اسلام آباد(ٹی این ایس) وفاقی حکومت نے نیب ترامیم کیخلاف فیصلہ چیلنج کردیا

 
0
60

وفاقی حکومت نے نیب ترامیم فیصلہ کیخلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ چیلنج کردیا، اور پریکٹس پروسیجر قانون کے تحت اپیل دائر کردی ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے نیب ترامیم فیصلے کیخلاف فیصلہ چیلنج کردیا ہے، اور حکومت نے پریکٹس پروسیجر قانون کے تحت سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے، جس میں فیڈریشن، نیب اور چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بنایا گیا ہے۔
سپریم کورٹ سے اپیل میں نیب ترامیم کیخلاف فیصلہ کالعدم قرار دینے اور نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف پیش کیا گیا ہے کہ نیب ترامیم سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں۔
اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے، اور سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمان اختیار پر تجاوز ہے۔
واضح رہے کہ 15 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کیا تھا، جس میں نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سُناتے ہوئے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست کو قابل سماعت قرار دیا جس کے بعد مختلف سیاستدانوں کے خلاف نیب کے مقدمات بحال ہوگئے۔3 رکنی بینچ نے فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سُنایا۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔
نیب ترامیم کیس کا تحریری فیصلہ
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے، 58 صفحات پر مشتمل فیصلے میں اکثریتی فیصلہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا، جب کہ جسٹس منصور علی شاہ نے 2 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ لکھا جو تحریری فیصلے میں شامل ہے۔
تحریری فیصلے میں نیب سیکشن 3 اور سیکشن 4 سے متعلق ترامیم کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، فیصلے میں کرپشن اور بے ایمانی کی تعریف کے حوالے سے کی گئی ترمیم بھی کالعدم قرار دے دی گئی، جب کہ سروس آف پاکستان کے خلاف دائر ریفرنسز کیلئے سیکشن 9 اے فائیو میں کی گئی ترمیم برقرار رہے گی۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ میں رہنا یا نہ رہنا سیاسی فیصلہ ہے، عدالت سیاسی جماعتوں کے سیاسی فیصلوں کا جائزہ نہیں لے سکتی۔
عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ نیب ترامیم آرٹیکل 9 ، 14 ، 24 اور 25 متصادم ہیں، پارلیمنٹ نے ترامیم کے ذریعے 50 کروڑ سے کم کرپشن معاف کرکے عدلیہ کا اختیار استعمال کیا، این آر او کیس میں بھی عدالت کا موقف تھا کہ کیسز عدلیہ ہی ختم کر سکتی ہے، درخواست اس بنیاد پر مسترد کرنا غیر مناسب ہے کہ ترامیم کی پارلیمنٹ میں مخالفت نہیں کی گئی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پلی بارگین میں عدالتی اختیار کو ختم کرنا عدلیہ کی آزادی اور آئین کے آرٹیکل 175/3 کے بر خلاف ہے، نیب قانون میں مجرم اور پلی بارگین کرنے والے عوامی عہدے کیلئے نااہل قرار دیے گئے ہیں، پلی بارگین کے ملزمان کو رعایت دینا خود نیب قانون کی سیکشن 15 کیخلاف ہے۔
فیصلے کے مطابق پارلیمنٹ کی جانب سے نیب قانون سے خامیاں دور کرنے کی کوشش قابل ستائش ہے، بیوروکریسی کو غیر ضروری حراساں کرنے سے روکنے کی حد تک ترامیم اچھی کاوش ہے، لیکن ترامیم سے عوامی نمائندوں کو احتساب سے استثنی بھی دیا گیا۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیب قانون میں کرپشن کی حد 50 کروڑ تک کرنا عوامی نمائندوں کو معافی دینے کے مترادف ہے، معافی کا اختیار صرف عدالت یا سزا کے بعد صدر مملکت کو ہے، پارلیمنٹ نے ترامیم کے ذریعے 50 کروڑ سے کم کی کرپشن معاف کرکے عدلیہ کا اختیار استعمال کیا، اور 598 ریفرنسز میں سے صرف 54 ریفرنسز دیگر عدالتوں کومنتقل ہوئے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کرپشن کے بیشتر ملزمان کے اثاثے بیرون ملک موجود ہیں، آمدن سے زائد اثاثوں پر حساب نہ ہو تو عوام کا کرپشن کی نذر ہونے والا پیسہ ریکور نہیں ہوسکے گا۔
کون سی ترامیم کالعدم قرار دی گئیں
سپریم کورٹ نے ختم کیے گئے تمام نیب مقدمات بحال کرتے ہوئے 10 میں سے ایک کے علاوہ تمام ترمیم کو کالعدم قرار دیا۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کی متعدد شقوں کوآئین کے برعکس قراردیا عوامی عہدوں کے ریفرنس ختم ہونے سے متعلق نیب ترامیم کو بھی کالعدم قراردیا۔
بے نامی کی تعریف ،آمدن سے زائد اثاثوں کی تعریف ،بارثبوت استغاثہ پرمنتقل کرنے اورپلی بارگین کے حوالے سے ترمیم کالعدم قرار دے دی گئیں۔
آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقراررہیں گی۔