اسلام آباد (ٹی این ایس) عالمی گرلز تعلیمی کانفرنس کے ثمرات; طالبان پر لڑکیوں کی تعلیم کی بحالی کا مطالبہ

 
0
34

( اصغر علی مبارک)
اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان میں لڑکیوں کی کامیاب عالمی گرلز تعلیمی کانفرنس کے بعد عالمی برادری کی جانب سے طالبان قیادت پر لڑکیوں کی تعلیم کی بحالی کے لیے اخلاقی اور سماجی دباؤ جاری ہے واضح رہے کہ اس حوالے سے تازہ ترین پیش رفت سامنے آئی ہے افغانستان کی عبوری حکومت کے نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے افغان طالبان کی قیادت سے لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم پر عائد پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم 4 کروڑ میں سے 2 کروڑ آبادی کو ان کے حقوق سے محروم کرکے ناانصافی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔یاد رہے کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں منعقدہ عالمی گرلز تعلیمی کانفرنس کے اختتام پر ’اعلانِ اسلام آباد‘ جاری کیا گیا تھاجس میں مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے جامع سفارشات پیش کی گئی تھیں۔کانفرنس کا مقصد مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لینا اور تعلیمی مواقع پیدا کرنا تھا۔ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔دو روزہ کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیے میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ تعلیم ہر لڑکی کا بنیادی حق ہے اور اس کے حصول کو کسی بھی قسم کی رکاوٹ کے بغیر یقینی بنایا جائے۔
حکومتوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ تعلیمی وسائل کے لیے بجٹ میں اضافہ کریں، سکالرشپس فراہم کریں، اور جدید ڈیجیٹل مواد کی تیاری کو ممکن بنائیں تاکہ دور دراز علاقوں میں تعلیم کی رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ مذہبی رہنماؤں کو تعلیم کے اسلامی اصولوں کو اجاگر کرنے اور عوامی شعور بیدار کرنے کی ترغیب دی گئی ۔’اعلانِ اسلام آباد‘ میں تنازعات اور معاشرتی کشیدگی سے متاثرہ علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خصوصی اقدامات تجویز کیے گئے۔ ساتھ ہی تعلیمی اداروں اور پالیسی ساز اداروں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اسلامی اقدار کے مطابق ایسی پالیسیاں تشکیل دیں جو تعلیم کو فروغ دیں اور اسے قومی ترقی کا حصہ بنائیں۔یہ سفارشات دو روزہ کانفرنس کے دوران مرتب کی گئیں جس میں مسلم ورلڈ لیگ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ، 57 اسلامی ممالک کے نمائندوں، تنظیم تعاون اسلامی (او آئی سی) کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ اور دیگر عہدیداران، اور نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی سمیت دنیا بھر کے ماہرین اور رہنماؤں نے شرکت کی تھی ۔ کانفرنس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا تھا کہ مذہبی نصوص کی درست تشریح کی جائے تاکہ غلط فہمیوں کا خاتمہ ہو اور تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ ’اعلانِ اسلام آباد‘ نے اس بات کو تسلیم کیا گیا تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم نہ صرف ایک مذہبی ذمہ داری ہے بلکہ یہ سماجی ترقی اور امن کا ضامن بھی ہے۔ حکومتوں، بین الاقوامی تنظیموں، اور نجی شعبے کو اپیل کی گئی کہ وہ مل کر وسائل فراہم کریں اور عملی اقدامات کریں۔’