اسلام آباد (ٹی این ایس) ملک کے اکثر ادارے اس وقت زوال کے اُس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں اصلاح کا خواب محض خواب لگتا ہے۔ مگر تاریخ ہمیشہ ان لوگوں کے نام رقم کرتی ہے جو سسٹم کے اندر رہ کر اسے درست کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ وہ لوگ جو کرسی کو طاقت نہیں بلکہ ذمہ داری سمجھتے ہیں، اور جن کے فیصلے وقتی مفادات سے نہیں بلکہ اصولوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ انہی کرداروں میں ایک نام ہے—ڈی ایس ریلوے ملتان، افتخار حسین کا۔
یہ نام شاید عام قاری کے لیے نیا ہو، مگر ریلوے کے نظام میں یہ وہ شخص ہیں جنہوں نے نظم، نیت اور دیانت کو اپنے عہدے کا مرکز بنا لیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر کسی ادارے کی بنیاد نیت پر رکھی جائے تو نتائج خود بخود ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “قانون سے بالاتر کوئی نہیں، اور نظام وہی مضبوط ہوتا ہے جہاں انصاف کمزور پر بھی ویسا ہی لاگو ہو جیسا طاقتور پر۔”
افتخار حسین کی کہانی کسی نعرے سے نہیں بلکہ اصول سے شروع ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز محکمہ مکینیکل سے کیا۔ ان کے مزاج میں سکون، عمل میں نظم اور سوچ میں سادگی ہے۔ ان کے لیے دیانت کوئی اضافی خوبی نہیں بلکہ پیشہ ورانہ تقاضا ہے۔ سکھر ڈویژن میں ان کے دور کی سب سے بڑی پہچان یہی تھی کہ وہ چیختے نہیں تھے، مگر ان کا نظم بولتا تھا۔ ان کے آنے کے بعد افسران وقت پر دفتر پہنچنے لگے، ورکشاپس میں کام کا معیار بہتر ہوا اور ملازمین میں اعتماد پیدا ہوا۔
جب وہ ملتان ڈویژن پہنچے تو ان کے پہلے جملے ہی سے ان کا وژن عیاں ہو گیا۔ انہوں نے کہا، “یہ ڈویژن فری کرپشن زون بنے گا۔” یہ ایک رسمی اعلان نہیں تھا بلکہ عزم کا بیان تھا۔ انہوں نے جو کہا، وہ کر کے دکھانے کی ساکھ رکھتے ہیں۔ سکھر میں ان کی دیانت کے قصے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔
پاکستان ریلوے کبھی برصغیر کے نظامِ نقل و حمل کا وقار تھا۔ مگر وقت کے ساتھ سیاسی مداخلت، مالی بے ضابطگی اور انتظامی کمزوریوں نے اسے کمزور کیا۔ ایسے وقت میں جب لوگ اس ادارے کو ختم شدہ سمجھنے لگے، افتخار حسین جیسے افسر اس میں نئی روح ڈالنے نکلے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اصلاح کا مطلب شور نہیں، بلکہ مسلسل درست سمت میں سفر ہے۔ ان کے نزدیک تبدیلی تقریر سے نہیں بلکہ مثال سے آتی ہے۔
افتخار حسین کا طرزِ عمل خاموش مگر پُراثر ہے۔ وہ فیصلے بند کمروں میں نہیں کرتے، فیلڈ میں جا کر کرتے ہیں۔ انہیں ورکشاپ کی مشینوں سے بات کرنا آتا ہے، مزدوروں کے مسائل سننے کا حوصلہ ہے، اور سسٹم کے اندر دیانت کو زندہ رکھنے کی جرأت ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا، “سسٹم اسی وقت بدلتا ہے جب افسر دفتر سے نکل کر پٹری پر آتا ہے۔” اور یہی ان کا طریقۂ کار ہے۔ وہ خود انسپیکشن کرتے ہیں، اسٹیشن ماسٹروں سے براہِ راست رپورٹ لیتے ہیں اور ہر شعبے کو جواب دہ بناتے ہیں۔
افتخار حسین نظم کو محض ڈسپلن نہیں سمجھتے، بلکہ سوچ کا نظام کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایک افسر کا سب سے بڑا امتحان اس کا رویہ ہے۔ اگر رویہ درست ہو تو ادارہ خود درست ہو جاتا ہے۔ ان کے دفتر کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ ان کے عملے کا کہنا ہے کہ وہ سخت ضرور ہیں مگر انصاف کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔ یہی انصاف ان کے نظم کو اخلاقی وزن دیتا ہے۔
