اسلام آباد (ٹی این ایس) اقوام متحدہ کا افغان مہاجرین کی جبری واپسی پراظہار تشویش

 
0
46

اسلام آباد (ٹی این ایس) اقوام متحدہ کے ادار ےنے افغان مہاجرین کی جبری واپسی پر تشویش کااظہار کیاہے، حال ہی میں چین میں پاکستان، افغانستان اور چین کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی اہم ملاقات کے بعد پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات میں بہتری دیکھنے میں آرہی ہے،افغانستان کی حکومت نے پاکستان سے افغان مہاجرین کی بے دخلی کے لیے کچھ مہلت دینے کی اپیل کی تھی۔ اقوام متحدہ کے ادار ےیو این ایچ سی آر نے کہا ہے کہ پاکستان نے مقررہ تاریخ سے قبل ہی افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل شروع کر دیا ہے، جس سے ایک اندازے کے مطابق 10 لاکھ سے زائد افغان باشندوں کو پاکستان سے نکالا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ ادارے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’یو این ایچ سی آر حکومت پاکستان سے زبردستی ملک بدری بند کرنے اور افغانوں کی واپسی کو رضاکارانہ، تدریجی اور باوقار بنانے کے لیے ایک انسان دوست طرز عمل اختیار کرنے کا مطالبہ کرتا ہے‘افغانوں کو اس طرح زبردستی واپس بھیجنا پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔ وزارت داخلہ کے ایک حکم نامے کے مطابق قانونی افغان مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی فوراً شروع کی جائے گی جبکہ ملک بدری کا باضابطہ عمل یکم ستمبر کے بعد شروع ہو گا۔ رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے کہا ہے کہ اسے ملک بھر میں قانونی طور پر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی گرفتاریوں اور ملک بدری کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، حالانکہ اُن کے انخلا کی آخری تاریخ ابھی نہیں آئی۔ یہ اقدام وزارت داخلہ کے 31 جولائی کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ پی او آر کارڈ ہولڈرز، جو کہ پاکستان میں بغیر ویزا قانونی طور پر مقیم آخری افغان باشندے تھے، 30 جون کو کارڈز کی مدت ختم ہونے کے بعد غیر قانونی رہائشی تصور کیے جائیں گے۔ تاہم وفاقی حکومت نے صوبوں کو مطلع کر دیا ہے کہ 13 لاکھ سے زائد پی او آر کارڈ ہولڈرز افغان مہاجرین کی باضابطہ واپسی اور ملک بدری کا عمل یکم ستمبر سے شروع کیا جائے گا۔ادھر یو این ایچ سی آر نے ایک بیان میں پی او آر کارڈ رکھنے والے افغان مہاجرین کی جبری واپسی کے ارادے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، بیان میں کہا گیا کہ حالیہ دنوں میں انہیں ملک بھر میں افغان باشندوں، بشمول پی او آر کارڈ ہولڈرز کی گرفتاری اور حراست کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ یو این ایچ سی آر نے کہا کہ وہ پاکستان کی جانب سے 40 سال سے زائد عرصے تک افغان مہاجرین کی میزبانی کو سراہتا ہے، تاہم پی او آر کارڈ ہولڈرز کو جبراً واپس بھیجنا نہ صرف پاکستان کی دیرینہ انسان دوست پالیسی کے خلاف ہے بلکہ مہاجرین کی واپسی سے متعلق بین الاقوامی اصول ’نان ریفولمنٹ‘ کی بھی خلاف ورزی ہو گا، جس کے تحت کسی پناہ گزین کو اس ملک واپس نہیں بھیجا جا سکتا جہاں اس کی جان یا آزادی کو خطرہ ہو۔فاقی حکومت نے صوبوں کو مطلع کیا ہے کہ پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ رکھنے والے 13 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی باقاعدہ وطن واپسی اور ملک بدری کا عمل یکم ستمبر سے شروع کیا جائے گا۔رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ وزارت داخلہ کے 31 جولائی کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ پی او آر کارڈ ہولڈرز، جو کہ پاکستان میں بغیر ویزا قانونی طور پر مقیم آخری افغان باشندے تھے، 30 جون کو کارڈز کی مدت ختم ہونے کے بعد غیر قانونی رہائشی تصور کیے جائیں گے۔دوسری طرف یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے بتایا کہ یکم اگست سے 4 اگست کے درمیان درجنوں قانونی افغان مہاجرین کو گرفتار کر کے افغانستان واپس بھیج دیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ نے کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔اس وقت 13 لاکھ سے زائد افغان شہری پی او آر کارڈ کے حامل ہیں جبکہ مزید 7 لاکھ 50 ہزار کے پاس افغان سٹیزن کارڈ کے نام سے ایک اور رجسٹریشن دستاویز موجود ہے۔