اسلام آباد(ٹی این ایس) آرمی چیف کی سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ سے ملاقات میں مسئلہ کشمیرپر گفتگو

 
0
109

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دورہ امریکہ کے دوران نیویارک میں واقع اقوام متحدہ کےہیڈ کوارٹر میں سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس سے ملاقات کی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے آرمی چیف کا پرتپاک استقبال کیا اور پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دستوں کے کردار کو سراہا جو دنیا کے امن و استحکام کے لیے پرعزم ہیں۔
ملاقات کے دوران آرمی چیف نے اقوام متحدہ کی تمام سنجیدہ کوششوں میں پاکستان کی مسلسل حمایت کا اعادہ کیا۔ آرمی چیف نے بات چیت کے دوران خاص طور پر کشمیر اور غزہ کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی۔ آرمی چیف نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں قیامِ امن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق کشمیر کے دیرینہ مسئلے کے پُرامن حل سے مشروط ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے کی یکطرفہ اور غیرقانونی بھارتی کوششوں کی بھی مذمت کی کیونکہ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ آرمی چیف نے مسئلہ فلسطین پر پاکستان کے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کا پائیدار حل دو ریاستی حل میں مضمر ہے، انہوں نے سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ غزہ میں شورش کے فوری خاتمے کے لیے عالمی برادری کو متحرک کریں تاکہ انسانی المیے کو رونما ہونے سے روکا جا سکے۔ آرمی چیف نے خاص طور پر ان معصوم شہریوں کی حالت زار پر گہری تشویش کا اظہار کیا جنہیں بےدردی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور انہیں خاطر خواہ انسانی امداد فراہم نہیں کی جا رہی۔ بتایا گیا ہےکہ انتونیو گوتیرس نے آرمی چیف کے خدشات کو تسلیم کیا اور اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کے دورے پر جنرل سید عاصم منیر کا شکریہ ادا کیا۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جموں و کشمیر کے تنازع پر ایک درجن سے زائد قراردادیں منظور کر چکی ہے جس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ یکم جنوری 1948 کو بھارت اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 35 کے تحت یہ معاملہ سلامتی کونسل میں لے گیا۔20 جنوری 1948 کو سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 39منظور کی جس کے تحت شکایات کی تحقیقات کیلئے تین رکنی کمیشن قائم کیا جانا تھا۔ تاہم یہ کمیشن مئی 1948 تک عمل میں نہیں لایا جا سکا۔ جب تک کمیشن حقیقت میں کوئی کام کر پاتا، خطے کی سیاسی اور عسکری صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہو چکی تھی۔ پاکستان اور ہندوستان کے دلائل سننے کے بعد سکیورٹی کونسل نے 21 اپریل 1948 کو ایک نئی قرارداد منظور کی جس کے تحت پانچ ارکان پر مشتمل ایک نیا کمیشن بنایا گیا جس کا مقصد بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کی مدد کے ساتھ خطے میں امن و امان بحال کرنا اور کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے رائے شماری کی تیاری کرنا تھا لیکن یہ بھی بے سود رہا۔ پاکستانی اور ہندوستانی مندوبین کے مؤقف کی تفصیلی سماعت کے بعد مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کمیشن نے 5 جنوری 1949ء کو مسئلہ کشمیر پر اپنی جامع قرارداد منظور کی جسے ہندوستان اور پاکستان نے اتفاق رائے سے قبول کیا۔ اس قرار داد کی رو سے دونوں ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے مجوزہ کمشنر رائے شماری سے تعاون کریں تاکہ ریاست میں جلد از جلد کمیشن آزادانہ رائے شماری کا انعقاد کر سکے۔ جنگ بندی کے عمل کو مانیٹر کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے دونوں ممالک کی منظوری سے مبصرین تعینات کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ قبل ازیں 13 اگست1948 کو بھی اس مسئلے کے حوالے سے ایک قرار داد منظور کی گئی ، جس میں فی الفور سیز فائر کا مطالبہ کیا گیا۔ سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر47 ( 1948 ) میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جموں و کشمیر کی آزادی یا پاکستان اور ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ آزادانہ و غیرجانبدارانہ رائے شماری یعنی جمہوری طریقے سے ہو گا۔ قرارداد نمبر51 ( 1948 ) بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے تنازع کے جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ قرارداد نمبر80 ( 1948 ) جموں و کشمیر کے تنازع کا حل اور حتمی تصفیے کا جمہوری طریقے اور عوام کی امنگوں کے مطابق ہونے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ قرارداد نمبر91 (1951 ) بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ کشمیر میں بھارت کے زیر انتظام قائم کی گئی اسمبلی کی طرف سے ریاست جموں کشمیر کے مسئلے کا پیش کیا گیا کوئی بھی حل حتمی فیصلہ تصور نہیں ہو گا۔ قرارداد نمبر 98 (1952 )کے ذریعے اعلان کیا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہونے والی آزادانہ و غیر جانبدارانہ رائے شماری سے ہی کیا جائے گا۔ قرارداد نمبر 122 (1957 ) میں ایک مرتبہ پھر یہ عہد دہرایا گیا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے قائم کی گئی آئین ساز اسمبلی کا منظور کردہ کوئی بھی قانون یا آئین خطے کے مستقبل یا اس کی کسی ایک ملک کے ساتھ وابستگی کا تعین نہیں کرے گا۔ قرارداد نمبر 1172 (1998 ) کے تحت پاکستان اور بھارت کو تاکید کی گئی کہ وہ باہمی تنازعات کو دور کرنے، امن و امان اور سلامتی سے متعلق تمام معاملات کے دیرپا حل کیلئے آپس میں بات چیت کا دوبارہ آغاز کریں، ہندوستان کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ کشمیری خود یا پاکستان اقوام متحدہ کی ان قراردادوں سے دستبردار ہو جائے، بالخصوص شملہ معاہدے کے بعد وہ بین الاقوامی برادری کو یہی باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ مسئلہ دو طرفہ ہے اور اب یہ قراردادیں غیر متعلق ہو گئی ہیں ، بہرحال کشمیری یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ان قراردادوں کی روح کے مطابق ان کے حق خود ارادیت کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔ ان قراردادوں کی رو سے مسئلہ کشمیر محض زمین کا جھگڑا نہیں ، بلکہ دو کروڑ کشمیریوں کے بنیادی حق کا مسئلہ ہے جسے سبوتاژ نہیں کیاجا سکتا ۔ 