وزارت خزانہ نے ملک کی اقتصادی حالت کے حوالے سے پی ٹی آئی کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کردیا

 
0
455

اسلام آباد  : ستمبر 9 (ٹی این ایس ) وزارت خزانہ کی طرف سے ملک کی اقتصادی حالت کے حوالے سے پی ٹی آئی کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے ملکی معیشت کے تین شعبوں کی سیاہ تصویر کشی کرکے عوام میں سنسنی پھیلانے کی کوشش کی ہے جس سے ان کی منفی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے، حالانکہ موجودہ حکومت نے معیشت کے حوالہ سے جو سنگ میل عبور کئے ہیں انہیں بھی پی ٹی آئی کی طرف سے نظر انداز کیا گیا ہے، پاکستان کی معیشت کے حوالہ سے موجودہ حکومت کی گذشتہ ساڑھے چار سالوں کے دوران کی جانے والی کوششوں کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے اور عالمی اداروں نے ہماری معیشت کی بہتری اور مثبت اقتصادی اشاریوں کو عملی طور پر سراہا ہے۔

وزارت خزانہ کے ترجمان کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس بات کو ذہن میں لانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کا جی ڈی پی 2008 میں 0.36 فیصد تک پہنچ گیا تھا جس کے بعد 2008ء سے 2013ء تک ملک کی شرح نمو 2.8 فیصد تک رہی۔ 2008 اور 2009ء میں افراط زد دوہرے ہندسوں میں تھا اور اگست 2008ء میں افراط زر کی شرح 25.3 فیصد تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی۔ مجموعی طور پر 2008ء سے 2013ء تک افراط زر کی اوسط شرح 12 فیصد رہی۔ پالیسی کی شرح 2008-09ء میں 14 فیصد بلند ترین ریکارڈ کی گئی۔

2008-09ء میں زرعی قرضے 233.1 ارب روپے جاری ہوئے۔ 2008-13ء تک پانچ سالوں میں مجموعی طور پر 264.3 ارب روپے جاری کئے گئے۔ اس دوران زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی کم ترین سطح پر رہے اور ملک دیوالیہ ہونے کی پیشنگوئیاں کی جا رہی تھیں۔ ملک کو فنڈنگ دینے والے عالمی اداروں نے اپنے دروازے پاکستان پر بند کر لئے تھے۔ ایس اینڈ پی اور موڈیز جیسے اداروں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ انتہائی کم کر دی۔ گزشتہ چار سالوں کے دوران پاکستان کی معیشت میں واضح بہتری دیکھی گئی ہے جس کی بڑی وجہ موجودہ حکومت کی طرف سے اقتصادی بحالی کے ایجنڈے پر کامیابی سے عملدرآمد ہے اور اس کا مقصد ملک کی اقتصادی شرح نمو اور میکرو اکنامک سٹیبلٹی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ 2008ء سے 2013ء تک پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ عدم استحکام کا شکار رہی جو اب مستحکم ہو گئی ہے۔ مالی سال 2014ء میں جی ڈی پی کی گروتھ چار فیصد سے تجاوز کر گئی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جس وقت پاکستان کو سیکورٹی کے حوالے سے کئی قسم کے چیلنجز کا سامنا تھا اور ہمیں آئی ڈی پیز کو اپنے گھروں میں واپس بھجوانے کا مسئلہ درپیش تھا مگر ان چیلنجوں کے باوجود گزشتہ تین سالوں کے دوران ہماری جی ڈی پی گروتھ چار فیصد سے 5.3 فیصد تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جس کی بڑی وجہ زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں کی شاندار کارکردگی ہے۔

