اسلام آباد (ٹی این ایس) وزیراعظم شہباز شریف معیشت کی ترقی کیلئے دن رات کوشاں ہیں، ریکوڈک منصوبہ ،ہماری معیشت کی ترقی کیلئےاہم ہے اس میں حکومتی سکیموں کامقصد مقامی افراد کو اس اہم منصوبہ کا شراکت دار بنانا اور وسائل کے غلط استعمال کے بارے میں شکوک و شبہات دور کرنا ہے۔ یہ منصوبہ وزیراعظم کے 2035ء کے وژن کا عکاس بھی ہے وہ 2029ء تک ملکی برآمدات 60 ارب ڈالر تک بڑھانے، 2035ء کے وژن کے تحت ملک کو ایک ٹریلین کی معیشت بنانے اور قرضوں سے جان چھڑانے کے عزم کا اظہارکر چکے ہیں, مہنگائی کی شرح میں کمی ہو رہی ہے، منرلز انویسٹمنٹ فورم کا انعقاد اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری سمت درست ہے،
شہباز شریف کاکہنا ہے کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو مہنگائی 38 فیصد تک پہنچ چکی تھی اور پالیسی ریٹ 22 فیصد کی خطرناک حد تک جا چکا تھا۔ آج یہ کم ہو کر 11 فیصد رہ گیا ہے۔ ہم نے صرف پالیسیاں نہیں بنائیں، دن رات محنت کی اور باقی اللہ پر چھوڑ دیا۔ پالیسی ریٹ میں کمی سے کاروبار میں استحکام آرہا ہے، شرح سود 22 فیصد سے کم ہوکر 12 فیصد پرآچکی ہے, وزیراعظم کا اصل مقصد عام آدمی کو ریلیف پہنچانا ہے۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیاد ت میں حکومت ملک میں معاشی استحکام کے بعد معاشی ترقی کے لیے پر عزم ہے۔ملک میں معیشت کے استحکام کے لیے حکومتی کوششیں کامیاب ہوئی ہیں۔ترسیلات زر کی مد میں زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے بحالی ہوئی ہے جو اب تقریباً20 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ شرح سود تاریخ کی بلند ترین سطح سے مسلسل نیچے آرہی ہے جس کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی آئی ہے۔
مالی سال 2024-25ء میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کی مد میں 38.3 ارب ڈالر بھیجے گئے،یہ مالی سال 2023-24ء کے مقابلے میں 8 ارب زائد ہے، ترسیلات زر میں 26.6 فیصد کا اضافہ انتہائی خوش آئند اضافہ ہے، اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں ایک ارب 77 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا جس کے بعد مرکزی بینک کے ذخائر 14 ارب 50 کروڑ ڈالر ہو گئے۔ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ بیرون ملک پاکستانیوں کی قابل قدر خدمات اور ان کے پاکستانی معیشت میں اعتماد کا اظہارہے،یہ یاد رکھنا چاہیےکہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نےپچھلے سال 24 مارچ کو ریکوڈک منصوبے پر کام کرنے والے کارکنوں اور منصوبے کی سائٹ سے بندرگاہ تک لاجسٹکس اور آمدورفت کے حوالے سے بہتر سکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ وزیر اعظم نے یہ یقین دہانی ایک اجلاس میں کی تھی ، جس میں ریکوڈک پر کام کرنے والی کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ کے وفد نے بذریعہ ویڈیو لنک شرکت اور چیف ایگزیکٹیو مارک برسٹوو نے قیادت کی تھی وزیر اعظم شہباز شریف نے ریکوڈک منصوبے میں شامل کارکنوں کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا اور ریکوڈک سے بندرگاہ تک ان کی حفاظت اور ہموار لاجسٹکس کو یقینی بنانے کا عہد کیاتھا۔ ریکوڈک منصوبہ صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے ریکوڈک ٹاؤن میں کام کنی کا ایک آپریشن ہے، جو دنیا کے سب سے بڑے تانبے اور سونے کے ذخائر میں سے ایک ہے، وزیر اعظم شہباز شریف نے ہدایت کی تھی کہ ریکوڈک منصوبہ کے حوالہ سے سرکاری سطح پر تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور تمام رکاوٹوں کو انہیں دور کیا جائے۔
