پاک فوج دہشتگردی کی لعنت کے خاتمے کیلئے پرعزم

 
0
54

پاک فوج ملک سے دہشتگردی کی لعنت کے خاتمےکیلئے پرعزم ہے
پشاور میں بارودی سرنگ پھٹنے سے سیکیورٹی فورسز کی گاڑی زد میں آگئی، دھماکے میں لانس نائیک عبدالرحمان شہید 3 جوان زخمی ہوئے اس کے علاوہ 3 شہری بھی زخمی ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پشاور کے علاقے وارسک میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر دیسی ساختہ بارودی سرنگ پھٹ گئی، واقعہ میں بنوں کے رہائشی 29 سالہ لانس نائیک عبدالرحمان شہید ہوگئے جبکہ 3 جوان زخمی بھی ہوئے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ بزدلانہ کارروائی کے نتجے میں تین بے گناہ شہری زخمی بھی ہوئے۔ سکیورٹی فورسز دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لئے پرعزم ہیں۔ دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خاتمے کے لیے علاقے میں صفائی کا عمل جاری ہے۔ اس سے قبل جب دھماکا ہوا تو پولیس کا کہنا تھا کہ دھماکا تھانہ مچنی گیٹ کی حدود ورسک روڈ پر پرائم اسپتال کے قریب ہوا۔سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب ہونے والے دھماکے کی زد میں آکر ایک ایف سی اہلکار شہید، جبکہ فرنٹیئر کور کے 5 اہلکار اور 2 سویلین زخمی ہوگئے۔ نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز احمد بگٹی کا ورسک روڈ دھماکے کی مذمت کرتے ہوئےکہنا ہے کہ شہید سیکیورٹی اہلکار کے بلند درجات کے لئے دعا گو ہیں۔ سرفراز احمد بگٹی کا کہنا ہے کہ زخمیوں کی جلد صحت یابی کیلئے دعا گو ہیں اور شرپسندوں کے بزدلانہ حملے ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتے، ملک سے دہشت گردی کی لعنت ختم کر کے ہی دم لیں گے۔ان کا کہنا ہے کہ ملک میں انتہا پسندوں کے لئے کوئی جگہ نہیں، سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پُرعزم ہیں۔ پولیس کے مطابق دھماکا تھانہ مچنی گیٹ کی حدود ورسک روڈ پر پرائم اسپتال کے قریب ہوا۔ سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب ہونے والے دھماکے کی زد میں آکر ایک ایف سی اہلکار شہید، جبکہ فرنٹیئر کور کے 5 اہلکار اور 2 سویلین زخمی ہوگئے۔زخمیوں کو پرائم اسپتال میں ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد لیڈی ریڈنگ اور سی ایم ایچ منتقل کیا گیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روزسکیورٹی فورسز سے فائرنگ کے تبادلے میں 7 دہشت گرد ہلاک اور 6 شدید زخمی ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا، مقامی لوگوں نے سکیورٹی فورسز کی کارروائی کو بھرپور سراہا۔ فورسز کی جانب سے علاقے میں ممکنہ دہشتگردوں کی تلاش اور خاتمے کے لئے کلیرنس آپریشن جاری رہے گا۔ ترجمان پاک فوج نے مزید بتایا کہ سکیورٹی فورسز دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے پرعزم ہیں، سکیورٹی فورسز پاکستان کے دشمنوں کے ناپاک ارادوں کو ہر قیمت پر ناکام بنائیں گی۔واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے پشاور میں ورسک روڈ پر ایف سی کی گاڑی کے قریب ہونے والے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے ۔ انہوں نے دھماکے کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں اور ان کے اہل خانہ سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ ہماری بہادر افواج دہشت گردی کے خلاف بڑے عزم سے لڑ رہی ہیں۔
