اسلام آباد (ٹی این ایس) وزیراعظم شہباز شریف معاشی استحکام کے بعد معاشی ترقی کے لیے پر عزم

 
0
47

اسلام آباد (ٹی این ایس) وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی قیادت میں موجودہ حکومت معاشی استحکام کے بعد معاشی ترقی کے لیے پر عزم ہے وزیراعظم نے واضح کیاہے کہ حکومت ملک میں معاشی استحکام کے بعد معاشی ترقی کے لیے پر عزم ہے۔مالی سال 25-2024 میں ترسیلات زر کی مد میں 38.3 ارب ڈالر بھیجے گئے، وزیراعظم نے ترسیلات زر میں 26.6 فیصد کا اضافہ انتہائی خوش آئند قرار دیا ہے وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ مالی سال تاریخ کی بلند ترین ترسیلات زر پر اظہار تشکر کیا، شہباز شریف نے کہا ترسیلات زر میں چھبیس اعشاریہ چھ فیصد کا اضافہ انتہائی خوش آئند ہے ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ بیرون ملک پاکستانیوں کی قابل قدر خدمات اور ان کے پاکستانی معیشت میں اعتماد کا مظہر ہے، حالیہ مثبت معاشی اعشاریے حکومتی پالیسیوں کی سمت درست ہونے کی عکاسی ہیں۔دوسری طرف بلیو اکانومی پاکستان کی معاشی ترقی اقتصادی بحالی کا اگلا محاذ ہے، عالمی بلیو اکانومی کا حجم کھربوں ڈالر ہے اور اگر پاکستان اس کا ایک جزو بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ اس کی معاشی ترقی اور علاقائی رابطہ کاری کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔بلیو اکانومی مواقع کا ایک جھرمٹ ہے، تجارتی بحری جہازرانی سے لے کر ماہی گیری،جہاز سازی اور ری سائیکلنگ سے لے کر قابل تجدید توانائی، ساحلی سیاحت سے لے کر آف شور آبی زراعت تک، ہمیں ان تمام امکانات سے فائدہ اٹھانا ہوگااس کے علاوہ موجودہ حکومت کی جانب سے سوا سال میں لیے گئے قرضوں کی تفصیلات سامنے آگئیں، ابتدائی سوا سال کےدوران قرضوں میں 11 ہزار 235 ارب روپےکااضافہ ریکارڈ کیا گیا۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دستاویز کی بنیاد پر مارچ 2024 سے مئی 2025 کے سوا سال کے دوران وفاقی حکومت کے مقامی قرضے میں 10 ہزار 784 ارب روپے اور وفاقی حکومت کے بیرونی قرضے میں تقریباً 451 ارب روپےکا اضافہ ہوا جس کے بعد وفاقی حکومت کا قرضہ مئی 2025 تک بڑھ کر 76 ہزار 45 ارب روپے ہوگیا جبکہ فروری 2024 تک وفاقی حکومت کے قرضے 64 ہزار 810 ارب روپے تھے-دستاویز کے مطابق فروری2024 تک مرکزی حکومت کا مقامی قرضہ 42 ہزار 675 ارب روپے تھا جو مئی 2025 تک بڑھ کر53 ہزار460 ارب روپے ہوا-اسی طرح فروری2024 تک وفاقی حکومت کا بیرونی قرضہ22 ہزار134ارب روپے تھااورمئی2025 تک مرکزی حکومت کا بیرونی قرضہ22ہزار585ارب روپے رہا۔ واضح رہے کہ معیشت کی ترقی اور عوامی خوشحالی کے لیے ہر ادارے کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا ضروی ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا ہےکہ پاکستان کے معاشی استحکام میں تمام اداروں کی مشترکہ کوششوں کا کلیدی کردار ہے۔وزیرِ اعظم نے ٹیکس وصولیوں میں اضافے کے لیے کیے گئے مؤثر اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ملکی معیشت کے استحکام کے لیے تمام اداروں کو یکجہتی سے کام کرنا ہوگا۔ ایف بی آر اور آئی بی کی جانب سے ٹیکس چوری اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف جاری آپریشنز کی تفصیلی رپورٹ وزیرِ اعظم کو پیش کی گئی، رپورٹ کے مطابق انٹیلیجنس بیورو اور ایف بی آر کی مشترکہ کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 178 ارب روپے کی ریکوری ممکن بنائی گئی ہے۔کمپنیوں کے انضمام اور ٹیلی کمیونیکیشن شعبے سے متعلق بقایا جات کی وصولی سے 69 ارب روپے کی اضافی آمدن حاصل ہوئی۔ اسی طرح انٹیلی جنس بیورو نے چینی، جانوروں کی خوراک، مشروبات، خوردنی تیل، تمباکو اور سیمنٹ کے شعبے میں 515 چھاپے مار کر 10.5 ارب روپے کا اضافی ٹیکس وصول کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ معیشت کی ترقی اور عوامی خوشحالی کے لیے بھی ہر ادارے کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہوگی۔گذشتہ مالی سال کے عبوری اعداد و شمار کے مطابق، ایف بی آر نے 11.900 کھرب روپے کے نظرثانی شدہ ہدف کے مقابلے میں 11.737 کھرب روپے اکٹھے کیے۔ حکومت نے ابتدائی طور پر بجٹ میں 12.913 کھرب روپے کا ہدف مقرر کیا تھا، جسے بعد میں کم کر کے 12.33 کھرب روپے اور پھر 11.9 کھرب روپے کر دیا گیا، جو کہ بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے 1 کھرب روپے سے زیادہ کی مجموعی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔bایف بی آر کے حکام نے ناقص کارکردگی کی وجہ درآمدی حجم، افراط زر کے دباؤ اور متوقع اعلیٰ معاشی نمو کے بارے میں زیادہ پرامید تخمینوں کو قرار دیا تھا جو حقیقت نہیں بن سکے۔ واضح رہے کہ ایف بی آر گذشتہ مالی سال میں ٹیکس کا دو بار نظرثانی شدہ ہدف بھی حاصل ناکام رہا تھا واضح رہے کہ دوسری جانب ایف بی آر گذشتہ مالی سال میں ٹیکس کا دو بار نظرثانی شدہ ہدف بھی حاصل ناکام رہا تھا۔

یاد رکھیں کہ معاشی ترقی کا مطلب صرف پیداوار میں اضافہ نہیں بلکہ یہ لوگوں کی زندگیوں میں صحت، تعلیم، اور دیگر ضروریات زندگی بہتری لانے کا بھی ذریعہ ہےایک اور اہم پہلو فی کس حقیقی آمدنی میں اضافہ ہے، جو لوگوں کی اوسط آمدنی کو ظاہر کرتا ہے۔معاشی ترقی کسی ملک کی طرف سے تیار کردہ سامان اور خدمات کی مقدار میں اضافہ ہے معاشی ترقی میں معاشی استحکام بھی شامل ہے جس کا مطلب ہے کہ معیشت کو غیر متوقع جھٹکوں اور بحرانوں کا سامنا کم ہو۔ اہم مقصد غربت کی شرح کو کم کرنا اور سماجی انصاف کو فروغ دینا ہے۔معاشی ترقی کا مطلب صرف امیر ہونا نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد معاشی مواقع کی منصفانہ تقسیم اور عدم مساوات کو کم کرنا بھی ہے۔ معاشی ترقی کا ایک اہم پہلو پائیداری ہے، یعنی یہ یقینی بنانا کہ معاشی ترقی آج کے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے مستقبل کی نسلوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت کو متاثر نہ کرے۔ معاشی ترقی کے لیے کئی طریقے استعمال ہوتے ہیں، جن میں سے ایک جی ڈی پی میں اضافہ ہے، لیکن یہ صرف ایک پہلو ہے دوسرے عوامل جیسے کہ تکنیکی ترقی، انسانی سرمایہ، اور اداروں کی کارکردگی بھی معاشی ترقی میں کردار ادا کرتے ہیں، معاشی ترقی ایک پالیسی مقصد ہونے کے علاوہ کئی دوسرے مقاصد حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے جیسا کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنا، غربت میں کمی لانا اور دولت کی منصفانہ تقسیم کا نظام وضع کرنا وغیرہ۔ معاشی ترقی کا اگرچہ مجموعی قومی پیداوار سے گہرا تعلق ہے‘ لیکن یہ معاشی ترقی کو ظاہر نہیں کرتی کیونکہ مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ معاشی ترقی کے لیے واحد عامل نہیں پاکستان کی قومی آمدنی میں اضافہ بھی معاشی ترقی کا سبب نہ بن سکا۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان کی قومی آمدنی اوسطاً6.8 فیصد کی شرح سے بڑھی تاہم وہ شرح جاری نہ رہ سکی اور1970ء کی دہائی میں کم ہو کر 4.8 فیصد رہ گئی۔ 1980ء کی دہائی میں اوسط شرح نمو بڑھ کر 6.5 فیصد ہوگئی لیکن 1990ء کی دہائی میں پھر کم ہو کر 4.6 فیصد رہ گئی۔ 2000ء اور 2003ء کے درمیانی عرصہ میں قومی آمدنی میں اضافے کی شرح صرف 3.4 فیصد سالانہ رہی۔ 2004ء میں قومی آمدنی میں اضافے کی رفتار ایک بار پھر تیز ہوگئی اور 2003ء سے 2008ء کے درمیانی عرصہ میں جی ڈی پی 7.1 فیصد سالانہ کی اوسط شرح سے بڑھی۔ 2008ء میں معیشت پھر سست روی کا شکار ہوگئی اور 2008ء سے 2012-13ء کے دوران قومی آمدنی میں اضافہ کی اوسط شرح 3 فیصد کے قریب رہی۔ پاکستان کی قومی آمدنی میں جب بھی تیز رفتار اضافہ ہوا اسے جاری نہ رکھا جاسکا اور ہم قومی آمدنی میں اضافے کو معاشی ترقی میں نہ بدل سکے کیونکہ معاشی افزائش کے ادوار میں ہم بچتوں میں اضافہ نہ کرسکے‘ دولت کی منصفانہ تقسیم نہ ہوسکی اور انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ نہ کیا جاسکا۔ یہ صورتحال تاحال برقرار ہے۔ اگرچہ فی کس آمدنی 1283ڈالر ہوچکی ہے لیکن دولت کی تقسیم مزید غیر مساویانہ، غیر منصفانہ ہوگئی ہے۔ لہٰذا صرف قومی پیداوار میں اضافہ معاشی ترقی کے لیے کافی نہیں بلکہ یہ اضافہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے۔ تبھی معاشی ترقی کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی ملک کی جی ڈی پی بلند شرح سے بڑھ رہی ہو‘ پھر بھی وہ ملک معاشی ترقی کے حصول میں کامیاب نہ ہو۔ اس کی ایک مثال پاکستان ہے جس کی جی ڈی پی 1960ء اور 1980ء کی دہائیوں میں اور 2003ء تا 2007ء بلند شرح سے بڑھی لیکن ملک معاشی ترقی کا درجہ کبھی حاصل نہ کرسکا۔ اسی طرح فی کس آمدنی کی بلند شرح بھی معاشی ترقی کا پیمانہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر کئی مسلم ممالک کی فی کس آمدنی ترقی یافتہ ممالک کے برابر یا اس سے بھی زیادہ ہے لیکن ان کے پاس معاشی ترقی کے لیے ضروری عوامل موجود نہیں۔ معاشی ترقی ایسے عمل کو کہتے ہیں جس میں قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں اضافے کے ساتھ ساتھ وہ سماجی اور اداراتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں‘ جن کے ذریعے ترقی کے عمل کو جاری رکھا جاسکتا ہے۔