اسلام آباد (ٹی این ایس): سپریم کورٹ نے عدالتی نظام میں آرٹیفیشل انٹیلجنس (اے-آئ) کے استعمال سے متعلق اہم فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اے-آئ کو عدالتی معاونت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے مگر یہ جج کی فیصلہ سازی کا متبادل نہیں ہو سکتا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ: (اے-آئ) ٹیکنالوجی جیسے چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک عدالتی استعدادکار میں بہتری لا سکتے ہیں۔
دنیا بھر میں کئی ججز نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے (اے-آئ) کو فیصلوں کی تیاری میں مدد کے لیے استعمال کیا۔ (اے-آئ) کو فیصلہ لکھنے کے عمل میں ریسرچ اور ابتدائی ڈرافٹ تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، (اے-آئ) صرف ایک “معاون ٹول” ہے اور عدالتی خودمختاری یا انسانی بصیرت کی جگہ نہیں لے سکتا۔ AI کا استعمال صرف سمارٹ لیگل ریسرچ کی سہولت تک محدود رہنا چاہیے۔
عدالت نے سفارش کی ہے کہ: عدالتی اصلاحاتی کمیٹی اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کو (اے-آئ) کے استعمال سے متعلق گائیڈ لائنز تیار کرنی چاہئیں۔
ان گائیڈ لائنز میں واضح طور پر طے کیا جائے کہ جوڈیشل سسٹم میں (اے-آئ) کا دائرہ کار کیا ہو گا اور اس کا استعمال کن حدود میں ہوگا۔