اسلام آباد (ٹی این ایس)عالمی دن پردہشت گردی سے پاک دنیا کا تصور

 
0
129

 دہشت گردی سے متاثرہ افراد کوخراج عقیدت پیش کرنےکے عالمی دن
پردہشت گردی سے پاک دنیا کا تصوربات چیت اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے. الحمداللہ مجھے فخر ہے کہ ”میں خود ایک شہید مظہرعلی مبارک کا بھائی ہوں جو سال 2013 میں دھشتگردانہ ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہوئے تھے”ہمارے اصل ہیروز شہدا ءاور غازی ہیں اور جو قومیں اپنے شہدا ءکو بھول جاتی ہیں وہ جلد مٹ جاتی ہیں۔
ھم دہشت گردی سے متاثرہ افراد کو نہ بھولے ہیں نہ بھولیں گے, شہداء کا خون آج بھی کہہ رہا ہے ملک کے لئے جانیں دینے والے شہداء قابل فخر ہیں۔
دہشت گردی سے متاثرہ ہیروز , شہداء کا خون ہم سب پر قرض ہےجو قومیں اپنے شہداء کو بھول جاتی ہیں، تاریخ اُنہیں کبھی معاف نہیں کرتی۔ ہم شہدائے وطن کے ورثاء کا احسان مند ہیں۔ جن کے پیاروں کی قربانیوں کی بدولت آج وطن پر چھائے اندھیرے چھٹ چکے اور ایک روشن مستقبل کی کرنیں نمودار ہو رہی ہیں
عالمی دن پرہمارے احساسات زندہ بچ جانے والوں اور متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں,
دہشت گردی سے متاثرہ افراد کی یاد اور خراج عقیدت پیش کرنےکے عالمی دن کے موقع پر پاکستان متاثرہ افراد کےساتھ عالمی برادری میں شامل ہے۔
دہشت گردی سے متاثرہ ہیروز کو یاد کر کے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں قربان کیں۔
پاکستانی قوم ایک ایسی قوم ہے جس نے دہشت گردی کا مقابلہ کیا، پاکستان دنیا بھر میں دہشت گردی سے متاثرہ افراد کے دکھ اور تکلیف کو بخوبی سمجھتا ہے۔
پاکستان پچھلی دو دہائیوں سے سرحد کے پار سے اسپانسر کی جانے والی دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ اس عرصے کے دوران 80,000 سے زیادہ ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا اور معیشت کو 150 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ چیلنجوں نے ہمیں روکا نہیں۔ پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے آج بھی پرعزم ہے۔ قومی عزم، بے مثال لچک اور عوام کی بے مثال قربانیوں کی بدولت پاکستان نے حالات کا رخ موڑنے اور دہشت گردی کے خلاف فتوحات حاصل کی ہیں۔

جیسا کہ ہم دنیا بھر میں متاثرین کو یاد کرتے ہیں اور انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، ہمیں ریاستی دہشت گردی کے متاثرین کو بھی یاد رکھنا چاہیے جن میں ہندوستان کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر بھی شامل ہے۔ 1990 کی دہائی سے بھارتی فوجیوں نے مقبوضہ جموں و کشمیرمیں 100,000 سے زائد کشمیریوں کو شہید، 22000 سے زائد خواتین کو بیوہ، 108000 بچوں کو یتیم اور 11000 خواتین کی عصمت دری کی ہے۔ عالمی برادری کو بھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کے متاثرین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔

عالمی برادری کے لیے ضروری ہے کہ وہ دہشت گردی کے انسداد کے لیے ایک جامع انداز اپنائے اور اس کی بنیادی وجوہات کو حل کرے۔ طویل عرصے سے حل نہ ہونے والے تنازعات، غیر ملکی قبضے اور حق خود ارادیت سے انکار سے انتہا پسندی , دہشت گردی کے حالات پیدا ہوتے ہیں جن سے جامع طریقے سے نمٹا جانا چاہیے۔
عالمی برادری کے طور پر ہماری طاقت ,اتحاد، مشترکہ افہام و تفہیم , باہمی تعاون پر مبنی عمل ہے۔
بین الاقوامی شراکت داری، بات چیت اور تعاون کو مضبوط بنا کر ہم دہشت گردی سے پاک دنیا کا تصور کر سکتے ہیں۔


