( اصغر علی مبارک )
اسلام آباد (ٹی این ایس) ترکی کے صدر کے حالیہ دورہ پاکستان کے بعد معاشی ترقی کے نتائج سامنے آرہے ہیں ,اس دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان 24 معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔پاکستان مختلف شعبوں میں نئے سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہے۔ وزیراعظم پاکستان ملکی معیشت کی بحالی اور مضبوطی کے خواہاں ہیں تو چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ پاک فوج کے ہر ممکن تعاون کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس مقصد کے لیے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل/اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل (SIFC) نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خوش کرنے کے لیے خصوصی انتظامات قائم کیے ہیں۔پاکستان کے ساتھ مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کو پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان کی ملاقات وزیر اعظم شہباز شریف سے ہوئی اور پاکستان اور ترکی کے درمیان 24 معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے۔ یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کی تقریب کے بعد ترک صدر اور وزیراعظم پاکستان مشترکہ پریس کانفرنس کی۔دوسری جانب پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ان کے ترک ہم منصب رجب اردوغان کا دورہ پاکستانی عوام کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے اور اس سے دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں مدد ملے گی,دوسری جانب پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ان کے ترک ہم منصب رجب اردوغان کا دورہ پاکستانی عوام کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے اور اس سے دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں مدد ملے گی, صدر آصف علی زرداری نے ان خیالات کا اظہار اپنے ترک ہم منصب رجب اردوغان سے ایوان صدر میں ایک ملاقات کے دوران کیا۔اردوغان نے قبرص کے معاملے پر ترکی کے لیے پاکستان کی مسلسل حمایت پر صدر کا شکریہ بھی ادا کیا اور کشمیر کے تنازعے کو بات چیت کے ذریعے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ترک صدر نے پاکستان ترک بزنس اینڈ انویسٹمنٹ فورم سے بھی خطاب کیا جس میں دونوں اطراف کے سرکردہ سرمایہ کار، کمپنیوں اور کاروباری افراد شریک ہوئےترک صدر رجب طیب اردوغان دونوں ممالک کے درمیان یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدر آصف زرداری سے ملاقات میں تجارتی امور پر گفتگو ہوئی۔ تاجروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیتے ہیں۔’پاکستان نے دہشت گردی کےخلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں، دہشت گردی میں جاں بحق پاکستانیوں کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔‘طیب اردوغان نے کہا کہ ’فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی اقدامات کی مذمت کرتے ہیں اور فلسطینی عوام کے لیے اپنی غیرمتزلزل حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔’دنیا کے ہر فورم پر پاکستان کے ہمراہ فلسطین کے لیے آواز بلند کی، فلسطینی بہن بھائیوں کی مدد ہمارا فرض ہے، آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے مل کر کوششیں جاری رکھیں گے۔‘انہوں نے کہا کہ ’مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں، قبرص کے معاملے پر پاکستانی حمایت ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔’دونوں ممالک کے عوام کے درمیان گہرے تعلقات ہیں۔ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کام کرتے رہیں گے، ترکی کا پاکستان کے تعلیمی شعبے میں اہم کردار ہو گا۔‘ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کو پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کا اراداہ رکھتے ہیں۔ ترکی اور پاکستان کے درمیان تعلقات ایک طویل عرصے سے مضبوط اور دوستانہ نوعیت کے ہیں جو مختلف پہلوئوں پر استوار ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان ایک دوسرے کے ثقافتی، تاریخی اور مذہبی تعلقات کی ایک گہری جڑ ہے۔ ترکی اور پاکستان کا رشتہ نہ صرف خطے کی سیاسی و اقتصادی صورت حال پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی دونوں کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کا ایک اہم ذریعہ بنتا ہے۔ ترکی نے ہمیشہ پاکستان کے مسائل، خاص طور پر کشمیر کے مسئلے، پر اس کا ساتھ دیا ہے اور اس نے عالمی فورمز پر پاکستان کے مقف کی حمایت کی ہے۔ اسی طرح پاکستان نے بھی ترکی کی حمایت کی ہے، خاص طور پر جب ترکی کو دہشت گردی کے خطرات کا سامنا تھا۔ ان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے دونوں ممالک نے مختلف سطحوں پر باہمی تعلقات کو فروغ دیا ہے اور دونوں حکومتوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ آپس میں تعاون بڑھایا جائے تاکہ مشترکہ مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات میں بھی بہتری آئی ہے اور ترکی نے پاکستان میں مختلف ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اس سرمایہ کاری سے پاکستان کی معیشت میں استحکام آنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ ترکی اور پاکستان کے درمیان دفاعی تعلقات بھی مستحکم ہیں اور دونوں ممالک کی افواج نے مختلف فوجی مشقوں اور تربیتی پروگراموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ہے۔