ر یکوڈک منصوبہ میں 60 ارب ڈالر سے زائدکے ذخائر ہیں پہلے مرحلے میں پیداوار 2028 میں شروع ہوگی, یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ریکوڈک پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع ایک اہم معدنی منصوبہ ہے، جس میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ ریکوڈک صوبہ بلوچستان کے چاغی ضلع میں واقع ہے یہ پہاڑی علاقہ افغانستان اور ایران دونوں کے قریب ہے۔ چاغی وہی علاقہ ہے جس کے سینے میں 1998 میں جوہری دھماکہ کرکے پاکستان ایٹمی طاقت بنا تھا۔ یہ علاقہ آتش فشانی چٹانوں اور مختلف معدنیات کی موجودگی کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ 2024 میں ایک فزیبلٹی سٹڈی نے ریکوڈک میں 15 ملین ٹن تانبے اور 26 ملین اونس سونے کی موجودگی کی تصدیق کی۔ وزیر برائے توانائی پیٹرولیم نے گذشتہ دنوں قومی اسمبلی کو بتایا کہ ریکوڈک سے پہلے مرحلے میں پیداوار 2028 میں شروع ہوگی جوکہ سالانہ سونے کی تین لاکھ اونس اور تانبے کی دو لاکھ ٹن ہوگی۔ دوسرے مرحلے میں پیداوار 2034 میں شروع ہوگی جو کہ سالانہ سونے کی بڑھ کر پانچ لاکھ اونس اور تانبے کی چار لاکھ ٹن ہو جائے گی۔یہ پاکستان میں سب سے بڑا سرمایہ کاری کا منصوبہ ہو گا اور اس سے موجودہ مائن پلان کی تقریباً 37 سالہ زندگی میں 75 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی مفت کیش فلو پیدا کرنے کی توقع کی گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار حقیقی کیش فلو پر مبنی ہیں، جو محتاط ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر مفت کیش فلو 100 ارب ڈالر سے زیادہ کی پیداوار بھی کر سکتا ہے۔ اس وقت کینیڈا کی بیرک گولڈ کارپوریشن حکومت پاکستان کے اشتراک سے اس منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ حکومت پاکستان کے پاس اس کے 25 فیصد حصص ہیں۔ ایک اہم حالیہ پیش رفت سعودی عرب کے ریاستی سرمایہ کاری کے فنڈ، منارا منرلز، کی بظاہر دلچسپی ہے۔ اس کی طرف سے ریکوڈک منصوبے میں 10-20 فیصد حصص حاصل کرنے کی توقع ہے۔ بلوچستان کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے یقینی بنایا کہ صوبے کی ترقی کے لیے وہاں کام کرنے والی کمپنی صوبائی حکومت کو پہلے سال 50 لاکھ ڈالر جبکہ دوسرے سال 75 لاکھ ڈالر قبل از وقت رائلٹی کی ادائیگی کرے گی جو تیسرے سال اور اس کے بعد تجارتی پیداوار تک ایک کروڑ ڈالر سالانہ کی ہو گی۔ وفاقی حکومت کے علاوہ بلوچستان حکومت کا بھی 25 فی صد حصہ ہو گا، ٹیکس اور رائلٹی کی مد میں دیگر معاشی فوائد بھی ملیں گی بلوچستان کی حکومت کو پانچ فیصد رائلٹی کی ادائیگی ہوا کرے گی۔ ملازمتوں کی مد میں بھی بلوچستان کو کافی فائدہ متوقع ہے۔ منصوبے کے عروج کے دوران 7,500 ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ فی الحال ریکوڈک مائنگ کمپنی کے ملازمین میں 77 فیصد بلوچستان سے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فوائد پہنچانے کے لیے دیگر مختلف اقدامات کیے گئے ہیں: جس کے ذریعے علاقے میں صحت، تعلیم اور دیگر انفراسٹرکچر پر کام جاری ہے۔ مقامی طلبہ کو بھی سکالر شپس بھی فراہم کی جا رہی ہیں . حکومتی سکیموں کا بظاہر مقصد مقامی افراد کو اس اہم منصوبے کا شراکت دار بنانا اور وسائل کے غلط استعمال کے بارے میں شکوک و شبہات دور کرنا ہے۔ ایک تجویز یہ بھی دی جا رہی ہے کہ اس منصوبے سے ملنے والی آمدن میں بلوچستان کے حصے کا 75 فیصد اس کے اردگرد اضلاع پر ہی خرچ کیا جائے۔وفاقی حکومت کا اصرار ہے کہ ریکوڈک منصوبے میں جائز تقسیم اور جواب دہی کو یقینی بنانے کے لیے ایک مضبوط نگرانی کا طریقہ کار موجود ہے۔ ریکوڈک مائننگ کمپنی کی نگرانی ایک بورڈ کے ذریعے کی جاتی ہے جس کی صدارت بلوچستان کے چیف سیکرٹری کرتے ہیں، جس میں سیکرٹری معدنیات اور دیگر وفاقی ریاستی اداروں کے نمائندے شامل ہیں۔ یہ بورڈ منصوبے کی ترقی جانچنے کے لیے سہ ماہی اجلاس منعقد کرتا ہے اور شفافیت کو یقینی بناتا ہے۔ باضابطہ فزیبلٹی اسٹڈی میں تصدیق کی گئی ہے کہ بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے میں موجودہ قیمتوں پر 60 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے تانبے اور سونے کے ذخائر موجود ہیں، 3 سرکاری توانائی کمپنیوں نے اپنی فنڈنگ کا وعدہ دوگنا سے زیادہ بڑھا کر 1.9 ارب ڈالر کر دیا ہے رپورٹ کے مطابق آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل)، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) اور گورنمنٹ ہولڈنگز (پرائیوٹ) لمیٹڈ (جی ایچ پی ایل) نے ابتدائی طور پر اس منصوبے کے لیے 30 کروڑ ڈالر کا وعدہ کیا تھا جسے اب بڑھا کر 62 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کردیا گیا ہے۔ اس طرح تینوں کی مجموعی فنڈنگ ابتدائی طور پر 90 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر تقریباً 1.88 ارب ڈالر ہوگئی ہے۔او جی ڈی سی ایل نے اعلان کیا کہ ’موجودہ ذخائر کی بنیاد پر ریکوڈک منصوبے سے مجموعی طور پر (100 فیصد کی بنیاد پر) 13.1 ملین ٹن تانبے اور 17.9 ملین اونس سونے کی پیداوار متوقع ہے۔فزیبلٹی اسٹڈی نے تانبے اور سونے کے سب سے بڑے منصوبے میں سے ایک پر سرمایہ کاری پر منافع کی شرح 25 فیصد ہونے کی بھی تصدیق کی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ منصوبے کا آپریشن مکمل طور پر شمسی توانائی پر چلایا جائے گا، اس طرح یہ دنیا بھر میں اب تک کی نوعیت کا واحد گرین پروجیکٹ بن جائے گا۔سونے کی فی اونس قیمت 3016 ڈالر اور تانبے کی فی ٹن قیمت 9815 ڈالر ہے جس سے مجموعی پیداوار 60 ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے جس میں 54 ارب ڈالر کا سونا اور 6 ارب ڈالر کا تانبا شامل ہے۔تازہ ترین فزیبلٹی اسٹڈی کے تحت پہلے مرحلے میں 2028 سے سالانہ 45 ملین ٹن مل فیڈ (ایم ٹی پی اے) پراسیس کرنے کا منصوبہ ہے، اس سے پہلے اس کا تخمینہ 40 ملین ٹن کے قریب لگایا گیا تھا، او جی ڈی سی ایل نے کہا کہ 2034 تک فیز 2 میں پروسیسنگ کی صلاحیت کو دوگنا کرکے 90 ایم ٹی پی اے کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ تازہ ترین فزیبلٹی اسٹڈی میں کان کی 37 سال کی زندگی کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جسے دو مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے، منصوبے کے پہلے مرحلے میں 5.6 ارب ڈالر (فنانسنگ لاگت اور افراط زر کے علاوہ) کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور توقع ہے کہ یہاں 2028 میں کام کا آغاز کردیا جائے گا۔ او جی ڈی سی ایل کا کہنا ہے کہ 3 ارب ڈالر تک کے محدود راستے پر مبنی منصوبے کی فنانسنگ سہولت پر کام کیا جا رہا ہے جبکہ بقیہ رقم شیئر ہولڈرز کے تعاون کے ذریعے فراہم کی جائے گی، منصوبے کی فنانسنگ کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ یہ منصوبہ موجودہ کان کنی کی لیز کے اندر اس وقت شناخت شدہ 15 پورفیری سطح کے تاثرات میں سے 5 سے مستفید ہوگا، جس سے مستقبل میں ترقی کے کافی امکانات کو اجاگر کیا جائے گا۔دوسرے مرحلے کو منصوبے سے آمدنی حاصل کرنے، اضافی پروجیکٹ فنانسنگ اور شیئر ہولڈرز کی شراکت کے مرکب کے ذریعے مالی اعانت فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے کمپنی نے کہا ہے کہ ان پیش رفتوں کی روشنی میں او جی ڈی سی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے کمپنی کے فنڈنگ کے عزم کو 62 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تک بڑھانے کی منظوری دی ہے جس میں پروجیکٹ فنانسنگ کے اخراجات بھی شامل ہیں، جو کُل سرمایہ کاری میں اس کے متناسب حصے کی عکاسی کرتا ہے۔یہ اضافہ تانبے اور سونے کی قیمتوں میں ممکنہ اضافے کی وجہ سے ہے جس سے منصوبے کی لاگت میں اضافے کو پورا کرنے میں مدد ملی ہے، او جی ڈی سی ایل نے کہا کہ پروجیکٹ فنانسنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے کمپنی کی جانب سے شیئر ہولڈرز ایکویٹی کنٹری بیوشن 34 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ہونے کی توقع ہے، جسے اصل پروجیکٹ فنانسنگ لاگت اور افراط زر کے لیے ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ پی پی ایل نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے اس منصوبے کے لیے اپنے فنڈنگ کے عزم میں اضافے کی منظوری دی ہے ، جو کُل سرمایہ کاری میں اس کا حصہ 62 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تک ظاہر کرتا ہے۔بورڈ نے پروجیکٹ فنانسنگ حاصل کرنے کی اصولی منظوری بھی دے دی ہے، منصوبے کی فنانسنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے کمپنی کی جانب سے شیئر ہولڈرز ایکویٹی کنٹری بیوشن 34 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ز ہونے کی توقع ہے۔او جی ڈی سی ایل نے ریکوڈک منصوبے کی تازہ ترین فزیبلٹی اسٹڈی کی تکمیل کا اعلان کیا ہے جو دنیا کے سب سے بڑے غیر ترقی یافتہ تانبے اور سونے کے وسائل میں سے ایک کو کھولنے کی جانب پاکستان کے سفر میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، منصوبے میں او جی ڈی سی ایل کا حصہ 8.33 فیصد ہے جو پی پی ایل اور جی ایچ پی ایل سمیت 3 پاکستانی ایس او ایز کے مجموعی طور پر 25 فیصد حصص کا حصہ ہے۔ایس او ایز کے مفادات کا انتظام پاکستان منرلز (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے ذریعے کیا جاتا ہے، بقیہ حصہ میں سے 25 فیصد حکومت بلوچستان کے پاس ہے (15 فیصد بلوچستان منرل ریسورسز لمیٹڈ کے ذریعے اور 10 فیصد آزادانہ طور پر فراہم کیا جاتا ہے) اور 50 فیصد بیرک گولڈ کارپوریشن کے پاس ہے جو اس منصوبے کا آپریٹر ہے۔