اسلام آباد(ٹی این ایس) : .وزیراعظم آئی ایم ایف معاہدے سے معاشی استحکام لانے کے لیے پرعزم

 
0
65

.پاکستان اور آئی ایم ایف معاہدہ سے عید کی خوشی ڈبل ،ڈیفالٹ کا خطرہ ٹلنے پروزیراعظم کوکریڈٹ دینا چاہیے، وزیراعظم آئی ایم ایف معاہدے سے معاشی استحکام لانے کے لیے پرعزم ہیں,
ٹوئٹر پر جاری بیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ مجھے اعلان کرتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ ہوگیا ہے، 9 ماہ کےلیے 3 ارب امریکی ڈالرزکے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ یہ معاہدہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بہتر کرنے میں معاون ہوگا، اس سے معاشی استحکام لانے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مدد ملے گی۔
شہباز شریف کا کہنا تھاکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزارت خزانہ کی ٹیم کو سراہتا ہوں جب کہ آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر اور ان کی ٹیم کے تعاون پر ان کا شکرگزار ہوں۔آئی ایم ایف معاہدے کے بعد اسلامی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک سے بھی پیسے مل جائیں گے, آئی ایم ایف معاہدہ بہت مثبت پیش رفت ہے، 9 ماہ کا پروگرام مل گیا ہے اور ہمیں نیا روڈ میپ مل گیا ہے، آگے مہنگائی کی شرح میں کمی آنا شروع ہوگی، آئی ایم ایف کا کہنا ہےکہ پاکستان کے ساتھ 9 ماہ کا اسٹینڈ بائی معاہدہ طے پاگیا ہے، معاہدے سے پاکستان کو بیرونی ممالک اور مالیاتی اداروں سے فنانسنگ دستیاب ہوسکےگی۔اعلامیے میں کہا گیا ہےکہ معاہدہ پاکستان کی بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ کم کرے گااور معاہدے سے سماجی شعبے کے لیے فنڈز کی فراہمی بہتر ہوگی جب کہ معاہدے پاکستان میں ٹیکسز کی آمدن بڑھائے گا۔ ٹیکس کی آمدن بڑھنے سے عوام کی ترقی کے لیے فنڈنگ بڑھ سکے گی، معاہدہ پاکستان میں مالی نظم و ضبط کا باعث بنے گا اور معاہدے سے توانائی کی اصلاحات یقینی بنائی جائیں گی جب کہ ایکس چینج ریٹ کو مارکیٹ کے حساب سے مقرر کیا جائے گا۔آئی ایم ایف کے مطابق موجودہ معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے پالیسیوں پر سختی سے عمل درآمد ضروری ہے جب کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی جائیں
وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر کا پاکستان سے متعلق ہمدردانہ مؤقف رہا ہے، ان کی خواہش ہے کہ ہم نویں جائزے پر پیشرفت دکھائیں۔عائشہ غوث پاشا کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی آئی ایم ایف ایم ڈی کے ساتھ ملاقات مثبت رہی، ہماری کوشش ہے کہ نواں جائزہ مکمل ہو اور ہم آگے بڑھیں۔یاد رہے کہ دورہ فرانس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے تھا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر سے ملاقات بڑی خوش گوار رہی۔ ایم ڈی آئی ایم ایف کو بتایا کہ پاکستان نے تمام شرائط پوری کردی ہیں، اب پروگرام بورڈ میں جا کر منظور ہونا چاہیے۔وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی جانب سے 9 جون کو آئندہ مالی سال کے لیے پیش کردہ بجٹ پر نظر ثانی کر کے اس میں نمایاں تبدیلیاں کردی گئی تھیں۔

