اسلام آباد (ٹی این ایس) آئینی بینچز پر اتفاق ؟

 
0
83

(اصغر علی مبارک ) اتحادی جماعتوں پر مشتمل حکومت کو اس آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں دو تہائی اکثریت درکار تھی پاکستان کے 1973 کے آئین میں اب تک 25 مرتبہ ترامیم ہوچکی ہیں۔ آئینی ترمیم کے لیے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، یعنی قومی اسمبلی میں 224 ووٹ اور سینیٹ میں 64 ووٹ۔اس وقت حکمراں اتحاد میں شامل مختلف سیاسی جماعتوں کے پاس قومی اسمبلی میں 214 ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ دو تہائی اکثریت کے لیے حکومت کو 10 مزید ووٹ درکار ہیں۔ جبکہ اطلاعات کے مطابق سینیٹ میں حکومت کو ایک ووٹ کی کمی کا سامنا ہے۔ آئینی ترمیم پر اتفاقِ رائے کے لیے حکومت کی کوششیں جاری ر ہیں تاہم کابینہ، سینیٹ اور قومی اسمبلی کا اجلاس بار بار مؤخر کیا جاتا رہا پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے 26ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ مسودے عوامی سطح پر شیئر کیے گئے اور اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ نون کا مسودہ بھی سامنے آ یا۔ اس مسودے میں نون لیگ آئینی عدالت کی تشکیل کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی ہے اور اس کی جگہ سپریم کورٹ میں ایک آئینی بینچ تشکیل دینے کی بات کی گئی حکومتی مسودے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس آئینی بینچ میں تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی ہوگی اور یہ بینچ آئین سے متعلق کسی بھی معاملے کی سماعت کرے گا۔ یہ مجوزہ مسودہ وزارت قانون میں تیار کیا گیا ہے جس میں ملک کے متعدد آئینی ماہرین سے اس بارے میں رائے لی گئی
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ان کی پارٹی اور جے یو آئی (ف) میں 26ویں آئینی ترمیم پر 100 فیصد اتفاق ہو چکا ہے اور امید ہے کہ مولانا کے ڈرافٹ پر پی ٹی آئی بھی مان جائے گی۔ عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد بیرسٹر گوہر نے دعویٰ کیا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم سنجیدہ معاملہ ہے، مولانا سے مشاورت جاری رکھی جائے۔سپریم کورٹ کے 5 یا 9 رکنی آئینی بینچ کے قیام کی تجویز سامنے آئی جبکہ صوبوں میں آئینی بینچ تشکیل نہ دینے کی تجویز ہے۔آئینی بینچ کی تشکیل جوڈیشل کمیشن کرے گا جبکہ آئینی بینچ کا سربراہ ہی جوڈیشل کمیشن مقرر کرے گا۔ آئینی بینچ میں رد و بدل کا اختیار چیف جسٹس سپریم کورٹ کا نہیں ہوگا جبکہ آئینی بینچ کے تقرر کی میعاد مقرر ہوگی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر 3 سینئر ترین ججز میں سے ہوگا۔چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کا طریقہ کار بھی تبدیل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق نہ ہونے پر چیف الیکشن کمشنر کا تقرر پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔مجوزہ ترمیم میں 19ویں آئینی ترمیم کو مکمل ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ آرٹیکل48 میں بھی ترمیم کی تجویز دی گئی ہےوزیراعظم اور وفاقی کابینہ کی ایڈوائس پر ہوئے فیصلے کو چیلنج نہ کرسکنے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔ تجویز دی گئی ہے کہ کوئی عدالت یا اتھارٹی اس فیصلے کے خلاف کارروائی نہیں کرسکے گی۔ اسی طرح آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کا بھی فیصلہ کیا گیا جبکہ فلورکراسنگ پر نااہلی ختم کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ ازخود نوٹس کا سپریم کورٹ کا اختیار ختم کرنے کی بھی ترمیم میں تجویز دی گئیمجوزہ آئینی ترمیم کے معاملے پر وفاقی کابینہ، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس پھر طلب کیے گئے وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس صبح ساڑھے 9 بجے طلب کیا گیا تھا مگر اجلاس کا وقت تبدیل کر کے دوپہر 12 بجے کردیا گیا، بعدازاں کابینہ اجلاس کا وقت ایک بار پھر تبدیل کردیا گیا اور دوپہر 2 بجے کا وقت دیا گیا مگر اجلاس 2 بجے بھی نہ ہو سکا، واضح رہے کہ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی نے آئینی ترمیم کے مسودے کو منظور کرلیا تھا جس کے بعد فوراً وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کیا گیا، وزیر اعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس منظوری دیئے بغیر ختم ہو گیا تھا۔