ان تبدیلیوں میں سرفہرست مطلق غربت میں کمی‘ معیار زندگی میں بہتری، بلند شرح خواندگی، لیبر فورس کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ‘ دیگر پیداواری عوامل کی استعداد میں اضافہ‘ جدید فنون کا فروغ‘ مادی اور کمرشل انفراسٹرکچر کی تکمیل‘ بچتوں اور سرمایہ کاری کی بلند شرح، روزگار کے مواقع میں اضافہ‘ کام اور زندگی کے بارے میں مثبت رویہ اور ایک مستحکم سیاسی نظام ہیں۔ لہٰذا معاشی ترقی وصفی اور مقداری عمل ہے۔ معاشی ترقی کا بنیادی مقصد عوام کی زندگی کے معیار میں بہتری لانا ہے۔ معاشی ترقی کے جدید مفہوم میں تین ضروری اقدار , زندگی کی برقراری ,خود داری اور ) آزادی کو معاشی ترقی کی تخیلاتی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ ماہرین معاشیات ملک میں اشیا اور خدمات کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہوتے رہنے کو معاشی ترقی کا نام دیتے ہیں اور اس کی تعریف یوں کرتے ہیں ’’معاشی ترقی ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت مختلف قوتیں یعنی نئے پیدا آور وسائل کی دریافت، سرمائے کی اشیا میں اضافہ، فنون کی پیدائش میں ترقی‘ آبادی کی مہارت میں اضافہ اور اشیا و خدمات کے ڈھانچے میں تغیرات لا کر ملک کی حقیقی قومی پیداوار میں اضافہ کا ذریعہ بنتی ہیں لیکن بعض دوسرے معیشت دانوں کے خیال میں معاشی ترقی کا عمل فقط حقیقی قومی پیداوار میں اضافے سے ذرا بڑھ کر ہے‘‘, ماہرین معاشیات کے مطابق معاشی ترقی اس وقت واقع ہوگی جب لوگوں کا معیار زندگی پہلے سے بلند ہوتا جائے۔ ’’معاشی ترقی ایک ایسا عمل ہے جس کی بدولت کسی ملک کی فی کس حقیقی آمدنی طویل عرصے تک بڑھتی رہے‘‘ یعنی معاشی ترقی کا ایک ایسے عمل سے سروکار ہے جس کی بدولت کسی ملک یا علاقے کے لوگ دستیاب وسائل سے استفادہ کرکے اشیا و خدمات کی فی کس پیداوار میں مسلسل اضافہ کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح معاشی ترقی کو غربت و افلاس مٹانے کی ضرورت سے مربوط کرکے بہت سے ماہرین فی کس حقیقی پیداوار کے اضافے کو معاشی ترقی کی کسوٹی کے طور پر استعمال کرتے ہیں کیونکہ جب حقیقی قومی پیداوار کو معاشی ترقی کا پیمانہ سمجھ لیا جائے تو بعض اوقات ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی ملک کی حقیقی قومی آمدنی میں تو اضافہ ہورہا ہو لیکن آبادی میں تیز رفتار اضافے کی وجہ سے اس ملک کی فی کس آمدنی میں اضافہ نہ ہوسکے اورلوگوں کے معیار زندگی میں کوئی بہتری نہ آسکے۔

جیسا کہ پاکستان کے پہلے پانچ سالہ منصوبے کے دوران آبادی میں تیز رفتار اضافے کی وجہ سے فی کس آمدنی میں کوئی اضافہ نہ ہوسکا حالانکہ اس منصوبے کے پانچ برسوں میں پاکستان کی قومی آمدنی میں مجموعی طور پر 11فیصد اضافہ ہوا تھا۔ حقیقی قومی آمدنی اور فی کس حقیقی آمدنی میں اضافہ ہورہا ہو تو ہوسکتا ہے کہ امیر لوگ امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہو رہے ہوں۔ تو یہ فیصلہ صادر نہیں کیا جاسکتا کہ مجموعی حقیقی قومی آمدنی اور فی کس آمدنی میں اضافہ ہونے سے عوام کی خوشحالی میں اضافہ ہوگیا ہے تا وقتیکہ اس اضافے کے نتیجے میں آمدنی کی تقسیم میںمثبت تبدیلی آئے جس کی مدد سے غربت کو ختم یا کم کرنے میں مدد ملے۔ مثال کے طور پر 1960ء کی دہائی میں پاکستان کی حقیقی قومی آمدنی اور فی کس حقیقی آمدنی میں بلند شرح سے اضافہ ہوا لیکن ملکی دولت چند خاندانوں کے ہاتھ میں سمٹ کر رہ گئی تھی اس لیے عوام غربت کے بوجھ تلے دبتے گئے۔ اسی طرح 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں دنیا کے کئی ممالک کی حقیقی قومی آمدنی اور فی کس آمدنیوں میں بھی اضافہ ہوتا رہا لیکن ان ممالک کے عوام کے معیار زندگی میں بلندی نہ آسکی۔ ماہرین معاشیات یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ معاشی ترقی کی روایتی تعریف میں کوئی غلطی ضرور ہے لہٰذا انہوں نے حقیقی قومی آمدنی اور فی کس آمدنی پر انحصار کرنا چھوڑ دیا اور ترقی پذیر ممالک میں وسیع پیمانے پر پائی جانے والی مطلق غربت، آمدنی کی تقسیم کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر قابو پانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس طرح ترقی کی اصطلاح کی جدید تعریف وجود میں آئی جس کے مطابق کسی ترقی پذیر معیشت میں غربت و افلاس آمدنی کی تقسیم میں عدم مساوات اور بے روزگاری کے خاتمہ اور ان میں کمی لانے کو معاشی ترقی قراردیا گیا۔ اگر ان تینوں عوامل میں کمی آرہی ہو تو بلاشبہ ملک ترقی کررہا ہوگا۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں بہت سے ترقی پذیر ممالک کی فی کس حقیقی آمدنی میں بلند شرح سے اضافہ ہوا لیکن ان ممالک میں بے روزگاری،آمدنی کی تقسیم اور نچلی 40فیصد آبادی کی آمدنی میں اضافہ نہ کیا جا سکا؟ بعض ممالک میں تو ان میں بگاڑ پیدا ہوا۔ 1980ء کی دہائی میں صورت حال مزید ابتر ہوگئی کیونکہ ان ممالک کو بیرونی قرضوں کے بارے میں سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے انہیں معاشی اور سماجی خدمات کے شعبوں پر اخراجات محدود کرنا پڑےمعاشی تھنک ٹینک اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈیولپمنٹ نے قرضوں کو منافع بخش سرمایہ کاری پر خرچ کرنے کا مطالبہ کیا ہے رپورٹ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملکی قرضوں کو غیر ضروری اخراجات کی بجائے بہتر استعمال کیاجائے اور ان قرضوں کے بہتر استعمال کے لیے بنیادی اصلاحات کی جائیں۔ پاکستان کا 72 کھرب روپے کا قرضہ معاشی سرگرمیوں میں اضافے کے لیے استعمال کیا جائے۔ملکی قرضے کو بینکوں کے منافع پر خرچ نہ کیا جائے اور نہ ہی ان قرضوں کو سرکاری اداروں کو سبسڈی فراہم کرنے پر ضائع کیا جائے۔ مزید کہا گیا کہ عالمی بینک کے معاشی ماہرین بھی ای پی بی ڈی ٹی رپورٹ کی توثیق کر رہے ہیں جبکہ یو این ڈی پی کی تازہ رپورٹ کے مطابق قرضوں کو سرمایہ کاری کی بجائے اخراجات پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ حکومتی قرضوں کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر کو قرض نہیں مل رہا ہے، پاکستان جی ڈی پی کا 28 فیصد سالانہ قرضہ حاصل کر رہا ہے جب کہ 28 فیصد قرضوں میں سے صرف 2 فیصد قرض ترقیاتی اخراجات پر خرچ ہورہا ہے پاکستان میں کاروباری لاگت 11 فیصد تک پہنچ چکی ہے، علاقائی ممالک میں کاروباری لاگت 5.5 فیصد پر ہے۔ مزید کہا گیا کہ صنعتوں کے مقابلے میں بینکوں کو گارنٹیڈ منافع دیا جارہا ہے، قرضوں کو کاروباری سرگرمیاں بڑھانے پر استعمال کیا جائے، قرضوں کو برآمدات بڑھانے پر خرچ کیا جائے