اعلانِ اسلام آباد‘ میں شرکا نے زور دیا کہ اسلامی معاشروں میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے مذہبی احکامات کی صحیح تشریح کو یقینی بنایا جائے اور غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے۔ یہ اعلان اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے بین الاقوامی معاہدوں اور وعدوں پر عمل درآمد کیا جائے اور تعلیمی وسائل کی مساوی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ کانفرنس کے شرکا نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینا نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ یہ سماجی ترقی اور معاشرتی استحکام کے لیے بھی اہم ہے۔ کانفرنس اسلامی دنیا میں تعلیمی اصلاحات کے لیے ایک انقلابی قدم قرار دی گئی ، جس کا مقصد اسلامی تعلیمات کے مطابق لڑکیوں کے حق تعلیم کو تسلیم کرتے ہوئے مسلم معاشروں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔

یاد رہے کہ افغان طالبان نے اگست 2021 سے لڑکیوں پر چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے، افغانستان میں صرف خواتین ڈاکٹرز اور طبی عملے کو خواتین اور لڑکیوں کا علاج کرنے کی اجازت ہے، طالبان حکام نے طبی تربیت سے متعلق پابندی کی تصدیق نہیں کی ہے۔وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق شیر محمد عباس ستانکزئی نے کہا ہے کہ ہم امارت اسلامیہ (طالبان) کی قیادت پر زور دیتے ہیں کہ وہ تعلیم کو ہر ایک کے لیے قابل رسائی بنائیں۔ نائب وزیر خارجہ نے یہ خطاب ہفتے کو سرحدی صوبے خوست میں ایک مدرسے میں دستار بندی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا جسے افغان ’طلوع نیوز‘ نے اتوار کو نشر کیا۔ انہوں نے کہا کہ لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم سے روکنے کا کوئی جواز نہیں ہے، جیسے پہلے بھی اس کا کوئی جواز نہیں تھا اور ماضی میں بھی یہ پابندی عائد نہیں ہونی چاہیے تھی۔ عباس ستانکزئی نے کہا کہ ’ہم 4 کروڑ میں سے 2 کروڑ آبادی کو ان کے حقوق سے محروم کرکے ناانصافی کے مرتکب ہورہے ہیں، یہ اسلامی شریعت کا نہیں البتہ ہماری اپنی طبعیت یا پسند و ناپسند کا معاملہ ہو سکتا ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آج کسی حیلے بہانے سے خواتین پر تعلیم کے دروازے بند نہیں کیے جاسکتے، پیغمبر اسلام ﷺ کے زمانے میں بھی تمام مرد و خواتین پر علم کے دروازے کھلے تھے، آج دنیا اس پابندی کو بنیاد بنا کر ہم پر تنقید کر رہی ہے‘۔اس سے قبل معروف افغان انٹرنیشنل کرکٹر نے بھی خواتین کی طبی تعلیم کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔اس سے قبل معروف افغان انٹرنیشنل کرکٹر راشد خان نے بھی طالبان حکومت سےخواتین کی میڈیکل تعلیم کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔ افغان کرکٹر نے طالبان حکومت سے ملک میں خواتین کی میڈیکل کی تعلیم پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ واپس لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ مقدس کتاب قرآن پاک مرد و خواتین کی تعلیم پر زور دیتی ہے۔ راشد خان نے فیس بک پر اپنی پوسٹ میں افغان طالبان کی جانب سے خواتین کی میڈیکل تعلیم پر پابندی کے فیصلے پر اظہار مایوسی کیا۔ انہوں نے اپنی پوسٹ میں طالبان کے فیصلے کو افغانستان اور وہاں کے عوام کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے حکام سے درخواست کی کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے لڑکیوں کو میڈیکل کی تعلیم کی اجازت دیں۔