اسلام آباد (ٹی این ایس) پاک بھارت کشیدگی; عالمی برادری متحرک , پاکستان کا سلامتی کونسل کو بریفنگ کافیصلہ

 
0
25

(…اصغر علی مبارک)

اسلام آباد (ٹی این ایس) پاک بھارت کشیدگی پرعالمی برادری متحرک ہے جبکہ پاکستان نے باضابطہ طور پر خطے کی تازہ ترین صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بریفنگ دینے کا فیصلہ کیا ہے،پہلگام واقعے کے بعد بھارت کی چال عالمی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے
دریں اثنا، صدر مملکت آصف علی زرداری نےآرٹیکل 54 کی شق ایک کے تحت قومی اسمبلی کا اجلاس آج شام 5 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں طلب کیا گیا ہے، اجلاس میں پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد پاک بھارت کشیدگی کی صورتحال پر بحث کی جائے گی،

دوسری جانب ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کی پاک بھارت کشیدگی کے دوران آج پاکستان آمد متوقع ہے، پاکستان کے بعد عباس عراقچی کے بھارت جانے کا بھی امکان ہے۔روس نے بھارت کو پاکستان سے مذاکرات کا مشورہ دے دیاہے۔روسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر سے ٹیلیفونک رابطہ کیا، دونوں رہنماؤں کے درمیان پہلگام واقعے کے بعد پاک بھارت کشیدہ صورت حال پر گفتگو کی گئی۔روسی وزیرخارجہ نے بھارت کو پیغام دیا کہ وہ جنگ کے بجائے پاکستان کے ساتھ سفارتی سطح پر تنازع کا حل نکالنے کے لیے اقدامات کرے۔یاد رہے کہ اس سے قبل چین اور ترکیہ بھی خطے کی کشیدہ صورت حال میں کمی کے لیے پاکستان کے مؤقف کا اعادہ کرچکے ہیں۔یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کاجا کلا ز، سوئٹزرلینڈ اور یونان کے وزرائے خارجہ نے بھی کشیدگی میں کمی کے لیے دونوں ملکوں پر بات چیت کی اہمیت ر زور دیا ہے۔امریکی کانگریس مین کیتھ سیلف نے واضح کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا سوچ بھی نہیں سکتے، دونوں پڑوسی ملک ایٹمی قوت ہیں، جنگ شروع ہوگئی تو وہ کسی کے قابو میں نہیں رہے گی۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان اور بھارت کشیدگی کو کم کریں گے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالنے والے یونان نے کہا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا جاسکتا ہے۔ یونان کے سفیر انجیلوس سیکیریس نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے صحافیوں کو یونان کی ایک ماہ طویل صدارت کے دوران سلامتی کونسل کے کام کے پروگرام کے بارے میں بریفنگ دی۔ انجیلوس سیکیریس نے کہا کہ ہم قریبی رابطے میں ہیں، پاک – بھارت کشیدگی پر سلامتی کونسل کا اجلاس جلد یا کچھ وقت بعد ہو سکتا ہے، ہم دیکھیں گے، ہم تیاری کر رہے ہیں، وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے اقدامات کی ہدایت کر دی ہے, ترجمان دفتر خارجہ نے جاری ایک بیان میں کہا ہے پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھارت کے جارحانہ اقدامات اور اشتعال انگیزی سے آگاہ کرے گا۔ہندوستان کے جارحانہ اقدامات جنوبی ایشیا اور خطے سے باہر امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ترجمان دفترخارجہ کے مطابق یہ اہم سفارتی اقدام پاکستان کی عالمی برادری کے سامنے درست حقائق پیش کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ پاکستان سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے لیے بھارت کے غیر قانونی اقدامات کو اجاگر کرے گا۔ واضح رہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے پہلگام میں 22 اپریل کو 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد 23 اپریل کو سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔جس کے جواب میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھارت سے تجارت اور واہگہ بارڈر کی بندش کرنے کا فیصلہ کیا، علاوہ ازیں بھارتی ایئرلائنز کے لیے پاکستانی فضائی حدود بھی بند کردی گئی، اور بھارتی شہریوں کو 48 گھنٹے میں پاکستان چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ نے بھارت اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حملے