ان تبدیلیوں میں 215 ارب روپے کے اضافی ٹیکس اقدامات، اخراجات میں 85 ارب روپے کی کٹوتی، غیر ملکی زرمبادلہ کی آمد پر ایمنسٹی واپس لینا، درآمدی پابندیوں کا خاتمہ، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مختص رقم میں 16 ارب روپے کا اضافہ اور پیٹرولیم لیوی کو 50 روپے سے بڑھا کر 60 روپے فی لیٹر کرنے کے اختیارات شامل ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادی جماعتوں کے قائدین سے ٹیلیفونک رابطہ کیا۔وزیراعظم نے اتحادی جماعتوں کے قائدین مولانا فضل الرحمان .بلاول بھٹو زرداری, خالد حسین مگسی، خالد مقبول صدیقی اور ایمل ولی خان سے ملکی سیاسی و معاشی صورتحال پر گفتگو کی اور آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے ہونے والی گفتگو سے بھی آگاہ کیا معاشی ماہرین کا پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو انتہائی مثبت پیشرفت قرار دیتےہوئےکہنا ہے کہ ڈیفالٹ کا خطرہ ٹلنے پروزیراعظم کوکریڈٹ دینا چاہیے، ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا ہے ، پاکستان ڈیفالٹ کے قریب تھا اور اگلے تین سے 6 ماہ میں ڈیفالٹ ہوسکتے تھے۔ معروف بزنس مین امین ہاشوانی نے کہا کہ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہم اس صورت حال پرپہنچے کیسے؟ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل تو ہوگئی ہے لیکن 8 ماہ میں بہت زیادہ نقصان بھی ہوا ہے۔ ہمیں سبق مل گیا ہے کہ زیادہ ہوشیاری کرکے نئی تھیوریز نہیں لانی چاہئیں، آئی ایم ایف کا واضح فارمولا ہے جس پر وہ عمل کرتا ہے، مسئلہ آئی ایم ایف کا نہیں ہمارا ہے ہم آئی ایم ایف سے پیسے لے رہے ہیں، آئی ایم ایف ہماری دشمنی کی بات نہیں کررہا ہے وہ کہہ رہا ہےکہ اپنا گھرسیدھا کرو، ہم اپنا گھر درست نہیں کررہے تویہ قصورآئی ایم ایف کا ہے یا ہمارا ہے؟ ہم نے اسٹرکچر ریفارمز نہیں کیے اس لیے آج یہ نوبت آئی ہے۔ معروف تاجر و صنعت کار میاں زاہد حسین نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوجانا پاکستان کے لیے عید کی ڈبل خوشی ہے لیکن تین ارب ڈالرزیکمشت نہیں آئیں گے البتہ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد اسلامی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک سے بھی پیسے مل جائیں گے۔ معاشی ماہر شاہد علی نے کہا کہ آئی ایم ایف معاہدہ بہت مثبت پیش رفت ہے، 9 ماہ کا پروگرام مل گیا ہے اور ہمیں نیا روڈ میپ مل گیا ہے، آگے مہنگائی کی شرح میں کمی آنا شروع ہوگی، ہمیں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کی کوشش رکھنی چاہیے اور ہمیں امپورٹ کھولنا ہوگا۔معاشی ماہر ملک بوستان نے کہا کہ آئی ایم ایف معاہدہ عید کے موقع پربہت بڑی خوشخبری ہے، پاکستان کواپنے معاہدوں کوپورا کرنا ہوگا، اب فنڈز ملنے سے بند دروازے کھل گئے ہیں، اس سے فارن ایکسچینج بڑھے گا، مارکیٹیں کھلیں گی تو ڈالرکا ریٹ فوری 5 سے 10 روپے کم ہوگا۔ معاشی ماہر خاقان نجیب کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس 4 ارب ڈالرزکے ذخائر ہیں، اگلے 6 میں 6 ارب ڈالرز دینے ہیں، آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالرجولائی میں آجائیں گے، قلیل عرصے کے لیے ذخائرپر جو دباؤ تھا وہ ختم ہوجائے گا اور مہنگائی کا کچھ بوجھ کم ہوجائے گا۔۔خیال رہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ رات کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ایک اہم بیل آؤٹ ڈیل کے لیے عملے کی سطح کا معاہدہ ’بہت قریب‘ اور آئندہ 24 گھنٹوں میں متوقع ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف کو 2019 کی توسیعی فنڈ سہولت سے 1.1 ارب ڈالر کے اجرا پر راضی کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو کہ گزشتہ سال نومبر سے تاخیر کا شکار تھا۔ معاہدے کے لیے حکام سر توڑ کوششوں میں مصروف تھے جس کے تحت گزشتہ ہفتے پیرس میں وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے بھی بیک ٹو بیک ملاقاتیں کی تھیں۔اس پہلےآئی ایم ایف کا مطالبہ تھا کہ بجٹ میں تبدیلی کے بغیر آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول کا معاہدہ نہیں ہو سکتا۔
