اسلام آباد(ٹی این ایس) آٹھ اکتوبر 2005 پاکستان میں تباہ کن زلزلے کے 18 برس مکمل

 
0
157

…..ک,,,,,,,..8 اکتوبر 2005کے قیامت خیز زلزلے کو 18برس بیت گئے، صبح 8 بج کر 52 منٹ پر رمضان المبارک کے مہینے میں مظفرآباد، باغ، وادی نیلم، چکوٹھی اور دیگر علاقوں میں 7.6 شدت کا زلزلہ آیا , پاکستانی قوم اس سلسلے میں آج اپنے پیاروں کی 18ویں برسی آج منارہی ہے۔ زلزلے کا مرکز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے 95 کلومیٹر دور اٹک اور ہزارہ ڈویژن کے درمیان تھا، زلزلے کے نتیجے میں لاکھوں مکانات زمین بوس ہوگئے ہزاروں افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ گئے، زلزلے سے اسلام آباد کے مارگلہ ٹاورز کا ایک بھی حصہ زمین بوس ہو گیا تھا۔ آج کے دن نہ صرف ہلاک ہونے والوں کو یاد کرنا چاہیے بلکہ یہ دن ہماری توجہ اِس جانب بھی دلاتا ہے کہ ہم ایسی کسی آفت سے نمٹنے کے لیے کتنے تیار ہیں۔ آٹھ اکتوبر 2005 کو آزاد کشمیر اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں سات عشاریہ چھ کی شدت کا زلزلہ آیا جس کی اولین ریسکیو ٹیم کے ساتھ بطور چیف والنٹیر دورافتادہ علاقوں کی امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے کا بھی اعزاز حاصل رہا ۔اُس روز میں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ پوری قوم کو صدمے میں دیکھا۔ اُس کے بعد عزم اور یکجہتی کا زبردست مظاہرہ دیکھا۔ اس زلزلے میں تقریباً 85 ہزار ہلاک اور ایک لاکھ 6 ہزار زخمی ہو ہوئے تھے۔ سوشل میڈیا پر لوگ اس افسوسناک دن کے بارے میں تبصرے کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے ذاتی تجربات کو بیان کر رہے ہیں تو کچھ پورے ملک پر پڑنے والے اثرات کا ذکر کر رہے ہیں۔ یہ بھی یاد کیا جا رہا ہے کہ کس طرح پورے ملک میں لوگوں نے متاثرہ خاندانوں کی امداد میں حصہ لیا۔ تباہی کی تصاویر سوشل میڈیا پر جابجا موجود ہیں۔ زلزلے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے زمین کا ایک سرا ایک طرف سے آسمان کو چھو کر واپس زمین کی طرف آتا ہے اور پھر دوسرا سرا آسمان کی طرف اٹھ جاتا ہے مجھے زلزلے کی تباہ کاریوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا، گری پڑی عمارتیں، ٹوٹے ہوئے پل، لینڈ سلائیڈنگ کے مناظر تباہی کی تمام داستان سنا رہے تھے۔ زلزلے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے زمین کا ایک سرا ایک طرف سے آسمان کو چھو کر واپس زمین کی طرف آتا ہے اور پھر دوسرا سرا آسمان کی طرف اٹھ جاتا ہے۔کلمہ طیبہ کا ورد سب کی زبانوں پر جاری تھا۔ تھوڑی دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
زلزلے کے جھٹکے تھم جانے کے بعد بھی دل کے ڈھڑکنیں تیز تھیں اور ایک انجانا سا خوف اٹھ رہا تھا۔یہ کشمیر اور پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ تھا جس نے کشمیر کے تین اضلاع کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ کئی روز تک آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری رہا اور مجموعی طور پر 978 آفٹر شاکس ریکارڈ کیے گئے۔ اس زلزلے میں تقریباً 70 ہزار افراد ہلاک ہوئے جبکہ ایک لاکھ 30 ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق زلزلے سے بےگھر ہونے والے افراد کی تعداد 3.5 ملین تھی۔ زلزلے میں 19 ہزار بچے فوت ہوئے جن کی اموات زیادہ تر سکولوں کی عمارتیں گرنے سے ہوئیں۔ تقریباً اڑھائی لاکھ کے قریب مویشی بھی ہلاک ہوئے۔ غرض یہ کہ زلزلہ دہ علاقوں کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ان علاقوں میں شدید سردی کی وجہ سے زندہ بچ جانے والوں کا جینا اور بھی مشکل ہوگیا۔ کشمیر کے دیگر علاقوں، پاکستان، تارکینِ وطن پاکستانی و کشمیریوں اور عالمی برادری نے اس زلزلے پر فوری طور پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امدادی کارروائیاں شروع کیں اور زلزلہ زدہ علاقوں میں لوگوں کو ٹینٹ، خوراک، گرم کپڑے، پینے کا صاف پانی اور دیگر ضروریات زندگی کو فی الفور پہنچانے کے لیے اقدام اٹھائے گئے۔ ان کارروائیوں میں سب سے زیادہ حصہ پاکستان کی بہادر افواج کا تھا جنہوں نے 24 گھنٹے کام کرکے اپنے متاثرہ بھائیوں کی مدد کی۔آٹھ اکتوبر کے ہولناک زلزلے کو 18 سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ جواں ہمت متاثرین زلزلہ نے اپنی مدد آپ کے تحت دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑنے ہونے کی ایک عظیم مثال قائم کی ہے۔ مسلسل شیلٹروں میں گزارنے کے باوجود ان کی ہمت اور حوصلے جواں ہیں۔آٹھ اکتوبر کے زلزلے کے اثرات متاثرہ لوگوں اور ہمارے دلوں پر آج بھی ہیں۔ اُس دن سے پہلے مجھے تباہ کن زلزلوں کے اثر کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔رپورٹ کے مطابق ریکٹر اسکیل پر یہ زلزلہ زیر زمین 15 کلومیٹر کی گہرائی میں آیا جس کی شدت7 اعشاریہ6 ریکارڈ کی گئی تھی، تباہ کن زلزلے سے بالاکوٹ کا95 فیصد انفراسٹرکچر تباہ ہوا جبکہ مظفرآباد ، باغ، ہزارہ اور راولاکوٹ میں ہزاروں افراد متاثر ہوئے۔ 8اکتوبر2005 کےزلزلے میں خیبرپختونخوا کے 554 اسکولز تباہ ہوئے تھے،مانسہرہ کے 161 اسکولز بھی متاثر ہوئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں 354 اسکولوں کی تعمیر نو تاحال نہ ہوسکی،فنڈز کی کمی کی وجہ سے ایرا نے کام ادھورا چھوڑ دیا تھا، صوبائی حکومت اب تک 200 اسکولوں کی تعمیر نو کرچکی ہے،باقی اسکولوں میں بھی تعمیراتی کام جاری ہے۔