آج ملک میں امن ہماری پاک فوج کی وجہ سے ہے۔پاک فوج نے آپریشن شیردِل سے لے کر راہِ راست، راہِ نجات، ضربِ عضب اور ردالفساد تک پاکستان کے دفاع کی قیمت اپنے لہو سے ادا کی ہے۔پاک فوج ہرمشکل وقت میںقوم کے ساتھ رہی ہے۔ پاک فوج کی خدمات کو دیکھا جائے تو وہ ہر مشکل گھڑی میں خواہ وہ زلزلہ ہو یا سیلاب،زمانہ امن ہو یا جنگ، پاک فوج ہر حال میں ملک و قوم کے لیے برسر پیکار ہے اورہمیشہ اپنی عوام کے ساتھ کھڑی نظر آئی تازہ مثال ہے ,شہدا کی فیملیز کو اس دن کا بے صبری سے انتظار ہوتاہےشہداء کا خون آج بھی کہہ رہا ہے ملک کے لئے جانیں دینے والے شہداء قابل فخر ہیں۔ ہم آج پاکستان کے دفاع، سلامتی اور خود مختاری کے تحفظ کے عزم کی تجدید کرتے ہیں، اس عزم کی تجدید جس کا مظاہرہ 1965ء کی جنگ کے شہداء اور غازیوں نے کیا تھا, شہداء اور غازیوں کو سلام پیش کرتے ہیں ، ہم کسی بھی قسم کی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کیلئے پوری طرح تیار ہیں۔ قوم اور مسلح افواج نے ثابت کیا کہ حجم اہمیت نہیں رکھتا۔ جذبہ، ولولہ اور جرأت و بہادری ہوتی ہے جو سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے پاک فوج عوام اور مادر وطن کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتی, پاک آرمی ہمارا فخر ہے۔ دفاع وطن کے لئے پاک فوج کی قربانیاں لازوال ہیں اِسی لئے یہ دن دہشت گردی سے درپیش خطرات سے نمٹنے کے لئے منایا جاتا ہے ہماری آزادی شہداء کے خون کی مرہون منت ہے اور یہی شہداء ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں۔ اِسی لئے پاکستان میں یہ دن اْن شہداء سے منسوب ہے جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی قیمتی جانیں قربان کیں۔ وطن عزیز اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کے پاس دنیا کی بہادر، محنتی اور جفاکش فوج موجود ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پوری قوم اور ادارے یکسو اور متحد ہیں، خیال رہے کہ قوموں کی زندگی میں بسا اوقات ایسے مراحل درپیش آتے ہیں، جو ظاہری طور پر بہت مشکل اور صبر آزما ہوتے ہیں باہمت اقوام کا یہ وصف ہوتا ہے کہ ان وہ چیلنجوں کو ’’مواقع‘‘ میں تبدیل کر لیتی ہیں۔ 16 دسمبر 2014 کو پشاور اے پی ایس میں جو انتہا افسوس ناک المیہ پیش آیا ‘اس کو تاحال قومی سطح پر پوری طرح سے ایک ’’موقع ‘‘میں نہیں ڈھالا جا سکا۔ اگرچہ اس سمت میں پیش رفت جاری ہے مگر شاید اس بابت اطمینان بخش نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے ماہرین کا کہنا ہے کہ پشاور آرمی پبلک سکول میں جو سانحہ ہوا، اس نے یکد م پوری ملک کی سیاسی و عسکری قیادت اور تمام طبقات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔اسی تناظر میں حکومت پاکستان نے سبھی متعلقہ فریقین کی باہمی مشاورت سے ایک بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا جس کے ذریعے یہ طے کیا گیا کہ وطن عزیز کو درپیش دہشتگردی اور انتہا پسندی کے سنگین خطرات کا تمام حکومتی و ریاستی ادارے کس طور تدارک کریں گے اور کس ڈھنگ سے اس مخدوش صورتحال کا موثر اور مربوط طریقے سے سامنا کیا جائے گااسی حوالے سےخصوصی عدالتیں قائم کی گئیں اور مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دینے کا اعلان کیا گیا۔اس حوالے سے ابتدائی ہفتوں میں کافی اقدامات بھی اٹھائے گئے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بوجوہ یہ امر اس حد تک نتیجہ خیز اور باآور ثابت نہ ہو پایا جس کی توقع کی گئی تھی۔ اس ضمن میں اگرچہ کافی پیش رفت بھی ہوئی اور ضرب عضب اور رد الفساد کے تحت دہشتگردی کے ڈھانچے کو کافی حد تک کمزور بھی کیا گیا مگر اس کے باوجود واقعات نہ صرف جاری ہیں بلکہ گذشتہ چند مہینوں میں دہشتگردی کی یہ عفریت یوں لگتا ہے جیسے نئی نئی شکلیں بدل کر پھن پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس میں اب کئی چھوٹے اور بڑے گروہ مختلف ناموں سے پھر سر اٹھا رہے ہیں,اسی سلسلے کا جائزہ لیتے ماہرین نے رائےدی ہے کہ ایک جانب تو موثر قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ مسئلے کا مستقل بنیادوں پر حل نکالا جائے۔یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان ملکی سلامتی کی اہم ترین دستاویز ہے۔ اس پر اگر پوری طرح عمل کیا جاتا تو دہشتگردی و انتہا پسندی کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔
دہشت گردی سے متاثرہ افراد کوخراج عقیدت پیش کرنےکے عالمی دن
پرنیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی ضرورت بڑھ گئی ہے نیشنل ایکشن پلان اصلاً دو اجزا پر مشتمل ہے ۔ ایک جزو وہ ہے جس کا تعلق دہشت گردی کے خاتمے سے ہے۔ دوسرا جزو انتہا پسندی کے خاتمے کو مخاطب بنا تا ہے۔ انتہا پسندی ایک ذہنی اور فکری عمل ہے جس کے زیرِ اثر انسان کی نفسیات بنتی ہے۔ دہشت گردی اس کا عملی اظہار ہے۔ ایک انتہا پسند ذہن ایک خاص نفسیاتی کیفیت میں جب انسانی جان و مال کو ہدف بناتا ہے تو دہشت گردی جنم لیتی ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ انتہا پسندی کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے اس بات کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی گئی کہ دونوں کو بیک وقت ہدف بنایا جائے۔ نیشنل ایکشن پلان کا بنیادی تصور بھی یہی ہےنیشنل ایکشن پلان ملکی سلامتی میں ایک اہم ڈاکومنٹ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس میں بڑی رکاوٹوں میں سے ایک قومی سلامتی کے تحفظ اور دہشتگردوں کے خلاف، ایک مربوط پالیسی کا نہ ہونا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کو اسکی صحیح رُو کے مطابق نافذ کرنے کے لئے سویلین لیڈر شپ کی کمٹمنٹ بھی انتہائی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں گڈ گورننس کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوئے خلا سے ملک دشمن قوتوں کو پاؤں پھیلانے کا موقع ملا۔ سالہاسال بعد ایسی دستاویز میسر آئی جس پر تمام قیادت کا اتفاق تھا مگر بوجوہ تاحال منطقی نتائج حاصل نہیں ہو سکے ۔لہذا صوبوں میں قائم اینٹی ٹیرارسٹ ڈیپارٹمنٹس کو مضبوط کیا جائے۔اسی کے ساتھ قبائلی علاقہ جات اور افغان مہاجرین کا مسئلہ فوری حل کا متقاضی ہے۔
اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے غیر جانبدار حلقوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ زمینی حقائق اس ا مر کے متقاضی ہیں کہ قوم کے سبھی حلقے تدبر ،معاملہ فہمی اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان کو اس کی صحیح رُو اور سپرٹ کے مطابق نافذ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ واضع رہے کہ سیاسی و عسکری قیادت کا متفقہ تجزیہ یہی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے بعض ایسے پہلو ہیں جن پر پوری طرح عمل درآمدنہیں ہو سکا۔ اس کمزوری کے باعث دہشت گردوں کی باقیات کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ کسی واقعے سے معاشرے کو اضطراب میں مبتلا کردیں۔ایسے اِکا دُکا واقعات سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ دہشت گرد ختم نہیں ہوئے۔دراصل ایسے واقعات کا تعلق انتہا پسندی کے ساتھ ہے جس کاخاتمہ ابھی نہیں کیا جا سکا۔اس سے وہ لوگ جو اِدھر اُدھر چھپے بیٹھے ہیں، فائدہ اُٹھاتے اور واردات کر گزرتے ہیں,انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے اس تعبیرِ دین کو ہدف بنانا ضروری ہے۔ قوم کو ایک جوابی بیانیے کی ضرورت ہے جو دین کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں، چند سوالات کو بطورخاص موضوع بنائے اور اس کا اہتمام کرے کہ اس باب میں نئی نسل کے ذہنوں میں موجود اشکال ختم کئے جائیں,انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے ان سوالات پر نئی نسل کو مطمئن کرنا ضروری ہے۔ قومی ایکشن پلان میں، نظریاتی تشکیلِ نو کے لئے ایک قومی بیانیے کی تشکیل کی بات ہوئی ہے جو اس انتہا پسندی کے بالمقابل ایک نقطہ نظرپیش کرتا ہو۔ اس محاذ پر کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ یہ سوالات ہنوز جواب طلب ہیں اور ریاست کی طرف سے ابھی تک کوئی ایسا بیانیہ سامنے نہیں آ سکا جو انہیں مخاطب بناتا ہو۔ اس کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ مذہبی اداروں اور مذہبی تعلیم کے غلط استعمال کو روکا جائے۔ اس مقصد کے لئے ضروری تھا کہ دینی مدارس اور مساجد جیسے دینی اداروں کو ایک نظم کے تحت لایا جاتا تاکہ کوئی محراب و منبر کو منفی مقاصد کے لئے استعمال نہ کرے۔ ہم ابھی تک اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے جہاں ان مراکز کی نشاندہی اور خاتمہ ضروری ہے‘ جہاں یہ نظریات فروغ پاتے ہیں‘ انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے جہاں ان مراکز کی نشاندہی اور خاتمہ ضروری ہے‘ جہاں یہ نظریات فروغ پاتے ہیں‘ وہاں اس نظامِ ابلاغ کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے جن کے تحت ان افکار و نظریات کو پھیلایا جاتا ہے۔ یہ معلوم حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث بہت سے نوجوان جدید تعلیمی اداروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان اداروں میں ایسی تعلیم نہیں دی جاتی ۔ سوال یہ ہے کہ یہ نظریات کیسے اپنے مراکز سے سفر کرتے ہوئے ان نوجوانوں کے ذہنوں تک پہنچتے ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کئے بغیر بھی دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ انتہا پسندی کے خاتمے کے بغیر دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکتا۔