اسلام آباد (ٹی این ایس) وزیراعظم پاکستان کا الیکٹرک وہیکل کیلئے ایکشن پلان

 
0
37

اسلام آباد (ٹی این ایس) وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے الیکٹرک وہیکل کی عام آدمی تک رسائی کیلئے حکومتی سطح پر جامع ایکشن پلان تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے الیکٹرک وہیکلز کے فروغ کے لیے وزیراعظم شہباز شریف نے بڑے فیصلے کیے ہیں اس تناظر میں حکومت ترجیحی بنیادوں پر روزگار کے لیے بے روزگارلوگوں کو الیکٹرک رکشے اور لوڈر فراہم کرے گی
الیکٹرک وہیکلز کی حوصلہ افزائی، الیکٹرک بائیکس، رکشہ و لوڈر کے حصول میں حکومتی معاونت پر جائزہ اجلاس کی زیر صدارت ہوا۔ جس میں وفاقی وزراء احد خان چیمہ، عطاء اللہ تارڑ، معاون خصوصی ہارون اختر، چیف کوارڈینیٹر مشرف زیدی اور متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ وفاقی حکومت بشمول وفاقی بورڈ، ملک بھر کے بورڈز کے ٹاپرز کو الیکٹرک بائیک فراہم کرے گی۔ الیکٹرک وہیکلز کی حوصلہ افزائی سے ایندھن کی مد میں اربوں ڈالر کے قیمتی زر مبادلہ کی بچت، ماحولیاتی تحفظ میں معاونت اور مقامی صنعت کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے ہدایت کی کہ الیکٹرک وہیکل کی عام آدمی تک رسائی کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کا جامع لائحہ عمل تشکیل دیا جائے، ملک میں الیکٹرک وہیکلز کی تیاری اور مینٹنیننس کے لیے ایک مکمل ایکوسسٹم تشکیل دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔الیکٹرک وہیکلز کی تقسیم اور اس میں حکومتی معاونت کے پورے طریقہ کار کی تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن کرائی جائے۔ حکومت کی الیکٹرک وہیکل کی حوصلہ افزائی اور اس میں حکومتی معاونت والی اسکیم میں معاشی طور پر کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو ترجیح دی جائے۔ الیکٹرک وہیکل کے حصول میں حکومتی معاونت کی اسکیم کے بارے عوامی آگاہی مہم چلائی جائے۔ وزیرِ اعظم نے مجوزہ اسکیم میں دی جانے والی الیکٹرک بائیکس، رکشوں و لوڈرز کے بہترین معیار اور انکے سیفٹی معیار پر پورا اترنے کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔قبل ازیں، اجلاس کو ملک میں الیکٹرک وہیکلز کی تیاری کے حوالے سے صنعت کی موجودہ صورتحال اور عام آدمی کی ان تک رسائی کیلئے حکومتی معاونت کے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔حکومت الیکٹرک بائیکس، رکشہ اور لوڈر کے کم لاگت اور آسان شرائط پر قرض کے ذریعے حصول میں معاونت کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد الیکٹرک بائیکس اور تین ہزار سے زائد رکشے و لوڈرز کے آسان شرائط و کم لاگت حصول میں عوام کو حکومتی معاونت فراہم کی جائے گی۔ اس اسکیم کے تحت فیڈرل بورڈ سمیت ملک بھر کے تعلیمی بورڈز میں انٹرمیڈیٹ سطح پر اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے طلباء و طالبات کو مفت الیکٹرک بائیکس فراہم کئے جائیں گے۔ اس اسکیم میں خواتین کا 25فیصد خصوصی کوٹہ رکھا گیا ہے جبکہ آبادی کے تناسب سے باقی صوبوں کا کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔ وزیرِ اعظم نے بلوچستان کا کوٹہ 10 فیصد تک بڑھانے کی بھی ہدایت کی اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ اس اسکیم کی بدولت ملک میں بیٹری بنانے والی 4 نئی کمپنیاں اپنے آپریشن کا آغاز کر رہی ہیں، جس سے پاکستان میں نئے کاروباری مواقع اور روزگار ملے گا۔وزیرِ اعظم نے ان تجاویز پر مبنی اسکیم کے جلد اجراء کو یقینی بنانے کی ہدایت کی. اس تناظر میں یاد رکھیں کہ 19 جون 2025 کووزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان نے قومی الیکٹرک وہیکل پالیسی 30-2025 کا باضابطہ اجرا کیاتھا وزارت صنعت و پیداوارکےاعلامیے کے مطابق وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے ہارون اختر خان نے کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے متعارف کردہ نئی الیکٹرک وہیکل (ای وی) پالیسی 30-2025 نہ صرف ملکی معیشت کو مستحکم کرے گی بلکہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات سے بچانے میں بھی مددگار ثابت ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی 30-2025 کا باقاعدہ اجرا کر دیا ہے، اس پالیسی کو پاکستان کی صنعتی، ماحولیاتی اور توانائی اصلاحات کی جانب ایک تاریخی اور انقلابی قدم قرار دیا۔ پالیسی وزیراعظم پاکستان کے وژن کے مطابق تیار کی گئی ہے، جس کا مقصد صاف، پائیدار اور سستی ٹرانسپورٹ، ماحولیاتی تحفظ، اور مقامی صنعت کی ترقی ہے۔ ہ یہ پالیسی نہ صرف قومی ترقی کا حصہ ہے بلکہ پاکستان کی جانب سے پیرس ماحولیاتی معاہدے کے تحت کیے گئے وعدوں کی عملی تکمیل بھی ہے، ٹرانسپورٹ کا شعبہ پاکستان میں کاربن کے اخراج کا بڑا ذریعہ ہے، جس کی اصلاح ناگزیر ہو چکی ہے۔ پالیسی کے بڑے اہداف میں سے 2030 تک 30 فیصد نئی گاڑیاں الیکٹرک بنانے کا ہدف مقرر کیا ہے، سالانہ 2.07 ارب لیٹر ایندھن کی بچت ممکن ہو گی، جس سے تقریباً ایک ارب امریکی ڈالر کا زرمبادلہ بچے گا۔ 4.5 ملین ٹن کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی آئے گی، 405 ملین ڈالر سالانہ صحت عامہ پر اخراجات میں کمی متوقع ہے۔ مالی سال 26-2025 کے لیے سبسڈی کی مد میں ابتدائی طور پر 9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس کے تحت ایک لاکھ 16 ہزار 53 الیکٹرک بائیکس اور 3,171 الیکٹرک رکشوں کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی۔ یہ بھی اعلان کیا تھا کہ نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی 30-2025 کا باقاعدہ اجرا کر دیا ہے، اس پالیسی کو پاکستان کی صنعتی، ماحولیاتی اور توانائی اصلاحات کی جانب ایک تاریخی اور انقلابی قدم قرار دیا۔ یہ پالیسی وزیراعظم پاکستان کے وژن کے مطابق تیار کی گئی ہے، جس کا مقصد صاف، پائیدار اور سستی ٹرانسپورٹ، ماحولیاتی تحفظ، اور مقامی صنعت کی ترقی ہے یہ پالیسی نہ صرف قومی ترقی کا حصہ ہے بلکہ پاکستان کی جانب سے پیرس ماحولیاتی معاہدے کے تحت کیے گئے وعدوں کی عملی تکمیل بھی ہے، ٹرانسپورٹ کا شعبہ پاکستان میں کاربن کے اخراج کا بڑا ذریعہ ہے، جس کی اصلاح ناگزیر ہو چکی ہے۔ پالیسی کے بڑے اہداف میں سے 2030 تک 30 فیصد نئی گاڑیاں الیکٹرک بنانے کا ہدف مقرر کیا ہے، سالانہ 2.07 ارب لیٹر ایندھن کی بچت ممکن ہو گی، جس سے تقریباً ایک ارب امریکی ڈالر کا زرمبادلہ بچے گا۔ 4.5 ملین ٹن کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی آئے گی، 405 ملین ڈالر سالانہ صحت عامہ پر اخراجات میں کمی متوقع ہے۔ مالی سال 26-2025 کے لیے سبسڈی کی مد میں ابتدائی طور پر 9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس کے تحت ایک لاکھ 16 ہزار 53 الیکٹرک بائیکس اور 3,171 الیکٹرک رکشوں کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی۔ 25 فیصد سبسڈی خواتین کے لیے مخصوص ہو گی تاکہ خواتین کو آسان، سستا اور ماحول دوست سفری ذریعہ میسر آئے، انہوں نے کہا کہ ایک مکمل ڈیجیٹل پلیٹ فارم بھی متعارف کرایا گیا ہے، جس کے ذریعے سبسڈی کے لیے درخواست دینا اور رقم کا اجرا آن لائن طریقے سے ہوگا، جس سے شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ پالیسی کے تحت موٹرویز پر 40 نئے الیکٹرک وہیکل چارجنگ اسٹیشنز نصب کیے جائیں گے، جن کے درمیان اوسط فاصلہ 105 کلومیٹر ہوگا، اس کے علاوہ بیٹری سویپنگ سسٹمز، گاڑی سے گرڈ اسکیمیں اور نئے بلڈنگ کوڈز میں ای وی چارجنگ پوائنٹس کی شمولیت لازمی قرار دی جائے گی۔ یہ اقدامات شہری علاقوں میں ای وی کے استعمال کو فروغ دیں گے اور عوام کے لیے آسانی پیدا کریں گے۔ پالیسی کے تحت مقامی مینوفیکچررز کو مراعات دی جا رہی ہیں تاکہ الیکٹرک گاڑیوں کی زیادہ سے زیادہ مقامی سطح پر تیاری ممکن ہو سکے۔ 2 اور 3 وہیلرز میں 90 فیصد پرزے پہلے ہی مقامی سطح پر تیار ہو رہے ہیں، چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں کے لیے خصوصی پیکیجز متعارف کرائے جائیں گے، ان کا کہنا تھا کہ اے آئی ڈی ای پی ٹیرف سہولت 2026 تک جاری رہے گی، جسے 2030 تک مرحلہ وار ختم کیا جائے گا۔ پالیسی کی تشکیل میں 60 سے زائد ماہرین، اداروں اور صنعتکاروں سے مشاورت کی گئی، یہ مشاورت ستمبر 2024 سے جاری تھی اور وزارت صنعت و پیداوار کی زیرِ نگرانی ایک اسٹیئرنگ کمیٹی نے اس کی رہنمائی کی۔ ہر ماہ اور ہر سہ ماہی میں اسٹیئرنگ کمیٹی کا جائزہ اجلاس ہوگا، ہر 6 ماہ بعد آڈیٹر جنرل آف پاکستان پالیسی کے اقدامات کا آڈٹ کرے گا، نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی 30-2025 نہ صرف پاکستان کے لیے ایک ماحولیاتی انقلاب ہے بلکہ یہ صنعتی ترقی، مقامی روزگار، توانائی کے تحفظ اور ٹیکنالوجی میں خود انحصاری کی بنیاد رکھتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں، نجی شعبہ اور عوام مل کر اس وژن کو حقیقت کا روپ دیں گے تاکہ پاکستان ایک صاف، جدید اور پائیدار ٹرانسپورٹ نظام کی جانب گامزن ہو سکے۔ نیشنل الیکٹرک وہیکل (این ای وی) پالیسی 30-2025 پاکستان کے نقل و حمل کے شعبے میں نہ صرف ایک پیش رفت ہے بلکہ صنعتی ترقی، توانائی کے تحفظ اور ماحولیاتی تبدیلی کی جانب ایک فیصلہ کن قدم ہے، یہ ایک جامع، جامع اور نتائج پر مبنی حکمت عملی ہے جو پاکستان کو ایک صاف اور پائیدار مستقبل کی طرف لے جائے گی۔ حکومت کا وژن ایک صاف، پائیدار اور خود کفیل صنعتی ماڈل کی تشکیل ہےپاکستان میں جو پروڈکٹس لوکل سطح پر تیار کی جاتی ہیں، ان کی لاگت امپورٹڈ مصنوعات کے مقابلے میں 30 سے 40 فیصد کم ہوتی ہے، ٹو وہیلر سیکٹر میں تو اب 90 فیصد سے زائد پرزے مقامی طور پر تیار ہو رہے ہیں۔اکستان جیسے ملک، جو ماحولیاتی لحاظ سے حساس ترین خطوں میں شامل ہیں، کو آلودگی اور موسمیاتی تغیر کے اثرات کا سامنا زیادہ ہوتا ہے۔الیکٹرک وہیکل پالیسی کاربن اخراج میں کمی کے عالمی اہداف کے حصول میں اہم کردار ادا کرے گی،اس پالیسی کے ذریعے آئندہ 24 سے 25 برسوں میں پاکستان کو تقریباً 800 ارب روپے کی مجموعی بچت متوقع ہے، جس میں ایندھن کی درآمد میں کمی، سستی بجلی کا استعمال اور کاربن کریڈٹ سے حاصل شدہ آمدن شامل ہے۔بجلی سے گاڑیوں کی چارجنگ کے نتیجے میں کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں 174 ارب سے کم ہو کر 105 ارب روپے کی ادائیگی متوقع ہے،15 ارب روپے کی آمدن کاربن کریڈٹ کی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے، مزید کہنا تھا کہ مجموعی توانائی کی ضرورت آئندہ پانچ سالوں میں 126 ٹیرا واٹ رہے گی، جو نیشنل گرڈ میں موجود اضافی بجلی سے بآسانی پوری کی جا سکتی ہے۔ ایک رکشہ یا موٹر سائیکل ڈرائیور اپنی ابتدائی سرمایہ کاری ایک سال 10 ماہ میں واپس حاصل کر لے گا، کیونکہ چارجنگ کی لاگت پیٹرول کے مقابلے میں بہت کم ہے، مثال کے طور پر اگر ایک الیکٹرک موٹر سائیکل کی اضافی لاگت ڈیڑھ لاکھ روپے ہو، تو یہ رقم محض پونے دو سال میں ایندھن کی بچت سے پوری ہو جائے گی۔الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے پرزہ جات پر کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے تاکہ مقامی سطح پر انڈسٹری کو فروغ حاصل ہو، پاکستان کو اس پالیسی کو خوش دلی سے اپنانا چاہیے کیونکہ یہ معیشت، ماحول اور صنعت تینوں شعبوں کے لیے ایک گیم چینجر ہے۔ یاد رکھیں کہ پاکستان میں الیکٹرک وہیکل کے حوالے سے ایک تحریک دیکھنے کو مل رہی ہے، خاص طور پر حکومت کی الیکٹرک وہیکل پالیسی 2025 کے تناظر میں عالمی ای وی برانڈز جیسے ڈیپال، بی وائے جی اور ایم جی کی بڑھتی ہوئی موجودگی ہے،، ماہرین الیکٹرک وہیکل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک ایسا جامع نظام موجود نہیں جو بڑی سطح پر ای وی اپنانے کو ممکن بنا سکے، مثلاً چارجنگ نیٹ ورکس اور دیگر بنیادی انفرااسٹرکچر ہیں,آٹوموبائل کنسلٹنٹ شفیق شیخ کا کہنا ہے کہ ملک میں الیکٹرک وہیکل کا شعبہ بالکل ایک نوزائیدہ بچے کی مانند ہے۔ اگر ہم یہ توقع کر رہے ہیں کہ ایک یا دو دن میں یہ شعبہ ویسے ہی کارکردگی دکھانے لگے گا جیسے دہائیوں پرانا پٹرول گاڑیوں کا نظام، تو یہ غلط توقع ہے اور موزوں موازنہ نہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وفاقی حکومت اس شعبے میں سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے، اس کی نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی 2025-30 کا مقصد ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دینا اور پائیدار نقل و حمل کو ممکن بنانا ہے۔ ایک اور ای وی پالیسی بھی زیر غور ہے، اور کئی سرمایہ کار حکومت کے ساتھ مل کر آسان رسائی والے اانفرااسٹرکچر پر کام کر رہے ہیں۔اگر حکومت کی معاونت اسی طرح جاری رہی تو چند برسوں میں ہم یقینی طور پر ایک بہتر اور قابلِ بھروسہ انفرااسٹرکچر، معیاری اسپیئر پارٹس، خدمات اور جدید خصوصیات والی الیکٹرک گاڑیاں دیکھیں گے۔ یہ ایک مثبت اشارہ ہے کہ دنیا بھر کی ای وی کمپنیاں پاکستان میں اپنے پلانٹس لگانے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ای وی اور اس کے انفرااسٹرکچر کا مستقبل واقعی روشن ہے۔آٹو انڈسٹری کے ماہر سید شبیر الدین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ای وی پالیسی 2025 سمت کے لحاظ سے درست، مگر ساخت کے لحاظ سے کمزور ہے۔ چونکہ عالمی سطح پر بیٹری کی قیمتوں میں کمی آ رہی ہے، اس لیے 2027 تک ای وی کی بڑے پیمانے پر منتقلی متوقع ہے۔ پاکستان کو ابھی قدم اٹھانا ہوگا، ورنہ ہم پرانی ٹیکنالوجی کا ڈمپنگ گراؤنڈ بننے کا خطرہ مول لے رہے ہیں، صرف درآمد شدہ ای وی کی اسمبلنگ کافی نہیں ۔ ملک کو چاہیے کہ وہ اہم اور قیمتی پرزہ جات جیسے ڈی سی چارجرز، چارجنگ کیبلز اور ای وی موٹرز کی مقامی تیاری پر توجہ دے، خاص طور پر جب ہمارے پاس تانبے جیسے خام مال موجود ہیں,۔ایسے اہم دہرے استعمال والے پرزے، جیسے بریکنگ سسٹمز اور آٹوموٹیو گریڈ کولڈ رولڈ کوائل (سی آر سی) اسٹیل، بھی مقامی سطح پر تیار کیے جانے چاہئیں۔ اس میں کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں کانٹیننٹل اے جی، ایزن یا ویلیو جیسے سپلائرز کیوں موجود نہ ہوں، ہماری پالیسی سازی میں بنیادی خامی ہمارا قلیل مدتی وژن ہے۔ پانچ سالہ پالیسی سے صنعت کو بمشکل اتنا وقت ملتا ہے کہ وہ خود کو ہم آہنگ کر سکے اور پھر اگلی پالیسی کی تبدیلی ساری پیش رفت کو پیچھے دھکیل دیتی ہے۔