راشد خان نے لکھا تھا کہ اس وقت افغانستان میں خواتین ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی شدید قلت ہے، جس کی وجہ سے باقی خواتین بیماری کے وقت مشکلات کا سامنا کرتی ہیں، اس لیے خواتین کو میڈیکل کی تعلیم کی اجازت دی جانی چاہیے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ تعلیم کو اسلام میں مرکزی اہمیت حاصل ہے، مذہب مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے علم کے حصول پر زور دیتا ہے جب کہ مقدس کتاب قرآن پاک سیکھنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور دونوں صنفوں کی مساوی روحانی قدر کو تسلیم کرتا ہے۔ کرکٹر نے لکھا تھا کہ افغانستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، ملک کو ہر شعبے اور خصوصی طور پر طبی شعبے میں پیشہ ور افراد کی اشد ضرورت ہے، خواتین ڈاکٹروں اور نرسوں کی شدید کمی تشویش ناک ہے، کیونکہ یہ خواتین کی صحت کی دیکھ بھال اور وقار کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔ راشد خان نے لکھا تھا کہ ہماری بہنوں اور ماؤں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ طبی پیشہ ور افراد کے ذریعے فراہم کردہ دیکھ بھال تک رسائی حاصل کریں جو ان کی ضروریات کو صحیح معنوں میں سمجھتے ہیں۔ انہوں نے خواتین کی میڈیکل کی تعلیم پر پابندی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھاتھا کہ اس فیصلے کے ہمارے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور سماج پیچھے چلا جائے گا۔ انہوں نے حکام سے اپیل کی تھی کہ وہ لڑکیوں کی طبی تعلیم پر پابندی کے فیصلے کو واپس لیں، کیوں کہ سب کو تعلیم فراہم کرنا صرف معاشرتی ذمہ داری نہیں بلکہ اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ خیال رہے کہ اس سےقبل یہ خبر سامنے آئی تھی کہ افغان طالبان کے سپریم لیڈر نے لڑکیوں کی طبی تعلیم پر پابندی عائد کرنے کا تحریری حکم نامہ جاری کیاتھا، جس کے بعد افغان طالبان حکام نے مختلف طبی تعلیم دینے والے اداروں کو لڑکیوں کو تعلیم نہ دینے کی ہدایات جاری کردی تھیں۔ میڈیکل کالجز کو تحریری طور کوئی نوٹس نہیں دیا گیا تھا، تاہم تمام اداروں کو زبانی طور پر حکم نامہ جاری کیا گیا کہ اب خواتین کو کلاسز لینے سے روک دیا جائے۔ افغان وزارت صحت کے ذرائع کے مطابق افغانستان میں لگ بھگ 10 سرکاری اور 150 سے زیادہ نجی صحت کے ادارے ہیں جو 18 مضامین میں دو سالہ ڈپلومے پیش کرتے ہیں، جن میں مڈوائفری سے لے کر اینستھیزیا، فارمیسی اور دندان سازی کے کورسز شامل ہیں اور اداروں میں کُل 35 ہزار خواتین طالبات زیر تعلیم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق طالبان انتظامیہ کی جانب سے اخلاقیات کے قانون کی توثیق کی تھی، جس پر اقوام متحدہ کے مشن نے تشویش کا اظہار کیا ہے، ساتھ ہی خواتین سے متعلق مخصوص پابندیوں پر تنقید کی ہے۔طالبان انتظامیہ نے 21 اگست 2024کو آرٹیکل 35 کے ساتھ ایک نئے قانون کا اعلان کیا، جس میں اسلامی قوانین کی سختی سے تشریح کی بنیاد پر برتاؤ کی وسیع تفصیل اور طرز زندگی سے متعلق پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔ اس قانون پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو سزائیں دی جائیں گی، جن میں زبانی طور پر تنبیہہ سے لے کر دھمکیوں، جرمانے اور مختلف وقت کے لیے حراست میں لیے جانا شامل ہیں جو کہ وازرت کے زیر نگرانی اخلاقی پولیس کی جانب سے عمل درآمد یقینی بنائے گی، تاکہ بُرائی کی روک تھام اور اخلاقیات کی تبلیغ ہو سکے۔افغانستان میں اقوام متحدہ اسسٹنس مشن (یو این اے ایم اے) کی ہیڈ روزا اوتنبیوا نے کہا ہے کہ افغانستان کا مستقبل پریشان کن ہے، جہاں وسیع طور پر اور اکثر خلاف ورزیوں کی مبہم فہرستوں کی بنیاد پر اخلاقیات کے انسپکٹرز کے پاس دھمکیاں دینے اور حراست میں لینے کے اختیارات دیے گئے ہیں۔