا تھا کہ آپ نے بہت بڑی غلطی کی ہے کیونکہ عمران خان اس تباہی سے خود ہی گر جاتا لیکن اس کے ساتھ پاکستان بھی گرجاتا۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہر وقت یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے، نہ ملک دیوالیہ ہے نہ ہی ہوگا، ہم مشکل حالات سے ضرور گزر رہے ہیں، بجائے اس کے کہ ملک کو کس طرح ان حالات سے نکالنا چاہیے، ان (عمران خان) کو صرف یہ سوچ ہے کہ کس طرح تنقید کرنی ہے۔عمران خان کو لانے والوں نے کہا تھا کہ اگر یہ رہتے تو ملک خطرے سے خالی نہیں تھا کیونکہ انہوں نے تو کچھ کیا ہی نہیں تھا۔ان کو لانے والے لوگ تو یہ بھی کہہ رہے تھے کہ پاکستان ختم ہوجائے گا ٹوٹ جائے گا، ان لوگوں کو دیکھنا چاہیے کہ عالمی صورتحال کیا ہے اور کیا مہنگائی صرف پاکستان میں ہو رہی ہے یا کہیں اور بھی۔ہم نے سیلابی صورتحال کی وجہ سے دالیں، گندم، کھاد درآمد کی جس پر چند ماہ میں اربوں روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ناقص حکمرانی کی وجہ سے آج پاکستان اس دہانے پر پہنچا ہے، یہ لوگ بالکل بھول گئے ہیں کہ موجودہ حکومت آتے ہی سیلاب آگیا جس کی تباہی سے پاکستان میں 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ اس وقت اسٹیٹ بینک کے پاس 3.2 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں جبکہ کمرشل بینکوں کے پاس 5.44 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں اور مجمومی طور پر 9.26 ارب کے ذخائر ہیں لیکن اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ چین نے دوستی کا ثبوت دیا ہے اور ہم نے تقریباً 6.5 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کی ہیں جن میں دو ارب چینی بینکوں جبکہ ساڑھے تین ارب دیگر عالمی بینکوں کو دیے ہیں۔ آنے والے دنوں میں انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا لمیٹڈ (آئی سی بی سی) سے 1.3 ارب ڈالر کی فنانسنگ کی توقع ہے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو سکے۔روپے کی قدر میں کمی اور شرح سود میں اضافے پر بات کرتے ہوئے اسحٰق ڈار نے کہا کہ ’کس نے اس ملک میں مانیٹری پالیسی کو الگ کیا ہے، قانون میں تبدیلیاں کی ہیں، کس نے اداروں میں تبدیلیاں کرکے نیا سسٹم بنایا ہے، وزارت خزانہ اس کی ذمہ دار ہے‘۔اللہ کے فضل سے پہلی بار ضمنی بجٹ آیا ہے جو کہ ٹیکسز کے ہدف سے نہیں آیا بلکہ توانائی کی قرضوں سے آیا ہے جس میں 855 ارب روپے کا فرق تھا، لہٰذا ضمنی بجٹ میں ٹیکسز اس لیے نہیں لگے کہ ایف بی آر ہدف پورا نہ کر سکا۔انہوں نے کہا کہ میں دوبارہ اس بات کو دہرا دوں کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں بند کریں، نہ ملک دیوالیہ ہوا ہے نہ ہی ہوگا، جب میں کہتا ہوں کہ ہم مسلمان ہیں، اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے گا تو اس بات پر بھی تنقید ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جو ساتھی ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر کہتے ہیں کہ معاشی پالیسی نہیں ہے تو معاشی پالیسی بھی ہے اور روڈ میپ بھی مگر اس کا اخبار میں اشتہار نہیں دیا جاسکتا، کیا روڈ میپ پالیسی نہیں کہ ابھی تک ملک دیوالیہ نہیں ہوا۔‘وزیر خزانہ نے کہا کہ کاش پانچ سال پہلے میری بات سن لی جاتی جو میں کہتا تھا کہ ہم اتنا خرچ کریں جتنی ضرورت ہے تو آج پاکستان یہاں کھڑا نہیں ہوتا، مگر ہم نے وہ خرچ کیا ہے جو ہم برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں ملک سے گندم اور کھاد اسمگل ہوتی تھی اب ڈالر اسمگل ہو رہے ہیں جس کے خلاف پوری کارروائی کریں گے۔