لاہور (ٹی این ایس) قیام پاکستان سے استحکام پاکستان کا سفر

 
0
27

( اصغرعلی مبارک )
لاہور (ٹی این ایس) یوم پاکستان ’’تجدیدِ عہدِ پاکستان قومی یکجہتی کادن ہے یہ ایک عظیم تاریخی موقع ہے کہ اس سال شب معراج پریوم پاکستان ہے یاد رہے کہ یوم آزادی پاکستان کے موقع پر بھی14 اگست 1947 کو شب معراج تھی۔مسلم لیگ پاکستان کی خالق جماعت ہے۔‘‘23 مارچ 1940 وہ دن ہے جب برصغیر میں قیام پاکستان کیلئے باقاعدہ تحریک شروع ہوئی تھی اور اسی لئے اس دن کو اس مناسبت سے یوم پاکستان بھی کہتے ہیں۔23 مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس کے ذریعے مسلمانوں کےلئے ایک علیحدہ وطن کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھااور اسکے بعد پاکستان کا حصول صرف سات سال کے عرصے میں پایہ تکمیل پہنچاتھا ۔ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کا سالانہ اجتماع ہوا تھا جس کی صدارت قائداعظم نے کی، اس اجلاس میں شیر بنگال مولوی فضل الحق کی پیش کردہ قرارداد منظور کی گئی جس میں برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس قرار داد کی منظوری مسلم لیگ کی مجلس شوری کے ساتھ ہندوستان کے تمام حصوں سے آئے ہوئے ایک لاکھ سے زائد افراد نے بھی دی۔کیوں کہ یہ قرار داد آج جس جگہ مینار پاکستان موجود ہے وہاں پیش کی گئی تھی تو اسی مناسبت سے اسے قرار داد لاہور کا نام دیا گیا لیکن بعد میں جب کانگرسی رہنماو¿ں نے طنزا اسے قرار داد پاکستان کا نام دیا تو یہ اسی نام سے موسوم ہو گئی۔

قرارداد پاکستان منظور ہونے کے بعد یہ قرارداد 1941 میں نہ صرف مسلم لیگ کے آئین کا حصہ بنی بلکہ اسی کی بنیاد پر سات سال بعد یمارا پیارا ملک دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آیا۔اس تاریخی موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کے اس اجلاس میں خطبہ صدارت دیتے ہوئے برصغیر پر قابض انگریزوں کو واضح پیغام دیا کہ ہندوستان کا مسئلہ فرقہ ورانہ نوعیت کا یا مقامی نوعیت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس کو اسی لحاظ سے حل کرنا چاہیے کیونکہ جب تک برصغیر میں بسنے والی اکائیوں کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا تو کوئی بھی قانون یا دستور اس برصغیر میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ کانگرس کا یہ نظریہ تھا کہ برصغیر میں صرف ایک ہی قوم بستی ہے اور وہ ہندو ہیں تو قائد اعظم نے کہا کہ لفظ قوم کی ہر تعریف کی رو سے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور اس لحاظ سے ان کا اپنا علیحدہ وطن، اپنا علاقہ اور اپنی مملکت ہونی چاہیے جہاں وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے اس موقع پر کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ہندو اور مسلم دو علیحٰدہ قومیں ہیں جو اپنا منفرد مذہب، تہذیب و تمدن، فلسفہ ، معاشرتی و سیاسی نظام رکھتی ہیں۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ہم مذہبی، روحانی، تہذیبی و سیاسی ، اقتصادی اور سماجی اعتبار سے پوری طرح آزاد ہوں۔ اور ہندو مسلم دو پرامن ہمسایوں کی طرح رہیں۔ ہم ایسے کسی دستور کو برداشت نہیں کر سکتے جو مستقل اکثریت کو حاکم بنا دے۔ اس لئے اب سوائے اسکے کوئی چارہ نہیں کہ ہندوستان کی دو بڑی قومیں خود کو دو خودمختار مملکتوں میں تقسیم کر لیں۔قائداعظم نے قراردادِ پاکستان کو بنیاد بنا کر دو قومی نظریہ کے مطابق ملک کی تقسیم کا مطالبہ کیا۔