اقوام متحدہ اسسٹنس مشن (یو این اے ایم اے) کی ہیڈ نے مزید کہا کہ صدیوں کی جنگ کے بعد اور خوفناک انسانی بحران کے دوران افغان عوام بہتر کے حقدار ہیں بجائے اس کے انہیں نمازکے لیے دیر ہونے پر، اپنی فیملی ممبر کے علاوہ کسی اور مخالف جنس کو دیکھنے پر یا اپنے محبوب کی تصویر رکھنے پر دھمکی یا جیل بھیجا جائے۔اقوام متحدہ کی جانب سے قرار دیے گئے ’صنفی امتیاز‘ کو خواتین پابندیوں کے طور پر برداشت کر رہی ہیں، جس نے انہیں عام زندگی جس میں سیکنڈری اور اعلیٰ تعلیم سے بھی محروم کردیا ہے۔اقوام متحدہ مشن کی ہیڈ نے بتایا کہ یہ قانون افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر پابندیوں کو مزید بڑھائے گا، یہاں تک کہ گھر سے باہر خاتون کی آواز کو بھی اخلاقی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا۔یاد رہے کہ پاکستان حکومت نے ”افغانستان کو دعوت دی تھی لیکن افغان حکومت کی طرف سے کوئی بھی کانفرنس میں شامل نہیں ہوا مسلم ورلڈ کے تعاون سے منعقد ہونے والے اس سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے کہاتھا، ”پاکستان سمیت مسلم دنیا کو لڑکیوں کے لیے تعلیم تک مساوی رسائی کو یقینی بنانے میں اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔‘‘ شہباز شریف کا مزید کہنا تھا،”لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا ان کی آواز اور ان کی پسند کے حق کو تلف کرنے کے مترادف ہے، کیونکہ تعلیم سے محرومی لڑکیوں کے روشن مستقبل کے حق سے محرومی کا سبب ہوگی۔‘‘مسلم ورلڈ لیگ کے سیکریٹری جنرل اور تنظیم کے چیئرمین شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ کا کہنا تھا کہ عورتوں کی تعلیم کی مخالف اقلیت درست راستے پر نہیں۔ کانفرنس سے قبل علمائے کرام کے اجلاس میں تمام مکاتب فکر کے علما نے اپنا نکتہ نظر پیش کیا۔ تمام علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جس طرح مردوں کے لیے تعلیم ضروری ہے اسی طرح عورتوں کے لیے بھی ضروری ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’جو لوگ عورتوں کی تعلیم کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل ہی موجود نہیں۔ علما اس بات پر متفق ہے کہ عورت کے لیے تعلیم انتہائی ضروری ہے اور جو اقلیت اس بات مصر ہے کہ عورتوں کی تعلیم ٹھیک نہیں وہ اقلیت غلط راستے پر ہے اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔‘نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ’ایک دہائی سے طالبان نے خواتین سے تعلیم کا حق چھین رکھا ہے، اس کانفرنس کا مقصد پورا نہیں ہوگا اگر ہم یہاں افغان لڑکیوں کی تعلیم کی بات نہ کریں۔‘عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ ’طالبان نے خواتین کے حقوق چھیننے کے لیے 100 سے زائد قانون سازیاں کی ہیں۔ طالبان خواتین کو انسان نہیں سمجھتے۔‘انہوں نے مسلمان ملکوں کے رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ ’افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیوں کی مخالفت کر کے حقیقی قیادت کا مظاہرہ کریں۔‘ یہ حقیقت ہے کہ بیشتر حکومتیں لڑکیوں کی تعلیم کو نظرانداز کرتی ہیں۔ نظرانداز کیے جانے کے باوجود آج لڑکیوں کی تعلیم کا معاملہ مختلف نظر آرہا ہے۔ اگر ہم بحرانوں کو نظرانداز کریں گے تو اسلام کی بنیادی تعلیم کو حاصل نہیں کر پائیں گے۔ وقت آگیا کہ مسلم لیڈرز دنیا کو اسلام کا اصل اور مثبت تشخص دکھائیں