کے بعد زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر اقوام متحدہ نے دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے دونوں حکومتوں پر زور دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ صورتحال اور جو پیش رفت ہم نے دیکھی ہے وہ مزید خراب نہ ہو۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی بھی مسئلہ بامعنی باہمی رابطے کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے دیرینہ دوست چین کی جانب سے بھی دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی گئی، چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گو جیاکن نے پریس بریفنگ میں کہا کہ ’ چین امید کرتا ہے کہ دونوں فریق تحمل کا مظاہرہ کریں گے، بات چیت اور مشاورت کے ذریعے متعلقہ اختلافات کو مناسب طریقے سے حل کریں گے، کسی سمجھوتے پر پہنچیں گے اور مشترکہ طور پر علاقائی امن و استحکام کو برقرار رکھیں گے۔’ترجمان چینی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ ’ چین ان تمام اقدامات کا خیرمقدم کرتا ہے جو کشیدگی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔ دوسری جانب خلیج تعاون کونسل نے پاکستان اور بھارت کو کشیدگی ختم کرکے مذاکرات شروع کرنے کامشورہ دے دیا جبکہ عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلے کا پرامن حل تلاش کرنے کے لیے کوششیں تیز کی جائیں۔ خلیج تعاون کونسل کے سیکریٹری جنرل جاسم البدیوی نے جنوبی ایشیا میں بگڑتی ہوئی سلامتی کی صورتحال پر کونسل کے رکن ممالک کی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان فوری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اسی دوران سیکرٹری جنرل نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی مذمت کی جس میں درجنوں بے گناہ افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے تھے۔ جاسم البدیوی نے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے مطابق اختلافات کے حل کے لیے پرامن ذرائع اختیار کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا خلیج تعاون کونسل کے سیکریٹری جنرل نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے مسئلے کا پرامن حل تلاش کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری سے اپنی کوششیں تیز کرنے پر بھی زور دیا۔

دریں اثناوزیراعظم شہباز شریف سے پاکستان میں تعینات سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی، متحدہ عرب امارات کے سفیر عبید ابراہیم سالم الزابی اور کویت کے سفیر نے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کی ہیں، ان ملکوں کے سفرا نے خطے میں امن وسلامتی کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف سے پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی نے ملاقات کی اس موقع پر وزیراعظم نے حرمین شریفین کے متولی شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود، ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور وزیراعظم نے سعودی قیادت اور عوام کا شکریہ ادا کیا۔وزیراعظم نے کہا کہ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کی تمام شکلوں اور مظاہر کی مذمت کی ہے۔ پاکستان نے گزشتہ برسوں میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں بڑی قربانیاں دی ہیں، وزیراعظم نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کو پہلگام واقعے سے جوڑنے کے بے بنیاد بھارتی الزامات کو یکسر مسترد کیا۔