ترکی اور پاکستان کی افواج کے درمیان اس نوعیت کی مشقوں کا انعقاد دونوں ممالک کی سیکورٹی کو مستحکم کرنے کے لئے ضروری ہے، خصوصاً جبکہ عالمی سطح پر دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دونوں ممالک نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھانے کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے، اور اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ عالمی سطح پر اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی تیار کی جائے گی۔ ان تمام پہلوں میں حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید گہرا تعلق دیکھنے کو ملا ہے۔ ان تعلقات کی بنیاد صرف حکومتوں تک محدود نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی دونوں ممالک کے درمیان مضبوط روابط قائم ہیں۔ ترکی کی فلمیں، ڈرامے اور ثقافت پاکستان میں مقبول ہیں اور اس کے برعکس پاکستان کی ثقافت اور روایات ترکی میں پسند کی جاتی ہیں۔حالیہ دنوں میں، ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کا پاکستان کا دورہ ایک نیا سنگ میل ثابت ہوا ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی دعوت پر ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا اور پاک ترک اعلیٰ سطحی اسٹر ٹیجک کو آپریشن کونسل کے ساتویں اجلاس کی مشترکہ صدارت کی۔اجلاس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیااور24 اہم معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔ترک صدر نے پاکستان ترک بزنس اینڈ انویسمنٹ فورم سے خطاب کیا جس میں دونوں اطراف کے سرکردہ سرمایہ کار، کمپنیوں اور کاروباری افراد شریک ہوئے۔انہوں نے اس دورے کے دوران پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیا اور دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی، ثقافتی اور دفاعی تعلقات میں مزید بہتری لانے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ صدر اردگان نے اس دورے کے دوران پاکستان کے عوام کے ساتھ اپنی گہری دوستی کا اظہار کیا۔ ترکی پاکستان اعلیٰ سطح کے تزویراتی تعاون کونسل کے ساتویں اجلاس کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان مختلف ایم او یوز پر دستخط کئے گئے جن میں دفاع، بجلی، توانائی، کان کنی، تجارت، پانی، تعلیم، بینکنگ، صحت، قانونی امور، میڈیا، ایرو اسپیس، ثقافت، کاروبار، ایکسپورٹ کریڈٹ بینک آف ترکی اور ایکسپورٹ امپورٹ بینک آف پاکستان کے درمیان مفاہمتی یادادشت، سینٹرل بینک آف ترکی اور سٹیٹ بنک آف پاکستان کے درمیان تکنیکی تعاون کے شعبے میں مفاہمتی یادادشت، تجارت میں استعمال ہونے والے اوریجن سرٹیفیکیٹس کی ڈیجیٹائزیشن، سماجی اور ثقافتی مقاصد کے لئے ملٹری اور سول پرسنیل کے تبادلے کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط شامل ہیں۔پاکستان ترک بزنس فورم نے دو مفاہمتی یادداستوں پر بھی دستخط کئے جن کا مقصد دو طرفہ کاروباری تعلقات کو فروغ دینا ہےطیب اردگان نے دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تجارتی معاہدے کو وسعت دینے کی صلاحیت کو اجاگر کیا اور ترک سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ پاکستان میں خاص طور پر فلیگ شپ پراجیکٹس میں مواقع تلاش کریں۔انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کی تعریف کی اور تنازعہ کشمیر سمیت بین الاقوامی مسائل پر پاکستان کے لئے ترکی کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا۔انہوں نے کشمیریوں کے ساتھ ترکی کی یکجہتی کا اعادہ کیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیااور اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان تعلقات تاریخی، ثقافتی اور مذہبی بنیادوں پر استوار ہیں۔ ان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے لئے پاکستان ترکی اعلیٰ سطح تزویراتی تعاون کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا۔جو دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کا اہم پلیٹ فارم ہے۔اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کوفروغ دینا، سیاسی، اقتصادی، دفاعی، تجارتی اور ثقافتی روابط کو مزید مستحکم کرنا ہے۔اردگان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کی تعریف کی اور تنازعہ کشمیر سمیت بین الاقوامی مسائل پر پاکستان کے لئے ترکی کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کر نے پر زور دیا۔ترک صدر نے فلسطین کے حوالے سے پاکستان کے مقف کو بھی سراہتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ مشرقی یروشلم اس کا دارالحکومت ہونے کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے مشترکہ کوششیں جاری رکھیں گے۔وزیراعظم شہباز شریف نے کشمیر پر ترکی کی مسلسل حمایت اور پاکستان میں قدرتی آفات کے دوران اس کی مدد پر شکریہ ادا کیا اور یقین دلایا کہ دستخط شدہ معاہدوں پر مشترکہ کوششوں کے ذریعے تیزی سے عمل درآمد کیا جائے گا اور ملاقاتوں کے بعد وزیراعظم نے ترک صدر اور ان کے وفد کے اعزاز میں ظہرانہ دیا۔صدر اردگان کا یہ دورہ نہ صرف پاکستان اور ترکی کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی طرف ایک قدم تھا۔یہ دورہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان روابط کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے اور مستقبل میں ان تعلقات کے مزید استحکام کی توقع کی جا سکتی ہے