انہوں نے فورسز کو سلام اور دہشت گردی کے خاتمہ کا عزم کرتےہوئے مزید کہا کہ دہشتگردی کے خلاف لڑنے والی تمام فورسز کے جذبے کو سلام پیش کرتے ہیں، ہم دہشت گردی کا خاتمہ کرکے رہیں گے۔ واضح رہے کہ 6,ستمبر 2023 کوخیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں پاک افغان سرحد پر سکیورٹی فورسز سے جھڑپ میں 12 دہشتگرد ہلاک جبکہ بہادری سے لڑتے ہوئے 4 جوان شہید ہوگئے۔خیبر پختونخوا کے علاقے چترال میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں کم از کم 7 دہشت گرد ہلاک اور چھ شدید زخمی ہو گئے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق 9 ستمبر 2023 کو ضلع چترال کے علاقے ارسون میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔

بیان میں کہا گیا کہ فوجیوں نے دہشت گردوں کے ٹھکانے پر موثر انداز میں مقابلہ کیا اور شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد 7 دہشت گرد مارے گئے جبکہ 6 شدید زخمی ہو گئے۔پاکستان کی سکیورٹی فورسز دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں,چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے بنوں میں پاک فوج پر حالیہ خود کش دھماکے پر کہا ہے کہ دہشتگردوں کے بزدلانہ حملے دہشتگردی کے خاتمہ کے ہمارے عزم کو کمزور نہیں کر سکتے۔ آرمی چیف نے بنوں میں پاک فوج پر حالیہ خود کش حملے میں زخمی ہونے والے جوانوں کی عیادت کے لیے سی ایم ایچ بنوں کا دورہ کیا۔ اس سے قبل آرمی چیف کو خودکش دھماکے کے ساتھ سیکیورٹی کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات پر بھی بریفنگ دی گئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ پاکستان میں امن و استحکام ہمارے شہدا کی قربانیوں کی مرہونِ منت ہے، دہشت گردی کی کے ناسور کوہر قیمت پر ختم کریں گے۔ آرمی چیف نے بنوں خودکش دھماکے میں شہید ہونے والے جوانوں کے اہلخانہ کویقین دلایا کہ قوم دکھ کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑی ہے۔یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں عسکریت پسندی میں کافی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ دہشت گرد اس طرح کے بیشتر حملے سرحدی علاقوں میں انجام دیتے ہیں۔حالیہ مہینوں میں تحریک طالبان پاکستان نے سکیورٹی فورسز کے خلاف اپنی مہم تیز کر دی ہے، جس کی وجہ سے اب تک درجنوں افراد شہید ہو چکے جمعرات کو پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کے جانی خیل علاقے میں ایک خودکش حملہ آور نے اپنی موٹر سائیکل فوجی قافلے سے ٹکرا دی، جس سے زور دار دھماکہ ہوا۔ اس واقعے میں نو فوجی شہید ہو گئے ,خودکش حملہ آور موٹر سائیکل پر سوار تھا اور اس نے اپنی موٹر سائیکل فوجی قافلے کے ایک ٹرک سے ٹکرا دی,چند روز قبل 22 اگست کو بھی جنوبی وزیرستان کے علاقے آسمان منزہ کے علاقے میں دہشت گردوں کے ساتھ جھڑپ میں چھ فوجی جوان شہید ہو گئے تھے۔ تحریک طالبان پاکستان اس خطے میں سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس گروپ کے جنگجوؤں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں,اسلامک اسٹیٹ , داعش گروپ بھی پاکستان میں سرگرم رہا ہے، جس نے ایک سیاسی جماعت کے اجتماع میں ہونے والے ایک خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس حملے میں 23 بچوں سمیت کم از کم 54 افراد شہید ہو گئے تھے۔ چند برس قبل تک پاکستان تقریباً روزانہ بم دھماکوں سے دوچار تھا، لیکن پھر فوج نے سن 2014 میں قبائلی علاقوں میں ایک بڑے فوجی کلیئرنس آپریشن کا آغاز کیا اور تب بڑے پیمانے پر امن بحال ہوا تھا۔