وزیراعظم نے واقعے کی شفاف اور غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقات کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا،انہوں نے کہاکہ پاکستان کی کامیابیوں کو خطرے میں ڈالنےاور ملک کو اقتصادی ترقی کی راہ سےہٹانے کی بھارتی کوششیں ناقابل فہم ہیں۔ وزیراعظم نے سعودی عرب سمیت برادر ممالک پر زور دیا کہ وہ خطے میں کشیدگی میں کمی کے لیے ہندوستان پر دباؤ ڈالیں، انہوں نے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کی خواہش کا اعادہ کیا ۔ سعودی سفیر نےاس اہم معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے کہاکہ سعودی عرب خطے میں امن و سلامتی کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔دریں اثنا، وزیر اعظم شہباز شریف سے متحدہ عرب امارات کے سفیر حمد عبید ابراہیم سالم الزابی نے بھی وزیر اعظم ہاوس میں ملاقات کی۔ وزیر اعظم نے پاکستان کے لیے متحدہ عرب امارات کی غیر متزلزل حمایت پر شکریہ ادا کیا، ملاقات میں پہلگام واقعے کے بعد خطے کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار رہا اور خطے میں دہشت گردی کے ہر واقعے کی مذمت کرتا ہے، انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 90 ہزار جانوں اور 152 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ وزیر اعظم نے بھارتی الزمات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے حالیہ اقدامات کا مقصد پاکستان کی توجہ دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششوں سے ہٹانا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے سفیر حماد عبید ابراہیم سالم الزابی نے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا، سفیر نے علاقائی امن و سلامتی کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ دریں اثنا، وزیراعظم محمد شہباز شریف سے کویتی سفیر کی ملاقات ہوئی ہے، جس میں واقعہ پہلگام کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ اس موقع پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم کویت کے ولی عہد کے جلد پاکستان کے دورے کے منتظر ہیں۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان خطے میں دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتا ہے، پاکستان نے دہشت گردی سے نمٹنے ہوئے بہت قربانیاں دیں، بھارت نے واقعہ پہلگام کو بغیر ثبوت کے پاکستان سے جوڑا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے عالمی برادری کو واقعے کی شفاف تحقیقات کی پیشکش کی ہے، پاکستان ایسی کارروائی کا متحمل نہیں ہو سکتا، جس سے علاقائی امن و سلامتی کو خطرہ ہو۔ کویتی سفیر نے پاکستان کے موقف کو آگاہ کرنے پر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا۔وزیراعظم شہباز شریف اور ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم کے درمیان گفتگو کے دوران پہلگام واقعے کے بعد بھارت کے اشتعال انگیز رویے پر بات چیت ہوئی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے، دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے علاوہ بھارت کے اشتعال انگیز رویے پر بھی گفتگو کی۔ اس موقع پر شہباز شریف نے مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ہونے والے واقعے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان خطے میں دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتا ہے اور پاکستان اس طرح کے تنازعات میں الجھنا نہیں چاہتا۔ واضح رہے کہ 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے قریب سیاحتی وادی پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے فوری بعد بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کر دیا تھا۔ پہلگام واقعے کے بعد بھارت کی جارحانہ روش کو ایک اور سفارتی دھچکا لکا ہے۔بھارت کو جس حمایت کی توقع تھی عالمی برادری نے اس حوالے سے اسٹریٹجک ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا حملے کو مبینہ طور پر سرحد پار دہشتگردی سے منسوب کرتے ہوئے بھارت نے پاکستان کے لیے محاذ آرائی کا مؤقف اختیار کیا۔ لیکن بھارت کا یہ ردعمل اچانک نہیں تھا بلکہ یہ اس بڑی حکمت عملی کا حصہ تھا جو گزشتہ ایک دہائی سے تیار ہورہی ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت جو نہ صرف ہندو قوم پرست نظریے کی عینک لگا کر معاملات کو دیکھتی ہے بلکہ وہ ایک اور بڑی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے جوکہ جنوبی ایشیا خطے میں بھارت کے کردار کو تبدیل کرنا اور اسے خطے میں ایک ایسا طاقتور ملک بنانا ہے جس کا کوئی حریف نہ ہو۔ پہلگام واقعے کو نئی دہلی نے اپنے اسی مؤقف کو تقویت دینے کے موقع کے طور پر جانا۔

