اسلام آباد(ٹی این ایس) آپریشن عزم استحکام کو ‘وقت کی ضرورت قرار

 
0
50

آپریشن عزم استحکام کو ‘وقت کی ضرورت قرار
(اصغر علی مبارک)
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کا کہنا ہے کہ آئین آزادی اظہار کی ضمانت دیتا ہے، تاہم اس کی اپنی حدود بھی ہیں۔ انہوں نے آپریشن عزم استحکام کو ‘وقت کی ضرورت’ قرار دیتے ہوئے کابل پر زور دیا کہ وہ پاکستان پر ٹی ٹی پی کو ترجیح نہ دے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل وزارت خارجہ پاکستان اسلام آباد میں حالیہ میڈیا بریفنگ کے دوران سینئر پاکستانی صحافی اصغر علی مبارک نے ترجمان وزارت خارجہ سے سوال کیا کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے پاکستان کے 77ویں یوم آزادی کے موقع پر کاکول میں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں آزادی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے افغان طالبان کو واضح پیغام دیا تھا کہ وہ پاکستان پر الخوارج فتنے کو ترجیح نہ دیں۔ پاکستان کی قربانیاں سب کے سامنے ہیں۔جنرل عاصم منیر نے کہا کہ افغانستان کے لیے پیغام یہ ہے کہ وہ ‘فتنہ الخوارج کو اپنے دیرینہ اور خیر خواہ ہمسایہ ملک پر ترجیح نہ دے اور اس فتنے کے خاتمے کے لیے ہمارا ساتھ اسی طرح دے، جیسے پاکستان نے ان کا ساتھ دیا ہے,
کیا پاکستان سفارتی ذرائع سے بھی یہ پیغام دینے کا سوچ رہا ہے؟


جواب میں ترجمان نے کہا کہ سب سے پہلے میں آپ کو بتاوں کہ پاکستان نے افغانستان میں ٹی ٹی پی سمیت دہشت گرد گروپوں کے ٹھکانوں اور پناہ گاہوں کے بارے میں مسلسل اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ یہ تشویش سب کو معلوم ہے۔ ہم نے عوامی سطح پر آواز اٹھائی ہے۔ ہم نے اسے دو طرفہ طور پر مختلف چینلز کے ذریعے مختلف مواقع پر پہنچایا ہے،۔ ہم امید کرتے ہیں کہ افغان حکام ان دہشت گرد گروپوں کے خلاف فوری اور مضبوط کارروائی کریں گے تاکہ وہ پاکستان کے اندر اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو روکیں۔ ہاں، ہمیں تشویش ہے کہ ان دہشت گرد گروہوں کی طرف سے، جن کے افغانستان میں اڈے ہیں، انکے دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان گزشتہ کئی ماہ سے اپنی تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔ ہم افغان حکام سے ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی اور مضبوط کارروائی کی توقع رکھتے ہیں۔یاد رہے کہ پاکستان کے 77ویں یوم آزادی کے موقع پر کاکول میں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے جنرل منیر نے قوم کے دفاع کے لیے فوج کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہیں اس پریڈ میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں جنرل منیر نے کئی اہم امور پر بات کی اور کہا، “ہمارا قومی شعور نظریہ پاکستان سے مربوط ہے، جس کی بنیاد دو قومی نظریہ پر ہے۔ ہماری مسلح افواج کو کمزور کرنے کی کوئی بھی کوشش ریاست کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔” انہوں نے اس بات پر یقین ظاہر کیا کہ کوئی بھی منفی قوت فوج کے اس اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچا سکتی۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ایک بار پھر ” ڈیجیٹل دہشت گردی” کا ذکر کیا اور اس کے لیے بیرونی طاقتوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد “ریاستی اداروں اور پاکستان کے عوام کے درمیان خلیج پیدا” کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ جہاں آئین آزادی اظہار کی اجازت دیتا ہے، وہیں اس میں اس بات کی بھی وضاحت موجود ہے کہ اس کی اپنی حدود کیا ہیں,انہوں نے کہا، “دشمن قوتوں کے لیے یہ واضح ہونا چاہیے کہ ہمارے خلاف کثیر جہتی خطرات ہونے کے باوجود ہم متحد اور محکم ہیں۔ روایتی ہو یا غیر روایتی، متحرک ہو یا فعال، ہمارے خلاف جنگ کی کوئی بھی شکل استعمال کی جائے، ہمارا بدلہ سخت اور دردناک ہو گا اور ہم یقیناً جوابی وار کریں گے۔”چند روز پہلے ہی جنرل منیر نے متنبہ کیا تھا کہ سوشل میڈيا پر انتشار پھیلانے اور مسلح افواج کو نشانہ بنانے کے لیے غلط معلومات پھیلانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ آرمی چیف نے کہا، “درحقیقت، ہم جانتے ہیں کہ آزادی مفت میں نہیں ملی، اس کی قیمت بہت سے عظیم بیٹوں اور بیٹیوں کی قربانیاں ہیں اور ہم اس کے لیے ہمیشہ تیار ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستان کے عوام اور اس کی سکیورٹی فورسز کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹیں گی اور کسی کو بھی اس عظیم ملک پر میلی آنکھ سے دیکھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔”اس موقع پر فوجی سربراہ نے افغانستان کے ساتھ مغربی سرحد کی صورتحال، کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے لاحق خطرات اور بلوچستان کی صورتحال جیسے کئی اہم مسائل پر بات کی۔جنرل عاصم منیر نے کہا کہ پاکستان اپنے مغربی پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے، تاہم انہوں نے افغان طالبان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ کالعدم دہشت گرد گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو اپنے برادر اور ہمسایہ ملک پر ترجیح نہ دے۔ان کا کہنا تھا، “افغانستان ہمارا ہمسایہ اور برادر ملک ہے۔ پاکستان اور اس کی عوام نے اس کے لیے ایسی بہت سی قربانیاں دی ہیں، جس کی دور حاضر میں کوئی مثال نہیں ہے۔” افغانستان کے ساتھ ہم اچھے تعلقات رکھنے کے خواہشمند ہیں۔” انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، “ان کے لیے ہمارا پیغام یہ ہے کہ فتنہ الخوارج کو اپنے دیرینہ اور خیر خواہ ہمسایہ ملک پر ترجیح نہ دیں اور اس فتنے کے خاتمے کے لیے ہمارا ساتھ اسی طرح دیں، جیسے پاکستان نے آپ کا ساتھ دیا ہے۔”چیف آف آرمی اسٹاف نے “ریاست مخالف اور شریعت مخالف سرگرمیوں” کے لیے ٹی ٹی پی پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اس نے خیبر پختونخوا میں ایک بار پھر سے اپنا سر ابھارا ہے۔ انہوں نے پختونوں کی قربانیوں اور حب الوطنی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ یہ “دہشت گرد گروہ شریعت اور آئین پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے اس لیے ملک بھی انہیں پاکستانی نہیں تسلیم کرتا۔”پاکستانی فوج کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان تیز رفتار عالمی تبدیلیوں کے باوجود اپنی ثابت قدمی کے باعث امت مسلمہ اور دنیا میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ، “پاکستان کا مستقبل روشن اور محفوظ ہے اور ہماری افواج غیر متزلزل عزم کے ساتھ اس کا دفاع کرتی رہیں گی۔” انہوں نے کشمیریوں کی “حالت زار” پر بھی توجہ مبذول کروائی اور کہا کہ “بھارتی جبر کے جوئے” سے کشمیریوں کی خود کو آزاد کرانے کی کوششوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا، “ہم ان کے حق خود ارادیت کے لیے ان کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں اور کشمیر کے بہادر عوام کو اپنی مکمل سیاسی، سفارتی حمایت کا یقین دلاتے ہیں۔”واضح رہے کہ پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ ایک لابی یہ نہیں چاہتی ہے کہ ‘نیشنل ایکشن پلان’ کامیاب ہو پائے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوج اور اس کی قیادت کے خلاف سوشل میڈیا پر ‘ڈیجیٹل دہشت گردی’ فعال ہے۔23 جولائی 2024کوپاک فوج نے واضح کیا تھا کہ آپریشن عزمِ استحکام کوئی فوجی آپریشن نہیں بلکہ انسداد دہشت گردی کی ایک مہم ہے۔ یہ بھی کہا تھاکہ ایک مضبوط لابی نہیں چاہتی کہ نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کامیاب ہو۔