دوسری جانب قومی اسمبلی اورسینیٹ کے اہم اجلاس آج دوبارہ ہوں گے، جمعہ کو دونوں ایوانوں کے اجلاسوں میں آئینی ترامیم پیش نہ کی جا سکیں تھیں، سینیٹ اجلاس دن 11 بجے تک ملتوی کر دیا گیا تھا، سینیٹ کا اجلاس تیسری مرتبہ تبدیل کیا گیا اور شام 6 ساڑھے چھ بجے طلب کیا گیا تھا لیکن اب وفاقی کابینہ کے اجلاس کی وجہ سے سینیٹ کے اجلاس کا وقت چوتھی بار بھی تبدیل کر دیا گیا، سینیٹ کا اجلاس رات 8 بجے طلب کیا گیا بعد ازاں، آئینی ترمیم کے معاملے پر اب تک اتفاق رائے نہ ہونے کے سبب سینیٹ اجلاس کا وقت تیسری بار تبدیل کرکے شام 6 بج کر 30 منٹ کردیا گیا تھا۔ ادھر، مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا تھا کہ آئینی مسودہ تیار ہے، وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد سینیٹ میں پیش کر دیا جائے گا۔ عرفان صدیقی نے کہا تھا کہ وسیع تر اتفاق رائے کی کوششیں ہو رہی ہیں، تیرہویں ترمیم کے بعد روایت رہی کہ آئینی ترمیم تمام سیاسی جماعتوں کی اتفاق رائے سے ہو۔دوسری طرف، مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم کے لیے نمبر پورے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں میں اتفاق کی کوشش کر رہے ہیں۔ ادھر بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی-مینگل) کے سربراہ اختر مینگل نے کہاکہ بزور طاقت خفیہ طریقے سے لائی جانے والی آئینی ترمیم کا حصہ نہیں بنیں گے۔قومی اسمبلی کا اجلاس سہ پہر 3 بجے طلب کیا گیا تھا لیکن قومی اسمبلی کے اجلاس کا وقت اب تبدیل کردیا گیا ے، اجلاس اب 3 بجے کے بجائے 9 بجے ہوا، قومی اسمبلی کے اجلاس کا 9 نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا اجلاس کے ایجنڈے پر آئینی ترمیم موجود نہیں ، اتفاق رائے ہونے کی صورت میں آئینی ترمیم سپلیمنٹری ایجنڈا کے طور پر لائی گئی۔ لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی ترمیمی بل پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی۔ ایجنڈے کے مطابق لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی ترمیمی بل منظوری کے لئے پیش کیا گیاتھا، جنرل سیلز ٹیکس اکٹھا کرنے میں بے قاعدگیوں بارے توجہ دلاؤ نوٹس بھی ایجنڈے میں شامل تھا۔ پاکستان ریلویز کی طرف سے ملازمین کو ماہانہ تنخواہوں کی بروقت ادائیگی میں ناکامی بارے توجہ دلاؤ نوٹس بھی ایجنڈے کا حصہ تھا۔وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو کے درمیان مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم کے حتمی مسودے پر مشاورت ہوئی، ملاقات میں رات گئے ہونے والی سیاسی ملاقاتوں کے تناظر میں مسودے میں تبدیلیوں پر بھی غور کیا گیا تھا حکومتی جماعت کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس آئینی بینچ میں تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی ہوگی اور یہ بینچ آئین سے متعلق کسی بھی معاملے کی سماعت کرے گا مجوزہ مسودہ وزارت قانون میں تیار کیا گیا ہے جس میں ملک کے متعدد آئینی ماہرین سے اس بارے میں رائے لی گئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے سامنے آنے والے مجوزہ مسودوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم زیادہ تر عدلیہ اور اس کے اختیارات سے ہی متعلق ہے جس میں نئی آئینی عدالت کی تشکیل سے لے کر اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی اور سپریم کورٹ کے اختیارات سے متعلق سفارشات شامل ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی آئینی عدالت کی تشکیل کے حق میں ہے اور اس ضمن میں اس کا یہ مؤقف ہے کہ سنہ 2006 میں ہونے والے میثاق جمہوریت معاہدے میں یہ درج تھا کہ ملک میں آئینی عدالت قائم ہونی چاہیے جبکہ جمیعت علمائے اسلام ف ایک نئی آئینی عدالت تشکیل دینے کی بجائے سپریم کورٹ کے پانچ سینیئر ججز پر مشتمل آئینی بینچ تشکیل دینے کی بات کرتی ہے۔ اگر پاکستان پیپلز پارٹی کے مجوزہ مسودے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پی پی پی وفاق کے علاوہ چاروں صوبوں میں بھی آئینی عدالتوں کے قیام کے حق میں ہے اور انھوں نے اس ضمن میں تجویز بھی دی ہے۔ پیپلز پارٹی کے مطابق وفاق کی سطح پر قائم ہونے والی اس آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تعیناتی کا اختیار وزیر اعظم کو دینے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ یہ کہا گیا ہے کہ اس عدالت کے دیگر ججز کی تعیناتی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مشاورت سے عمل میں لائی جائے۔نون لیگ کے مسودے میں سپریم کورٹ سمیت اعلی عدالتوں میں ججز کی تعیناتی سے متعلق آرٹیکل 175 اے میں تبدیلی کی تجویز دی گئی ہے جس کے مطابق سپریم جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے سنئیر چار ججز سمیت چار ارکان پارلیمنٹ بھی ہوں گے جن میں سے ایک سینٹر اور ایک رکن قومی اسمبلی کا نام و وزیر اعظم جبکہ ایک سینٹر اور ایک رکن قومی اسمبلی کا نام قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف دیں گے۔ مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ججز کی تقرری سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان ہوں گے جن میں سے آٹھ کا تعلق قومی اسمبلی جبکہ چار کا تعلق سینٹ سے ہو گا۔ یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ سپریم کورٹ میں سینئیر جج کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کی بجائے تین نام اس پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جائیں گے اور 12 رکنی کمینی ان ناموں میں سے ایک کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کی سفارش کرے گی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے عہدے کی مدت تین سال کے لیے ہو گی اور اگر کوئی چیف اس عرصے کے لیے اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر یعنی 65 سال تک نہیں پہنچتا تو پھر بھی اسے بطور چیف جسٹس تین سال کی مدت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہی سمجھا جائے گا۔ اس مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ہائی کورٹ کے کس جج کی کارکردگی بہتر نہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل اس جج کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے وقت دے گی اور اگر مقررہ مدت سے مذکورہ جج اپنی کارکردگی کو بہتر نہیں بناتا تو پھر یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی دیکھے گی ۔ حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے اس مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کونسل ججز کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے الگ سے بھی قواعد وضوابط تشکیل دے سکتی ہے۔ حکومتی مسودے میں سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے اختیار سے متعلق موجود قانون 184 کی سب کلاز 3 میں ترمیم تجویز کی ہے اور کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کسی بھی معاملے میں نہ کوئی نوٹس لے سکتی ہے اور نہ ہی کسی بھی ادارے کو کوئی ڈائریکشن دے سکتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم ہونے والی سپریم کورٹ کے ججز کی تین رکنی کمیٹی اس بارے میں فیصلہ کرے گی۔ مجوزہ ترمیم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ سمجھے کہ کسی ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہور ہے تو وہ یہ مقدمہ کسی دوسری ہائی کورٹ میں بھی منتقل کرسکتی ہے۔ حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز دی جس میں کہا گیا کہ پارٹی کے سربراہ کی ہدایت کے خلاف کوئی بھی رکن پارلیمان اگر ووٹ ڈالے گا تو اس کا ووٹ ضرور گنا جائے گا تاہم اس کو ڈی سیٹ کرنے سے متعلق پارٹی سربراہ قانونی اقدام اٹھائے گا پیپلز پارٹی کے مطابق آئینی ترمیم میں اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو یکجا کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ فی الوقت اعلیٰ عدالتوں میں ججز کے ناموں کی سفارش کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس ہے جبکہ پارلیمانی کمیٹی صرف ربر سٹیمپ کے طور پر کام کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گذشتہ دنوں الزام عائد کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پارلیمان کو دباؤ میں لا کر 19ویں آئینی ترمیم کروائی تھی جس میں اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کا اختیار سپریم جوڈیشل کمیشن کو دیا گیا اور اس میں پارلیمانی کمیٹی کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ اہم ملاقات میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی شریک تھے، ملاقات میں موجودہ سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال اور مشاورت کی گئی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ آئینی بینچز بنانے پر اتفاق ہے، جو مسودہ مولانا چاہتے تھے وہی برقرار ہے۔ آئینی ترمیم کے حوالے سے ہم پارلیمان کو مزید طاقت ور بنا رہے ہیں، ہمارا اتفاق آئینی عدالت نہیں آئینی بینچ پر ہوا۔ ججز کی تقرری کے لئے اٹھارویں ترمیم کی بحالی پر متفق ہیں، کل جو ڈرافٹ منظور ہوا اس کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوئی، خواہش ہے مولانا فضل الرحمان خود مسودہ پارلیمان میں پیش کریں۔جتنا ڈرافٹ پیپلز پارٹی کا ہے اتنا ہی جے یو آئی کا بھی ہے، پی ٹی آئی کم از کم مولانا فضل الرحمان کے مسودے پر تو ووٹ دے، میں چاہتا ہوں حکومت آئینی ترمیم کو لیڈ نہ کرے۔ پی ٹی آئی ثابت کرے کہ وہ سوشل میڈیا کا لشکر نہیں سیاسی جماعت ہے، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کا آئینی ترمیم پر 100 فیصد اتفاق ہو چکا ہے، اگر اتفاق رائے نہ ہوا تو ہم آئین سازی تو کریں گے لیکن جیت کر ہار جائیں گے، مولانا کے ڈرافٹ پر تو آپ کو کوئی اعتراض نہیں، آپ کے تمام مطالبات مانے گئے ہیں، تحریک انصاف آپ کا نام ہے میرا نہیں، جوڈیشل ریفارمز پی ٹی آئی کو لانی چاہئے تھیں، میں نے دن رات محنت کی کہ اتفاق رائے سے آئین سازی ہو۔ حکومت طعنے دے رہی ہے کہ ووٹ پورے ہیں اگر یہ ترمیم ہم سب کے ووٹوں سے پوری ہوتی ہے تو یہ ایسی ترمیم ہوگی جیسے اٹھارویں ترمیم ہوگی۔ پی ٹی آئی وفد کی ملاقات بانی پی ٹی آئی سے ہونی تھی جو ہوگئی، مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی سے بھی پوچھیں گے، مولانا پی ٹی آئی کو اپنے ڈرافٹ کا ساتھ دینے پر قائل کرسکتے ہیں، سیاست اتفاق رائے اور کمپرومائز کا نام ہے۔ سیاسی اتفاق رائے کیلئے ہم نے دن رات کام کیا، دوماہ سے انتظار ہے آپ ایک نکتہ بھی سامنے نہیں لائے، میں نے سیاسی اتفاق رائے کے لیے دن رات محنت کی، میں چاہ رہا ہوں یہ بل حکومت پیش نہ کرے۔ امید ہے اس دفعہ پی ٹی آئی ذات کی نہیں مثبت سیاست کرے گی، حکومت نے صبر کی انتہا کر دی ہے، امید ہے پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمان کی سیاست سے سیکھے گی۔پاکستان کے پارلیمان میں ’آئینی پیکج‘ پیش کیے جانے کا امکان ہے تاہم وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے مطابق مجوزہ قانون سازی کی ہر شق پر حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ جاری مشاورتی عمل کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی یہ چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں کہ حکومت عدالتی اصلاحات کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان میں ملک کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت اعلی عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز شامل ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن اور ججز کی تعیناتی سے متعلق پارلیمانی کمیشن کی ازسرنو تشکیل بھی زیر غور ہے۔دوسری طرف تحریک انصاف نے ان اصلاحات کو ’غیر آئینی ترمیم‘ قرار دیا ۔ آئینی پیکج کے ذریعے عدلیہ کے اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کی بھرپور مذمت کی جائے گی آئینی عدالت بنانے کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں صرف آئینی معاملات ہی بھیجے جائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ سپریم جوڈیشل کونسل اور ججز کی تعیناتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی فارمیشن تبدیل کرنے کی تجویز بھی لائی جا رہی ہے۔وفاقی وزیر قانون کے بقول ایسا اقدام عدلیہ میں اصلاحات کرنے کے ساتھ ساتھ زیر التوا مقدمات فوری نمٹانے اور اعلی عدلیہ میں چیف جسٹس سمیت دیگر ججز کی تعیناتی کا پیکج بھی شامل ہیں۔ حکومتی آئینی ترمیمی بِل میں مجموعی طور پر 54 تجاویز شامل کی گئی ہیں۔ اس بِل میں آئین کے آرٹیکل 63 اے میں بھی ترمیم کی تجویر دی گئی جس کے مطابق پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف کسی بھی قانون سازی یا بِل پر ووٹ دینے والے رُکن پارلیمان کا ووٹ گنتی میں شمار کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ آئینی عدالت بنانے کا بھی ذکر کیا گیا جس میں صرف آئینی معاملات ہی بھیجے جائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ سپریم جوڈیشل کونسل اور ججز کی تعیناتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی فارمیشن تبدیل کرنے کی تجویز ہے۔ آئینی بِل میں تجویز دی گئی کہ آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کی تقرری وزیراعظم کی سفارش پر صدرِ پاکستان کریں گے۔ اس کے بعد مستقبل میں وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے تین ججوں کے نام قومی اسمبلی کی کمیٹی تین سینیئر ججوں کے نام چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے سات دن پہلے وزیرِ اعظم بھیجے گی۔ ججوں کی تقرری کے لیے بنائی گئی قومی اسمبلی کی کمیٹی آٹھ اراکین پر مشتمل ہوگی۔ کمیٹی کے اراکین کی انتخاب قومی اسمبلی کا سپیکر پارلیمان پارٹی کی سیٹوں کی تعداد کو مدِنظر رکھتے ہوئے کرے گا۔ اس کے علاوہ آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال تجویز کی گئی ہے اور اس عدالت کے جج کی تقرری تین سال کے لیے کی جائے گی۔ حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ آئینی عدالت بنانے کا مقصد سائلین کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔ججز کی تعیناتی سے متعلق موجودہ سسٹم میں سپریم جوڈیشل کونسل کسی بھی شخص کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات کرنے کی منظوری دیتی ہے۔ تو اس کو حتمی منظوری کے لیے اعلی عدالتوں میں تعیناتی سے متعلق قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی کو بھجوا دیا جاتا ہے۔کمیٹی کے ارکان سے متعدد بار اس بارے میں تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس ضمن میں ان کا کردار ربڑ سٹمپ کے برابر ہے کیونکہ اگر وہ جوڈیشل کمیشن کی طرف سے بھیجے گئے کسی بھی شخص کے نام پر اعتراض کرتے ہیں تو انھیں تحریری طور پر کمیشن کو اس بارے میں آگاہ کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ ثبوت بھی دینا ہوں گے۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کے لیے تین نام بھیجے جائیں گے جن میں سے ایک جج کو چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات کیا جائے گا جس کی معیاد تین سال رکھنے کی تجویز ہے۔ سپریم کورٹ نے وہاب الخیری کی درخواست پر جو فیصلہ دیا تھا اس کے مطابق سب سے سینیئر جج کو ہی ملک کا چیف جسٹس بنایا جائے گا۔ حکومت ان ترامیم پر عملدرآمد اس آئینی ترمیم کے منظور ہونے کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں آنے والے ججز پر لاگو کرتی ہے تو پھر تو ٹھیک ہے، ورنہ ایسے حالات میں یہ ترامیم متنازع ہوں گی حکومت کے بہت سے حساس معاملات سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں اور ایسے حالات میں آئینی پیکج لانے سے ملک میں حالات معمول پر آنے کی بجائے مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔واضح رہے کہ پاکستان کے موجود چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ وہ ’پرسن سپیسیفک‘ قانون سازی کے حق میں نہیں ہیں۔ ملک کی مختلف ہائی کورٹس میں اس کا مکمل طور پر اطلاق نہیں ہو رہا جس کی حالیہ مثال لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس کی تعیناتی ہے۔ سنیارٹی میں چوتھے نمبر پر جج جسٹس عدلیہ نیلم کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا گیا تھا۔ آئینی ترمیمی بِل میں ہائی کورٹس سے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات واپس لینے اور ایک ہائی کورٹ کے جج کا دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلے کرنے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