موجودہ حکومت کی شرح نمو کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات اور پالیسیوں کی وجہ سے ہم اس مقام تک پہنچے ہیں۔ زرعی شعبے کے قرضے 2013ء میں 336.3 ارب تھے اور مالی سال 2017ء میں یہ 704.5 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ مالی سال 2018ء کے لئے ہمارا ہدف ایک ٹریلین تک کے زرعی قرضے دینے کا ہے اسی طرح سبسڈائز نرخوں پر کھادیں فراہم کرنے کا کام بند ہو چکا تھا، ہم نے زرعی کسان پیکج دیا اور کسانوں کو مختلف قسم کی مراعات دیں۔

اسی طرح صنعتی شعبے میں 0.75 فیصد گروتھ ہوئی جبکہ مالی سال 2013ء میں صنعتی شعبے کی گروتھ 5.02 فیصد تھی جبکہ مالی سال 2017ء میں صنعتی شعبہ کی گزشتہ پانچ سالوںکے دوران شرح نمو ہر سال سالانہ پانچ فیصد تک بڑھتی رہی اور اس طرح صنعتی شعبے کو گیس اور بجلی کی فراہمی کی وجہ سے یہ گروتھ 2017ء میں 5.63 فیصد تک پہنچ گئی۔ خدمات کے شعبے میں 2013ء کے مقابلے میں مالی سال 2017ء میں صنعتی شعبے میں زراعت اور صنعت کے شعبوں میں اصلاحات کی وجہ سے شرح نمو 5.98 فیصد تک پہنچ گئی۔

اسی طرح دسمبر 2013ء میں بینکنگ کے شعبے کے اثاثوں کی بنیاد 10.487 ٹریلین سے بڑھ کر دسمبر 2016ء میں 15.831 ٹریلین تک پہنچ گئی جو 50.9 فیصد سی اے آر کی رجسٹرڈ گروتھ ہے جس کی شرح دسمبر 2016ء تک 16.2 فیصد بنتی ہے جبکہ دسمبر 2013ء میں 14.9 فیصد تھی۔ اسی طرح سرمایہ کاری کے شعبے میں 2013ء میں 50.1 فیصد گروتھ پہنچ گئی جبکہ 2013ء میں 3348.3 ارب سے بڑھ کر 2017ء میں 5026.8 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔ یہ جی ڈی پی کے تناسب سے 15.78 فیصد بنتی ہے جو 2013ء میں 14.96 فیصد تھی۔

بیرون ملک سے پاکستانی ورکروں کی طرف سے بھجوائے گئے غیر ملکی زرمبادلہ 2013ء میں 13.9 ارب ڈالر تھے جبکہ 2017ء میں ان میں 2013ء کے مقابلے میں 1.456 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور اس شعبے میں شرح نمو 65.5 فیصد تک رہی۔ فروری 2014ء میں ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر 7.58 ارب ڈالر تھے جو ستمبر 2017ء میں بڑھ کر 20.304 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ نجی شعبے کو قرضوں کی فراہمی میں بھی بہتری آئی ہے۔ مالی سال 2013ء میں یہ صرف 7.6 ارب روپے تھے جو مالی سال 2017ء میں 747.9 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔

مالی خسارے میں 2017ء میں 5.8 فیصد تک کمی آئی ہے جبکہ 2013ء میں مالی خسارہ جی ڈی پی کے تناسب سے 8.2 فیصد تھا۔ پاکستان کی بہترین اقتصادی اور معاشی حکمت عملی کی وجہ سے عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں اضافہ کیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ 2013ء میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت امداد حاصل کرنے والے لوگوں کی تعداد 3.7 ملین تھی جو بڑھ کر 2017ء میں 5.6 ملین تک پہنچ گئی ہے اسی طرح بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 2013ء میں 40 ارب روپے سے بڑھ کر 2017ء میں رقم 121 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔

