(اصغر علی مبارک)
اسلام آباد (ٹی این ایس) معاشی ترقی وخوشحالی کے لئے اڑان پاکستان پروگرام کو حکومتی عزم کا بھرپور ذریعہ قرار دیا جاسکتا ہےحکومت کی معاشی ٹیم کی محنت سے قومی معیشت استحکام حاصل کر چکی اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے,
اڑان پاکستان پروگرام کا مقصد ملک کی اقتصادی ترقی کے اہداف کو پورا کرنا ہے معاشی چیلنجوں کے باوجود طویل مدتی اقتصادی ترقی کے حصول کے لیے صحیح راستے پر گامزن ہونے کی وجہ سے پاکستان کی اقتصادی نمو کی رفتار امید افزا ہے ۔ وزیراعظم شہباز شریف کا
’یوم تعمیر و ترقی‘ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت کی معاشی ٹیم نے ایک سال کی محنت سے قومی معیشت استحکام حاصل کر چکی ہے اور ملک ترقی کے سفر پر گامزن ہے۔اگرچہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کی وجہ سے قوم کو چیلنجز کا سامنا ہے، تاہم معیشت اب مستحکم ہو چکی ہے اور پائیدار ترقی کی جانب بڑھنے کے لیے تیار ہے۔ ہمیں احساس ہے کہ تنخواہ دار طبقے نے مجموعی طور پر 300 ارب روپے ٹیکس ادا کیا جو خصوصی خراج تحسین کے لائق ہے۔جنوری 2025 میں افراط زر کی شرح 40 فیصد سے کم کر کے 2.4 فیصد کردی گئی جس کی وجہ سے پالیسی ریٹ میں کمی آئی۔انہوں نے کاروباری برادری پر زور دیا کہ وہ معیشت کے استحکام کے لیے حکومت کی کوششوں کی حمایت کریں اور اس بات پر زور دیا کہ ان کی شمولیت انتہائی اہم ہے۔انہوں نے یقین دلایا کہ حکومت پالیسی سازی کے عمل میں تاجر برادری کو مکمل طور پر شامل کرے گی کیونکہ نجی شعبے سے مشاورت کے بغیر معاشی ترقی حاصل نہیں کی جا سکتی۔وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت سرحد پار سمگلنگ کی روک تھام کے لیے بھرپور طریقے سے کام کر رہی ہے۔ قانونی طور پر افغانستان کو چینی برآمد کر کے حکومت نے211 ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کیا، بصورت دیگر یہ قیمتی آمدنی سمگلروں کے ہاتھوں میں چلی جاتی۔حکومت کی نجکاری پالیسی کے حوالے سے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’اب ہم بڑے پیمانے پر نجکاری کے عمل کی جانب بڑھ رہے ہیں کیونکہ کاروباری سرگرمیوں میں حکومت کا کوئی کردار نہیں۔‘ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے بغیر ملک ترقی و خوشحالی کے اہداف حاصل نہیں کر سکتا۔ ’ملک کو امن، استحکام، اتحاد، خوشحالی اور معاشی ترقی کی ضرورت ہے جس کے لیے معاشرے کے تمام طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو مل کر کام کرنا ہوگا۔‘اس موقعے پر وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ موجودہ حکومت کی دانش مندانہ پالیسیوں نے مہنگائی کی شرح کو 40 فیصد سے کم کرکے 2.4 فیصد تک لانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اپنے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ پاکستان کی معیشت مستقل مزاجی اور پالیسیوں کے تسلسل کے فقدان کی وجہ سے خطے میں پیچھے رہ گئی ہے۔انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ اڑان پاکستان پروگرام کے تحت پاکستان پانچ سال میں 100 ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کر لے گا۔اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے برآمدات پر مبنی صنعت کو 24 گھنٹے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے برآمدی صنعت کو قومی تعطیلات سے مستثنی قرار دینے کی بھی تجویز پیش کی۔حکومت کےسخت اقتصادی فیصلے پاکستان کی معیشت کو کامیابی سے چلانے کے لیے درکار ہیں۔یاد رہےکہ جنوری 2025 میں افراط زر کی شرح 40 فیصد سے کم کر کے 2.4 فیصد کردی گئی جس کی وجہ سے پالیسی ریٹ میں کمی آئی۔ انہوں نے کاروباری برادری پر زور دیا کہ وہ معیشت کے استحکام کے لیے حکومت کی کوششوں کی حمایت کریں اور اس بات پر زور دیا کہ ان کی شمولیت انتہائی اہم ہے۔انہوں نے یقین دلایا کہ حکومت پالیسی سازی کے عمل میں تاجر برادری کو مکمل طور پر شامل کرے گی کیونکہ نجی شعبے سے مشاورت کے بغیر معاشی ترقی حاصل نہیں کی جا سکتی۔
