اسلام آباد(ٹی این ایس) پاک ایران گیس منصوبے میں پیش رفت

 
0
38

کم و بیش دو دہائیوں سے جاری توانائی کے بحران سے نمٹنے کیلئے پاکستان نے ترکمانستان اور ایران سے پائپ لائن کے ذریعے قدرتی گیس حاصل کرنے کے منصوبے شروع کر رکھے ہیں جنھیں اب تک مکمل ہوجانا چاہئے تھا لیکن ایران پر عائد بین الاقوامی تجارتی پابندیوں اور پاکستان میں سیاسی کھینچا تانی کے باعث دونوں طویل عرصے سے التوا کا شکار ہیں اگر یہ بروقت پایہ تکمیل کو پہنچ جاتے تو نہ صرف آج گھر گھر چوبیس گھنٹے گیس دستیاب ہوتی بلکہ اندرون اور بیرون ملک صنعتی پیداوار اور تجارتی سرگرمیاں بلا تعطل جاری رہتیں 15 سال کے طویل عرصہ کے بعد اب وفاقی کابینہ کی توانائی کمیٹی نے ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی ہے پہلے مرحلے میں پاکستان کے اندر ایرانی سرحد سے گوادر تک پائپ لائن تعمیر ہوگی’منصوبے کے لئے فنڈز جی آئی ڈی سی سے فراہم کئے جائیں گے انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم کے ذریعے سے منصوبے پر عمل درآمد کیا جائے گا منصوبے سے پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے گی اور اس سے نہ صرف انرجی سیکورٹی بلکہ مقامی صنعت کا اعتماد بھی بڑھے گا ایرانی سرحد سے گوادر تک پائپ لائن کی تعمیر پر45ارب روپے لاگت آئے گی
پائپ لائن بچھانے سے پاکستان 18 ارب ڈالر جرمانے کی ادائیگی سے بچ جائے گا اور ایل این جی کے مقابلے میں ایران سے 750 ملین کیوبک فٹ گیس انتہائی سستی ملے گی ایران سے گیس خریدنے کے نتیجے میں پاکستان کو سالانہ 5 ارب ڈالر سے زائد بچت ہوگی اطلاعات کے مطابق ایران 18 ارب ڈالر جرمانے کا نوٹس واپس لے گا’ پاکستان امریکہ آئی پی منصوبے پر پابندیوں سے استثنی بھی مانگے گا واضح رہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان2009 میں معاہدہ طے پایا تھا کہ گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت 750 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پاکستان کو فراہم کی جائے گی ایران منصوبے کے تحت پہلے ہی 900 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرچکا ہے تاہم ایران کی جانب سے 250 کلو میٹر پائپ لائن کی تعمیر ہونا اب بھی باقی ہے پاکستان میں آئے روز گیس، تیل اور بجلی سے متعلق بحران عام شہری کی تکالیف میں اضافے کے علاوہ ملک کی مجموعی صنعتی پیداوار کو بھی متاثر کرتے ہیں اور معاشی ترقی سست روی کا شکار ہوتی ہے کسی بھی ملک کی معاشی خوشحالی کی بنیاد توانائی کا شعبہ ہے جسے مضبوط کئے بغیر ترقی ممکن نہیں ہو سکتی اونچی عمارت کھڑی کرنے کے لیے مضبوط بنیادیں ناگزیر ہوتی ہیں اسی طرح معاشی ترقی کے اہداف توانائی کے شعبے میں خود کفیل ہوئے بغیر حاصل نہیں کئے جا سکتے گزشتہ چند برسوں میں پاکستان توانائی کے مستقل اور شدید بحران کا شکار رہا ہے اور اس کے حل کے لئے مختلف تجاویز، منصوبے اور حکومتی اقدامات دیکھنے میں آئے ہیں اس سلسلے کو اگر ہم ملک کی تیزرفتار ترقی اور خصوصا سی پیک جیسے بڑے منصوبوں سے جوڑیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور حقیقی اور پائیدار ترقی کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا یہ بہت نازک وقت ہے جب پاکستان اپنے پڑوسی ممالک سے نہ صرف اقتصادی بلکہ تکنیکی اور دفاعی اعتبار سے بھی ایک بھرپور مقابلے میں شامل ہے۔