آئی ایم ایف نے پاکستان سے پارلیمنٹ سے بجٹ کی منظوری سے قبل بجٹ کے فریم ورک پر نظر ثانی کا مطالبہ کیاتھا۔
پاکستان اور آئی ایم ایف بجٹ فریم ورک طے پا نےسے سالانہ بجٹ کی منظوری کی راہ ہموار ہوسکتی ہے جس میں نظر ثانی کرتے ہوئے ایف بی آر کے ٹیکس اہداف کو بڑھانا اور خزانے کے اخراجات کو کم کرنا بھی شامل ہے۔
جمعہ کی شب ورچوئل مذاکرات کے آخری 2 راؤنڈ میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان گھنٹوں طویل مذاکرات ہوئے جس میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ نظرثانی شدہ بجٹ کا فریم ورک پیش کیا

۔
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی جانب سے اس سلسلے میں 9 جون کو آئندہ مالی سال کے لیے پیش کردہ بجٹ پر نظر ثانی کر کے اس میں نمایاں تبدیلیاں کردی گئی تھیں۔ ان تبدیلیوں میں 215 ارب روپے کے اضافی ٹیکس اقدامات، اخراجات میں 85 ارب روپے کی کٹوتی، غیر ملکی زرمبادلہ کی آمد پر ایمنسٹی واپس لینا، درآمدی پابندیوں کا خاتمہ، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مختص رقم میں 16 ارب روپے کا اضافہ اور پیٹرولیم لیوی کو 50 روپے سے بڑھا کر 60 روپے فی لیٹر کرنے کے اختیارات شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق اس کا اعلان قرض دہندہ ادارے کی جانب سے کیا گیا۔اس معاہدے کا پاکستان کو طویل عرصے سے انتظار تھا جس کی ڈولتی معیشت ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرے کا سامنا کررہی تھی۔تقریباً 8 ماہ کی تاخیر کے بعد ہوا یہ معاہدہ جولائی کے وسط میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے، جس سے ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران اور گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے مشکلات کا شکار پاکستان کو کچھ مہلت ملے گی۔9 مہینوں پر محیط 3 ارب ڈالر کی فنڈنگ پاکستان کے لیے توقع سے زیادہ ہے، کیوں کہ ملک 2019 میں طے پانے والے 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج سے بقیہ ڈھائی ارب ڈالر کے اجرا کا انتظار کر رہا تھا، جس کی میعاد جمعہ کو ختم ہو گئی ۔پاکستان میں آئی ایم ایف مشن کے سربراہ نیتھن پورٹر نے کہا کہ نیا اسٹینڈ بائی معاہدہ جون کے آخر میں ختم ہونے والے پاکستان کی 2019 کی توسیعی فنڈ سہولت سے تعاون یافتہ پروگرام کے تحت حکام کی کوششوں پر استوار ہے۔’ نیتھن پورٹر کا کہنا تھا کہ کہ پاکستان کی معیشت کو حالیہ دنوں میں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جن میں گزشتہ سال تباہ کن سیلاب اور یوکرین میں جنگ کے بعد اشیا کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکام کی درآمدات اور تجارتی خسارے کو کم کرنے کی کوششوں کے باوجود زرِ مبادلہ کے ذخائر بہت کم سطح پر آ گئے ہیں اور پاور سیکٹر میں لیکویڈیٹی کے حالات بھی سنگین ہیں۔اس ضمن میں آئی ایم ایف کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ نئے اسٹینڈ بائی انتظامات حالیہ بیرونی جھٹکوں سے معیشت کو مستحکم کرنے، میکرو اکنامک استحکام کو برقرار رکھنے، کثیر جہتی اور دو طرفہ شراکت داروں سے فنانسنگ کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرنے میں حکام کی فوری کوششوں کی حمایت کرے گا۔اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ایس بی اے پاکستانی عوام کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کے لیے ملکی آمدنی کو بہتر بنانے اور محتاط اخراجات پر عمل درآمد کے ذریعے سماجی اور ترقیاتی اخراجات کے لیے جگہ بھی پیدا کرے گا۔ عالمی قرض دہندہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے موجودہ چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے مستحکم پالیسی پر عمل درآمد کلیدی حیثیت رکھتا ہے، جس میں زیادہ مالیاتی نظم و ضبط، بیرونی دباؤ کو جذب کرنے کے لیے مارکیٹ کی متعین کردہ زر مبادلہ کی شرح، اصلاحات پر مزید پیش رفت، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں، موسمیاتی لچک کو فروغ دینے، اور کاروباری ماحول بہتر بنانے میں مدد کرنا شامل ہے۔ اب جبکہ پاکستان اورآئی ایم ایف مالی معاونت کے اقدامات پر ایک اسٹینڈ بائی معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں، اس سے پاکستان کو انتخابی مدت کے لیے درکار قریب مدتی مالی امداد مل گئی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ایک بار انتخابات ہونے کے بعد نئی حکومت کو آئی ایم ایف سے نئے پروگرام پر مذاکرات کرنا ہوں گے۔اگرچہ ملک کے مالیاتی منتظمین مالی سال 2024 کے وفاقی بجٹ میں آئی ایم ایف سے منظور شدہ تبدیلیوں کے بعد عملے کی سطح کے معاہدے کو حتمی شکل دے سکتے ہیں لیکن آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری تک فنڈز جاری نہیں کیے جائیں گے جس میں دو ہفتوں سے دو ماہ تک کا وقت لگ سکتا ہے۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والی بات چیت کے ذرائع نے کہا کہ عملے کی سطح کے معاہدے تک پہنچنا کوئی معمولی بات نہیں تھی، لیکن بورڈ نے مہینوں تک منظوری روک دی تھی، یہ اس وقت ہوتا ہے جب فنانسنگ یا قرض سے متعلق مسائل ہوں جیسے حالات لبنان یا سری لنکا کو درپیش تھے، اس پہلےعالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطالبے پر ٹیکس کا ہدف 215 ارب روپے بڑھا کر 94 کھرب 15 روپے کرنے کے بعد قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 24-2023 کے لیے 14 ہزار 480 ارب روپے کا وفاقی بجٹ کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا فنانس بل میں کُل 9 ترامیم کی گئی ہیں، ان میں سے 8 ترامیم حکومت، ایک اپوزیشن کی جانب سے شامل کی گئی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9 ہزار 200 سے بڑھا کر 9 ہزار 415 ارب مقرر کردیا گیا پنشن ادائیگی 761 ارب سے بڑھا کر 801 ارب کر دی گئی، علاوہ ازیں این ایف سی کے تحت صوبوں کو 5 ہزار 276 ارب کے بجائے 5 ہزار 390 ارب ملیں گے۔وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے فنانس بل کی شق 3 میں ترمیم پیش کی جو کہ قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے منظور کرلی ہے۔ ترمیم کے مطابق 3200 ارب روپے کے زیر التوا 62 ہزار کیسز سمیت تنازعات کے حل کے لیے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، کمیٹی کے فیصلے کے خلاف ایف بی آر اپیل دائر نہیں کرسکے گا، متاثرہ فریق کو عدالت سے رجوع کرنے کا اختیار ہوگا۔خیال رہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے 9 جون کو پیش کردہ وفاقی بجٹ میں متعدد تبدیلیاں کی تھیں جن کے بارے میں وزیر خزانہ نے ایوان کو آگاہ کیا تھاکہ حکومت کے محصولات کی وصولی کے ہدف کو 94 کھرب 15 ارب تک لے جایا گیا ہے اور مجموعی اخراجات کا ہدف 144 کھرب 80 ارب روپے رکھا گیا ہے، صوبوں کا حصہ 52 کھرب 80 ارب روپے سے بڑھا کر 53 کھرب 90 ارب روپے کردیا گیا ہے۔مولانا عبدالاکبر چترالی کی جانب سے پیش کی گئی ترمیم منظور کر لی گئی جس کے تحت چیئرمین قائمہ کمیٹی کو 1200 سی سی گاڑی استعمال کرنے کا اختیار ہوگا۔عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے دباؤ پر بجٹ میں پیش کردہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم واپس لےلی گئی۔ بیرون ملک سے ایک لاکھ ڈالر بھجوانے پر ذرائع آمدن ظاہر نہ کرنےکی چھوٹ دی گئی تھی۔ بیرون ملک سے رقوم بینکنگ چینل کے ذریعے بھیجنےکی شرط عائد کی گئی تھی اور آئی ایم ایف نے اس ایمنسٹی اسکیم پر اعتراض اٹھایا تھا۔اس کے علاوہ 2 ہزار سی سی سے بڑی لگژری گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے جب کہ کھاد کی فروخت پر 3 روپے فی کلو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان نویں جائزے اور پروگرام کی بحالی کی راہ میں رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے ملاقاتوں اور رابطوں سے یہ پیشرفت ممکن ہوئی ہے، وزیراعظم اور ایم ڈی آئی ایم ایف کے درمیان پیرس میں رابطوں اور ملاقاتوں سے بریک تھرو ہوا ہے۔یاد رہے کہ دورہ فرانس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے تھا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر سے ملاقات بڑی خوش گوار رہی۔ ایم ڈی آئی ایم ایف کو بتایا کہ پاکستان نے تمام شرائط پوری کردی ہیں، اب پروگرام بورڈ میں جا کر منظور ہونا چاہیے۔خیال رہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے 9 جون کو پیش کردہ وفاقی بجٹ میں متعدد تبدیلیاں کی تھیں جن کے بارے میں گزشتہ روز وزیر خزانہ نے ایوان کو آگاہ کیا تھا۔ وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ حکومت کے محصولات کی وصولی کے ہدف کو 94 کھرب 15 ارب تک لے جایا گیا ہے اور مجموعی اخراجات کا ہدف 144 کھرب 80 ارب روپے رکھا گیا ہے، صوبوں کا حصہ 52 کھرب 80 ارب روپے سے بڑھا کر 53 کھرب 90 ارب روپے کردیا گیا ہے۔مولانا عبدالاکبر چترالی کی جانب سے پیش کی گئی ترمیم منظور کر لی گئی جس کے تحت چیئرمین قائمہ کمیٹی کو 1200 سی سی گاڑی استعمال کرنے کا اختیار ہوگا۔ خیال رہے کہ اس سے پہلے 1300 سی سی سے 1600 سی سی گاڑی استعمال کرنے کی اجازت تھی۔دریں اثنا وزیر خزانہ نے پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی آرڈیننس میں ترمیم پیش کی جو کہ قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے ترمیم منظور کرلی۔ترمیم کے تحت پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کی حد 50 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 60 روپے فی لیٹر کردی گئی، وفاقی حکومت کو 60 روپے فی لیٹر تک لیوی عائد کرنے کا اختیار ہوگا۔پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پنکھوں اور بلبوں پر اضافی ٹیکسوں کی ترمیم بھی منظور کرلی گئی۔ پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پنکھوں پر یکم جنوری سے 2 ہزار روپے ٹیکس ہوگا جبکہ پرانے بلبوں پر یکم جنوری سے 20 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔ فنانس بل میں مزید ترامیم کے تحت 215 ارب کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں، دریں اثنا قومی اسمبلی نے فنانس بل 2023 کی کثرت رائے سے منظوری دے دی۔ علاوہ ازیں اجلاس کے دوران ایوان نے مالی سال 22-2021، مالی سال 23-2022 کی ضمنی گرانٹس کی منظوری بھی دے دی۔ وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی کے عملے اور اس کے اجلاس پر متعین دیگر محکموں کے اہلکاروں کے لیے 3 ماہ کی بنیادی تنخواہ کے برابر اعزازیے کا بھی اعلان کیا۔اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی خورشید شاہ نے کہا کہ 2 پنشنز پر پابندی لگائی گئی یہ اچھا اقدام ہے،