5جنوری یوم حق خودارادیت کا تاریخ ساز دن کشمیری عوام اور قیادت کو عزم اور استقامت کے ساتھ اپنی منصفانہ جدوجہد جاری رکھنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ اس دن کومنانے کا مقصد اقوام متحدہ کو قراردادوں پر عمل درآمد کی یاد دہانی کرانا ہے، جن کے ذریعے کشمیریوں کوحق خودارادیت دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ کشمیر پر پہلی جنگ کے بعد اس وقت شروع ہوئی جب انڈیا اس مسئلے کو اقوام متحدہ لے گیا۔ اقوام متحدہ کی 13 اگست 1948ء کی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ پہلے پاکستان اپنی فوجیں کشمیر نکالے گا۔ پاکستان نے یہ مطالبہ منظور کیا تھا لیکن 14 مارچ 1950ء کو سلامتی کونسل نے قرارداد پاس کی تھی کہ اب دونوں ملک بیک وقت فوجوں کا انخلاء شروع کریں گے۔ 13 اگست 1948ء کی قرارداد میں کہا گیا کہ جب پاکستان اپنی فوج اور قبائلیوں کو نکال لے گا تو یہاں کا انتظام مقامی انتظامیہ سنبھالیں گی اور کمیشن ان کی نگرانی کرے گا۔اس قرارداد میں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ بھارت کو یہاں ساری فوج رکھنے کی اجازت ہو گی ۔ بلکہ قرار پایا کہ اس کے بعد بھارت بھی اپنی فوج کا بڑا حصہ “Bulk of its forces” یہاں سے نکال لے گا اور اسے صرف اتنے فوجی رکھنے کی اجازت ہو گی جو امن عامہ برقرار رکھنے کے لیے مقامی انتظامیہ کی مدد کے لیے ضروری ہوں۔جب اقوام متحدہ کے کمیشن نے دونوں ممالک سے قرارداد پر عملدرآمد کے لیے پلان مانگا تو بھارت نے دو مزید مطالبات کر دیے۔ ایک یہ کہ اسے سیز فائر لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شمال اور شمال مغرب کے علاقوں پر کنٹرول دیا جائے اور دوسرا یہ کہ آزاد کشمیر میں پہلے سے قائم اداروں کو نہ صرف مکمل غیر مسلح کر دیا جائے بلکہ ان اداروں کو ہی ختم کر دیا جائے، اس بات کا اعتراف جوزف کاربل نے اپنی کتاب ’ ڈینجر ان کشمیر ‘ کے صفحہ 157 پر کیا ہے۔جوزف کاربل کا تعلق چیکو سلواکیہ سے تھا اور یہ اقوام متحدہ کے کمیشن کے چیئر مین تھے اور کمیشن میں ان کی شمولیت بھارتی نمائندے کے طور پر ہوئی تھی ۔ جوزف کاربل نے اعتراف کیا کہ بھارتی موقف اقوام متحدہ کی قرارداد سے تجاوز کر رہا تھا ۔ پاکستان نے آزاد کشمیر سے فوج نکالنے پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کے مطابق بھارت جو ضروری فوج کشمیر میں رکھے گا اس کی تعداد اورتعیناتی کا مقام اقوام متحدہ کمیشن کو پیش کیا جائے۔ بھارت نے اس سے بھی انکار کر دیا۔اس پر کمیشن نے امریکی صدر ٹرومین اور برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی کی تجویز پر کہا کہ دونوں ممالک اپنا موقف پیش کر دیں جو ایک آربٹریٹر کے سامنے رکھا جائے اور وہ فیصلہ کر دے ۔ اقوام متحدہ کی دستاویزات کے مطابق پاکستان نے یہ تجویز بھی قبول کر لی لیکن بھارت نے اسے بھی رد کر دیا ۔ بھارت کے اپنے نمائندے نے اعتراف کیا کہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر بھارت کی وجہ سے عمل نہ ہو سکا۔ ان کے الفاظ تھے :