غربت میں کمی آئی ہے۔ موجودہ حکومت نے عالمی مالیاتی اداروںکے ساتھ تعلقات کو بہتر بنایا۔ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی طرف سے پاکستان کو ملنے والے قرضے اس بات کا ثبوت ہیں، یہ قرضے میکرو اکنامک فریم ورک کو بہتر بنانے کے لئے استعمال کئے گئے اس پالیسی کا جون 2013ء میں فقدان تھا۔ میکرو اقتصادی استحکام حاصل کرنے کے بعد ہم نے زرمبادلہ کے ذخائر کو بہتر بنایا اور پاکستان کو ایک دفعہ پھر آئی بی آر ڈی سہولیات حاصل کرنے والے ممالک میں شمار کیا گیا۔

پاکستان اور آئی ایم ایف نے ای ایف ایف پروگرام کو کامیابی سے مکمل کیا جو ہماری ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے شعبے میں کمٹمنٹ کا ثبوت ہے، ہم نے ٹیکسیشن، توانائی، مالیاتی اور اقتصادی شعبوں کے علاوہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز میں اصلاحات متعارف کرائیں جبکہ یہ بات یاد رکھنی ہے کہ اس سے قبل آئی ایم ایف کے پروگرام کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت سے قبل شہری علاقوں میں یومیہ 12 سے 14 گھنٹے جبکہ دیہی علاقوں میں 16 سے 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو رہی تھی، اوسطاً شارٹ فال پانچ ہزار میگاواٹ تھا جسے موثر انتظام کے ذریعے 2 ہزار میگاواٹ تک لایا گیا اور 2017ء کے اختتام تک یہ مکمل ختم ہونے کا امکان ہے۔

گذشتہ چار سالوں کے دوران شارٹ فال میں اضافہ کی بڑی وجہ بجلی کی طلب میں اضافہ تھا، 2013ء میں پیک ڈیمانڈ تقریباً 19 ہزار میگاواٹ تھی جو 2017ء میں 24 ہزار میگاواٹ سے تجاوز کر گئی۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد 3600 میگاواٹ آر ایل این جی پاور پلانٹ، 2640 میگاواٹ کے کول پاور اور دیگر منصوبوں پر کام شروع کیا۔ ان منصوبوں سے مجموعی طور پر 9900 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہو گی۔ اس کے علاوہ حکومت نے نیشنل پاور پالیسی 2013ء کے فریم ورک کے تحت وسیع البنیاد اصلاحات کیں جس کے نتیجہ میں بجلی کی دستیابی بہتر ہوئی ہے۔

ملک کا ایل این جی امپورٹ ٹرمینل 2017ء کے اختتام سے قبل آپریشنل ہو جائے گا جس کے نتیجہ میں 600 ایم ایم سی ایف ڈی آر ایل این جی کا ملک میں اضافہ ہو گا۔ اس کے نتیجہ میں پاکستان کا گیس خسارہ 30 فیصد تک کم ہو جائے گا اور 3600 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کیلئے ایندھن فراہم ہو گا۔ قرضوں کے حوالہ سے کیا گیا دعویٰ غلط ہے اور اس کا مقصد عام لوگوں کو گمراہ کرنا ہے۔ مجموعی قرضوں میں بیرونی قرضوں کا تناسب 2013ء میں جی ڈی پی کے 21.4 فیصد سے کم ہو کر 2017ء میں جی ڈی پی کا 20.6 فیصد ہو گیا ہے۔

بیرونی قرضوں میں زیادہ حجم کثیر الجہتی اور دوطرفہ رعایتی قرضوں پر مشتمل ہے جو مجموعی قرضوں کا تقریباً 85 فیصد ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں بیرونی قرضوں کی پائیداری بڑھی ہے اور ان میں کمی کا رجحان رہے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے اس دعویٰ کو غلط قرار دیا گیا ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں کمی ہوئی ہے اور بھارت اور بنگلہ دیش کی برآمدات بڑھی ہیں اور کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر عالمی اقتصادی انحطاط کی وجہ سے تقریباً تمام ممالک کو کمی کے رجحان کا سامنا رہا ہے۔