یاد رہےکہ اعداد و شمار خود بولتے ہیں۔ پاکستان نے 15 سالوں میں چھ ماہ کا سب سے زیادہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا ہے، جبکہ مسلسل کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس اور ترسیلات زر کی مد میں زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے بحالی ہوئی ہے جو اب تقریباً 12 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔اسی دوران دسمبر 2024 کے آخر میں افراط زر 4.1 فیصد رہا، جب کہ مئی 2023 میں یہ تقریباً 40 فیصد تھا، جبکہ شرح سود تاریخی بلند ترین سطح سے نیچے ہے جس کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی آئی ہے۔اس اقتصادی استحکام کا سہرا پاکستان کے اقتصادی پالیسی سازوں کو جاتا ہے۔ بہر حال موجودہ اقتصادی صورت حال کو زیادہ بہتر طور پر ’غیر مستحکم استحکام‘ کہا جا سکتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ منڈلاتے ہوئے بیرونی اور اندرونی چیلنجز ہمیں جلد ہی ان دنوں میں واپس لے جا سکتے ہیں جب ملک کا اقتصادی مستقبل تاریک نظر آتا تھا۔ایک لحاظ سے یہ موجودہ اقتصادی صورتحال ہیروڈ-ڈومر ماڈل کی یاد دلاتی ہے، جو ایک کلاسیکی اقتصادی ماڈل ہے جسے کینزین ماڈل کہا جاتا ہے۔ اس ماڈل کو 1940 کی دہائی میں اقتصادی ترقی کو بیان کرنے کے لیے رائے ہیروڈ اور ایوسی ڈومر نے آزادانہ طور پر تیار کیا تھا۔ ہیروڈ-ڈومر ماڈل نے ’وارنٹڈ‘ شرح نمو کو مطلوبہ حالت کے طور پر بتایا کیونکہ اس نے بےقابو کساد بازاری کو روکا۔تاہم وارنٹڈ شرح نمو طبعی طور پر غیر مستحکم تھی کیونکہ معمولی انحرافات بھی معیشت کو اس کے ’چاقو کی دھار‘ جیسی تیز کی ترقی کے راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔پاکستان کے اقتصادی پالیسی سازوں کے پاس اب بھی فکر مند ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں کیونکہ پاکستان کی اقتصادی ترقی ایک سفر پر گامزن ہے۔ بیرونی محاذ پر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ انتخاب نے عالمی معیشت میں بہت زیادہ غیر یقینی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس کی تجویز کردہ ٹیرف کا ممکنہ اثر کیا ہو گا جو کہ چینی درآمدات پر 60 فیصد تک ہو سکتا ہے۔کم از کم ابتدائی طور پر یہ غیر یقینی صورت حال عالمی سطح پر طویل مدتی شرح سود میں اضافے کے ذریعے ظاہر ہو رہی ہے، جیسا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے شائع کردہ تازہ ترین عالمی اقتصادی آؤٹ لک کے مطابق ہے۔صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی عالمی معیشت کے لیے خاص طور پر پاکستان کی برآمدات کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔پاکستان کی برآمدات پر امریکی ٹیرف کرنٹ اکاؤنٹ کو منفی طور پر متاثر کریں گے اور یہ امریکی ڈالر کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ ایکسچینج ریٹ کو شدید دباؤ میں لے آئے گا۔ اس کے بعد ’سٹیگ فلیشن کا ایک اور دور شروع ہو گا اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کو پالیسی ریٹ بڑھانے پر مجبور کرے گا، جس سے اقتصادی سرگرمیاں دباؤ میں آ سکتی ہیں,اندرونی محاذ پر پاکستان کی معیشت کو مزید وسائل کی نقل و حرکت اور نج کاری کے ذریعے مالی پہلو پر بھرپور توجہ کی ضرورت ہو گی۔ حکومت کو نہ صرف بنیادی مالیاتی سرپلس کو یقینی بنانے کے لیے بہت زیادہ آمدنی اکٹھا کرنے کی ضرورت ہو گی بلکہ غیر ٹیکس والے شعبوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانا ہو گا۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے مزید ’ڈیجیٹلائزیشن‘ کے ذریعے محصولات میں اضافے کے لیے سنجیدہ کوششیں جاری ہیں۔کچھ سرکاری ملکیت والے اداروں کو نج کاری کے لیے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہو گی۔ چونکہ نج کاری کے محاذ پر حکومت کو کامیابی نہیں ملی ہے، اس لیے حکومت چاہے گی کہ وہ بجلی پیدا کرنے والی منافع بخش کمپنیوں جیسے اداروں کی نج کاری کر کے نج کاری کی کوششوں کو تقویت فراہم کرے۔ مثال کے طور پر، حکومت زراعت جیسے ابھی تک غیر ٹیکس والے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے ہچکچاہٹ کا شکار رہے گی تاکہ سیاسی عدم استحکام یا خزانے کی صفوں میں اختلاف رائے پیدا نہ ہو۔ پھر بھی پاکستان کے گورننس اداروں میں خاصی چستی اور لچک ہے کیونکہ وہ مخصوص خطرات سے نمٹنے کے لیے مہارت کو یکجا کر سکتے ہیں۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے ملک کو کووڈ-19 وبائی مرض سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے قابل بنایا، جبکہ سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) نے اہم خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے خصوصی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے لڑکھڑاتی ہوئی معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔سال2025 پاکستان کی معیشت کے سامنے کئی بیرونی اور اندرونی چیلنجز کھڑا کرنے والا ہے۔ پاکستان کے پاس ایک ٹھوس گورننس کمانڈ اینڈ کنٹرول طریقہ کار موجود ہے جس میں مستقبل میں کسی بھی یا تمام اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کی کافی صلاحیت ہے۔یاد رہےکہ معاشی درجہ بندی کے عالمی ادارے فچ نے کہا ہے کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کے باوجود رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات نمایاں رہیں گی۔فچ نے کہا کہ جنوبی ایشیائی ملک کو مالی سال 2025 میں 22 ارب ڈالر سے زیادہ کا بیرونی قرض ادا کرنا ہو گا، جس میں تقریباً 13 ارب ڈالر کے دو طرفہ ذخائر بھی شامل ہیں۔ادارے کا کہنا تھا کہ ان حالات میں بڑی ’بیرونی فنانسنگ کا حصول ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔‘پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے گذشتہ ماہ ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس کے موقعے پر ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ حکومت نے مشرق وسطیٰ کے دو بینکوں سے چھ سے سات فیصد شرح پر ایک ارب ڈالر قرض کی شرائط پر اتفاق کیا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ قرضے قلیل مدتی یا ایک سال تک کے ہیں۔پاکستان کے مرکزی بینک کے سربراہ جمیل احمد نے گذشتہ برس اگست میں بتایا تھا کہ پاکستان اگلے مالی سال تک مشرق وسطیٰ کے کمرشل بینکوں سے چار ارب ڈالر تک حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔پاکستان کے وزیر خزانہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ 7 ارب ڈالر کے قرض معاہدے کے پہلے جائزے کے سلسلے میں آئی ایم ایف سے فروری کے آخر میں بات چیت ہو گی ’پاکستان نے اس جائزے کے حوالے سے پیشگی اقدامات کیے ہیں، ہم نے بہترین معاشی اصلاحات کی وجہ سے ترقی کی مضبوط بنیاد رکھی۔