“a lack of goodwill on part of India” معاملے کے حل کے لیے سلامتی کونسل نے سلامتی کونسل ہی کے صدر مک ناٹن پر مشتمل ایک یک رکنی کمیشن بنایا ۔ اس کمیشن نے کہا کہ اب دونوں ممالک بیک وقت اپنی فوجیں نکالتے جائیں گے تا کہ کسی کو کوئی خطرہ نہ رہے۔ پاکستان نے یہ تجویز بھی قبول کر لی ۔ بھارت نے اس تجویز کو بھی رد کر دیا۔ یہاں دل چسپ بات یہ ہے کہ اس تجویز کو سلامتی کونسل نے 14 مارچ 1950ء کو ایک قرارداد کی شکل میں منظور کر لیا ۔ گویا اب اقوام متحدہ کی قرارداد یہ کہہ رہی ہے کہ دونوں ممالک بیک وقت فوجیں نکالنا شروع کریں گے۔ اقوام متحدہ اوون ڈکسن کو جو آسٹریلیا کے چیف جسٹس رہے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ۔ انہوں نے فوج کے انخلاء کی بہت سی تجاویز دیں ۔ پاکستان نے سب مان لیں ، بھارتی وزیر اعظم نے ایک بھی نہ مانی ۔ 1951ء میں بھارت نے کہا ہمیں خطرہ ہے اس لیے ہم فوج نہیں نکالیں گے۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم گورڈن منزیزنے مشترکہ فوج کی تجویز دی بھارت نے رد کر دی ۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی نگرانی میں مقامی فورس بنانے کی بات کی بھارت نے اسے بھی رد کر دیا ۔ انہوں نے کہا ہم کامن ویلتھ کی فوج بھیج دیتے ہیں، بھارت نے یہ تجویز بھی رد کر دی ۔ معاملہ ایک بار سلامتی کونسل چلا گیا۔ 30 مارچ 1951ء کو سلامتی کونسل نے امریکی سینیٹر فرینک پی گراہم کو نیا نمائندہ مقرر کر کے کہا کہ تین ماہ میں فوج کشمیر سے نکالی جائے اور پاکستان اور بھارت اس پر متفق نہ ہو سکیں تو عالمی عدالت انصاف سے فیصلہ کرا لیا جائے۔ فرینک صاحب نے چھ تجاویز دیں بھارت نے تمام تجاویز رد کر دیں ۔ خانہ پری کے لیے بھارت نے کہا وہ تو مقبوضہ کشمیر میں اکیس ہزار فوجی رکھے گا جب کہ پاکستان آزاد کشمیر سے اپنی فوج نکال لے ، وہاں صرف چار ہزار مقامی اہلکار ہوں ، ان میں سے بھی دو ہزار عام لوگ ہوں ، ان کا آزاد کشمیر حکومت سے کوئی تعلق نہ ہو ۔ ان میں سے بھی آدھے غیر مسلح ہوں ۔ گراہم نے اس میں کچھ ردو بدل کیا، پاکستان نے کہا یہ ہے تو غلط لیکن ہم اس پر بھی راضی ہیں ، بعد میں بھارت اس سے بھی مکر گیا ۔ سلامتی کونسل کے صدر نے ایک بار پھر تجویز دی کہ ’’ آربٹریشن ‘‘ کروا لیتے ہیں تا کہ معلوم ہو انخلاء کے معاملے میں کون سا ملک تعاون نہیں کر رہا ۔ پاکستان اس پر بھی راضی ہو گیا ، بھارت نے یہ تجویز بھی ردکر دی , اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 5 جنوری 1949 کو پاکستان اور ہندوستان کی رضامندی سے ایک قرار داد منظور کی جس میں کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے رائے شماری کا طریق کار طے لیا گیا۔کشمیری ہر سال 5 جنوری کو ”یوم حق خود ارادیت“ کے طور پر مناتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق منظور شدہ قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے کراتے ہوئے کشمیر کے سنگین مسئلے کو حل کیا جائے۔کشمیریوں کی جنگ آزادی میں اپنی پوزیشن کو کمزور دیکھتے ہوئے ہندوستان یکم جنوری 1948 کو کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گیا تھا۔ 15 جنوری 48 کو سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر بحث کا آغاز ہوا، 20 جنوری کو سلامتی کونسل نے کمیشن برائے ہندو پاک مقرر کیا اور 28 جنوری 48 کو سلامتی کونسل کے صدر نے اعلان کیا کہ ہندوستان اور پاکستان ریاست جموں وکشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے طے کرانے پر رضامند ہو گئے ہیں جو غیرجانبدار اور آزاد فضا میں اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو گا۔ 