اسلام آباد(ٹی این ایس ) تمام پاکستانیوں نے معصوم رضوانہ کی کچھ خبریں، کچھ تصاویر اور ویڈیوز دیکھی ہیں

 
0
94

دل غم زدہ ہورہا ہے کہ انسان کے اندر کیسا وحشی درندہ چھپا بیٹھا ہوتا ہے۔

جج کا بیان آیا ہے کہ ان کے خاندان کا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے، اور ان کا کہنا ہے کہ ان کی بیوی نفسیاتی مریض ہے۔

یہ تو موصوف جج جرم اقرار کررہے ہیں اور اس اقرار کے بعد ان جیسے انسان کا مسند انصاف پر بیٹھے رہنا بذاتِ خود ایک جرم ہے۔

یعنی ان کو معلوم تھا کہ ان کے گھر میں ایک نفسیاتی مریض ایک معصوم بچی پر مسلسل تشدد کررہی ہے اور اس کے باوجود جج
صاحب نے اسے کھلی چھٹی دیئے رکھی۔

کاش کوئی عمر ہوتے اور وہ انصاف کرتے، کہ گورنر کے بیٹے نے گھڑ دوڑ میں ایک چابک جیتنے والے غریب کو دے مارا کہ ” ہم عزت والے ہیں، تو کیسے آگے بڑھ رہا ہے “، غریب نے آکر شکایت کی ۔۔۔

سیدنا عمر نے کوڑا غریب کے ہاتھ پکڑایا اور کہا لے تو اس عزت والے کو اسی قوت سے مار۔

ہائے ! آج عمر ہوتے تو انصاف کرتے۔

میں رضوانہ کی کہانی پڑھ رہا ہوں کہ کیسے جب جب وہ زخمی ہوکر کام کرنے کے قابل نہ رہتی تو اسے زخموں پر مارا جاتا , اس کی انگلیاں توڑ دی گئیں، اس کے دانت توڑے گئے۔

بدقسمتی سے وہ ایک جج کے گھر تھی کہ جہاں سے انصاف ملتا، لیکن اسے زخم ملے ، ٹوٹی ہڈیاں ملیں۔

یہ کیس ہرگز ایسا نہیں ہے کہ محض اپنے منصب کی بنا پر مجرم بچ جائیں۔
لیکن ہونا یہی ہے کہ کچھ روز بعد دباؤ ڈال کر غریب والدین کو صلح پر مجبور کیا جائے گا اور ” انصاف ” کے تقاضے پورے ہوجائیں گے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ مسلسل ظلم، اور ظلم پر مبنی معاشرہ کب تک بچ پائے گا؟؟؟