8اکتوبرکے زلزلے سے 5لاکھ افراد بے گھر بھی ہوئے تھے، اس زلزلے میں مظفرآباد کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا جبکہ مظفر آباد میں مکانات، اسکولز، کالجز، دفاتر، ہوٹلز، اسپتال، مارکیٹیں، پلازےملبے کا ڈھیر بن گئے تھے۔اسپیکر قومی اسمبلی و سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ 8 اکتوبر 2005 کا زلزلہ پاکستانی قوم کے لیے ایک آزمائش تھی اور قوم نے اس آزمائش کے وقت میں جس اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا وہ مثالی تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس زلزلے کی تباہ کاریوں اور اس کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کو ہم آج تک نہیں بھولے اور ان خاندانوں جن کے پیارے اس قدرتی آفت کے دوران ان سے بچھڑ گئے ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے 8 اکتوبر 2005کے زلزلے کی 18ویں برسی کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں کیا۔اسپیکر نے کہا کہ 8 اکتوبر کے زلزلے کے دوران پوری قوم اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی ہو گئی تھی۔ متاثرین کی بحالی ایک مشکل مرحلہ تھا تاہم قومی اتحاد اور یکجہتی اور دوست ممالک کے تعاون سے بحالی کا یہ مشکل کام ممکن ہوا۔

اسپیکر نے مزید کہا کہ آج بھی قوم کو 8 اکتوبر کے زلزلے کے بعد والے اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری قوم نے جس طرح زلزلے جیسی بڑی آفت کا جانفشانی سے مقابلہ کیا، اسی طرح آپس کے اختلافات کو بھلا کر ملک کو درپیش چیلنجز سے بھی چھٹکارا پایا جا سکتا ہے ۔اسپیکر قومی اسمبلی نے اللّه تعالی سے 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے میں شہید ہونے والوں کے درجات کی بلندی اور وطن عزیز کو ایسی آفات سے محفوظ رکھنے کی دعا کی۔