بھارت نے یہ نقطہ نظر اس تصور کی بنیاد پر بنایا کہ عالمی ماحول ان کے لیے سازگار ہے۔ امریکا کے ساتھ بڑھتے تعلقات، کواڈ الائنس میں بھارت کا مرکزی کردار اور چین کے خلاف اس کی پوزیشن نے نئی دہلی میں بیٹھے پالیسی سازوں کو یہ یقین دلایا کہ اسٹریٹجک شراکت دار غیرمشروط تعاون پیش کریں گے۔دوسری جانب پاکستان کو کمزور ریاست کے طور پر دیکھا گیا جو اقتصادی بحران کا شکار ہے جبکہ چین پر حد سے زیادہ انحصار کرتا ہے یوں پہلگام واقعے کے بعد ہونے والی کشیدگی بھارت کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے سے متعین کرنے کے لیے ایک سوچا سمجھا اقدام تھا۔ تاہم بھارت کو یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ وہ اپنے جارحانہ رویے کو قانونی طور پر درست قرار دینے والی متوقع عالمی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ امریکا نے کسی فریق کا ساتھ دینے کے بجائے اسٹریٹجک استحکام اور طویل مدتی شراکت داری کو ترجیح دی، چین نے پاکستان کے ساتھ اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے معاملے پر غیرجانبداری کا مظاہرہ کیا جبکہ خلیجی ممالک نے بھی معاملے پر احتیاط سے کام لیا۔پہلگام حملے کے وقت امریکی نائب صدر جے ڈی وینس دورہ بھارت پر تھے جس نے اس یقین کو تقویت دی کہ واشنگٹن غیرواضح طور پر بھارت کی حمایت کرے گا۔ لیکن ان توقعات پر اس وقت پانی پھر گیا جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس نے کہا ہے کہ واشنگٹن کو امید ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالیہ حملے پر بھارت کا ردعمل وسیع تر علاقائی تنازع کا باعث نہیں بنے گا۔ گزشتہ امریکی حکومتوں کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے ’جوہری تنازع‘ کے طور پر نہیں دیکھا بلکہ ان کے ریمارکس نے یہ تاثر دیا کہ انہیں دونوں ممالک کے مابین تنازع میں کوئی دلچسپی نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی بڑے ملک نے خاص طور پر امریکا نے واضح طور پر بھارت کی حمایت نہیں کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکا ٹھوس ثبوت کے بغیر کسی کی طرف داری نہیں کرنا چاہتا۔ جیسا کہ عالمی میڈیا نے سوال کیا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف واضح ثبوت کیوں نہیں پیش کیے، اس سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا جس سے 2019ء کے پلوامہ حملے کے برعکس بھارت کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا مشکل ہوگیا۔اسی طرح چین نے زیادہ محتاط اور ہوشیار رویہ اپنایا ہے۔ سرکاری طور پر بیجنگ نے پہلگام واقعے کو ’دہشتگرد حملہ‘ قرار دیا اور غیرجانبدارانہ زبان کا استعمال کرتے ہوئے بھارت اور پاکستان کو تناؤ کم کرنے کے لیے کہا۔ تاہم پردے کے پیچھے چین نے پاکستان کی جانب سے آزادانہ تحقیقات کے مطالبے کی خاموش حمایت کی اور اسلام آباد کے ساتھ مضبوط عسکری تعاون کا اعادہ کیا۔ خلیجی ممالک جنہیں روایتی طور پر بھارت کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات اور بڑی تعداد میں ان کے ممالک میں مقیم بھارتی شہریوں کی وجہ سے بھارت کا دوست سمجھا جاتا ہے، انہوں نے بھی غیرجانبداری کا مظاہرہ کیا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے اپنے جاری کردہ بیانات میں تناؤ کم اور معاملے کا پُرامن حل نکالنے پر زور دیا۔ یہ ردعمل بھارتی مؤقف کی پشت پناہی کے بارے میں کم بلکہ اپنے اسٹریٹجک مفادات کے تحفظ کے بارے میں زیادہ تھے۔ یہ ردعمل بھارتی مؤقف کی پشت پناہی کے بارے میں کم بلکہ اپنے اسٹریٹجک مفادات کے تحفظ کے بارے میں زیادہ تھے۔ علاقائی استحکام میں سرمایہ کاری کرنے والا سعودی عرب، بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کو چننے سے اجتناب کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کا قریبی اقتصادی شراکت دار متحدہ عرب امارات میں بڑی تعداد میں پاکستانی افرادی قوت ہے جبکہ وہ سفارتی توازن کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ قطر جو ثالثی سفارت کاری کی وجہ سے مشہور ہے، وہ اپنی وسیع خارجہ پالیسی کے مطابق غیر جانبدارانہ مؤقف پر قائم رہا