ایک مستحکم اور مراعات سے بھرپور 10 سالہ فریم ورک پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان اپنے علاقائی حریفوں سے مزید پیچھے رہ جائے گا، جو پہلے ہی ای وی انڈسٹری میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔دوسری جانب ایم جی موٹرز پاکستان کے جنرل منیجر مارکیٹنگ سید آصف احمد نے کہا کہ جب نیو انرجی وہیکل (این ای وی) پالیسی کی منظوری ہو جائے گی، تو پاکستان کو زیرو ایمیشن وہیکلز کی درجہ بندی میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کر دے گی۔ یہ پالیسی ٹرانسپورٹ سے متعلق اخراجات میں نمایاں کمی لانے کی صلاحیت رکھتی ہے، جو اس وقت ملک میں فضائی آلودگی کے 43 فیصد حصے کے ذمہ دار ہیں۔زیرو ٹیل پائپ ایمیشن گاڑیوں کو فروغ دے کر یہ پالیسی شہری علاقوں میں ہوا کے معیار کو بہتر بنانے اور سموگ میں کمی لانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔فضا میں معلق ذرات کی کمی کا مطلب ہے کہ سانس کی بیماریوں میں کمی آئے گی اور عوامی صحت کے نتائج بہتر ہوں گےیہ پالیسی پاکستان کے وسیع تر ماحولیاتی اہداف سے بھی ہم آہنگ ہے، جن میں 2060 تک ٹرانسپورٹ فلیٹ کو مکمل طور پر نیٹ زیرو کاربن پر منتقل کرنا شامل ہے۔ساتھ ہی یہ پاکستان کے 37 فیصد قابلِ تجدید توانائی پر مبنی بجلی کے نظام سے فائدہ اٹھاتی ہے، تاکہ الیکٹرک گاڑیاں ”ماخذ سے سڑک تک“ صاف ستھری رہیں۔این ای وی (نیو انرجی وہیکل) میں وہ تمام گاڑیاں شامل ہیں جو زیرو ایمیشن صلاحیت رکھتی ہیں، جن میں پلگ اِن ہائبرڈ الیکٹرک وہیکل (پی ایچ ای وی)، مکمل الیکٹرک گاڑیاں (ای ویز) اور ہائیڈروجن سیل پر چلنے والی گاڑیاں شامل ہیں۔ماضی میں آٹوموٹو کمپنیوں کے دباؤ کے تحت ترقی پذیر ممالک کو ہائبرڈ گاڑیوں کو بھی این ای وی تسلیم کرنا پڑا تاکہ وہ ٹیکس چھوٹ سے فائدہ اٹھا سکیں۔ یہ سبسڈیز نہ تو ماحول کے لیے مفید ثابت ہوئیں، نہ ہی عام صارف کو ان کا فائدہ پہنچا۔ اس کا اصل فائدہ صرف غیرملکی پرنسپل اور مقامی شراکت دار کو ہوا، جبکہ عوام، حکومت اور مقامی ماحول اس سے محروم رہے۔پلگ اِن ہائبرڈ گاڑیاں (پی ایچ ای ویز) عام ہائبرڈز کے برعکس ایک بہتر شہری ٹرانسپورٹ حل ہیں کیونکہ یہ مکمل الیکٹرک رینج فراہم کرتی ہیں۔ یہ ابتدائی صارفین کو طویل سفر کے دوران رینج اینگزائٹی سے بھی محفوظ رکھتی ہیں، کیونکہ بیٹری ختم ہونے کے بعد یہ خودکار طور پر ہائبرڈ موڈ میں چلی جاتی ہیں۔ پاکستان کے نیو انرجی وہیکل (این ای وی) اہداف ، جیسے زیرو ایمیشن اور ایندھن کی بچت عالمی رحجانات کے مطابق ہیں، البتہ اس کا ٹائم فریم امریکہ، چین اور بھارت کے مقابلے میں کچھ سست ہے۔اسی تناظر میں پاکستان میں آٹوموبائل اسمبلرز، اپنے عالمی شراکت داروں کی مدد سے مزید پی ایچ ای ویز ویریئنٹس متعارف کرائیں گے، جس سے ملک کا ایندھن کا بل کم ہو گا اور گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں بھی گھٹے گا۔تاہم یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا حکومت کی جانب سے دی گئی ٹیکس مراعات کا فائدہ صارفین تک پہنچتا ہے، یا وہ ایک بار پھر مہنگی ہائبرڈ گاڑیاں خریدنے پر مجبور ہوں گے