بنگلہ دیش کے ساتھ موازنہ مناسب نہیں کیونکہ بنگلہ دیش کو لیسٹ ڈویلپڈ کنٹری کا درجہ حاصل ہے اور اس کے تحت اسے بہت رعایتیں دی گئی ہیں۔ مالی سال 2017ء میں درآمدات کے حوالہ سے کہا گیا ہے کہ ملک کا درآمدی بل بڑی حد تک مشینری کی درآمد سے بڑھا ہے۔ مشینری کی درآمد میں اضافہ معیشت کی نمو کو ظاہر کرتا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق 2009ء میں مشینری کا درآمدی بل 4.9 ارب ڈالر تھا جو 2017ء میں 7.9 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔

براہ راست ٹیکسوں میں کمی کے دعوے کے حوالہ سے وضاحت کی گئی ہے کہ مجموعی ٹیکسوں میں براہ راست ٹیکسوں کا حصہ بڑھا ہے۔ 1990-91ء میں براہ راست ٹیکس مجموعی ٹیکسوں کا تقریباً 20 فیصد تھے جو 2004-05ء میں 31.1 فیصد تک بڑھ گئے اور 2016-17ء میں ان کا حصہ 40 فیصد تک ہو گیا ہے اور یہ ایف بی آر کی جانب سے جمع کیا گیا سب سے بڑا ٹیکس بن گیا ہے۔ حکومت مختلف پالیسی و انتظامی اصلاحات کے ذریعے براہ راست ٹیکسوں کا حصہ مزید بڑھانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔

حکومتی اقدامات کے نتیجہ میں انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد ٹیکس سال 2016ء میں 1.26 ملین بڑھ گئی ہے جو 2012ء میں تقریباً 7 لاکھ 66 ہزار تھی۔ اصلاحات پروگرام کے نتائج ٹیکس ریونیوز میں اضافہ کی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں۔ گذشتہ چار سالوں کے دوران ٹیکس وصولیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 2012-13ء میں ٹیکس وصولیوں کا حجم 1946 ارب روپے تھا جو 2016-17ء میں 3362 ارب روپے تک بڑھ گیا ہے، اس طرح ٹیکس محصولات میں مجموعی طور پر 73 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

ٹیکس وصولیوں میں 1.4 ٹریلین کا اضافہ ہوا ہے جبکہ مالی سال 2016-17ء میں جی ڈی پی میں ٹیکسوں کی شرح 12.5 فیصد ہو گئی ہے۔ 30 جون 2017ء تک زیر التواء مجموعی سیلز ٹیکس ریفنڈ کا حجم 139 ارب روپے تھا جو مالی سال 2016-17ء کیلئے 3521 ارب روپے کے ریونیو ٹارگٹ کا 3.9 فیصد ہے۔ واضح رہے کہ یکم جولائی 2013ء کو واجب الادا سیلز ٹیکس ریفنڈ ایک سو ارب روپے تھے جو 2012-13ء کیلئے 2007 ارب روپے کے ریونیو ہدف کا 5 فیصد تھے۔ یہ موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ 2013ء میں موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے واجب الادا ریفنڈ کی شرح میں ریونیو ہدف کے مقابلہ میں کمی آئی ہے اور آج کے دن تک ان اعداد و شمار میں مزید کمی آئی ہے کیونکہ موجودہ حکومت نے جولائی اور اگست 2017ء میں 26 ارب روپے کے مزید ریفنڈ ادا کر دیئے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف نے پاکستانی معیشت کے تین شعبوں کی سیاہ تصویر کشی کرکے پاکستانی عوام میں سنسنی پھیلانے کی کوشش کی ہے، اس سے ان کی منفی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔ گذشتہ ساڑھے چار سالوں کے دوران ملک میں ہونے والی مثبت ترقی کو انہوں نے نظر انداز کیا ہے حالانکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ان کاوشوں کو سراہا گیا ہے۔