کئی افغان شہری 1980 کی دہائی سے پاکستان میں آباد ہیں تاکہ افغانستان میں جاری جنگوں سے بچ سکیں۔یو این ایچ سی آر نے خبردار کیا ہے کہ ’اس قدر بڑی اور عجلت میں کی گئی واپسی نہ صرف افغان مہاجرین کی جانوں اور آزادی کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے بلکہ یہ افغانستان اور پورے خطے میں عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے‘۔پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ صرف اُن افغان شہریوں کو پاکستان میں رہنے کی اجازت دیں گے جن کے پاس درست ویزے موجود ہوں۔یہ انخلا ’غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کے منصوبے‘کے تحت کیا جا رہا ہے، جو 2023 کے اواخر میں شروع کیا گیا تھا۔ماضی میں پاکستانی حکام نے بعض دہشت گرد حملوں اور جرائم کا الزام افغان شہریوں پر عائد کیا تھا، جو ملک میں سب سے بڑی تارکین وطن کمیونٹی ہیں، افغانستان ان الزامات کو مسترد کر چکا ہے اور واپسی کے عمل کو ’زبردستی کی ملک بدری‘ قرار دیتا ہے۔پاکستان کے علاوہ، ایران سے بھی افغان شہریوں کی ایک نئی بڑی تعداد کی ملک بدری جاری ہے، جس پر امدادی تنظیموں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ صورتحال افغانستان کو مزید عدم استحکام کا شکار بنا سکتی ہے۔اس دوران وزارت داخلہ کی جانب سے 4 اگست کو چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے چیف سیکریٹریز اور آئی جی صاحبان کو ایک خط بھیجا گیا جس میں غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کے موجودہ منصوبے (آئی ایف آر پی) پر عملدرآمد کی تفصیلات فراہم کی گئیں۔ کہا گیا کہ پی اور آر کارڈ ہولڈرز کی رضاکارانہ واپسی فوراً شروع کی جائے گی جبکہ باقاعدہ ملک بدری کا عمل یکم ستمبر 2025 سے نافذ العمل ہو گا۔ افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) رکھنے والے دیگر غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی آئی ایف آر پی کے تحت پہلے سے کیے گئے فیصلے کے مطابق جاری رہے گی۔ خط میں وزارت امور کشمیر، گلگت بلتستان اور سیفران کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پی او آر کارڈ ہولڈرز کا ڈیٹا صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی سطح پر قائم کمیٹیوں کو فراہم کریں، نادرا کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ افغان مہاجرین کی واپسی کے دوران عبوری علاقوں اور سرحدی چوکیوں پر ان کی ڈی رجسٹریشن میں سہولت فراہم کرے، ایف آئی اے کو مقررہ سرحدی راستوں پر واپسی کے عمل میں مدد فراہم کرنے کا کہا گیا ہے۔ وزارت نے صوبائی حکومتوں اور متعلقہ اداروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ تمام پی او آر کارڈ ہولڈرز کا نقشہ تیار کریں اور ان کی واپسی کے لیے عملی منصوبے ترتیب دیں، ان منصوبوں میں عبوری مراکز کی نشاندہی، سفری انتظامات اور مالی وسائل کی فراہمی شامل ہے۔اسی دوران خیبر پختونخوا کی صوبائی اسٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس پیر کو منعقد ہوا جس میں آئی ایف آر پی کے نفاذ پر غور کیا گیا، اجلاس کی کارروائی کے مطابق کمیٹی نے ضلعی انتظامیہ، پولیس اور اسپیشل برانچ کو ہدایت دی کہ وہ مشترکہ ٹیمیں تشکیل دیں اور افغان عمائدین کے ساتھ جرگے منعقد کریں تاکہ انہیں رضاکارانہ واپسی پر آمادہ کیا جا سکے، تمام ڈپٹی کمشنرز کو بھی کہا گیا کہ وہ پی او آر کارڈ ہولڈرز کی دوبارہ نقشہ بندی کریں۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ نادرا اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) پشاور اور لنڈی کوتل کے ٹرانزٹ پوائنٹس کو مکمل طور پر فعال کریں۔ اجلاس میں یہ بھی سفارش کی گئی کہ افغان مہاجرین کے کمشنریٹ کو ہدایت دی جائے کہ وہ مہاجر کیمپوں کو غیر فعال قرار دے کیونکہ اب ان کی کوئی افادیت باقی نہیں رہی، کمشنریٹ رجسٹریشن کی اقسام اور کیمپوں میں موجود افراد کی تعداد سے متعلق تفصیلات فراہم کرے۔ ملک بدری کے لیے مقامی عبوری مراکز کے بارے میں کمیٹی نے واضح کیا کہ متعلقہ ڈپٹی کمشنر، فوجی حکام کی مشاورت اور نادرا کی رہنمائی سے، ان پوائنٹس کے استعمال کا فیصلہ کرے گا، ان مقامات کو صرف مقامی سطح کی ملک بدری کے لیے استعمال کیا جائے گا جبکہ تورخم سرحدی چوکی ہی مرکزی اخراجی مقام رہے گی۔ پاکستانی حکام نے رواں سال مارچ میں افغان حکام کو پہلے ہی مطلع کر دیا تھا کہ پی او آر کارڈز کی مدت 30 جون 2025 کے بعد نہیں بڑھائی جائے گی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق 30 جون 2025 تک پاکستان میں 13 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین مقیم تھے جن میں سب سے زیادہ خیبر پختونخوا میں (7 لاکھ17 ہزار 945)، بلوچستان میں (3 لاکھ 26 ہزار 584)، پنجاب میں (ایک لاکھ95 ہزار 188)، سندھ میں (75 ہزار 510) اور اسلام آباد میں (43 ہزار 154) رہائش پذیر تھے۔ 2004-05 میں حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی مدد سے افغان مہاجرین کو پی او آر کارڈ جاری کیے تھے جبکہ 2016 میں غیر ملکیوں کے قانون 1946 میں ترمیم کے ذریعے افغان سٹیزن کارڈز (اے سی سی) متعارف کرائے گئے۔اس سے قبل 17 جولائی کواسلام آباد ہائیکورٹ نے پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ رکھنے والے افغان مہاجرین کے انخلا پر حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا مسترد کر دی، جسٹس انعام امین منہاس نے ریمارکس دیے کہ 30 جون تک افغانیوں کو وطن واپس جانا تھا، اس کے بعد مہاجرین کو کوئی پروٹیکشن نہیں دی جا سکتی۔ پی او آر کارڈ ہولڈر افغان شہریوں کو واپس نہ بھجوانے سے متعلق پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کی درخواست پر سماعت جسٹس انعام امین منہاس نے کی۔درخواست گزار کی جانب سے حکومتی اقدامات کو کیس کے فیصلے تک روکنے کی استدعا کی۔عدالت نے کہا کہ حکومت کی جو پالیسی ہے عدالت اس میں مداخلت نہیں کرے گی۔حکومت کہہ رہی ہے ہم نے مہاجرین کا کنٹریکٹ سائن نہیں کیا۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ 30 جون کے بعد افغان شہریوں کو کوئی پروٹیکشن نہیں دی جا سکتی، عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔یاد رہے کہ رواں ماہ 4 جولائی کو وزارت سیفران نے تمام محکموں کو افغان مہاجرین کے خلاف کارروائی سے روک دیا تھا۔وزارت سیفران کی جانب سے پاکستان میں آباد افغان شہریوں کے حوالے سے اعلامیہ جاری کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا کہ افغان مہاجرین کے پروف آف رجسٹریشن ( پی او آر) کارڈز میں توسیع زیرغور ہے۔ پی او آر کارڈز کی مدت میں توسیع کےبارے میں حتمی فیصلہ ہونے تک کوئی کارروائی نہ کی جائے اور انہیں ہراساں نہ کیا جائے۔مزید یہ کہ 28 جون 2025 کوپی او آر کارڈ رکھنے والے افغان مہاجرین کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں وزارت سیفران، وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور سیکیورٹی اداروں کے حکام شریک ہوئے۔ اجلاس میں پی او آر کارڈ کے حامل افغان مہاجرین کے قیام میں 3 سے 6 ماہ کی توسیع پر غور کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق پی او آر کارڈ کے حامل افغان مہاجرین کے قیام میں 6 ماہ توسیع کی تجویز کابینہ کو بھیجی جائے گی، ایسے افغان شہری بھی موجود ہیں جو پاکستان میں پیدا ہوئےاجلاس کو بتایا گیا کہ پی او آر کارڈ ہولڈز کے کاروبار اور جائیدادیں پاکستان میں موجود ہیں، پراپرٹیز بیچنے اور کاروبار سمٹنے کے لیے وقت درکار ہے۔ واضح رہے کہ رواں سال پاکستان سے افغان مہاجرین کی بڑی تعداد کو واپس افغانستان بھیجا گیا ہے، اس کے علاوہ ایران سے بھی افغان شہریوں کی بڑی تعداد کابل پہنچی ہے۔پاکستان، افغانستان اور چین کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی اہم ملاقات کے بعد افغانستان کی حکومت نے پاکستان سے افغان مہاجرین کی بے دخلی کے لیے کچھ مہلت دینے کی اپیل کی تھی۔ 20 مارچ 2025 کو افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان سمیت دیگر ممالک سے افغان مہاجرین کی بتدریج واپسی پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں پورے ملک میں سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ، لیکن کچھ مسائل ایسے ہیں جن کی وجہ سے پناہ گزینوں کی ایک ہی وقت میں آمد کے لیے تیاری کرنا مشکل ہوگا۔ مارچ کے اوائل میں حکومت پاکستان نے افغان سٹیزنز کارڈ (اے سی سی) رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ تمام غیر قانونی غیر ملکیوں کو 31 مارچ تک ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ 30 مارچ 2025 کو پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے سربراہ نے افغان شہریت کارڈ (اے سی سی ) رکھنے والے افغان باشندوں کے پاکستان چھوڑنے کی آخری تاریخ قریب آنے پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ اس فیصلے نے افغان برادری کو ’ ہلا کر رکھ دیا ’ ہے۔ پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی ٓآر) کی نمائندہ فلپپا کینڈلر نے اپنے خدشات کا اظہار کیاتھا فلپپا کینڈلر نے اپنے پیغام میں، جس کا عنوان تھا ’رحم کی پکار: پاکستان میں افغان مہاجرین اور امید کی راہ‘، کہا کہ پاکستان میں 1.52 ملین رجسٹرڈ افغان مہاجرین اور پناہ گزین، تقریباً 800,000 افغان شہریت کے حامل افراد رہ رہے ہیں اس کے علاوہ بڑی تعداد ایسی ہے جو ملک میں سرکاری شناخت کے بغیر رہ رہے ہیں۔ فلپپا کینڈلر نے کہا تھاکہ انہوں نے ایک افغان خاندان سے ملاقات کی تھی جس نے 2022 میں افغانستان سے فرار ہونے کے بعد یہاں پناہ لی تھی، اور امن اور سلامتی کی تلاش میں اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ انہوں نے کہاتھا کہ یہ دیکھ کر دل ٹوٹ گیا کہ وہ واپس جانے پر کتنا خوفزدہ تھے۔ ان کی امیدیں اور خواب چکنا چور ہو گئے ہیں, پاکستان میں داخل ہونے والے افغان افرادی قوت کا حصہ تھے، انہوں نے کاروبار شروع کیے اور ملکی معیشت میں میں اپنا حصہ ڈالا۔ انہوں نے لکھاتھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ، افغان مہاجرین پاکستانی معاشرے میں رچ بس گئے ہیں۔ پاکستان میں اپنے تعاون کے باوجود، افغانوں کو اکثر امتیازی سلوک، رسمی ملازمت تک محدود رسائی، اور قانونی حقوق کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی زندگیوں کو غیر محفوظ بناتا ہے اور بہت سے لوگوں کو معاشرے کے کنارے پر دھکیل دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی نمائندہ نے کہاتھا کہ حکومت کی تازہ ترین ہدایات بہت سی برادریوں کے تانے بانے میں ایک اہم خلل کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان برادریوں سے بے دخلی جنہوں نے ان کا خیرمقدم کیا ہے اور افغانستان کو ممکنہ جبری واپسی، جبکہ وہاں اپنی زندگیوں کو ازسرنو شروع کرنے کے لیے بہت کم مواقع ہوں گے، کے پیش نظر اس بات کا امکان نہیں وہ دوبارہ اس معاشرے کا حصہ بن سکیں مہاجرین کی وطن واپسی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے لنڈی کوتل اور پشاور میں عارضی کیمپ قائم کیے گئے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کابل میں افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کے ساتھ ایک ملاقات میں پاکستان سے کہا تھا کہ وہ افغان شہریت کارڈ رکھنے والوں کو مزید وقت دے کیونکہ اتنے زیادہ لوگوں کی وطن واپسی ان کی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔اس دوران پاکستانی شہریت کے لیے پاکستانی بیوی کے ساتھ پاکستان میں مقیم پی او آر کارڈ ہولڈر افغان شہری لال آغا نے رٹ پٹیشن دائر کی ہے۔درخواست گزار کی جانب سےایڈووکیٹ عظمت علی مبارک نے حکومتی اقدامات کو کیس کے فیصلے تک روکنے کی استدعا کی ہے۔
درخواست گزار نے وزارت ریاستوں اور سرحدی علاقوں، وزارت داخلہ اور نارکوٹکس کنٹرول، اور نادرا) کو پی او آر کارڈز کی توسیع کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کی درخواست کی درخواست گزار 25 سالوں سے پاکستان میں بغیر کسی شکایت کے کاروبار کر رہا ہے۔ پاکستانی شہریت حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن اسے درخواستوں کا جواب نہیں ملا۔ انسانی حقوق کے گروپ اور پناہ گزینوں کے تحفظ کے ادارے افغان مہاجرین کے حالات زندگی اور سلامتی کے بارے میں فکر مند ہیں۔ پی او آر کارڈز کی توسیع کا حتمی فیصلہ کیا جائے، اور ہدایت کی جائے کہ وہ پاکستان میں افغان شہریوں کو ہراساں نہ کریں