اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی، پہلگام حملے اور 7 مئی کو بھارتی فوجی کارروائی سے متعلق اقوامِ متحدہ کے خصوصی ماہرین نے ایک جامع رپورٹ جاری کر دی ہے، جس میں بھارت کے اقدامات پر سخت اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔یو این ماہرین کی رپورٹ میں پہلگام حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان نےحملے میں ملوث ہونےکی تردید کی اور غیرجانبدار و شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔اقوامِ متحدہ کے 5 خصوصی نمائندوں کی یہ آبزرویشن 16 اکتوبر کی ایک رپورٹ میں کی گئی تھی، جو 15 دسمبر کو منظرِ عام پر آئی۔ رپورٹ میں پہلگام حملے کے بعد بھارت کے فوجی ردعمل کے ساتھ ساتھ اس واقعے کے بعد سندھ طاس معاہدے کو معطل رکھنے کے بھارتی فیصلے کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
یو این ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت22 اپریل 2025 کو پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کر سکا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 7 مئی کو بھارت نے پاکستان کی حدود میں فوجی طاقت کا استعمال کیا، جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے۔
بھارت نے رات کی تاریکی میں پاکستان پر بزدلانہ حملہ کیا تھاجس کے نتیجے میں 40 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 7 خواتین اور 15 بچے شامل تھے، جب کہ 121 افراد زخمی ہوئے، جن میں 10 خواتین اور 27 بچے شامل ہیں
رپورٹ کے مطابق بھارت نے اس فوجی کارروائی سے قبل سلامتی کونسل کو باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیاتھا، بھارتی حملوں کے دوران آبادی والے علاقوں کو نشانہ بنایا گیاتھا، مساجد متاثر ہوئیں جبکہ پاکستانی حدود میں ہونے والے حملوں کے نتیجے میں شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ بھارت نے احمد پور شرقیہ میں مسجد سبحان کو نشانہ بنایاتھا، اس حملے میں 3 سال کی بچی سمیت 5 افراد شہید اور 31 زخمی ہوئے۔
مظفرآباد میں شاہی والی محلہ میں مسجد بلال کو نشانہ بنایا گیاتھا جس میں مسجد شہید ہوئی اور بچی زخمی ہوئی جبکہ کوٹلی میں مسجد عباس کو نشانہ بنایا گیاتھا۔ مریدکے میں مسجد ام القرٰی کو نشانہ بنایا گیاتھا جس میں ایک شہری شہید اور ایک زخمی ہوگیا تھاجبکہ سیالکوٹ اور شکر گڑھ میں بھی دو، دو حملے کیے گئےتھے۔مساجد پر یہ حملے آر ایس ایس کے ہندوتوا نظریے کی نشاندہی کرتے ہیں کیونکہ بھارت نے مساجد کو نشانہ بنایا تھا
اقوامِ متحدہ کے ماہرین کے مطابق 7 مئی کو پاکستان نے بھارتی کارروائی کی مذمت کی اور سلامتی کونسل کو مطلع کیا تھاکہ وہ اقوامِ متحدہ چارٹر کے تحت اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے، رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کے نام پر یکطرفہ فوجی طاقت کے استعمال کا کوئی الگ یا تسلیم شدہ حق بین الاقوامی قانون میں موجود نہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی اقدامات پاکستان کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہیں، بھارتی اقدامات عدم مداخلت کے اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کی رپورٹ میں سندھ طاس معاہدے سے متعلق بھی اہم نکات اٹھائے گئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ماہرین کے مطابق بھارت ثالثی کے عمل میں شرکت سے گریز کر رہا ہے اور سندھ طاس معاہدے کے دائرۂ اختیار کو چیلنج کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پانی روکنا یا معاہدہ معطل کرنا غیر مناسب قدم ہے، پانی روکنے کا بوجھ براہِ راست عام پاکستانیوں کے حقوق پر پڑتا ہے، کاؤنٹرمیژرز(جوابی اقدامات) بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ذمہ داریوں سے استثنیٰ نہیں دیتے، کاؤنٹر میژرز کیلئے نوٹس، مذاکرات کی پیشکش اور طریقہ کار کی قانونی شرائط پوری ہونی چاہئیں۔ رپورٹ میں بھارت کی وجہ سے سندھ طاس معاہدے میں بگاڑ کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ انڈس کمیشن کے سالانہ اجلاس 2022 کے بعد نہیں ہوئے، ڈیٹا تبادلے میں رکاوٹ اور تصفیہ جاتی شقوں پر تنازع معاہدے کی روح کے خلاف ہے، بھارت نے ثالثی کارروائیوں میں شرکت سے گریز کیا، بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا، بھارت سے وضاحت، ممکنہ تلافی و معذرت پر باضابطہ جواب طلب کیا جائے۔
رپورٹ میں ماہرین نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے پر نیک نیتی سے عمل درآمد کرے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت پانی میں رکاوٹ سے پیدا ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی اور نقصانات روکنے کے لیے عملی اقدامات واضح کرے۔
صدر آصف علی زرداری نے رپورٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کے دیرینہ موقف کو تقویت دیتی ہے کہ بین الاقوامی سرحدوں کے پار یکطرفہ طاقت کا استعمال اقوام متحدہ کے چارٹر اور پاکستان کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ صدر نے کہا کہ رپورٹ میں شہری ہلاکتیں، آباد علاقوں اور مذہبی مقامات کو پہنچنے والے نقصانات اور بھارت کی جارحیت کے نتیجے میں بڑھنے والے تصادم کے خطرے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈس واٹرز ٹریٹی ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے اور علاقائی استحکام کی بنیاد ہے اور پانی کے بہاؤ یا متفقہ تنازعہ حل کے طریقہ کار کی خلاف ورزی سنگین انسانی حقوق کے نتائج پیدا کر سکتی ہے۔ صدر زرداری نے کہا کہ رپورٹ بھارت کے غیر ذمہ دارانہ رویے کو واضح کرتی ہے اور اس کے تسلط پسندانہ رویے، دباؤ، دھمکی اور طاقت کے استعمال کی بین الاقوامی سطح پر بڑھتی ہوئی تشویش کو اجاگر کرتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ عالمی قانون ایک طرفہ جارحیت یا غیر قانونی اقدامات کو تسلیم نہیں کرتا۔ یاد رکھیں کہ 1947ء سے جاری مسئلہ کشمیر نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی جنگوں اور جھڑپوں کو جنم دیا ہے, 22 اپریل 2025ء کو بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام کے قریب ایک حملے میں 28 شہری ہلاک ہوئے تھے اس واقعے کے بعد بھارت اور پاکستان نے ایک دوسرے کے خلاف کئی اقدامات کا اعلان کیا تھااور باقاعدہ عسکری جھڑپوں میں مشغول ہو گئے پاک بھارت تنازع 2025ء مسلح تصادم تھا جس کا آغاز 7 مئی 2025ء کو ہواتھا جب بھارت نے پاکستان پر میزائل حملے کیےتھے، جنھیں آپریشن سِن٘دُور کا نام دیا گیاتھا۔ بھارت نے دعویٰ کیاتھا کہ یہ کارروائی 22 اپریل کو بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں عسکریت پسندوں کے حملے کے جواب میں کی گئی تھی جس میں 28 شہری، جن میں اکثریت سیاحوں کی تھی، ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہواتھا کیونکہ بھارت نے پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کیا تھاجس کی پاکستان نے تردید کی تھی، یہ واقعات بالآخر 2025ء کی پاک بھارت کشیدگی کا سبب بنے جو مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے۔ بھارت کے مطابق ان میزائل حملوں کا ہدف جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسے عسکریت پسند گروہ تھے اور کسی پاکستانی فوجی تنصیب کو نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔ پاکستان کے مطابق بھارتی حملوں نے شہری علاقوں بشمول مساجد کو نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں 40 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 7 خواتین اور 15 بچے شامل تھے، جب کہ 121 افراد زخمی ہوئے، جن میں 10 خواتین اور 27 بچے شامل ہیں ان حملوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سرحدی جھڑپیں اور ڈرون حملے شروع ہو گئےتھے ۔ پاکستان نے 10 مئی کو باضابطہ طور پر جوابی کارروائی کا آغاز کیا تھاجسے آپریشن بُنۡيَانٌ مَّرۡصُوۡص کا نام دیا گیا تھااور اس میں بھارت کی متعدد عسکری تنصیبات نشانہ بنایا گیاتھابھارتی فوج کا کہنا تھا کہ پاکستان کے جوابی حملوں نے شہری علاقوں کو نشانہ بنایا، جن میں ہندو مذہبی مقامات بھی شامل تھے۔ جواباً بھارت نے آپریشن سندور کو جاری رکھتے ہوئے اس کا دائرہ کار پاکستانی فوجی تنصیبات تک بڑھا دیاتھا یہ تنازع دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان پہلا ڈرون معرکہ ثابت ہواتھا تنازع کے تین دن بعد بھارت اور پاکستان دونوں نے اعلان کیا تھاکہ 10 مئی کو شام 4:30 بجے پاکستانی وقت سے جنگ بندی پر اتفاق ہو چکا ہے جبکہ مذاکرات 12 مئی کو طے پائے تاہم جنگ بندی کے نفاذ کے فوراً بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر اس کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیاتھا اسی شب پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف نے فتح پر 11 مئی کو یومِ تشکر کے طور پر منانے کا اعلان کیاتھا
یاد رکھیں کہ7 مئی 2025ء کو بھارتی مسلح افواج نے ’آپریشن سندور‘ کے نام سے اچانک میزائل داغنے شروع کیےتھے جن میں پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر اور صوبہ پنجاب کے نو مختلف مقامات کو نشانہ بنایا گیا تھا بھارتی فضائیہ نے یہ کارروائی رافل طیاروں کے ذریعے اسکالپ میزائلوں اور ہیمر بموں سے کی تھی کچھ رپورٹوں کے مطابق حملے میں براہموس کروز میزائل اور اسرائیلی ٹیکنالوجی سے تیار کردہ ’اسکائی اسٹرائیکر‘ خود کُش ڈرون بھی شامل تھے بھارتی حکومت کا کہنا تھا کہ بہاولپور اور مریدکے میں حملے سوچ سمجھ کر کیے گئے تھے ان حملوں کے بعد لائن آف کنٹرول پر حالات بگڑ گئےتھے کپواڑہ، بارہ مولہ، اڑی اور اکھنور سمیت کئی علاقوں میں پاکستان کی طرف سے گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا پاکستان نے بھارت کے 4 رافال، ایک مگ 29، ایک ایس یو 30 ایم کے آئی اور ایک ڈرون مار گرایا۔ سی این این کو ایک فرانسیسی انٹیلی جنس افسر نے بتایا تھاکہ پاکستان نے واقعی رافال گرایا، مگر فرانسیسی فوج نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا روئٹرز نے کچھ بھارتی حکام کے حوالے سے بتایا تھا کہ بھارت میں تین طیارے گر کر تباہ ہوئے 8 مئی کو ایک امریکی افسر نے روئٹرز کو بتایا کہ ان کے مطابق پاکستانی جے 10 طیاروں نے کم از کم 3بھارتی جہاز گرا دیے تھےجن میں ایک داسو رافال بھی شامل ہے۔ بعد ازاں واشنگٹن پوسٹ نے بھارت میں 7 مئی کے دن تین حادثے کے مقامات کی نشان دہی کی جن میں دو کو بھارتی فضائیہ کے داسو رافال اور داسو میراج 2000 طیاروں کے طور پر شناخت کیا گیاتھا 9 مئی کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مقامی حکومتی ذرائع نے روئٹرز کو بتایاتھا کہ 7 مئی کو بھارت میں تین جنگی طیارے گر کر تباہ ہوئے اور تین پائلٹ زخمی ہو کر اسپتال منتقل کیے گئے تھے 11 مئی کو بھارتی فضائیہ نے، اس سوال کے جواب میں کہ آیا اسے کسی قسم کا نقصان ہوا ہے، کہاتھا: ”نقصانات جنگ کا حصہ ہوتے ہیں۔ردِ عمل میں بھارت نے دعویٰ کیا تھاکہ پاکستان نے بھارت کے کئی شہروں، بشمول امرتسر، پر ڈرون اور میزائل حملے کیے بھارتی حکومت کا کہنا تھا کہ وہ ’پاکستان کی جانب سے مارٹر اور توپ خانے کی گولہ باری کو روکنے کے لیے مجبور ہو گئی تھی تاہم پاکستان نے بھارتی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھاکہ بھارتی فوج نے امرتسر میں غلطی سے خود پر حملہ کیا اور اس کا الزام پاکستان پر لگا کر سِکھوں میں پاکستان مخالف جذبات بھڑکانا چاہا تھا جوابی کارروائی میں بھارتی ڈرونوں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی جن میں سے 12 کو مار گرایا گیاتھا۔ پاکستان کے مطابق یہ ڈرون کراچی اور لاہور سمیت 9 مختلف مقامات پر بھیجے گئے تھے جن میں سے ایک نے لاہور کے قریب ایک پاکستانی فوجی تنصیب کو نشانہ بنایاتھا۔ بعد میں پاکستانی فوج نے دعویٰ کیا تھاکہ اس نے سرحد پار سے آئے 25 اسرائیلی ساختہ ہاروپ خود کش ڈرون مار گرائے ایک ڈرون راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کے اندر جا گرا تھاجس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے پاکستان سپر لیگ میچ متحدہ عرب امارات منتقل کر دیےتھے9 مئی کو اطلاعات آئیں کہ پاکستان سپر لیگ کو بھارت اور پاکستان کے درمیان صورت حال کی خرابی کی وجہ سے غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیا گیاتھا اسی شام پاکستان نے جموں کے ضلع میں، بشمول ہوائی اڈا اور جموں یونیورسٹی کے اردگرد فضائی حملہ کیاتھا 9 مئی کو بھارتی سیکریٹری خارجہ نے بتایاتھا کہ ان حملوں میں 300 سے 400 ترک ساختہ ’آسیس گارڈ سونگر‘ ڈرون استعمال ہوئے تھے پاکستانی جنرل احمد شریف چودھری نے بھارت کے اُس دعوے کی تردید کی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی افواج نے بھارت میں 15 مقامات پر حملے کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے جھوٹی کہانی بنائی ہے تاکہ میڈیا میں شور مچایا جا سکے حالانکہ ’ہر میزائل کا ایک ڈیجیٹل سراغ اور دستخط ہوتا ہےذرائع ابلاغ نے اس تصادم کو جنوبی ایشیا کے ’جوہری صلاحیت کے حامل ہمسایہ ممالک‘ کے درمیان ’پہلی ڈرون جنگ‘ قرار دیا تھا خاص طور پر اسرائیلی و بھارتی ڈرونوں کی تعیناتی توجہ کا مرکز تھی ,9 مئی کو میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ بھارت نے ننکانہ صاحب میں واقع گردوارہ جنم استھان کو نشانہ بنایا تھا پاک فوج نے یہ بھی دعویٰ کیاتھا کہ 6 مئی سے اب تک اُس نے بھارت کے 77 ڈرونوں کو ناکارہ بنایا ہے۔ جمعہ کی صبح فائرنگ کا تبادلہ رک گیا تھا، لیکن ”تقریباً 13 گھنٹے کی خاموشی“ کے بعد دوبارہ جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ ایل او سی پر کپواڑہ، پونچھ، اڑی اور سانبہ کے علاقوں میں توپ خانے سے گولہ باری شروع ہوئی پاکستان نے ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد پر شمال میں بارہ مولہ سے لے کر جنوب میں بُھج تک 26 مقامات کو نشانہ بنایا تھاجن میں مسلح ڈرون بھی شامل تھے۔ 