ملتان ڈویژن میں ان کے آنے کے بعد جو تین بنیادی اصلاحات کی گئیں، وہ اب اس ڈویژن کی پہچان بن چکی ہیں۔ پہلی، احتساب — ہر ملازم کی کارکردگی اب فائل سے نکل کر عملی نگرانی میں آگئی ہے۔ اچانک انسپیکشن معمول بن چکا ہے۔ دوسری، میرٹ — کسی کی سفارش نہیں، صرف کام بولتا ہے۔ جو بہتر کارکردگی دکھاتا ہے، وہی انعام پاتا ہے۔ تیسری، عزتِ کار — وہ ماتحت کو افسر کے برابر انسانی احترام دیتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ڈویژن میں نظم خوف سے نہیں بلکہ اعتماد سے قائم ہوا ہے۔
افتخار حسین کے عہد میں ریلوے کو ایک نئی سمت ملی ہے۔ انہوں نے مالی شفافیت کے لیے ڈیجیٹل رپورٹنگ سسٹم متعارف کروایا ہے تاکہ کسی فائل یا رسید میں انسانی کمزوری کا امکان نہ رہے۔ اسٹیشنز پر صفائی اور ٹرین شیڈول کی بہتری ان کے وژن کا عملی ثبوت ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ ریلوے کی آمدنی بڑھے، لیکن اس سے بڑھ کر عوام کا اعتماد بحال ہو۔ وہ اکثر کہتے ہیں، “ادارے کمزور نہیں ہوتے، نیتیں کمزور ہو جاتی ہیں۔”
ریلوے ملازمین انہیں ’’سخت مگر منصف‘‘ افسر کہتے ہیں۔ ایک کارکن نے بتایا، “سر ڈانٹتے ضرور ہیں، مگر اگلے دن وہی آ کر پوچھتے ہیں کہ سب ٹھیک چل رہا ہے یا نہیں۔ ان کی نیت پر ہمیں یقین ہے۔” یہ اعتماد کسی حکم سے پیدا نہیں ہوتا، کردار سے پیدا ہوتا ہے۔ افتخار حسین کے کردار میں وہ سچائی ہے جو زمانے کے شور سے بلند ہے۔
ریلوے ایک ایسا ادارہ ہے جہاں ہر فیصلہ سینکڑوں زندگیاں متاثر کرتا ہے۔ ایک تاخیر، ایک غفلت یا ایک غلطی پورے سسٹم کو ہلا دیتی ہے۔ مگر افتخار حسین نے ثابت کیا کہ اگر نظم ایمانداری سے قائم کیا جائے تو یہی نظام قوم کے لیے اعتماد کی علامت بن سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، “ریلوے صرف انجنوں کا نہیں، انسانوں کا ادارہ ہے۔ اگر انسان درست ہوں تو انجن خود چلتے ہیں۔”
ان کی موجودگی سے ملازمین کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ اسٹیشنز پر صفائی میں بہتری آئی ہے، مسافروں کی شکایات کم ہوئی ہیں، اور سب سے بڑھ کر اعتماد واپس آیا ہے۔ اب لوگ سمجھنے لگے ہیں کہ ایمانداری کسی خواب کا نام نہیں بلکہ عمل سے ممکن حقیقت ہے۔
افتخار حسین جیسے لوگ یاد دلاتے ہیں کہ نظام کو بدلنے کے لیے انقلاب نہیں، صرف نیت چاہیے۔ وہ اس نسل کے نمائندہ ہیں جو سمجھتی ہے کہ اگر ایک افسر اپنی جگہ دیانت سے کھڑا ہو جائے تو پورا ڈویژن بدل سکتا ہے۔ وہ ان چند افسروں میں سے ہیں جن کے فیصلوں میں اصول جھلکتے ہیں، اور جن کی زبان سے نکلا ہوا جملہ وعدہ نہیں، عہد بن جاتا ہے۔
یہ ملک ان افسروں کا مقروض ہے جو طاقت کو امانت سمجھتے ہیں۔ افتخار حسین انہی میں سے ہیں۔ ان کے فیصلوں میں تدبر ہے، ان کے رویے میں انسانیت ہے، اور ان کی گفتگو میں یقین۔ وہ کسی نعرے کے نہیں بلکہ ایک نظریے کے نمائندہ ہیں — کہ قانون سب پر یکساں ہونا چاہیے، اور دیانت ہی اداروں کی بنیاد ہے۔
ملتان ریلوے ڈویژن میں اب ایک نئی صبح طلوع ہو رہی ہے۔ پٹریوں پر اب صرف انجن نہیں، نظم اور نیت بھی دوڑ رہی ہے۔ افتخار حسین کی قیادت میں ریلوے کے اس حصے نے ثابت کیا ہے کہ اگر عزم ہو تو بوسیدہ ڈھانچے بھی زندہ ہو سکتے ہیں۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم ان ناموں کو بھی یاد رکھیں جو شور نہیں مچاتے مگر خاموشی سے سسٹم بدل دیتے ہیں۔ افتخار حسین انہی میں سے ایک ہیں — جنہوں نے نیت کو نظم بنایا، اور نظم سے ایک نیا ریلوے تراشا۔