ملک میں 2023 کے ابتتدائی 8 ماہ میں 22 خودکش حملے ہوئے جن میں 227 افراد شہید اور 497 زخمی ہوئے۔ 99 دہشتگرد حملوں کا ریکارڈ اگست 2023 میں قائم ہوا ہے جوکہ نومبر 2014 کے بعد ایک ماہ میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ یہ تعداد کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے دعویٰ کیے گئے 147 حملوں سے کم ہے، ان حملوں کے نتیجے میں 112 شہری اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکار جاں بحق جبکہ 87 زخمی ہوئے, یہ اعداد و شمار جولائی میں 54 حملوں کے برعکس اگست میں عسکریت پسند حملوں میں 83 فیصد اضافہ ظاہر کرتے ہیں، اگست میں 4 خودکش حملے ہوئے، جن میں سے 3 قبائلی اضلاع میں اور ایک خیبر پختونخواہ میں ہوا، مجموعی طور پر ملک میں 2023 کے ابتتدائی 8 ماہ میں 22 خودکش حملے ہوئے جن میں 227 افراد شہید اور 497 زخمی ہوئے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز ,پی آئی سی ایس ایس کے مرتب کردہ اعداد و شمار کی رپورٹ کے مطابق رواں برس اگست 2023 میں ملک بھر میں 99 حملے ہوئے، جوکہ نومبر 2014 کے بعد ایک ماہ میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک کی جانب سے جاری کردہ تعداد کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے دعویٰ کیے گئے 147 حملوں سے کم ہے، جن کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہ ہو سکی، رپورٹ میں صرف مصدقہ دہشتگرد حملوں کو ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق جولائی میں 54 حملوں کے برعکس اگست میں عسکریت پسند حملوں میں 83 فیصد اضافہ ظاہر کرتے ہیں، اگست میں 4 خودکش حملے ہوئے، جن میں سے 3 قبائلی اضلاع میں اور ایک خیبر پختونخواہ میں ہوا، مجموعی طور پر ملک میں 2023 کے ابتتدائی 8 ماہ میں 22 خودکش حملے ہوئے جن میں 227 افراد جان بحق اور 497 زخمی ہوئے۔بلوچستان اور سابقہ فاٹا اگست میں دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، بلوچستان میں حملوں میں 65 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جوکہ جولائی میں 17 تھے اور اگست میں 28 ہو گئے، جبکہ سابقہ فاٹا میں حملوں میں 106 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جوکہ جولائی میں 18 تھے اور اگست میں 37 حملے ہوگئے، تاہم دونوں علاقوں میں اموات میں بالترتیب 19 اور 29 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
خیبرپختونخوا میں بھی حملوں میں اضافہ ہوا، جوکہ جولائی میں 15 فیصد کے مقابلے میں 83 فیصد بڑھ کر اگست میں 29 ہو گئے، اموات اور زخمیوں کی تعداد میں بھی بالترتیب 188 فیصد اور 73 فیصد اضافہ ہوا۔ صوبے کو بنیادی طور پر کالعدم ٹی ٹی پی اور اس سے علیحدہ ہونے والے گروہوں نے نشانہ بنایا، جنہوں نے اِن میں سے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ سندھ میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں معمولی اضافہ دیکھا گیا، جوکہ جولائی میں 3 اور اگست میں 5 ہو گئے، اموات بھی ایک سے بڑھ کر 4 ہوگئیں۔ پنجاب نسبتاً پُرامن رہا، اگست میں کسی عسکریت پسند حملے کی اطلاع نہیں ملی، جولائی میں رپورٹ ہونے والا واحد حملہ لاہور میں ایک پولیس اسٹیشن کے قریب کم شدت کا دھماکا تھا جس میں ایک شخص زخمی ہوا۔ اعداد و شمار سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سیکورٹی فورسز مسلسل دہشتگردی کا مرکزی ہدف بنی ہوئی ہیں، جن کی ان حملوں کے نتیجے میں جاں بحق ہونے کی تعداد کل اموات کا 50 فیصد اور ان کے زخمی ہونے والوں کی تعداد کل زخمیوں کا 63 فیصد ہے۔ جولائی 2023 کے برعکس اگست میں فوجی جوانوں کی شہادتوں میں 51 فیصد اضافہ ہوا، سیکیورٹی فورسز نے بھی عسکریت پسندوں کے حملوں کا بھرپور جواب دیا اور ملک بھر میں کارروائیوں کے دوران کم از کم 24 مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک اور 69 کو گرفتار کیا گیا۔ یاد رہے کہ فروری 2023 میں 3 خودکش حملے رپورٹ ہوئے تھے جن میں 9 افراد شہید اور 37 زخمی ہوئے تھے، جنوری میں 2 خودکش حملوں میں 106 افراد شہید اور 216 زخمی ہوئےتھے۔ رواں سال فروری کے دوران حملوں میں اضافہ ہوا آیا تھا تاہم ان حملے کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں جنوری کے مقابلے میں کم تھیں۔ کراچی پولیس ہیڈ کوارٹر پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا حملہ فروری کے مہینے میں سب سے زیادہ ہائی پروفائل حملہ تھا۔ اعدادوشمار کے مطابق ایک ماہ کے دوران عسکریت پسندوں نے 58 حملے کیے جن میں 62 افراد شہید ہوئےتھے، ان میں 27 عام شہری، 18 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 17 عسکریت پسند شامل تھے، علاوہ ازیں ان حملوں میں 134 افراد زخمی ہوئے جن میں 54 شہری اور 80 سیکورٹی فورسز کے اہلکار شامل تھے، جون 2015 کے بعد پہلی بار ملک کو ایک ماہ میں 58 حملوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، ریاست مخالف پرتشدد کارروائیوں کی بڑھتی ہوئی رفتار فروری میں جاری رہی کیونکہ جنوری کے مقابلے میں فروری میں 32 فیصد زیادہ حملے ریکارڈ کیے گئےتھے، تاہم جنوری کے مقابلے میں ہلاکتوں کی تعداد میں 56 فیصد کمی واقع ہوئی تھی, جنوری میں سب سے زیادہ اموات پشاور پولیس لائن خودکش حملے کی وجہ سے ہوئی تھیں، اس حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’خودکش حملوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا لیکن ان کے اثرات اتنے تباہ کن ثابت نہ ہوئے جتنے جنوری میں تھے، فروری 2023 میں 3 خودکش حملے رپورٹ ہوئے تھے جن میں 9 افراد شہید اور 37 زخمی ہوئے تھے، جنوری میں 2 خودکش حملوں میں 106 افراد شہید اور 216 زخمی ہوئےتھے۔فروری میں خیبرپختونخوا میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں نمایاں کمی دیکھی گئی جبکہ سابقہ فاٹا ,کے پی کے قبائلی اضلاع اور بلوچستان میں حملوں میں اضافہ ہواتھا۔ پنجاب اور سندھ میں بھی حملوں کی تعداد میں اضافہ ہواتھا، کراچی پولیس ہیڈ کوارٹر پر کالعدم ٹی ٹی پی کا حملہ فروری کے مہینے میں سب سے زیادہ ہائی پروفائل حملہ تھا۔ فروری میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے عسکریت پسند گروپوں کے خلاف اپنی کارروائیوں میں مزید اضافہ کیا اور کم از کم 55 مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا تھا، ملک بھر سے کم از کم 75 مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار بھی کیا گیا تھا، ملزمان کی اکثریت پنجاب اور خیبرپختونخوا سے گرفتار کی گئی تھی ۔ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ عسکریت پسندوں کے حملے بلوچستان میں رپورٹ ہوئے جہاں کم از کم 22 حملے میں 25 افراد شہید اور 61 زخمی ہوئے۔
