فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن ، بڑے پیمانے پر کرپشن ،اعلی افسران ملوث مگر بکرا چھوٹے افسران کو بنا دیا گیا

 
0
770

اسلام آباد اکتوبر 12(ٹی این ایس)فیڈرل  گورنمنٹ ایمپلائز  ہاؤسنگ  فاؤنڈیشن میں فراڈ،رشوت ستانی، اور  اختیارات کے ناجائز  استعمال کا ایک بڑا سیکنڈل سامنے آیا ہے جس پر ایف آئی اے نے  کاروائی کرتے ہوئے   بعض پراپرٹی ڈیلروں اور ایف جی ای ایچ ایف  کے نچلی سطح کے دو ملازمین کے خلاف  کیس  تو درج کر لیا ہے مگر بتایا جاتا ہے کہ  یہ  وسیع ملی بھگت کا ایک بڑا کیس ہے اور اس میں  کئی محکموں سمیت ایف جی ای ایچ ایف  کے  اعلیٰ افسران بھی ملوث ہیں  مگر انکو بچانے کے لئے نچلی سطح کے ملازمین پر سارا ملبہ ڈال کرکیس میں صرف ان ہی کے نام درج کر لئے گئے۔

ایف آئی اے  کے اینٹی کرپشن  سرکل کی جانب سے  درج ایف آئی آر کے مطابق  اسلام آباد  کے بعض پراپرٹی ڈیلروں نے  ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے بعض ملازمین کے ساتھ  مل کر مختلف سرکاری محکموں کے 12 اعلی افسران   ،  محمد شفیق آڈٹ آفیسر پاکستان ملٹری اکاؤنٹس لاہور،محمد اکرم کئیر ٹیکر (ر) نیپا  لاہور، محمد عارف ری پروڈکشن سُپروائزر (ر) نیپا لاہور، ارشد احمد ڈویژنل پے ماسٹر (ر) پاکستان ریلوے لاہور، عبدالرزاق ایس ڈی او (ر ) میپکو ساہیوال ، ملک رشید احمد ایڈیشنل چیف انجینئر(ر)  میپکو ساہیوال، اصغر علی ایڈیشنل ڈپٹی مینیجر (ر)  میپکو ملتان، حافظ محمد اجمل سلیمی ڈائریکٹر (ر) ایم اینڈ ایس واپڈا ہاؤس لاہور، محمد انور عظیم ڈپٹی کنٹرولر انجینئرنگ (ر) پی بی سی اسلام آباد ، جاوید ارشد ڈپٹی ڈائریکٹر  جیولاجیکل سروے آف پاکستان لاہور، محمد اکرم اسٹیشن ماسٹر (ر) ریلوے پاکستان لاہور ، محمد یوسف ڈپٹی ڈائریکٹر (ر) کیبنٹ ڈویژن اسلام آبادکے رجسٹریشن فارمز میں ردوبدل  اورساخت تبدیل کرنے اور رضامندی نامے بنا کر کروڑوں روپے کی کرپشن  کی ہے،

مذکورہ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ رہنما اسٹیٹ، سماء پلازہ جناح  ایونیو   کے  محمد  نعیم خان اور مسعود کیانی کے ساتھ یونی ون  جی 10/4 کے انصر  اعجاز نامی  پراپرٹی  ڈیلروں نے فاؤنڈیشن کے ایف 14/ایف15 فیز دوم میں رکنیت سازی ختم ہونے کے بعد جعلی رضا مندی ناموں کے ساتھ  مذکورہ  فارم جمع کئے  اور اس مقصد کے لیے (ایف جی  ای ایچ ایف)کے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اسسٹنٹ منیجر عاصم عامر نے  اپنی سرکاری پوزیشن کا ناجائز استعمال  کرتے ہوئے  ان فارمز  میں ردوبدل اور رضامندی ناموں کے اجراء میں معاونت فراہم کرکے اسکو  سرکاری ڈیٹا کا حصہ بنایا۔

ایف آئی آر کے مطابق  (ایف جی ای ایچ ایف ) نے ہاؤسنگ  فاؤنڈیشن کے مذکورہ سیکٹروں میں رکنیت سازی  کے عمل کے اختتام کے بعد فارمز میں ردوبدل  اور رضامندی  کے لیٹر   جاری کئے جانے  عوض مذکورہ  پراپرٹی  ڈیلر ز سے 6 ملین روپے  تحائف اور نیازمندی  کے طور پر وصول کیے۔

ایف آئی آر میں مذکورہ پراپرٹی ڈیلرس اور (ایف جی ای ایچ ایف ) کے اسسٹنٹ  منیجر  کے علاوہ  نائب قاصد ظفر محمود کو نامز کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان کے خلا ف دستاویزات اور ڈیجیٹل مواد کی شکل میں کافی شواہد موجود ہیں،ایف آئی آر میں کہا گیا ہے  کہ تحقیقات کے دوران ضرورت پڑنے پر(ایف جی ای ایچ ایف ) کے سابق ڈائریکٹر محمد ارشد چوہان اور دوسرے متعلقہ لوگوں سے بھی  پوچھ کی جائے گی۔

مگر بتایا جا رہا ہے کہ اس اسکینڈل میں اصل ملوثین ایف جی ای ایچ ایف  کے اعلیٰ حکام اور  مختلف محکموں کے مذکورہ بالاافسران خود ہیں  جنھوں نے ملی بھگت کرکے ان پلاٹوں کو بیچ کرکر وڑوں بنالئے اور اب ان کی دستاویزات کے بارے میں جعلی ہونے کا تاثر دینے  اور نچلی سطح کے ملازمین کو قربانی کا بکرا بنا کےخود  قانون کی گرفت سے بچتے ہوئے اِن پلاٹوں کو دوبارہ حاصل کرکے مزید پیسہ بنانا چاہتے ہیں۔

اسکینڈل کے بارے میں آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کی ایف آئی آر قانونی ضابطوں کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی   اور اسمیں محض آی ٹی کے اسسٹنٹ مینیجر اور نائب قاصد  کے نام درج کرکے انہیں شاملِ تفتیش  کرنے سے کئی سوالات  اُٹھتے ہیں جن میں ایک بڑا سوال یہ بھی  کہ اعلیٰ حکام کے دستخطوں کے بغیر آئی ٹی  کے اسسٹنٹ مینیجر کا یہ دستاویزات بنانا اور جاری کرنا کیسے ممکن تھا؟

ان ذرائع کا کہنا ہے کہ  ایف آئی اے کی طرف سے اس اسکینڈل میں ملوث تمام اور اصل ملزمان کو شاملِ تفتیش نہ کرنے سے خود اُسکی اِس تادیبی کاروائی  کے بارے میں شبہات پیدا ہوتے نظر آرہے ہیں ۔