اسلام آباد(ٹی این ایس) ابراہیم رئیسی ماں کی گود سے گور تک

 
0
45

ابراہیم رئیسی ماں کی گود سے گور تک ..,,,اصغر علی مبارک….ابراہیم رئیسی کی آچانک شہادت نے کئی سوالات کو جنم دیا اور عقل انسانی یہ بات تسلیم کرنے سے کوتیار نہیں کہ ہیلی کاپٹر حادثہ تکنیکی خرابی سے پیش آیا ان کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کروانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں اور شہادت سے چند گھنٹوں قبل فلسطینی عوام کی حمایت میں دبنگ بیان جاری ہواابراہیم رئیسی 1960 میں ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں پیدا ہوئے، ان کے والد ایک عالم تھے اور ابراہیم محض 5 برس کے تھے جب ان کے والد انہیں داغِ مفارقت دے گئے۔والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے 15 سال کی عمر میں مقدس شہر قم میں ایک مدرسے میں حصول تعلیم کی غرض سے جانا شروع کیا اور اس وقت کے متعدد اہم علما سے تعلیم حاصل کی۔ ایک طالب علم کے طور پر انہوں نے 70 کی دہائی کے اواخر میں مغربی حمایت یافتہ شاہ ایران کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا۔ آیت اللہ خامنہ ای کے انقلاب ایران کے بعد انھوں نے عدلیہ میں شمولیت اختیار کی اور صرف 20 سال کی عمر میں انہیں تہران کے بالمقابل واقع شہر کرج کا پراسیکیوٹر جنرل نامزد کیا گیا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے کئی شہروں میں پراسیکیوٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، اس دوران وہ آیت اللہ خامنہ ای کی زیر تربیت بھی تھے جو سنہ 1981 میں ایران کے صدر بنے تھے۔1983 میں انہوں نے مشہد میں نماز جمعہ کے امام احمد المولودہ کی بیٹی جمیلہ المہودہ سے شادی کی جن سے ان کی 2 بیٹیاں ہیں۔ ابراہیم رئیسی جب تہران میں ڈپٹی پراسیکیوٹر بنے اس وقت وہ صرف 25 سال کے تھے۔ 1988 میں پانچ ماہ کے لیے وہ سیاسی قیدیوں کی پھانسیوں کے سلسلے کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کا حصہ رہے، یہ ایک ایسا ماضی تھا جس نے انہیں ایرانی اپوزیشن میں غیر مقبول بنا دیا اور امریکا نے ان پر پابندیاں عائد کر دیں۔ 1989 میں ایران کے پہلے سپریم لیڈر آیت اللہ روح اللہ خمینی کی وفات کے بعد انہیں تہران کا پراسیکیوٹر مقرر کیا گیا۔7 مارچ 2016 کو مشہد کے سب سے بڑے مذہبی ادارے آستان قدس رضوی کے چیئرمین بن گئے، جس نے ایران کی اسٹیبلشمنٹ میں ان کی حیثیت کو مزید مستحکم کیا۔ انہوں نے 1989 سے 1994 تک تہران کے پراسیکیوٹر جنرل کی خدمات انجام دیں جس کے بعد 2004 سے 2014 تک عدالتی اتھارٹی کے ڈپٹی چیف اور پھر 2014 میں نیشنل پراسیکیوٹر جنرل رہے۔ ابراہیم رئیسی نے پہلی بار 2017 میں صدر کے عہدےکے لیے حسن روحانی کے خلاف انتخاب لڑا تھا۔پہلی مرتبہ میں شکست کے بعد رئیسی نے اپنی اگلی صدارتی مہم کے لیے منصوبہ بندی شروع کر دی اور جون 2021 میں انہوں نے 62 فیصد ووٹ حاصل کیے، تاہم اعتدال پسندوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکے جانے کے باعث ٹرن آؤٹ صرف 48.8 فیصد تھا۔انہوں نے 2021 میں ایک ایسے وقت میں بطور صدر ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی جب ایران شدید سماجی بحران کے ساتھ ساتھ اپنے متنازع جوہری پروگرام کے سبب امریکا کی وجہ سے عائد کی گئی پابندیوں کی وجہ سے معاشی دباؤ کا شکار تھا۔اس دوران عالمی وبا کووڈ 19 نے معاملات کو مزید خراب کر دیا تھا اور اگست 2021 تک ایران میں کورونا وائرس سے 97 ہزار اموات ہوچکی تھی۔ ستمبر 2022 میں انہیں ملک میں اپنے دور اقتدار کی شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب حجاب اتارنے کے معاملے پر مہسا امینی کی دوران حراست موت کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے اور ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ غیر ملکی انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ ریلیاں 2023 کے وسط میں اس وقت ختم ہوئیں جب تقریباً 500 افراد ہلاک ہو گئے اور سیکیورٹی فورسز احتجاج کو روکنے کے لیے حرکت میں آئیں جبکہ بدامنی میں حصہ لینے پر 7 افراد کو پھانسی بھی ہوئی۔ سخت گیر موقف کے حامل ابراہیم رئیسی بین الاقوامی سطح پر بھی محاذ آرائی سے باز نہیں رہے۔تاہم مارچ 2023 میں علاقائی حریف تصور کیے جانے والے ایران اور سعودی عرب نے حیران کن طور پر ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو گئے تھے۔ غزہ میں 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ نے خطے میں تناؤ میں ایک مرتبہ پھر اضافہ کردیا تھا۔

 


بعدازاں دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیل کے حملے بعد اپریل 2024 میں ایران نے اسرائیل پر براہ راست سیکڑوں میزائل اور راکٹ فائر کیے تھے۔خیال رہے کہ 22 اپریل 2024 کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی 3 روزہ سرکاری دورے پر پاکستان پہنچے تھے۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب انکے انتقال کے بعد انکے تصدیق شدہ اکاؤنٹ سے عربی میں ایک پوسٹ جاری کی گئی جس میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ابراہیم رئیسی کی وفات کے بعد ایران نے ردعمل کے طور پر نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا۔ سپریم لیڈر نے فوراً نائب صدر محمد مخبر کو قائم مقام صدر مقرر کیا اور اب 28 جون کو ملک میں صدر کا انتخاب متوقع ہے جوکہ ہیلی کاپٹر حادثے کے محض 39 دن بعد ہوں گے۔ جبکہ وزیرخارجہ امیر عبدللہیان کی وفات کے بعد اہم سفارتکار علی بغیری کانی کو قائم مقام وزیرخارجہ مقرر کردیا ہے۔صدر ابراہیم رئیسی کی ناگہانی موت کے بعد گزشتہ روز تہران میں ان کے نمازِ جنازہ کے موقع پر عوام کے جم غفیر نے یکجہتی اور سیاسی تسلسل کی علامات کا مظاہرہ کیا وزیراعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان و دیگر حکام کی ہیلی کاپٹر حادثے میں موت پر ایران کے شہر تہران میں تعزیتی تقریب میں وفد کے ہمراہ شرکت کی اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ ان کے ہمراہ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار ، وفاقی وزیر داخلہ سید محسن رضا نقوی، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی نے ایرانی صدر اور رفقا کےجاں بحق ہونے پر ایرانی حکام سے اظہار تعزیت کیا۔ وزیراعظم ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ امام خامنہ ای اور ایران نے قائم مقام صدر ڈاکٹر محمد مخبر سے ملاقات بھی کی اور پاکستان کے عوام اور حکومت کی جانب سے تعزیت کا اظہار کیا ۔ 63 سالہ ابراہیم رئیسی 2021 سے ایرانی صدر کے منصب پر فائز تھے۔ ابراہیم رئیسی 1960 میں شمال مشرقی ایران کے شہر مشہد میں پیدا ہوئے اور صرف صرف 20 سال کی عمر میں انہیں تہران بالمقابل واقع شہر کرج کا پراسیکیوٹر جنرل نامزد کیا گیا تھا۔ انہوں نے 1989 سے 1994 تک تہران کے پراسیکیوٹر جنرل کی خدمات انجام دیں جس کے بعد 2004 سے 2014 تک عدالتی اتھارٹی کے ڈپٹی چیف اور پھر 2014 میں نیشنل پراسیکیوٹر جنرل رہے۔ انہوں نے 2021 میں ایک ایسے وقت میں بطور صدر ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی جب ایران شدید سماجی بحران کے ساتھ ساتھ اپنے متنازع جوہری پروگرام کے سبب امریکا کی وجہ سے عائد کی گئی پابندیوں کی وجہ سے معاشی دباؤ کا شکار تھا۔ انہیں اپنے دور میں اس وقت شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ستمبر 2022 میں مہسا امینی کی دوران حراست موت کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم مارچ 2023 میں علاقائی حریف تصور کیے جانے والے ایران اور سعودی عرب نے حیران کن طور پر ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو گئے تھے۔ ایرانی صدر کو آبائی شہر مشہد میں امام علی رضا کے روضہ کے احاطہ میں سپرد خاک کیا گیا۔گزشتہ روزابراہیم رئیسی اور دیگر کی آخری رسومات کی ادائیگی کا سلسلہ تبریز سے شروع ہوا تھا۔ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ بھی ابراہیم رئیسی اور دیگر حکام کی نمازہ جنازہ میں شریک ہوئے۔
ایک اندازے کے مطابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی آخری رسومات میں 68 سے زائد ممالک کے وفود نے شرکت کی جو دنیا کے کسی بھی سیاسی رہنما کی آخری رسومات میں شرکت کرنے والے سب سے زیادہ غیر ملکی سرکاری وفود ہیں۔ جو بین الاقوامی سطح پر ایران کی فعال سفارتکاری اور بہترین بین الاقوامی تعلقات کی دلیل ہے۔ بعض ایران مخالف طاقتوں کی کوشش تھی ایران کو عالمی سطح پر تنہا کیا جائے لیکن رئیسی حکومت نے ایران کو نہ صرف تنہائی سے بچایا بلکہ ایک باوقار اور قابل اعتماد بین الاقوامی طاقت بنایا ہے۔ سید ابراہیم رئیسی کے مختلف شہروں میں تشیع جنازہ میں کم و بیش ایک کروڑ سے سوا کروڑ لوگوں نے شرکت کی ہے۔ جو ان کی مقبولیت اور محبوبیت کی دلیل ہے۔ اسی طرح یہ ایرانی حکومت اور عوام کے درمیان اتحاد کی بھی علامت ہے۔صدر ابراہیم رئیسی کے انتقال کے بعد خطے کے اہم پاور ہاؤس، ایران کے سیاسی اور اسٹرٹیجک ردعمل کو دنیا نے انتہائی قریب سے دیکھا ہےجس کی وجہ ملک کو درپیش داخلی چینلجز اور خطے میں بڑھتے ہوئے تنازعات بالخصوص غزہ میں کئی ماہ سے جاری طویل جنگ ہے۔ایران ماضی میں سنگین بحرانوں کا سامنا کرچکا ہے جن سے وہ کامیابی سے نمٹا۔ ملکی تاریخ بالخصوص 1980ء کی دہائی میں ایران-عراق جنگ میں پیش آنے والے اتار چڑھاؤ نے اس کے ادارہ جاتی ڈھانچے کی مضبوطی کو ظاہر کیا۔30 اگست 1981ء میں ایران کو اس وقت ایک دھچکے کا سامنا کرنا پڑا جب صدر محمد علی رجائی اپنے وزیراعظم محمد جواد بہونار (جو بعدازاں نائب صدر بنے) سمیت دفتر میں ہونے والے ایک دھماکے میں جاں بحق ہوگئے۔ اس واقعے نے ایران-عراق جنگ کے ابتدائی سالوں میں سیاسی منظرنامے میں طاقت کا خلا پیدا کیا۔ اس واقعے کے چند ماہ بعد اعلیٰ عدلیہ کے آیت اللہ محمد بہشتی سمیت دیگر اہم سیاسی رہنما دھماکے میں جاں بحق ہوئے۔ یکے بعد دیگرے ہونے والے واقعات، آیت اللہ خامنہ ای (جو اس وقت ایک سیاستدان تھے) پر قاتلانہ حملے ملک کو عدم استحکام کا شکار کرسکتے تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بحران سے نمٹنے کی خصوصیت ایران کے آئین کا حصہ بن گئی جس کی وجہ سے 1989ء میں آیت اللہ خمینی کے انتقال کے بعد بھی کوئی بحران کھڑا نہیں ہوا۔ اگر بات ابراہیم رئیسی کی دورِ صدارت کی ہو تو ان کا دور نئی بنیاد پرست اصلاحات متعارف کروانے کے بجائے انقلابی اقدار کو برقرار رکھنے پر زیادہ مرکوز تھا۔ انہوں نے سپریم لیڈر کے اسٹریٹجک فیصلوں کے ساتھ قدامت پسند نظریات کو ایک بار پھر نافذ کیا جبکہ اس دوران سیاسی اصلاحات کی گنجائش بھی کسی حد تک محدود رہی۔ مغربی مبصرین اکثر ابراہیم رئیسی کو آیت اللہ خامنہ ای کا گدی نشین سمجھتے تھے لیکن ایرانی اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ایرانی امور کے مبصر پروفیسر محمد مراندی کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای کے بعد ابراہیم رئیسی کا سپریم لیڈر بننے کا تصور مغرب کی پیداوار ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ خامنہ ای کی صحت مند ہیں۔انہوں نے ایران میں قیادت کی منتقلی کے آئینی عمل کی وضاحت کی۔ انہوں نے بتایا کہ ماہرین کو منتخب کرکے ایک کونسل بنائی گئی ہے جو ضرورت پڑنے پر سپریم لیڈر کو منتخب بھی کرتا ہے اور انہیں ان کے عہدے سے ہٹا بھی دیتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وقت آنے پر کونسل اپنی قانونی اختیارات کا استعمال کرے گا۔
یہ واضح رہے کہ جب آخری بار ایران میں طاقت کی منتقلی ہورہی تھی تب آیت اللہ خامنہ ای، آیت اللہ خمینی کی جگہ سپریم لیڈر بننے کے لیے سب سے پہلی ترجیح نہیں تھے۔ درحقیقت آیت اللہ خمینی نے تو بذاتِ خود آیت اللہ حسین علی منتظری کو اپنا جانشین منتخب کیا تھا لیکن اپنی وفات سے تین ماہ قبل انہوں نے اپنا فیصلہ بدل لیا اور پھر آیت اللہ خامنہ ای کا انتخاب کیا۔ یہی وہ پہلا اور آخری موقع تھا جب ایران میں سپریم لیڈر جیسے بااختیار عہدے پر اقتدار کی منتقلی ہوئی۔ ابراہیم رئیسی کے انتقال کے بعد اب سپریم لیڈر کے عہدے پر تبدیلی کا انحصار انتخابی صورتحال اور اس کے نتائج پر ہوگا۔ ایران کا سیاسی نظام جہاں افراد کو سیاسی جماعتوں سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے، ایک پیچیدہ دور میں داخل ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدارتی انتخاب میں کھڑی ہونے والی شخصیات اور ان کی صف بندی اس پورے عمل میں ایک کلیدی کردار ادا کریں گی۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ ابراہیم رئیسی کے بعد ایران میں کون آگے بڑھتا ہے اور کس طرح کا سیاسی بیانیہ اپنانے کا انتخاب کرتا ہے۔ کچھ حلقوں کے نزدیک ان امیدواروں میں شاید پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف، جوہری مذاکرات میں اہم کردار ادا کرنے والے سعید جلیلی، قائم مقام صدر محمد مخبر یا سابق اسپیکر علی لاریجانی شامل ہوسکتے ہیں۔کہا جارہا ہے کہ انتخابات کے حوالے سے لائحہ عمل پر بات چیت سرکاری پانچ روزہ سوگ ختم ہونے اور امیدواروں کی رجسٹریشن کے آغاز پر شروع ہوگی۔

توقع کی جارہی ہے کہ آنے والے انتخابات، ایران میں حالیہ سالوں میں ہونے والے انتخابات سے مختلف ہوں گے کہ جن میں ووٹرز کی دلچسپی اور ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا۔ یہ انتخابات صرف ابراہیم رئیسی کا پیشرو منتخب کرنے سے کئی زیادہ اہمیت کے حامل ہوں گے۔ صدارتی امیدوار اور سیاسی دھڑے کس طرح فوری بحران کا جواب دیتے ہیں اور ایران کے مستقبل کے بارے میں اپنے خیالات کو کس طرح بیان کرتے ہیں، اس سے ان کی انتخابی مہم کی سمت کا تعین ہوگا۔ قدامت پسند نظریات رکھنے والا دھڑا جو غالباً ابراہیم رئیسی کی پالیسیوں سے اتفاق کرتا ہے، وہ تجویز کررہے ہیں کہ تبدیلی نہیں لائی جائے بلکہ رئیسی کی انقلابی پالیسیوں کو برقرار رکھنے کی روش جاری رکھی جائے۔ اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کی طرف یہ جھکاؤ بالخصوص خطے میں جاری تنازعات اور علاقائی عدم استحکام کے پیش نظر درست لگے کیونکہ ان تنازعات میں ایران کافی حد تک ملوث ہے جبکہ ملک میں خود ایسے عناصر کا غلبہ ہے جو اصلاحات لانے کے حامی نہیں۔