دوسری طرف گاندھی،نہرو سمیت کانگرس کی تمام مرکزی قیادت کا موقف تھا کہ برصغیر میں صرف ایک ہی قوم بستی ہے اور وہ ہندوستانی قوم ہے لیکن قائداعظم محمد علی جناح نے دلائل کے ساتھ واضح کیا کہ برصغیر میں ایک قوم نہیں بلکہ دو قومیں بستی ہیں اور دوسری قوم مسلمانان ہندوستان ہیں اور قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے مخالفوں کو جواب دیا کہ پاکستان کی بنیاد تو اسی دن رکھ دی گئی تھی جب برصغیر میں مسلمانوں نے قدم رکھا اور پہلا شخص مسلمان ہوا تھا۔مارے آباﺅ اجداد نے بڑی مشکلوں، قربانیوں کے ساتھ یہ ملک حاصل کیا تھا قرار داد پاکستان کو چونکہ یوم پاکستان بھی کہتے ہیں اور یہ وہی دن ہے جس دن پاکستان کے حصول کا باقاعدہ آغاز ہوا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ صرف سات برس کے قلیل عرصے میں حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں آل انڈیا مسلم نے نہ صرف پاکستان کا حصول ممکن بنایا بلکہ اس کیلئے ایک راہ بھی متعین کی کہ اس ملک پر قانون کون سا نافذ ہو گا اس ملک کا آئین کیا ہوا۔اور یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارے بڑوں نے سات برس کی قلیل مدت میں یقین،اتحاد اور تنظیم کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک الگ ملک کا حصول ممکن بنایا تھایہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس دن عہد کریں کہ استحکام پاکستان کیلئے جو ممکن ہو سکا ہم کریں گے اور اس ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں اپنا کردار ضرور ادا کریں گے اور یہی یوم پاکستان کا سبق ہے کہ ہمارے بڑوں نے اگر قلیل مدت میں انگریزوں اور ہندووں کے پنجے سے اگر یہ ملک حاصل کیا تھا تو یقینا ہم بھی اگر تہیہ کر لیں تو ملک اس وقت جن مشکل حالات سے نبرد آزما ہے تو ان حالات سے نکلنا ہمارے لئے مشکل امر نہیں ہو گا، اسی دن کی مناسبت سے ہر سال 23 مارچ کو یومِ پاکستان کے موقع پر پاکستان کی تینوں مسلح افواج بری ، بحری اور فضائیہ کے علاوہ سٹرٹیجک فورسز ، عوام کے سامنے اپنی فوجی قوت کا غیر معمولی مظاہرہ کرتی ہیں یومِ پاکستان کے موقع پر پریڈ کے انعقاد کا بنیادی مقصد، عوامِ پاکستان سمیت دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ اب ہم دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑائی کے بُرے دن گزار چکے ہیں۔23 مارچ 1940 کو مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کی قرار داد منظور ہوئی، جسے بعد میں قراردادِ پاکستان کا نام دیا گیا۔آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی کارروائی 22 مارچ 1940ءکو شروع ہوئی۔ نواب ممدوٹ نے استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ کے طور پر افتتاحی خطاب کیا۔بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اس موقع پر طویل تقریر کی۔ اس کے ساتھ ہی اس دن کی کارروائی اختتام کو پہنچی۔23 مارچ 1940ءکو اجلاس کی کارروائی 3 بجے سہ پہر شروع ہوئی۔ بنگال کے مولوی فضل حق نے قراردادِ لاہور پیش کی اور اس کی حمایت میں تقریر کی۔قراردادِ پاکستان مسلمانانِ پاک وہند کے دو قومی نظریے پریقین کا تاریخی اظہار تھا۔ قرارداد کے مطابق 1935ءکے حکومت ِہند ایکٹ میں تشکیل کردہ قوانین کے تحت وفاق کی منصوبہ بندی برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ناقابل ِعمل اور غیر موزوں قرار پائی۔