‘عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے ملک کے میکرو اکنامک حالات میں بہتری کا حوالہ دیتے ہوئے گذشتہ برس اگست میں پاکستان کی درجہ بندی کو ’سی اے اے 2‘ تک بڑھایا تھا۔عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ نے بھی عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے کے بعد جولائی میں پاکستان کی طویل مدتی غیر ملکی کرنسی ایشوور ڈیفالٹ ریٹنگ اپ گریڈ کرتے ہوئے ’سی سی سی‘ سے سی سی پلس’ کر دی تھی۔27 جنوری کو سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک میں شرح سود 13 فیصد سے کم کر کے 12 فیصد کر دی تھی۔وزیر اعظم شہباز شریف کا اسٹیٹ بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ میں ایک فیصد کمی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پالیسی ریٹ کا 12 فیصد پر آنا ملکی معیشت کے لئے خوش آئند ہے۔‘انہوں نے کہا تھا کہ ’پالیسی ریٹ میں کمی سے ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا۔‘گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا تھا کہ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آرہی ہے اور اس وقت ذخائر 16.19 ارب ڈالر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ رواں برس ملک میں شرح نمو ساڑھے تین فیصد رہنے کی توقع ہے۔ستمبر 2024 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے ملنے والی سات ارب ڈالر کی امداد کے بعد ملک کی معیشت بحالی کی راہ پر گامزن ہے۔حکومت پاکستان کی جانب سے حالیہ دنوں میں متعدد بار معیشت خصوصاً محصولات کے ہدف میں بہتری کے دعوے کیے گئے ہیں۔ پاکستان کے ادارہ شماریات نے کہا تھا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح نو سال سے زیادہ عرصے کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ سالانہ بنیادوں پر جنوری میں مہنگائی کی شرح کم ہو کر 2.4 فیصد رہ گئی۔یاد رہےکہ پاکستان کی ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ٹی ڈی اے پی) اور وزارت تجارت پانچ سے سات فروری 2025 تک جدہ سینٹر فار ایگزیبیشنز اینڈ ایونٹس میں میڈ اِن پاکستان نمائش اور بزنس فورم 2025 کی میزبانی کی ہے,یہ نمائش مختلف صنعتی شعبوں پر مرکوز ہے جن میں خوراک، ٹیکسٹائل، انجینیئرنگ اور خدمات شامل ہیں۔اس میں کھیلوں کے سامان اور کپڑے، دواسازی، تولیے، تیار شدہ ملبوسات، پراسیس شدہ خوراک، تعمیراتی سامان اور آرکیٹیکچرل ڈیزائن جیسے شعبوں کی مصنوعات اور خدمات پیش کی جا رہی ہیں۔یہ نمائش پاکستانی کاروباری اداروں کو سعودی اور بین الاقوامی خریداروں اور سرمایہ کاروں سے جوڑنے کے لیے ترتیب دی گئی ہے، تاکہ پاکستان کی مصنوعات کو سعودی مارکیٹ میں فروغ دیا جا سکے یہ نمائش نہ صرف ایک تجارتی شو بلکہ بزنس ٹو بزنس پلیٹ فارم ہے جہاں کاروباری شخصیات، سرمایہ کار اور حکومتی نمائندے ایک دوسرے سے براہ راست بات چیت اور نیٹ ورکنگ اور شراکت داری کے آغاز کے لیے ایک منفرد موقع فراہم کیا تین روزہ ایونٹ ایک جامع تجارتی نمائش، بزنس ٹو بزنس ملاقاتوں، اور سیمینارز میں 135 سے زائد پاکستانی نمائش کنندگان ملک کی متنوع صنعتوں کی نمائندگی کی ہے ۔یاد رہےکہ میڈ اِن پاکستان نمائش اور بزنس فورم عالمی منڈیوں کو وسعت دینے اور دوطرفہ تجارتی تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے خواہش مند تمام افراد کے لیے ملاقات کا مرکزی مقام بن چکا ہے اور اس ایونٹ میں اہم کاروباری معاہدے متوقع ہیں