فاٹا کو 16 حملوں کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں 16 افراد شہید اور 39 زخمی ہوئے، خیبرپختونخوا میں 13 حملے ہوئے جن میں 6 افراد ہلاک اور 8 زخمی ہوئے۔ پنجاب میں عسکریت پسندوں کے 4 حملے ہوئے جن میں 2 افراد شہید اور 8 زخمی ہوئے جبکہ سندھ میں 3 مبینہ عسکریت پسند حملوں میں 10 افراد ہلاک اور 18 زخمی ہوئےتھے. یاد رہے کہ مارچ کے دوران ملک بھر میں 39 عسکریت پسند حملے ہوئے تھے جن میں 58 افراد شہید 73 افراد زخمی ہوئے۔ فروری کے برعکس مارچ میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 36 فیصد کمی آئی تھی۔ اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں مارچ کے دوران عسکریت پسندوں کے حملوں کی تعداد میں 50 فیصد کمی دیکھی گئی لیکن ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا، عسکریت پسندوں نے مارچ میں 11 حملے کیے جن میں 28 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 35 افراد زخمی ہوئے۔ مارچ میں ہونے والا واحد خودکش حملہ بھی بلوچستان کے علاقے بولان میں ہی ہوا تھا جس میں 10 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، اس حملے کی ذمہ داری عسکریت پسند گروپ داعش اور ایک نئی تنظیم تحریک جہاد پاکستان نے بھی علیحدہ علیحدہ طور پر قبول کی تھی۔ مارچ میں حملوں کی تعداد 37 رہی جس میں 57 افراد کی جانیں گئیں اور 72 افراد زخمی ہوئے، فروری میں 58 حملوں میں 59 افراد کی جانیں گئیں اور 134 افراد زخمی ہوئے تھے۔ مارچ میں خودکش بم دھماکوں میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی کیونکہ فروری میں 3 خودکش حملے ہوئے تھے جبکہ مارچ میں صرف ایک حملہ رپورٹ ہواتھا ۔ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں سیکیورٹی کی صورتحال میں سب سے نمایاں بہتری دیکھی گئی، فروری میں 16 حملوں کے برعکس مارچ میں 6 عسکریت پسند حملے ریکارڈ کیے گئے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 16 سے گھٹ کر 5 ہو گئی۔ خیبرپختونخوا میں عسکریت پسندی میں اضافہ دیکھنے میں آیا جہاں 16 حملے ہوئے جن میں 21 افراد مارے گئے اور 30 افراد زخمی ہوئے، فروری میں 13 حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں 6 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھےاور 8 زخمی ہوئے۔ مارچ کے دوران پنجاب میں عسکریت پسندوں کے کسی حملے کی اطلاع نہیں ملی جبکہ سندھ میں 4 حملے ہوئے جن میں 3 افراد جان سے گئے، فروری میں سندھ میں 3 حملے ہوئے جن میں 10 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 18 زخمی ہوئے۔ مارچ کے دوران پنجاب، اسلام آباد، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں کسی بھی عسکریت پسند گروہ کی سرگرمیوں کی اطلاع نہیں ملی۔ مارچ میں سیکیورٹی فورسز نے کم از کم 25 آپریشنز کیے اور کئی حملوں کو کامیابی سے ناکام بنایا، چمن میں ایک کمپاؤنڈ سے 10 خودکش جیکٹس، 15 اینٹی ٹینک بارودی سرنگیں، دیسی ساختہ بموں سمیت اسلحہ اور گولہ بارود کا بڑا ذخیرہ پکڑا گیا۔ ایک کارروائی میں سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں 11 فروری کو ہونے والے خودکش حملے کے ایک سہولت کار کو ہلاک کر دیا، رپورٹ کے مطابق خفیہ ایجنسی کی اطلاعات پر مبنی آپریشن کے نتیجے میں 35 مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا گیا جبکہ 38 کو ہلاک کر دیا گیا تھا ۔ رواں برس اپریل کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں 23 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا تھا اپریل میں عسکریت پسندوں نے 48 حملے کیے جن کے نتیجے میں 68 افراد شہید اور 55 افراد زخمی ہوئےتھے۔ مارچ کے مقابلے میں اپریل میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 23 فیصد اضافہ ہوا تھا، ہلاکتوں کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ جبکہ زخمیوں کی تعداد میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی، ان حملوں کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز کو پہنچنے والے جانی نقصانات میں بھی 35 فیصد اضافہ دیکھا گیا تھا, اپریل میں سیکیورٹی فورسز نے بھی عسکریت پسند گروہوں کے خلاف اپنی کارروائیوں میں اضافہ کیا جس کے نتیجے میں کم از کم 41 عسکریت پسند ہلاک اور 40 گرفتار کرلیے گئے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کا مرکز رہا تھا جہاں انہوں نے 30 عسکریت پسندوں کو ہلاک اور 14 کو گرفتار کرلیا تھا ۔ خیبرپختونخوا دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ رہا تھا جہاں اپریل میں ہونے والے 49 فیصد حملے رپورٹ کیے گئے۔ اپریل کے دوران خیبرپختونخوا میں عسکریت پسندوں نے 33 حملے کیے جن میں 45 افراد شہید، ان میں سیکیورٹی فورسز کے 23 اہلکار، 17 عسکریت پسند اور 5 عام شہری شامل تھے، ان حملوں میں زخمی ہونے والے 32 افراد میں سیکیورٹی فورسز کے 17 اہلکار اور 10 شہری شامل تھے۔ ان میں سے 19 حملے خیبرپختونخوا میں رپورٹ ہوئے جبکہ 14 حملے خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع (سابق فاٹا) میں رپورٹ ہوئے۔ قبائلی اضلاع میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 100 فیصد اضافہ دیکھا گیا، مارچ کے دوران پی آئی سی ایس ایس نے قبائلی اضلاع میں 7 حملے رپورٹ کیے تھے جبکہ اپریل میں یہ تعداد بڑھ کر 14 ہو گئی تھی, اپریل کے دوران بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی جانب سے 13 حملے کیے گئےتھے جن میں جن میں سیکیورٹی فورسز کے 11 اہلکاروں اور 9 عام شہریوں سمیت 21 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ان حملوں میں 21 شہریوں اور 2 سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 23 افراد زخمی ہوئے، پنجاب اور سندھ میں اپریل کے دوران عسکریت پسندوں کی جانب سے صرف ایک، ایک حملہ کیا گیا تھا۔ ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز آئی ایس پی آر کے مطابق خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر سیکیورٹی فورسز روزانہ تقریباً 70 آپریشنز انجام دے رہی ہیں۔ رواں برس کے ابتدائی 4 ماہ کے دوران سیکیورٹی فورسز نے لگ بھگ ایک ہزار 400 مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا اور 188 سے زائد کو ہلاک کیا تھا ۔ یاد رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حکومت کے ساتھ جون 2022 میں طے پانے والا سیز فائر ختم کرتے ہوئے اپنے دہشت گردوں کو ملک بھر میں حملوں کا حکم دے دیا تھا ۔ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’تحریک طالبان پاکستان کی وزارت دفاع تحریک کے تمام گروپ لیڈرز، مسئولین تحصیل اور والیان کو حکم دیا جاتا ہے کہ ملک بھر میں جہاں بھی آپ کی رسائی ہوسکتی ہے حملے کریں‘۔پاکستان کے عوام کو مخاطب کرکے کالعدم ٹی ٹی پی نے کہا تھا کہ ’ہم نے بارہا آپ کو خبردار کیا اور مسلسل صبر سے کام لیا تاکہ مذاکراتی عمل کم از کم ہماری طرف سے سبوتاژ نہ ہو، مگر خفیہ ادارے باز نہ آئے اور حملے جاری رکھے‘۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ’اب ملک بھر میں ہمارے انتقامی حملے بھی شروع ہوں گے‘۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا تھا ۔ یاد رہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستانی حکومت کے مذاکرات گزشتہ اکتوبر2021 میں شروع ہوئے تھے لیکن دسمبر میں معطل ہوگئے تھے۔ بعد ازاں مئی 2022 میں یہ مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے لیکن اختلاف رائے کی وجہ سے ناکامی ہوئی کیونکہ ان کا مطالبہ تھا کہ خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کی حیثیت ختم کردی جائے۔ مذاکرات میں ناکامی کے نتیجے میں کالعدم ٹی ٹی پی نے حملے شروع کردیئے جن میں اکثر حملے خیبرپختونخوا کے اضلاع ڈیرہ اسمٰعیل خان، ٹانک، جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان میں ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ جیسے ہی مفتی تقی عثمانی کی قیادت میں علمائے کرام کا 8 رکنی وفد ٹی ٹی پی قیادت اور افغان طالبان سے ملاقاتوں کے بعد افغانستان سے واپس پہنچاقبائلی عمائدین اور دیگر کا ایک 17 رکنی وفد ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے کابل گیا تھا۔علمائے کرام کے وفد سے وابستہ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ تقی عثمانی جن کا احترام افغان طالبان اور ٹی ٹی پی اراکین بھی کرتے ہیں، عسکریت پسند گروپ کو یہ بآور کرانے میں کامیاب رہے تھے کہ انہوں نے پاکستان کے آئین پر نظرثانی کی ہے اور اس میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جسے غیر اسلامی قرار دیا جا سکے۔
حکومت پاکستان کے مذاکرات کاروں نے واضح کیا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے ہونے والا انضمام قابل بحث نہیں اور قبائلی لوگ اس کے اصل اور اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ یاد رہے کہ 12 نومبر 2021 کوافغان عبوری وزیر خارجہ نے پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مابین عارضی جنگ بندی معاہدے کو خوش آئند قرار دیا تھا ۔امیر خان متقی نے اسلام آباد میں آئی ایس ایس آئی میں سیمینار سے خطاب میں پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات کے لیے سہولت کاری کی بھی تصدیق کی تھی۔یاد رہے پاکستانی حکام نے کہا تھا کہ ملک میں تقریباً 2 دہائیوں سے جاری عسکریت پسندی کے خاتمے کی غرض سے ایک وسیع تر امن معاہدے کے لیے کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ عارضی مفاہمت ہوگئی ہے۔29 مئ 2022کوقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ نے افغانستان سے تعلق رکھنے والی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات کے بارے میں یاد دہانی کرواتے ہوئے خبردار کیا تھا ملک میں جاری امن مذاکرات کی کامیابی کے امکانات ’کم‘ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے تقریباً 4 ہزار جنگجو پاکستان اور افغانستان سرحد سے متصل جنوبی مشرقی اور مشرقی علاقوں میں مقیم ہیں اور یہاں غیر ملکی جنگجوؤں کا ایک بڑا گروپ تشکیل دیا گیا ہے۔1988 کی سالانہ رپورٹ میں طالبان سینکشنز کمیٹی کی نگراں ٹیم نے مطلع کیا ہے کہ ٹی ٹی پی، افغان طالبان کے ساتھ منسلک ہے۔رپورٹ میں درحقیقت طالبان کی اندرونی سیاست، ان کی مالی معاونت، القاعدہ، داعش اور دیگر عسکریت پسند جماعتوں کے ساتھ ان کے تعلقات اور اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کی پابندیوں پر توجہ مبذول کروائی گئی تھی, یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی تھی جب حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کے تیسرے مرحلے کا آغاز ہوا تھا۔ پاکستان اور کالعدم تنظیم کے درمیان مذاکرات کا پہلا مرحلہ سال 2021شروع ہوا تھا جس کے نتیجے میں ایک ماہ تک جنگ بندی جاری رہی تھی، تاہم کالعدم ٹی ٹی پی نے اسلام آباد پر معاہدے میں کیے گئے وعدے پورے نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے جنگ بندی ختم کردی تھی۔ بعد ازاں ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستانی فورسز پر دوبارہ حملے شروع کردیے گئے تھے،