13 اگست 48 کو سلامتی کونسل کے کمیشن نے قرار داد کے حصہ اول میں جموں و کشمیر میں جنگ بندی سے متعلق طریقہ کار کا اعلان کیا، قرار داد کے حصہ دوم میں حلف نامہ کی شرائط کا اعلان کیا گیا۔ یکم جنوری 1949 کو کشمیر میں جنگ بندی کا اعلان ہو گیا اور 5 جنوری 1949 کو کمیشن نے دونوں فریقوں کی رضا مندی سے اپنی دوسری تاریخی قرارداد پیش کی اس کے پہلے حصہ میں جنگ بندی کا ذکر تھا جس پر عمل بھی ہو چکا تھا۔ اس میں ناظم استصواب رائے کے تقرر اور استصواب رائے کے طریقہ کار سمیت دیگر امور طے کیے گئے۔22 مارچ 49 کو دونوں ملکوں کی رضامندی سے ناظم استصواب کا تقرر عمل میں آ گیا اور 25 دسمبر 48 کو کمیشن نے دونوں حکومتوں کی رضا مندی کے ساتھ 13 اگست 48 کی قرارداد کی حصہ سوم کی شرائط طے کیں جس میں استصواب رائے سے متعلق دیگر امور دونوں ملکوں کی رضامندی سے طے کیے گئے۔ پاکستان نے قرار دادوں سے متعلق اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کر دیں لیکن ان قرار دادوں پر عملدرآمد کے وقت ہندوستان نے استصواب رائے سے فرار کی راہ اختیار کرتے ہوئے ان قرار دادوں کی ایک بھی شرط کو پورا نہیں کیا۔ ہم اس تمام صورتحال اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں کا جائزہ لیتے ہیں۔28 اکتوبر 47 کو جب بھارتی حکمرانوں نے اپنی فوجوں کو کشمیر میں ڈوگرہ راج کے گرتے ہوئے محل کو بچانے کے لئے پہنچا دیا تو اس وقت وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ چند دنوں کے اندر ریاست ”حملہ آوروں“ سے خالی ہو جائے گی۔ بات تھی بھی ٹھیک۔ جدید ترین سامان جنگ سے لیس بھارتی فوج کے مقابلہ میں آزاد مجاہدین کی ایک بے قاعدہ اور رضا کار جماعت لڑ رہی تھی۔ بھارتی فوج شخصی راج کی حفاظت اور عوام کو غلام بنانے کے ناپاک مقصد کو لئے ہوئے آئی تھی وہ ہوس ملک گیری سے سرشار تھے۔آزاد مجاہدین کا پلڑا بھاری رہا۔ چنانچہ انہوں نے بھارتی سورماؤں کو کشمیر کی گھاٹیوں اور پہاڑیوں میں بے بس کر کے رکھ دیا اور بھارتی ہر اول دستے کے کمانڈر کرنل رائے پہلے ہی معرکے میں ہلاک ہوا۔ جب آزاد فوج نے 8 نومبر 1947 کو شالہ ٹینگ سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا تو خوش فہم بھارتی یہ اعلان کر بیٹھے کہ اب مظفر آباد تک ان کو کوئی روکنے والا نہیں اور دوسرے دن مظفرآباد پہنچنے کا خواب دیکھنے لگے مگر جب آزاد فوج نے جنگی مصلحت کے پیش نظر اوڑی کے نزدیک اپنی دفاعی لائن قائم کی تو بھارتی سورما بسیار کوشش کے باوجود ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ امر بھارت ایسی فوجی طاقت کے لئے شرم کا مقام تھا اور اس بات نے بھارتی افواج کے وقار کو زبردست نقصان پہنچایا۔ ان حالات سے بے بس ہو کر بھارت نے اقوام متحدہ کی پناہ لی اور یکم جنوری 48 کو باقاعدہ طور پر مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں پیش کر دیا۔لنڈن کے اخبار ”ٹائم اینڈ ٹائیڈ“ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا، ”نہرو اب کشمیر کے جنجال سے نکلنا چاہتے ہیں اور سلامتی کونسل میں جاکر باعزت طریق سے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مشکلات کا اندازہ کیے بغیر افواج بھیج دی کہ امن قائم کریں گے۔ لیکن اب انہیں ایک جنگ کا سامنا ہے۔“ ۔ ایک اور اخبار ”اسپیکٹڈ“ نے لکھا، ”طوفان تو اسی دن سے ناگزیر ہو گیا تھا جب مسلم آبادی رکھنے والے کشمیر کے ہندو راجہ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا اور ہندوستان نے اسے قبول کیا“ ۔