9 مئی کو پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل احمد شریف چودھری نے پاک فضائیہ اور پاک بحریہ کے اعلیٰ حکام کے ہمراہ ایک پریس بریفنگ دی تھی۔ پاک فوج نے بھارتی الزامات کی تردید کی تھی کہ پاکستان نے بھارتی عسکری تنصیبات پر میزائل اور ڈرون حملے کیے ہیں۔ انھوں نے بھارت سے ان الزامات کے ثبوت پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھااور پہلگام واقعے کے بعد بھارتی میڈیا کی خبروں کو غلط قرار دیاتھا۔ پاکستانی حکام نے کہا تھاکہ ان کا رد عمل صرف ان بھارتی چوکیوں تک محدود تھا جن سے پاکستانی شہری علاقوں کو نشانہ بنایا گیا تھا اور پہلگام حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیاتھا۔ پاکستان نے ایک غیر جانب دار تیسرے فریق سے تحقیقات کی تجویز بھی دی جس پر ان کے بقول بھارت کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں دیا گیاتھا اسی بریفنگ میں پاکستان نے دعویٰ کیاتھا کہ بھارت نے آدم پور سے چھ بیلسٹک میزائل داغے، جن میں سے پانچ امرتسر کے قریب اور ایک آدم پور ہی میں گراتھا۔ پاکستانی حکام نے کہا تھاکہ ان میزائلوں کے ہدف سِکھ علاقے تھے تاکہ داخلے تائید وصول کی جا سکے۔ ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد نے 6 بھارتی جنگی طیارے مار گرائے جانے کا بھی دعویٰ کیاتھا جن میں پر رافال طیارے بھی شامل تھے اور اس کے لیے آڈیو ریکارڈنگ اور پرواز کا ڈیٹا بطور شواہد پیش کیے گئےتھے 10 مئی کو بھارت نے پاکستان پر حملے کیے تھے، جن میں سری نگر سے پانچ میزائل داغے گئے تھے بتایا گیا کہ نشانے پر اسلام آباد، لاہور، راولپنڈی اور تین ہوائی تنصیبات (نور خان، رفیقی اور مرید) تھے جنھیں پاکستان کے مطابق روک لیا تھاپاکستان بھر میں کئی دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں۔
پاکستان نے 10 مئی کو باضابطہ طور پر جوابی کارروائی ’آپریشن بُنیان مرصوص‘ کے تحت شروع کی تھی قرآن سے ماخوذ بُنیان مرصوص کا مطلب ’’سیسہ پلائی ہوئی دیوار‘‘ ہے، جس کا مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ قوم کسی اعلیٰ مقصد کے لیے لڑ رہی ہے۔ میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ آپریشن کے ایک حصے کے طور پر پاکستان نے بھارت کے حساس آن لائن نظام پر سائبر حملہ کیا تھا جس میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی، ’’بارڈر سیکیورٹی فورس‘‘ اور ’’کرائم ریسرچ انویسٹی گیشن ایجنسی‘‘ کی ویب سائٹس شامل تھیں پاکستانی افواج نے بھارتی فوجی سیٹلائٹ اور سرکاری ای میل سرور پر سائبر حملے کا دعویٰ بھی کیا تھا
الجزیرہ نے اطلاع دی تھی کہ پاکستان کے شہر سیالکوٹ کے قریب لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر شدید لڑائی جاری تھی بھارتی زیر انتظام کشمیر کے شہر راجوری کے نزدیک بھی شدید گولہ باری اور فائرنگ کی اطلاعات آئیں تھی ۔ بعد ازاں بھارتی زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اطلاع دی تھی کہ شہر کے کمشنر راج کمار تھاپا پاکستانی گولہ باری سے اپنی رہائش گاہ پر ہلاک ہو گئےتھے ۔ بھارتی وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کی مشترکہ پریس بریفنگ میں حکام نے تصدیق کی تھی کہ پاکستان نے اپنی افواج کو اگلی چوکیوں پر متحرک کر دیا ہے، جس سے صورتِ حال کی سنگینی میں اضافہ ہوا پاکستانی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ بھارتی فضائی حملے میں شیخ زاید بین الاقوامی ہوائی اڈے کو نقصان پہنچاتھا۔