برصغیر پاک و ہند کے مسلمان تب تک مطمئن نہیں ہوں گے جب تک مکمل آئینی منصوبے پر نئے سرے سے نظرثانی نہیں کی جائے گی اور یہ کہ کوئی بھی ترمیم شدہ منصوبہ مسلمانوں کے لیے صرف اسی صورت میں قابلِ قبول ہوگا اگر اس کی تشکیل مسلمانوں کی مکمل منظوری اور اتفاق رائے کے ساتھ کی جائے گی۔قرارداد میں یہ بھی طے پایا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا مسلمہ نقطہ نظر یہ ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی آئینی منصوبہ تب تک قابل ِقبول نہیں ہوگا، جب تک جغرافیائی طور پر ملحق اکائیوں کی علاقائی حد بندی کرکے ان کی آئینی تشکیل اس طرح کی جائے کہ جن علاقوں میں مسلمان عددی طور پراکثریت میں ہیں، ان کو آزاد ریاستوں میں گروہ بند کردیا جائے ، اس طرح تشکیل پانے والی یہ اکائیاں مکمل آزاد اور خودمختار ہوں گی۔ قراردادِ پاکستان کا ایک اہم مطالبہ یہ بھی تھا کہ جن علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں پر انہیں آئین کے تحت مکمل حقوق اور اختیارات دیئے جائیں، کیونکہ برصغیر کا موجودہ آئین مسلمانوں کے حقوق پورے نہیں کرتا اور نہ ہی ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے، لہٰذا برصغیر کے مسلمان اسے قبول نہیں کریں گے۔اس قرارد کی پورے ہندوستان کے مسلمانوں نے بھرپور حمایت کی تھی ۔اس قرارداد کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خانؒ نے کیا تھا۔ اپریل 1941ءمیں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قراردادِ لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کرلیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔ یوم پاکستان کی مناسبت سے نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز کے شعبہ اسلامی فکر و ثقافت، شعبہ عربی اور شعبہ پاکستان سٹڈیز نے مشترکہ طور پر ایک فکر انگیز کانفرنس’’تجدید عہد پاکستان‘‘ کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس کا مقصد بانیان پاکستان کے وژن کے مطابق قومی یکجہتی اور عزم کی تجدید کرنا تھا۔معروف علمی و فکری شخصیات پروفیسر خورشید ندیم چیئرمین رحمت اللعالمین اتھارٹی ، ڈاکٹر خالد رحمان چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ، اور پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الحق ڈائریکٹر جنرل، اسلامی تحقیقاتی مرکز، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی) نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی، جبکہ تقریب کی صدارت ریکٹر نمل، میجر جنرل (ریٹائرڈ) شاہد محمود کیانی نے کی۔ پروفیسر خورشید ندیم نے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے رمضان المبارک میں قیام کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اسے خود احتسابی اور تجدید عہد کا موقع قرار دیا۔ انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ پاکستان کی ترقی کے لیے سوچیں اور دعا کریں، جس طرح ہمارے آباؤ اجداد نے آزادی کے لیے جدوجہد کی تھی۔ انہوں نے اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ہمارے درمیان اختلافات اور چیلنجز موجود ہیں، لیکن ہمیں پاکستان کو ایک متحد ملک کے طور پر برقرار رکھنا ہوگا۔