بھارتی حکومت نے ان تین نکات پر مشتمل اپنا کیس سلامتی کونسل میں پیش کیا۔ 1۔ حملہ آوروں کو پاکستانی علاقے سے گزر نے نہ دیا جائے۔ 2۔ حملہ آوروں میں پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔ 3۔ حملہ آوروں کا بیشتر اسلحہ، فوجی رسد ذرائع نقل و حمل پاکستان کا مہیا کردہ ہے اور پاکستانی افسران ان کو تربیت دے رہے ہیں اور امداد کر رہے ہیں۔12 جنوری 48 کو نیویارک جاتے ہوئے پاکستان کے وفد کے لیڈر وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے اخباری نمائندوں سے کہا، ”ہم خوش ہیں کہ ہندوستان نے بین الاقوامی مداخلت کی خواہش کی ہے۔ ہم نہ صرف چاہتے ہیں بلکہ بے چین ہیں اس بات کے لئے کہ ریاست سے غیر ملکی فوجوں کو نکال دیا جائے اور مہاجرین کو واپس لاکر آزادانہ رائے شماری کرائی جائے۔ پاکستان کی دلی خواہش ہے کہ کشمیری عوام کو ان کی مرضی کے مطابق عمل کرنے دیا جائے“ ۔

بھارتی وفد کے لیڈر سر گوپال سوامی آئسنگر اور شیخ محمد عبداللہ اس وفد کے رکن تھے۔ حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے اس کے صدر سردار محمد ابراہیم خان نیویارک گئے۔ شیخ عبداللہ نے نیویارک میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”کشمیر نے ہندوستان سے الحاق کر کے اپنے حق آزادی کا استعمال کیا ہے اور یہ امر کہ اہل کشمیر پاکستان سے آنے والے حملہ آوروں سے نبردآزما ہیں اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا انتخاب ہندوستان کے حق میں ہے“ ۔ 15 جنوری 48 سے سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر بحث شروع ہوئی اور 20 جنوری کو ایک قرارداد میں ایک کمیشن برائے ہندو پاک مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا۔ کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان میں شامل ممبر ان یہ تھے۔ 1۔ ارجنٹائن کے ڈاکٹر ریکارڈوجے سری (پاکستان کا نامزد کردہ) 2۔ چیکو سلاواکیہ کے جوزف کا ربیل (بھارت کا نامزد کردہ) 3۔ بیلجیئم کے آیگرٹ گرایفے۔

 


4۔ کولمبیا کے ابزٹوجی فرینڈ ہنر۔ ( 5 ) امریکہ کے جے ہڈل۔ 28 جنوری 48 کو صدر سلامتی کونسل نے اعلان کیا کہ ہندوستان اور پاکستان ان تین نکات پر متفق ہو گئے ہیں۔ 1۔ ریاست جموں وکشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے طے ہو گا۔ 2۔ استصواب رائے مطلقا غیرجانبدار اور آزاد فضا میں کیا جائے گا۔ 3۔ استصواب رائے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہو گا۔

ایک طرف سلامتی کونسل میں بحث جاری تھی دوسری طرف بھارت نے کشمیر میں حریت پسندوں کے خلاف زبردست اور بڑے پیمانے پر جنگی کارروائی شروع کی اور اس سے آزاد مجاہدین ایک بڑا علاقہ خالی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس نازک صورتحال کے وقت آزاد کشمیر کے نگران اعلی چوہدری غلام عباس خان نے 11 مئی 48 کو اہل پاکستان کے نام مندرجہ ذیل اپیل جاری کی کہ ”پاکستان کی قسمت کشمیر سے اور کشمیر کی قسمت پاکستان سے وابستہ ہے دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا ورنہ تباہی یقینی ہے۔ اس لئے موقع آ چکا ہے کہ پاکستان ہماری عملی امداد کرے۔ اگر پاکستان نے عملی امداد اور رفقات کی شمع روشن ہمیں نہ دکھائی تو یہ ہو سکتا ہے کہ ہم اور آپ دونوں آنے والے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں راستہ بھول جائیں۔ ہمیں جو کچھ کرنا ہے جلد کرنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ وقت گزرنے پر کف افسوس آن پڑے“ ۔ (روزنامہ ”ڈان“ کراچی) ۔ آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد ابراہیم خان نے بھی ایک خط کے ذریعے صدر سلامتی کونسل کو اس نازک صورتحال سے آگاہ کر دیا۔ یہی وہ وقت تھا کہ پاکستان نے اپنی افواج کو کشمیر میں داخل ہونے کا حکم دیا کیونکہ بھارتی جنگی کارروائی سے خود پاکستان کی سرحدیں غیر محفوظ ہو گئیں تھیں۔ 4 جولائی 48 کو کشمیر کمیشن کراچی پہنچا اور اسی دن پاکستان کے وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ خان نے آزاد کشمیر میں پاکستانی افواج کی موجودگی کی اطلاع کمیشن کو دے دی۔ کمیشن نے 4 جولائی 48 سے لے کر 2 اگست 48 تک بھارت پاکستان مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کا دورہ کیا۔ انہوں نے بھارتی حکومت اور حکومت پاکستان کے ذمہ دار نمائندوں سے بات چیت کی۔ ان کے علاوہ انہوں نے شیخ محمد عبداللہ وزیراعظم مقبوضہ کشمیر چوہدری غلام عباس خان نگران اعلی آزاد کشمیر اور صدر آزاد کشمیر سردار محمد ابراہیم خان سے بھی ملاقاتیں کیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کمیشن کی قرار داد۔ 13 اگست 48 کو کمیشن نے دونوں فریقوں کی رضا مندی سے اس قرارداد کا اعلان کر دیا۔ حصہ اول۔ ( 1 ) ۔ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں ایک ہی وقت جنگ بندی کا حکم دیں گی۔ ( 2 ) ۔ دونوں جانب سے کوئی ایسا اقدام نہ ہو گا جس سے کشمیر میں ان کی فوجی طاقت میں اضافہ ہو۔ 2۔ کمیشن جنگ بندی پر عمل کرانے کے لئے فوجی مبصرین مقرر کرے گا۔ 3۔ دونوں حکومتیں اپنے عوام سے اپیل کریں گی کہ وہ گفت و شنید کے لئے فضا کو خوشگوار بنانے میں تعاون کریں۔

حصہ دوم۔ حصہ اول و متارکہ جنگ کی منظوری کے بعد دونوں حکومتیں ایک عارضی صلح نامہ کریں گی اس کی تفصیلات ان کے نمائندے اور کمیشن طے کرے گا۔ 1۔ حکومت پاکستان اپنی فوج واپس بلانے پر رضا مند ہے۔ 2۔ پاکستان اپنی بہترین مساعی ان قبائلیوں اور پاکستانی باشندوں کو واپس بلانے پر صرف کرے گا جو جنگ کی نیت سے کشمیر گئے ہیں۔ 3۔ آخری تصفیہ تک جو علاقہ پاکستانی فوج خالی کرے گی اس میں کمیشن کی نگرانی میں مقامی حکام کا نظم و نسق چلے گا۔

1۔ ب: جب کمیشن حکومت ہند کو یہ اطلاع دے گا کہ حصہ دوم الف نمبر 2 کے مطابق قبائلی اور پاکستانی شہری واپس بلائے گئے او رمزید یہ کہ پاکستان کی فوج ریاست سے واپس بلائی گئی تو حکومت ہند اس پر رضا مند ہے کہ اپنی فوج کا بیشتر حصہ کمیشن کے مشورے سے واپس بلائے گی۔ 2۔ آخری تصفیہ تک حکومت ہند متبارکہ جنگ کے اندر اپنی فوج کے وہ حصے باقی رکھے گی جو قیام نظم و نسق میں مقامی حکومت کو امداد دینے کے لئے ضروری ہوگی۔