پاکستانی فوج کے محکمہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے راولپنڈی میں نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ ”ضرب عضب اور راہ نجات جیسی ماضی کی کارروائیوں سے آپریشن عزم استحکام کا موازنہ کرنا مناسب نہیں ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے سنگین مسائل پر بھی سیاست کی جاتی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آرنے مجوزہ آپریشن کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا، ”حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ آپریشن عزمِ استحکام ایک مربوط انسداد دہشت گردی کی مہم ہے اور یہ فوجی آپریشن نہیں ہے۔”آپریشن عزمِ استحکام کو متنازعہ بنانے کے لیے ایک بیانیہ تیار کیا جا رہا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے 22 جون کے بیان میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ سول اور عسکری رہنماؤں نے انسداد دہشت گردی کی کوششوں پر پیش رفت کا جائزہ لیا ہے اور اس بات پر اتفاق کیا کہ ملک میں انسداد دہشت گردی کی ایک جامع مہم کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں انسداد دہشت گردی مہم کے لیے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی جائے گی اور قانون سازی کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ یہ ”ہماری بقا کا معاملہ ہے اور ہم سیاست کی وجہ سے سنگین معاملات کو بھی مذاق میں بدل دیتے ہیں۔”ر جنرل شریف نے کہا کہ فوج اور اس کی قیادت کے خلاف سوشل میڈیا پر ‘ڈیجیٹل دہشت گردی’ فعال ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ”ایک دہشت گرد ہتھیاروں کے ذریعے اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح ایک ڈیجیٹل دہشت گرد موبائل فون، کمپیوٹر، جھوٹ، جعلی خبروں اور پروپیگنڈے کے ذریعے بے چینی پھیلا کر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش” کرتا ہے۔ فوج کے ترجمان نے کہا کہ کسی بھی ‘ڈیجیٹل دہشت گرد’ کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں، لیکن انتہا پسند اور ڈیجیٹل دہشت گرد دونوں ہی فوج کو نشانہ بنانے کا مشترکہ مقصد رکھتے ہیں۔ ”ڈیجیٹل دہشت گرد جعلی خبروں کی بنیاد پر فوج، اس کی قیادت اور فوج اور عوام کے درمیان تعلقات پر حملہ کر رہے ہیں۔” انہوں نے خبردار کیا کہ ڈیجیٹل دہشت گردوں کو نہ روکا گیا تو انہیں مزید اسپیس ملے گا۔ ”ہم ان غیر قانونی عناصر کو اجازت نہیں دے سکتے، جو اس ملک کو ایک نرم ریاست بنانا چاہتے ہیں۔”یاد رہے کہ 18 جولائی 2024پاکستان نے افغانستان کی طالبان حکومت سے بنوں کے حملہ آوروں کے خلاف ‘فوری طور سخت اور موثر کارروائی’ کا مطالبہ کیا تھا بنوں کے خودکش حملے میں پاکستانی فوج کے آٹھ جوان شہید ہو گئے تھے۔پاکستان نے بنوں کی فوجی چھاؤنی پر ہونے والے عسکریت پسندوں کے ہلاکت خیز حملے کے بعد افغانستان کے لیے ایک سخت سفارتی تنبیہ جاری کی اور حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا تھا۔پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی حکام نے افغان طالبان کو سرحد پار سے ہونے والے حملوں پر اپنی ”گہری تشویش سے آگاہ” کیا اور مطالبہ کیا کہ عبوری افغان حکومت اس ”واقعے کی مکمل تحقیقات کرے اور قصورواروں کے خلاف فوری اور سخت کارروائی” کرے۔پاکستان نے افغان سرزمین سے مستقبل میں ہونے والے ممکنہ حملوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے پر بھی زور دیا تھا پاکستان نے بیان میں بنوں میں ”دہشت گردی کی گھناؤنی کارروائی” کو حافظ گل بہادر گروپ سے منسوب کیا تھا، جو کہ ”افغانستان میں سرگرم عمل ہے اور ماضی میں بھی پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتا رہا ہے۔” پاکستان عبوری افغان حکومت کے ساتھ مسلسل اپنے تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے اور اس سے کہا تھا کہ وہ دہشت گردوں کی جانب سے افغان سرزمین کے مسلسل استعمال کو روکے اور ایسے عناصر کے خلاف موثر کارروائی کرے۔