انہوں نے حقیقی جمہوریت کے فروغ اور موروثی سیاست کے خاتمے پر بھی زور دیا۔اس موقع پر اپنے خطاب میں ڈاکٹر خالد رحمان نے جعلی خبروں اور ڈیجیٹل انتہا پسندی کے خطرات پر روشنی ڈالی اور عوام پر زور دیا کہ وہ ملک کی خوبیوں پر توجہ مرکوز کریں اور منفی پروپیگنڈے سے گریز کریں۔ انہوں نے پاکستان کے مثبت امیج کو اجاگر کرنے اور قومی بیانیے کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔کانفرنس سے خطاب میں پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق نے پاکستان کے ترقی اور زوال کے سفر پر روشنی ڈالی اور اس بات پر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیا کہ ہمارے پاس وافر قدرتی وسائل اور متحرک نوجوانوں کی بڑی تعداد کے باوجود ہم پیچھے کیوں رہ گئے۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب بنگلہ دیش، ملائیشیا اور بھارت پاکستان کے ترقیاتی ماڈل سے سیکھتے تھے، لیکن آج حالات مختلف ہیں۔ انہوں نے قومی بیانیے کو بحال کرنے اور 64 فیصد نوجوان آبادی کو تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر زور دیا تاکہ دشمن قوتیں انہیں منفی سرگرمیوں میں نہ جھونک سکیں۔اپنے خطاب میں ریکٹر نمل میجر جنرل (ریٹائرڈ) شاہد محمود کیانی نے 23 مارچ کو تجدید عہد اور قومی وابستگی کا دن قرار دیا۔ انہوں نے پاکستان کو ایک الٰہی نعمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے، جو بھارت میں بسنے والے 20 کروڑ مسلمانوں کو میسر نہیں۔ انہوں نے ملک کی مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں چیلنجز کا سامنا ضرور ہے، لیکن قومی یکجہتی اور استقامت کے ذریعے ہم ان پر قابو پا سکتے ہیں۔تقریب کے اختتام پر قیمتی خدمات کے اعتراف میں ریکٹر نمل نے مہمانان گرامی کو اعزازی شیلڈز اور تحائف پیش کیے
قیامِ پاکستان کے بعد سے یومِ پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے پاکستان کی مسلح افواج کی پریڈ نہایت عزم و استقلال سے منعقد کی جا تی ہے۔ اس پریڈ کا اصل مقام پہلے راولپنڈی کا ریس کورس گراو نڈ ہوا کرتا تھا جو بعد میں تبدیل ہوکر پارلیمنٹ ہاو س کے سامنے شاہراہِ دستور پر منتقل ہو گیا. لیکن مارچ 2008ءسے مارچ 2015ءکے درمیان سات سال تک 23 مارچ کے موقع پر یہ پریڈ منعقد نہیں ہوئی۔اس کی بنیادی وجہ ملک بھر کے مختلف شہروں میں آئے روز ہونے والی دہشت گردی کی وارداتیں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیکیورٹی خدشات تھے۔ اس دور میں قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے دہشت گرد گروہ مسلسل پاکستان کے مختلف شہروں اور علاقوں میں دہشت گرد حملے کررہے تھے، لیکن پھر یومِ پاکستان پر،مسلح افواج کی یہ پریڈ اپنی قومی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے 23مارچ 2015ءمیں پھر سے اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہوتی رہی ۔ پچھلے چھ سال سے یومِ پاکستان کی یہ پریڈ اسلام آباد ایکسپریس وے کے نام سے موسوم شاہراہ پر واقع شکرپڑیاں گراﺅنڈ میں منعقد ہوتی رہی ہے۔ اس فوجی پریڈ کے انعقاد سے جہاں ہمارے فوجی جوانوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں، وہاں نئی نسل میں 23 مارچ کی تاریخی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے اور ہماری قوم کے دلوں میں اپنی بہادر اور جفاکش فوج کے جوانوں کےلئے محبت و بھائی چارے کا عظیم جذبہ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ بے ساختہ ان کی کامیابی کےلئے دعائیں بھی نکلتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہر جنگی محاذ پر کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرے، آمین ثم آمین