مجھے توقع ہے کہ ہم جلد ہی اس صورتحال سے نکل جائیں گے اور مجھے اتنی توقع ہے کہ ہم 30 جون تک اسٹیٹ بینک کے ذخائر 10 ارب ڈالر اور قومی ذخائر 16 ارب ڈالر تک لے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مانیٹری پالیسی اور ایکسچینج ریٹ کی مکینزم اسٹیٹ بینک پاکستان کے پاس ہے جو قانون گزشتہ حکومت نے بنایا تھا اور اس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہے، جب میں جہاز میں بیٹھا (پاکستان آنے کے لیے) تو لوگوں نے بڑی مہربانی کی اور باتوں باتوں میں ڈالر 217 پر آگیا اور جب امریکا میں ایک اجلاس میں شرکت کے لیے گیا تو پتا نہیں کس نے جادو چلایا کہ وہ پھر سے بڑھنا شروع ہوگیا۔ اسحٰق ڈار نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت ختم ہوتے وقت پاکستان جس طرح سے ترقی کر رہا تھا اس حساب سے اسے آج جی-20 ممالک میں شامل ہونا چاہیے تھا لیکن افسوس ہے کہ اس کے بجائے ہماری معیشت اس وقت دنیا میں 46 ویں نمبر پر ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ 2013 میں جب ہم نے اقتدار سنبھالا تو بہت سے لوگوں نے کہا کہملک دیوالیہ ہونے والا ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت اسے سنبھالنے میں کامیاب رہی۔آئندہ بجٹ میں مہنگائی کا کنٹرول بڑا چیلنج ہے.دوسری جانب وزیراعظم محمد شہبازشریف کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دیاجائے گا, بجٹ میں عوام کو زیادہ سہولت فراہم کرنے اور معاشی ترقی کوترجیح دی جائے گی۔ وہ ذاتی طورپر اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ صنعتی شعبے کی سفارشات کو بجٹ میں شامل کیاجائے ۔
بجٹ سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ صنعتی شعبے کی پیداوار اور برآمدات بڑھانے کے اقدامات بجٹ کا حصہ ہوںگے۔وزیراعظم نے کہا کہ سابق حکومت نے دانستہ طورپر ملک میں سرمایہ کاری اورصنعتی ترقی کا عمل روکا اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کی ۔ حکومت ، پوری قوم ، صنعت کار اور تاجر ایک بہتر پاکستان کیلئے مل کرکام کررہے ہیں۔ وزیراعظم
نے متعلقہ حکام کو چھوٹی، بڑی اوربرآمدی صنعتوں کے درمیان حائل تمام غیرضروری رکاوٹیں دورکرنے کی ہدایت کی۔ دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ بجٹ میں نوجوانوں کو ایک لاکھ لیپ ٹاپ اور نوجوان ایگری کلچرلسٹس کو 25 ارب روپے کا قرض بھی دیا جائے گا جبکہ چار ارب روپے سے زیادہ کی بجٹ نوجوانوں کی اسکل ڈیوولپمنٹ کے لیے رکھے گئے اور تمام پروگرام مراحل میں ہیں۔ بنیاد رکھ دی گئی ہے، مہنگائی میں کمی آئے گی، مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ہم ملک میں سیاسی استحکام بھی لائیں گے۔ اتحادی حکومت شہباز شریف کی قیادت میں عوام کو ریلیف دینے کوشش کر رہی تھی جس کے نتائج ہم نے دیکھنا شروع کردیے ہیں ایک سال کی کوششوں کے نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں جہاں گھریلو ایل پی جی میں 438 روپے جبکہ کمرشل ایل پی جی میں ایک ہزار 686 روپے کمی ہوئی ہے۔کوکنگ آئل میں 60 سے 70 روپے کی کمی ہوئی ہے جبکہ آٹے اور گندم میں 33 سے 40 روپے کی کمی ہوئی ہے۔ ڈالر میں پالیسی اقدمات کی وجہ سے کمی آئی ہے ہم 15 ارب سے زیادہ کی بین الاقوامی ادائگیاں کر چکے ہیں جہاں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی شرائط تھیں، معاشی عدم استحکام تھا اور سیاسی جتھے ریاست اور حکومت پر حملہ آور ہو رہے تھے جبکہ 11 ارب روپے کے گھریلو قرضوں کی بھی ادائگیاں کر چکے ہیں بنیاد رکھ دی گئی ہے، سمت درست کردی ہے، مہنگائی میں کمی آئے گی، یاد رہے کہ آئندہ مالی سال کا وفاقی ترقیاتی بجٹ 1100 ارب روپے کا ہوگا جو رواں مالی سال کے مقابلے میں ساڑھے 37فیصد زیادہ ہوگا۔ آئندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی گروتھ کا ہدف ساڑھے 3 فیصد اور افراط زر کی شرح کو 21 فیصد تک لانے کا ہدف ہے۔