حافظ گل بہادر گروپ پر حملے کا الزام عائد کرتے ہوئے دفتر خارجہ نے کہا تھا ”عبوری افغان حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ وہ مکمل تحقیقات کرے اور بنوں حملے کے ذمہ داروں کے خلاف فوری، مضبوط اور موثر کارروائی کرے اور ایسے حملوں کو دوبارہ ہونے سے روکے، جس میں افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کی جار ہی ہے۔”بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ”پاکستان نے افغانستان کے اندر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر اپنے شدید تحفظات کا اعادہ کیا تھا، جو پاکستان کی سلامتی کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس طرح کے واقعات دونوں برادر ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی روح کے خلاف بھی ہیں۔” دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ بنوں حملہ علاقائی امن اور سلامتی کے لیے دہشت گردی سے لاحق ”ایک اور سنگین خطرے کی یاد دہانی” ہے۔دونوں ممالک کے درمیان تعلقات حالیہ مہینوں میں کشیدہ ہوئے ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ کالعدم عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہے اور دوسری وجہ بار بار کی سرحدی جھڑپیں بھی ہیں، جو حالیہ مہینوں میں ہوتی رہی ہیں۔گزشتہ ماہ افغان وزارت دفاع کے ترجمان نے وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس بیان پر برہمی کا اظہار کیا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ افغان حکومت کے رہنماؤں نے دوحہ میں پاکستانی حکام کے ساتھ ایک میٹنگ بھی کی تھی، جسے ٹی ٹی پی کے خلاف تازہ کارروائی کے اعلان کے بعد کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ طالبان وفد کے سربراہ ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستانی سفارت کاروں کے ساتھ اپنی ملاقات کو ”اچھی” قرار دیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ”مثبت تعلقات” کو فروغ دینے کی امید ظاہر بھی کی تھی۔ تاہم افغان طالبان نے عملاً ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں کیا ہے، جس سے یہ لگتا ہو کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف نہیں استعمال کی جائے گی۔ اس دوران اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو اپنی اتحادی سمجھتے ہیں اور پاکستان میں حملوں کے لیے ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کو افغان طالبان کی تائید و حمایت حاصل ہے۔ رپورٹ پاکستان کے اس دعوے کی تصدیق کرتی ہے کہ انہیں پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔رپورٹ کہتی ہے کہ افغانستان کے طالبان حکمراں ٹی ٹی پی کو ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر نہیں دیکھتے اور دونوں میں بہت قربت ہے۔ ان کے لیے ٹی ٹی پی پر واجب الادا قرض بہت اہم ہےرپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدت پسند گروپوں کا اتحاد تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں اب ”سب سے بڑا دہشت گرد گروپ” ہے اور سرحد پار سے پاکستان میں حملے کرنے کے لیے اسے افغانستان کے طالبان حکمرانوں کی تائید و حمایت بھی حاصل ہے۔رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کو اب القاعدہ جیسے دہشت گرد نیٹ ورک سے بھی آپریشنل اور لاجیسٹک مدد مل رہی حاصل ہے۔اقوام متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے اس حوالے جائزہ رپورٹ ایک ایسے وقت جاری کی، جب ٹی ٹی پی کی طرف سے پاکستانی سکیورٹی فورسز اور شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ حملوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا اور درجنوں افراد شہید ہوئے ہیں۔