اس تناظر کو اگر گلوبل وارمنگ کے عمل اور موسمیاتی تبدیلی سے جوڑدیں تو ہمیں یہ جائزہ لینا ہوگا کہ ہمارے وسائل کیا ہیں اور ہمیں ان میں سے کس کا انتخاب کرنا ہے اور یہ اس فیصلے کا انتہائی اہم وقت ہے پاکستان میں گذشتہ کئی برسوں سے گھریلو اور تجارتی صارفین کو موسم سرما میں گیس کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی میں کمی کر دی جاتی ہے تو دوسری جانب صنعت و تجارت کو گیس کی بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی کے ساتھ ساتھ قومی معیشت اپنی توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے گیس پر بھی بڑی حد تک انحصار کرتی ہے جن میں گیس سے بجلی بنانے والے کارخانے، صنعتیں اور سی این جی سٹیشنز شامل ہیںملک میں سردیوں کی آمد کے ساتھ گیس کی کھپت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے جس میں زیادہ اضافہ ملک کے شمالی حصے میں گیس پر چلنے والے ہیٹرز اور گیزر کا استعمال ہے جو گھریلو صارفین کی جانب سے گیس استعمال کرنے کی شرح کو بڑھا دیتے ہیں ملک میں گیس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مقامی کے ساتھ درآمدی گیس بھی سسٹم میں شامل کی جاتی ہے کیونکہ پاکستان میں گیس کی مقامی پیداوار ملکی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہے اور ملکی گیس کے ذخائر میں مسلسل کمی بھی دیکھنے میں آرہی ہے
ملک میں گیس بحران کی وجہ طویل مدتی منصوبہ بندی نہ ہونے کے ساتھ فوری نوعیت کی فیصلہ سازی کا بھی فقدان ہے۔پاکستان میں گیس کا ایک بہترین انفراسٹرکچر موجود ہے جس میں معیاری ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نظام ہے۔ معیشت میں گیس کا ایک بہت بڑا کردار ہے۔ ملک میں اس وقت 13315 کلومیٹر طویل ٹرانسمیشن لائن، 149715 کلومیٹر ڈسٹری بیوشن اور 39612 کلو میٹر سروس گیس پائپ لائن کا نیٹ ورک ہے جو ملک میں ایک کروڑ سے زیادہ صارفین کو گیس فراہمی کے کام آتا ہے یس سیکٹر سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ بیس، تیس برسوں میں ملک میں گیس کی طلب اس کی رسد سے بڑھ گئی جس کی وجہ مقامی طور پر گیس کی پیداوار میں کمی ہے اور پاکستان کو گیس درآمد کرنا پڑ رہی ہے ماہرین کے مطابق پاکستان میں یومیہ چار بلین کیوبک فیٹ کی ضرورت ہے جس میں سے 2.8 بلین کیوبک فیٹ مقامی ذرائع سے پیدا ہوتی ہے تو 1.2 بلین کیوبک فیٹ درآمد کی جاتی ہے عالمی مارکیٹ میں گیس اتنی مہنگی ہوچکی ہے کہ ملک کی موجودہ معاشی صورت حال میں حکومت کے لئے موجودہ قیمت پر ایل این جی خریدنا بساط سے باہر ہے ناقص پالیسی سازی، فیصلہ سازی میں ٹیکنیکل سٹاف کی عدم موجودگی اور بڑھتی ہوئی آبادی بھی گیس اور بجلی بحرانوں کی بڑی وجہ ہے پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے سرعت سے فیصلہ سازی اور موثر پلاننگ کے علاوہ اصلاحات کی اشد ضرورت ہے جس کے ذریعے توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔اس تناظر میں پاکستان اور ایران کے تعلقات میں گیس پائپ لائن منصوبے میں پیش رفت انتہائی خوش آئند امر ہے ایران اس منصوبے کے حوالے سے اپنے حصے کا کام مکمل کرچکا ہے جبکہ پاکستان اپنی کمزور خارجہ پالیسی’ امریکی دبائو اور پابندیوں کے خوف کی وجہ سے اس منصوبے کے حوالے سے گومگوں کی کیفیت کا شکار تھا توانائی بحران کی موجودہ صورت حال میں وفاقی کابینہ کی توانائی کمیٹی کی جانب سے گیس پائپ لائن منصوبے کی منظوری کا فیصلہ دیر آید’ درست آید کے مصداق ہے- اس وقت ایران کی آذر بائیجان’ عراق اور ترکیہ سے گیس کی تجارت عالمی پابندیوں سے ماورا ہے’ امید ہے کہ اس منصوبے کو بھی استثناء مل جائے گا-امریکہ کو بھی پاکستان کے توانائی بحران سے متعلق زمینی حقائق کا خود ادراک ہونا چاہئے کہ ان حالات میں 25 کروڑ کی آبادی کن گوناگوں مسائل سے دوچار ہے جس کی اکثریت ایندھن کے حصول میں متبادل ذ ریعہ اختیار کرنے کی بھی سکت نہیں رکھتی…