ریکوڈک نے بلوچستان کو ٹیکس کی مد میں 2 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ادا کیےریکوڈک مائننگ کارپوریشن (آر ڈی ایم سی) نے بتایا ہے کہ کمپنی نے بلوچستان حکومت کو ٹیکس، رائلٹی اور سماجی سرمایہ کاری کی مد میں 2 کروڑ 80 لاکھ ڈالر سے زائد کی ادائیگیاں کی ہیں رپورٹ کے مطابق یہ تفصیلات ریکوڈک منصوبے میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے میڈیا بریفنگ کے دوران شیئر کی گئیں۔ کمیونیکیشنز منیجر سامعہ علی شاہ نے بتایا کہ جون 2025 تک رائلٹی کی مد میں ایک کروڑ 75 لاکھ ڈالر، ٹیکس (جو ملازمین اور دیگر فریقین سے جمع کیے گئے) کی مد میں تقریباً 38 لاکھ ڈالر اور سماجی سرمایہ کاری کی مد میں 72 لاکھ ڈالر ادا کیے گئے ہیں۔ بلوچستان حکومت اس منصوبے میں 25 فیصد کی شراکت دار ہے، تاہم اس نے اس میں کوئی براہِ راست سرمایہ کاری نہیں کی، یہ منصوبہ مجموعی طور پر پاکستان کی حکومت اور آر ڈی ایم سی کے درمیان برابر کی شراکت پر مبنی ہے۔ بریفنگ میں مقامی افرادی قوت کی ترقی کے لیے کمپنی کی کوششوں کو بھی اجاگر کیا گیا۔ اس موقع پر وہ تربیت یافتہ نوجوان بھی موجود تھے جو کمپنی کے تعاون سے 18 ماہ کی تربیت مکمل کرنے کے بعد ارجنٹائن سے واپس آئے ہیں۔ یاد رہے کہ 25 مارچ 2025 کو آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) نے ریکوڈک منصوبے کے لیے فزیبلٹی اسٹڈی مکمل کرنے کا اعلان کیاتھا۔ جاری اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ یہ منصوبہ پاکستان میں دنیا کے سب سے بڑے تانبے اور سونے کے ذخائر کو ترقی دینے کی کوشش کا اہم حصہ ہے، او جی ڈی سی ایل کے پاس اس منصوبے میں 8.33 فیصد حصہ ہے، جو دیگر دو سرکاری اداروں پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) اور گورنمنٹ ہولڈنگز (پرائیویٹ) لمیٹڈ (جی ایچ پی ایل) کے ساتھ 25 فیصد کا مشترکہ شیئر بنتا ہے۔مزید 25 فیصد حصہ حکومتِ بلوچستان کے پاس ہے، اور باقی 50 فیصد حصہ بیریک گولڈ کارپوریشن کے پاس ہے، جو اس منصوبے کی آپریٹر بھی ہے۔ فزیبلٹی اسٹڈی کے مطابق منصوبے کی کان کنی کا عرصہ 37 سال پر مبنی ہوگا، جو دو مرحلوں میں مکمل ہوگا، پہلے مرحلے پر 5.6 ارب ڈالر کی لاگت آئے گی، اور یہ 2028 میں کام شروع کرے گا۔ اس کے لیے 3 ارب ڈالر کا قرض لیا جائے گا جبکہ باقی رقم شیئر ہولڈرز فراہم کریں گے۔ منصوبے کے پہلے مرحلے میں ہر سال 45 ملین ٹن خام میٹریل کو پراسیس کیا جائے گا اور دوسرے مرحلے میں 2034 سے یہ صلاحیت بڑھا کر 90 ملین ٹن سالانہ کی جائے گی۔ ایک اندازے کے مطابق ریکوڈک منصوبے سے 13.1 ملین ٹن تانبہ اور 17.9 ملین اونس سونا نکالا جائے گا۔ او جی ڈی سی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے منصوبے کے لیے سرمایہ کاری بڑھا کر 62 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس میں 34 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کمپنی کے شیئر ہولڈرز فراہم کریں گے جبکہ باقی رقم قرض کے ذریعے حاصل کی جائے گی۔یہ منصوبہ پاکستان میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے، معیشت کو مضبوط کرنے، اور حکومتی آمدنی بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگا۔