دہشت گرد گروپ داعش، القاعدہ اور طالبان کو مانیٹر کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم نے اپنی 15ویں رپورٹ سلامتی کونسل میں پیش کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”ٹی ٹی پی افغانستان میں اب بڑے پیمانے پر سرگرم عمل ہے اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے لیے اکثر افغانوں کو استعمال کرتی ہے۔” رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اب دہشت گرد گروپ تحریک طالبان پاکستان کے چھ سے ساڑھے چھ ہزار کے درمیان جنگجو ہیں، جو افغان طالبان کی سرپرستی میں اپنی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے پوری طرح سے آزاد ہیں۔رپورٹ کہتی ہے کہ افغانستان کے طالبان حکمراں، ”ٹی ٹی پی کو ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر نہیں دیکھتے اور دونوں میں بہت قربت ہے۔ ان کے لیے ٹی ٹی پی پر واجب الادا قرض بہت اہم ہے۔”رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ ”ٹی ٹی پی نے پاکستان کے خلاف حملے تیز کر دیے ہیں، خاص طور پر سن 2021 میں 573 حملوں سے بڑھ کر سن 2022 میں حملوں کی تعداد 715 تک پہنچ گئی، جبکہ سن 2023 میں حملوں کی تعداد 1,210 ہو گئی۔ یہی رجحان 2024 میں بھی جاری ہے۔” رپورٹ میں رواں برس 28 مئی تک کے اعداد و شمار بھی پیش کیے گئے ہیں۔واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ سے اسلام آباد کے اس موقف کی تصدیق ہوتی ہے کہ کابل پاکستان کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حالیہ مہینوں میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے اس طرح کے الزامات کو بار بار دہرایا ہے۔یہ رپورٹ پاکستان کی اس تشویش کی بھی تائید کرتی ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد رات میں دیکھنے کی صلاحیت والے آلے سمیت نیٹو کے ہتھیار ٹی ٹی پی کو فراہم کیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر دہشت گردانہ حملوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کے وہ علاقائی کارندے، جن کے طالبان سے طویل مدتی تعلقات رہے ہیں، پاکستان کے اندر ہائی پروفائل دہشت گردانہ حملوں کو انجام دینے کے لیے ٹی ٹی پی کی مدد کر رہے ہیں۔طالبان نے اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ پر کوئی فوری ردعمل ظاہر نہیں کیا،رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹی ٹی پی کے کارندوں کو مقامی جنگجوؤں کے ساتھ مل کر القاعدہ کے کیمپوں میں تربیت دی جا رہی ہے، جو دہشت گرد تنظیم نے ننگرہار، قندھار، کنڑ اور نورستان جیسے متعدد سرحدی صوبوں میں قائم کیے ہیں۔رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ القاعدہ کے ساتھ ”زیادہ تعاون” ٹی ٹی پی کو ”غیر علاقائی” گروپ میں تبدیل کر سکتا ہے، یعنی اسے خطے سے باہر بھی وسعت دے سکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق خطے میں ایک اور سرگرم دہشت گرد گروپ ‘اسلامک اسٹیٹ خراسان’ (آئی ایس -کے) ہے اور اس سے وابستہ تنظیموں کے چار ہزار سے چھ ہزار کے درمیان جنگجو ہونے کا تخمینہ ہے۔ ایک اور انداز کے مطابق ان کی تعداد دو ہزار سے ساڑھے تین ہزار کے درمیان ہے۔رپورٹ کے مطابق اس گروپ کے بہت سے لوگوں نے مبینہ طور پر وزارت داخلہ، دفاع اور انٹیلیجنس کی مرکزی وزارتوں میں دراندازی کر لی ہے اور وہ ٹی ٹی پی جیسے دیگر گروپوں میں بھی خفیہ طور پر اپنے ممبران شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس نقل مکانی سے پاکستان، ایران اور دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں میں سکیورٹی کی صورتحال پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح افغانستان میں آئی ایس کے نے اب اپنی موجودگی کو محدود کیا ہے اور اپنی بیرونی کارروائیوں کو وسعت دی ہے۔ اس نے اپنے ”ماہر کارندوں اور خودکش بمباروں کو یورپ، روسی فیڈریشن اور دیگر پڑوسی ممالک کی جانب بڑھنے کی ترغیب دی ہے۔”