3۔ حکومت ہند اس کی ذمہ دار ہوگی کہ حکومت ریاست جموں وکشمیر اپنے تمام اختیارات سے کام لے کر امن وامان کی کفیل رہے گی اور تمام انسانی حقوق کا تحفظ کرے گی۔ (ج) عارضی صلح نامہ کا پورا متن ایک اعلان کے ذریعے شائع کیا جائے گا۔ حصہ سوم۔ حکومت ہند و پاکستان اپنی اس خواہش کا اظہار کرتی ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کا مستقبل اہل ریاست کی مرضی سے طے کیا جائے گا۔ آزادانہ اظہار رائے عامہ کے لئے مطلوبہ منصفانہ اور مساویانہ حالات کا تعین کمیٹی سے مشورہ کے بعد کیا جائے گا۔مسلسل کئی ماہ کی بحث و تکرار کے بعد یکم جنوری 1949 کی رات کو کشمیر میں جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا اور اسی رات کو گیارہ بج کر 59 منٹ پر لڑائی بند کر دی گئی۔ 22 مارچ 49 کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ٹریگولی نے امریکی ایڈمرل چسٹرنمٹز کو ہندوستان و پاکستان کی رضا مندی سے ناظم استصواب نامزد کیا۔ 25 دسمبر 48 کو کمیشن نے دونوں حکومتوں کی رضا مندی کے ساتھ 13 اگست 48 کی قرارداد کی حصہ سوم کی شرائط پیش کیں۔ 1۔ ریاست جموں وکشمیر کے ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا سوال ایک آزادانہ و غیر جانبدارانہ استصواب رائے عامہ سے ہو گا۔ 2۔ ناظم استصواب کا یہ فرض ہو گا کہ وہ دیکھے کہ جائز سیاسی سرگرمیوں پر ریاست میں کوئی پابندی نہ ہو تمام ریاستی باشندے آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کر سکیں ریاست میں پریس پلیٹ فارم سفر اور جائز طور پر آنے جانے کی پوری پابندی ہو۔ تمام سیاسی قیدی رہا کر دیے گئے۔ 4۔ ریاست کے تمام حصوں کو اقلیتوں کو پورا تحفظ حاصل ہے۔ 5۔ کہ منتقمانہ کارروائی تو نہیں ہو رہی ہے۔ 6۔ استصواب کے خاتمہ پر ناظم استصواب نتیجے سے کمیشن اور حکومت ریاست جموں وکشمیر کو مطلع کردے گا۔ اس کے بعد کمیشن کے سامنے اس امر کی تصدیق کرے گا کہ آیا استصواب آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ہوا ہے یا نہیں۔

جب ان قراردادوں پر عمل کا وقت آیا تو بھارتی حکومت نے نت نئے مسائل پیدا کیے ۔ اس کے برعکس پاکستان نے 10 فروری 49 تک تمام قبائلی اور پاکستانی باشندے آزاد کشمیر سے واپس بلائے اور اس طرح کمیشن کی قرارداد کے اہم ترین حصہ پر عمل کیا۔ بھارت نے قراردادوں کی ایک شرط کو بھی پورا نہ کیا۔ اس کے بعد کمیشن کی ناکامی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سراون ڈکسن، ڈاکٹر گراہم اور مسٹر جارنگ کو ان بنیادی قراردادوں پر عمل کرانے اور اس سلسلے میں ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان اختلافات ختم کرانے کے لئے مقرر کیے ۔لیکن یہ سب نمائندے بھارت کے حکمرانوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ناکام ہو گئےہندوستان کشمیریوں کی طرف سے اقوام متحدہ کی منظور شدہ قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کے مطالبے پر مبنی تحریک کو دبانے کے لئے بدترین ظلم و ستم، قتل و غارت گری کرتے ہوئے انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں میں مصروف ہے۔ اس دوران ایک لاکھ سے زائد کشمیری ہندوستانی فورسز کے ہاتھوں ہلاک کیے گئے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں خواتین کی عصمت دری، جائیدادوں، عمارتوں کی تباہی، ہزاروں کی تعداد میں جیلوں میں قید اور ہزاروں کو معذور کیا جا چکا ہے جن میں بزرگ، خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال اور مسئلہ کشمیر کا حل کیا جانا اقوام عالم کے لئے بھی اھم حیثیت رکھتا ہے۔