ایک جانب جہاں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی افواج کا کردار وسعت اختیار کررہا ہے اور وہ زیادہ مضبوط ہورہے ہیں وہیں ابراہیم رئیسی کی موت کی وجہ سے ایران میں مستقبل کی طاقت کی حرکیات کا موضوع بھی زیرِ بحث آچکا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں پاسدارانِ انقلاب افواج نے نہ صرف عسکری سطح پر اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کیا ہے لیکن اس نے ایران کے سیاسی اور معاشی منظرنامے میں بھی شرکت کی ہے۔ یہ رجحان آنے والے سالوں میں طاقت کے ڈھانچے میں ممکنہ تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایران میں پاسدارانِ انقلاب کا بڑھتا ہوا اثر ایران کے اسٹریٹجک ڈھانچے کی تعریف کو بدل سکتا ہے۔یہ امکان کم ہے کہ ابراہیم رئیسی کی موت کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی کی حکمت عملی تبدیل ہو۔ اس کی اہم وجوہات خارجہ پالیسی کی سمت طے کرنے میں سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا مرکزی کردار اور پاسدارانِ انقلاب کا اثرورسوخ ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں ایوانِ صدر میں تبدیلیوں کے باوجود ایران کی خارجہ پالیسی میں کوئی خاص تبدیلی ہم نے دیکھی نہیں۔ابراہیم رئیسی کے ماتحت ایران نے ’مشرق پر توجہ‘ کی اپنی پالیسی کو جاری رکھا جس میں ایران نے مشرقی قوتوں جیسے چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنے کی کوششیں کیں۔ اس روش نے مغرب کے لیے ایران کے عدم اعتماد کو ظاہر کیا بالخصوص یہ اور واضح انداز میں ظاہر ہوا جب ایران کے جوہری معاہدے کو ناکام بنادیا گیا۔ ابراہیم رئیسی کی انتطامیہ نے غیر مغربی ممالک کے ساتھ معاشی اور سیاسی تعلقات مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے افریقہ اور براعظم جنوبی امریکا کے ممالک کے دورے کیے اور مغربی پابندیوں کے باعث اپنی معاشی کمزوری کو کم کرنے کی کوشش کی جبکہ ساتھ ہی ایران کے عالمی تعلقات کو متنوع بنایا۔ یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان کے دور میں ایران اور روس کے تعلقات مزید گہرے ہوئے جن میں عسکری سطح پر تعاون اور یوکرین تنازعہ میں روس کی حمایت شامل ہیں۔ علاقائی سیاست کی بات کی جائے تو ایران حماس جیسے دیگر مسلح گروہوں کی حمایت جاری رکھے گا اور مشرقِ وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست میں ایران کا کردار مستقل رہے گا، یعنی اس میں کوئی تبدیلی متوقع نہیں۔ یہ پالیسیاں ریاست کے نظریاتی اور اسٹریٹجک مقاصد میں سرایت کرچکی ہیں۔ ابراہیم رئیسی کی قیادت میں ایران کی خارجہ پالیسی کی ایک اورکامیابی سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی تھی۔ سعودی عرب نے ان کی وفات پر اظہارِ تعزیت کیا اور ایران کے ساتھ اظہارِ یکجہتی بھی کیا جس نے دونوں ممالک کے درمیان برف کی دیوار پگھلنے کی نشاندہی کی۔ سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان نے قائم مقام صدر محمد مخبر کو خطوط لکھے جن میں انہوں نے ایران کی عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ایران کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری تیونس کے صدر قیس سعید اور مصری وزیر خارجہ سامح شکری کے ابراہیم رئیسی کے جنازے میں شرکت کے لیے تہران کے دورے سے بھی نمایاں ہوئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب تیونس اور مصری کے صدور نے ایران کا دورہ کیا۔ واضح رہے کہ یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ آخر ایرانی صدر نے تیس برس پرانا امریکی ہیلی کاپٹر کیوں استعمال کیا اور یہ بھی کہ مسافروں کی ترتیب کیوں تبدیل کی گئی۔ روسی میڈیا نے ترکیے اخبار کے حوالے سے کہا ہے کہ ایران کے صدر اپنے دوروں میں عام طور پر روسی ساختہ ہیلی کاپٹر استعمال کرتے تھے تاہم تبریز جانے کے لیے امریکی ساختہ بیل 212 Bell ہیلی کاپٹر چنا گیا۔ یہ بھی کہ صدر کے لیے پائلٹ کا چناؤ ماضی میں پاسداران انقلاب کے اہلکاروں میں سے کیا جاتا تھا تاہم اس بار انکے پائلٹ کا تعلق آرمی سے تھا۔ صدر کے ہیلی کاپٹر میں تین مختلف ٹریکنگ نظام نصب تھے جن میں جی پی آر ایس اور ٹرانسپونڈرز بھی شامل تھے مگر اسکے باوجود حادثے کے بعد ہیلی کاپٹر کے مقام کا فوری تعین نہیں کیا جاسکا۔ ترک حکام کے حوالے سے بتایا گیا کہ وہ ہیلی کاپٹر کے سگنل نوٹ نہیں کرسکے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو یہ نظام بند تھا یا موجود ہی نہیں تھا۔ ایرانی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ پرواز سے کچھ ہی دیر پہلے مسافروں کی ترتیب بھی بدلی گئی تھی۔ وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور تبریز کے گورنر مالک رحمتی کو ہیلی کاپٹر نمبر دو میں سفر کرنا تھا مگر آخری لمحے تبریز کے پیش امام محمد آل ہاشم کو بھی اتار دیا گیا۔ وزیر خارجہ، گورنر اور پیش امام تینوں ہی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر میں تھے اور حادثے میں انکے ساتھ ہی جاں بحق ہوئے۔ ایرانی حکام کے مطابق ہیلی کاپٹر تکنیکی خرابی کے سبب حادثہ کا شکار ہوا۔یل 212 ہیلی کاپٹر دراصل یو ایچ ون این ٹوئن ہیلی کاپٹر کی ایک قسم ہے اور یہ ایک مسافر ہیلی کاپٹر ہے جسے ویتنام جنگ میں استعمال کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ گزشتہ روز ابرہیم رئیسی کی شہادت پراظہارتعزیت کے لیے خانوادہ شہید مظہرعلی مبارک نے ایرانی سفارت خانے کا دورہ کیا فیملی شہید مظہرعلی مبارک میں سابق امیدواران قومی اسمبلی عظمت علی مبارک، عظمیٰ مبارک، طاہرہ بانو مبارک ایڈووکیٹس اورسابق صدراتی امیدوار پاکستان اصغرعلی مبارک سرکاری اعلان کردہ پانچ روزہ تعزیت کے آخری روز ایرانی سفارت خانہ اسلام آباد تشریف لےگئے ایرانی سفارت خانےکے عملے سےتعزیت کی اور تعزیتی کتاب میں جذبات اور تاثرات لکھے,ایرانی صدر حجتہ الاسلام و المسلمین سید ابرہیم رئیسی کی ناگہانی شہادت پر اصغرعلی مبارک نے تعزیتی کتاب میں لکھا کہ ایرانی صدرصدی کے عظیم عالم میں سے ایک ہیں .
انہوں نے کہا کہ ایرانی صدر پاکستان کے بہترین رفیق تھے ابراہیم ریئسی کی عظیم لیڈر شپ میں ایران دنیا کا سب سے اہم ملک بنا۔ سابق امیدوار صدر پاکستان نےلکھا کہ اس اندوہناک واقعے کی اقوام متحدہ کے ذریعےانکوائری کرائی جائے کیونکہ ماضی میں بھی ایسے واقعات کی انکوائری اقوام متحدہ سےکروائی جاچکی ہیں شہید سید ابرہیم رئیسی امت مسلمہ خاص طور پر فلسطینیوں کی توانا آواز تھے ایرانی صدر کی ناگہانی شہادت پر دلی رنج اور صدمہ ہوا ہے۔ ایرانی حکومت اور عوام کے غم میں برابر کے شریک ہیں،
انہوں نے کہا کہ پاک ایران تعلقات کے حوالے سے ایرانی صدر ابراہیم ریئسی کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ شہید ابرہیم رئیسی نےعالم اسلام کی وحدت کے لیے بھرپور کردارکیا. سابق صدراتی امیدوار پاکستان نے تعزیتی کتاب میں لکھا کہ ابرہیم رئیسی کی شہادت اسلام اور حمایت مظلومین کی تحریکوں کے لیے مضبوطی کا باعث ہو گی، غم کی اس گھڑی میں ہم ایرانی بھائیوں کے ساتھ برابر کے شریک ہیں، خدا وند متعال مستضعفین ایرانی صدر ابراہیم ریئسی کی مغفرت فرمائے۔ آمین