جنگ بندی پاکستانی وقت کے مطابق 4:30 بجے نافذ ہوئی جو 36 ممالک کی سفارتی کوششوں کا نتیجہ تھی بھارتی اور پاکستانی وزرائے خارجہ کے سرکاری بیانات سے قبل اس کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر کیا تھا 10 مئی کو پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے فتح پر 11 مئی کو ”یومِ تشکر“ قرار دیاتھا11 مئی کو مقررہ وقت کے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیاتھا۔12 مئی کو بھارتی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیاتھا کہ جموں و کشمیر کے ضلع سانبہ میں ”مشکوک ڈرونوں“ کی نشان دہی کی گئی احتیاطی تدابیر کے طور پر امرتسر سمیت کئی سرحدی قصبوں میں بلیک آؤٹ نافذ کیا گیا آدھی رات کے بعد بھارتی فوج کا کہنا تھا: ”حال ہی میں کسی ڈرون کی سرگرمی مشاہدے میں نہیں آئی اور جنگ بندی کی صورتِ حال برقرار ہے۔“ 12 مئی کو پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے اعلان کیاتھا کہ 10 مئی ہر سال یومِ معرکۂ حق کے طور پر منایا جائے گا۔ یہ اعلان آپریشن بنیان مرصوص کی تکمیل کے بعد کیا گیاتھا7 مئی کو بھارتی اور پاکستانی لڑاکا طیاروں کے درمیان ایک گھنٹے سے زائد دیر تک فضائی جھڑپ جاری رہی۔ پاکستان کے مطابق بھارتی فضائیہ کے تین داسو رافال، ایک مگ 29 اور ایک ”ایس یو 30 ایم کے آئی“ لڑاکا طیارہ مار گرائے گئے۔ یہ پہلا موقع تھاجب فرانسیسی ساختہ داسو رافال جنگ میں تباہ ہوا ہو جسے جے 10 نے مار گرایاتھا۔ اس واقعے اور چینی ساختہ ”پی ایل 15“ میزائلوں کی کارکردگی کو عالمی توجہ حاصل ہوئی پاکستان کے مطابق پاک فضائیہ نے اسرائیلی ساختہ 84 ہاروپ ڈرونوں کو تباہ کیا تھاجو بھارت کے دعوے کے مطابق دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے بھیجے گئے تھے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع میں پاکستان کو سفارتی برتری ملی جو بھارت کی ناکامی قرار دے دی گئی۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق پاک بھارت تنازع نے پاکستان کو سفارتی برتری دے دی، جس کو سابق بھارتی سیکریٹری خارجہ شیام سرن نے بھارت کے لیے سفارتی ناکامی قرار دیا ، بھارت کے لیے یہ اس لیے ناکامی ہے کیوں کہ وہ دہشت گردی کو عالمی ایجنڈے کا مرکز بنانا چاہتا تھا۔ فنانشل ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ فوجی تصادم دونوں ایٹمی طاقتوں کو جنگ کے دہانے پر لے گیا تھا، سابق بھارتی سیکریٹری خارجہ شیام سرن نے اس کو بھارت کے لیے سفارتی ناکامی قرار دیا اور کہاتھا کہ بھارت برسوں سے کوشش کر رہا تھا کہ وہ خود کو پاکستان سے الگ کرے اور عالمی طاقت کے طور پر تسلیم کرائے لیکن امریکی مداخلت نے دونوں ممالک کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیاتھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اس تنازع نے پاکستان کو سفارتی برتری دلا دی ہے اور اس حالیہ تنازع کی وجہ سے عالمی توجہ بھارت کے دہشت گردی کے ایجنڈے سے ہٹا کر ایٹمی خطرے کی طرف مبذول ہوچکی ہے۔ اسی طرح عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ نے اپنے ایک آرٹیکل میں تحریر کیاتھا کہ بھارت نے پاکستان کیخلاف طاقت دکھانے کی کوشش کی لیکن کمزوری عیاں ہوگئی، امریکی صدر کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کو بھارت میں کچھ لوگوں نے امریکی دباؤ میں مودی حکومت کی پسپائی کی علامت سمجھا جب کہ کشمیر پر ثالثی کی ان کی پیشکش کو اس بات کے اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ تیسرے فریق کی مداخلت سے بھارت کی جانب سے دیرینہ مسترد کرنے کا بیانیہ کمزور ہوا ہے، جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست میں تاثر اکثر حقیقت سے آگے نکل جاتا ہے جب تک کہ حقیقت اس کو کاٹ نہ جائے۔ آرٹیکل میں لکھا گیا تھاکہ ہندوستان نے طویل عرصے سے علاقائی تسلط کا اندازہ لگایا ہے جس کو اقتصادی ترقی اور جوہری طاقت سے تقویت ملی ہے، اس کے باوجود کشمیر میں مزاحمتی محاذ کے ذریعہ 22 اپریل کے قتل عام کے بعد اس کے اقدامات نے اس کی کمزوریوں کو بے نقاب کردیاتھا، طاقت کا دعویٰ کرنے کے ارادے سے بھارت کا ردعمل ناکام ہوا، جس سے پاکستان کی علاقائی حیثیت میں اضافہ ہوا اور مودی کی حکومت سفارتی طور پر کمزور پڑ گئی
نیو یارک ٹائمز کے مطابق مغربی مبصرین نے بھارت کے کردار کو ”تَحکُمانہ“ اور ”جارحانہ“ قرار دیا تھااور ممکنہ طور پر اسے پاکستان کے خلاف ایک نئے مزاحمت کے توازن کو قائم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھاتھا۔ تاہم ان مبصرین نے بھارت کی فوجی کارکردگی میں کوئی خاص بہتری محسوس نہیں کی۔ اٹلانٹک کونسل کے مطابق اس جنگ نے پاکستان کے اندر منقسم سیاسی قوتوں کو متحد کر دیا تھااور جنگ بندی کے مذاکرات میں امریکی صدر ٹرمپ کی شمولیت کے پس منظر میں پاکستان کو سفارتی برتری حاصل ہوئی تھی بر طانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے لکھا تھاکہ تجزیہ کاروں کا اتفاق ہے کہ جنگ بندی کا نتیجہ بھارت کے لیے نقصان دہ رہا جبکہ پاکستان نے سفارتی محاذ پر سبقت حاصل کی تھی فرانسیسی اخبار کے مطابق پاکستان کے خلاف اس فوجی آپریشن نے بھارتی فضائیہ کی کمزوریوں کو ظاہر کیا تھااور پاک فضائیہ کی کامیابی کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اس کے بیشتر ہوا باز بہتر تربیت اور جنگی تجربے کے حامل تھے کیونکہ وہ انسداد دہشت گردی کی فضائی مہمات میں حصہ لیتے رہے امریکی جغرافیائی سیاسی تجزیہ کار برینڈن جے۔ وائیکرٹ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان فضائی جھڑپ کو پاکستان کی واضح فتح قرار دیاتھا، کیونکہ مغربی مبصرین یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ چین ساختہ ہتھیار رافال طیاروں کو مار گرا سکتے ہیں اور انھوں نے پوری قطعیت سے کہا تھا کہ پاکستانیوں نے بھارتی فضائیہ کے کل 6 جنگی طیارے کامیابی سے مار گرائے 10 مئی 2025ء بروز ہفتہ دوپہر کے وقت ریاستہائے متحدہ امریکا کی ثالثی کے نتیجے میں ایک نازک جنگ بندی عمل میں آئی۔ امریکی حکومت کو اس بات پر تشویش لاحق ہوئی کہ کہیں پاک بھارت تنازع جوہری تصادم میں نہ تبدیل ہو جائے۔ اسی تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پاکستانی وقت کے مطابق صبح 4 بجے سے رابطے شروع کیے اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر، مشیر قومی سلامتی عاصم ملک اور وزیر اعظم شہباز شریف سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے بھارتی حکام بشمول وزیر اعظم نریندر مودی سے رابطے میں رہ کر معاملے کو پُر امن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات اور برطانیہ نے بھی جنگ بندی کی اپیلوں اور پس پردہ سفارتی مداخلت میں کردار ادا کیا












