احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ‘ العزیزیہ سٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفررنسزکی سماعت، سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور

 
0
396

اسلام آباد نومبر 15(ٹی این ایس) احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں پیش ہونے کی اجازت دی ہے۔نواز شریف، اپنی صاحبزادی مریم صفدر اور داماد کیپٹن صفدر کے ہمراہ نیب ریفرنسز کے سلسلے میں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔

وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر، شریف خاندان کے خلاف بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق ریفرنسز کی سماعت کررہے ہیں۔نواز شریف کی جانب سے احتساب عدالت میں درخواست دائر کی گئی جس میں انہوں نے ایک ہفتے تک عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل کرنے کی استدعا کی۔سابق وزیرِ اعظم کی درخواست میں موقف اختیا ر کیا گیا کہ ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز لندن کے ہسپتال میں زیر علاج ہیں، ان کا اور ان کی اہلیہ کا 40 سال کا ساتھ ہے اور وہ اس مشکل وقت میں اپنی اہلیہ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔

انہوں نے اپنی درخواست میں کہا کہ ان کی اہلیہ کا کیموتھراپی کا اگلہ مرحلہ ہونا ہے جس کی وجہ سے وہ لندن جائیں گے، لہٰذا انہیں 20 نومبر سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دی جائے۔احتساب عدالت نے نواز شریف کی درخواست پر انہیں ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دیتے ہوئے ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں پیش ہونے کی اجازت دے دی۔دوسری جانب مریم صفدر نے احتساب عدالت میں درخواست دائر کی جس میں انہوں نے نمائندہ مقرر کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ہنگامی صورتحال میں عدالت میں عدم حاضری پر ان کے نمائندے جہانگیر جدون کو پیش ہونے کی اجازت دی جائے تاہم اس درخواست پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

سماعت کے آغاز میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹ ریفرنس میں وکیلِ استغاثہ نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان کی افسر سدرہ منصور کو بطور گواہ پیش کیا جہاں انہوں نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔سدرہ منصور نے بتایا کہ وہ 18 اگست 2017 کو نیب لاہور میں تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوچکی ہیں اور نیب کی جانب سے طلب کی جانے والی تمام دستاویزات تفتیشی افسر کو پیش کر چکی ہیں جن پر ان کے دستخط اور انگوٹھے کا نشان بھی موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نیب کو دی گئی دستاویزات میں کورنگ لیٹر کے ساتھ کمپنیوں کی سالانہ آڈٹ رپورٹس شامل ہیں، جس میں حدیبیہ پیپر ملز کی 2000 سے 2005 تک کی آڈٹ رپورٹ بھی موجود ہے۔وکیل صفائی خواجہ حارث اور امجد پرویز نے سدرہ منصور کی فراہم کردہ دستاویزات پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ فوٹو کاپیاں ہیں ان کی اصل دستاویزات موجود نہیں ہیں جس پر وکیل استغاثہ نے کہا کہ نیب آرڈیننس کے مطابق فوٹو کاپیاں ہی ضروری ہوتی ہیں۔

گواہ سدرہ منصور نے کہا کہ یہ کاپیاں کمپنیز کی جانب سے ایس ای سی پی کو فراہم کی گئیں جس پر خواجہ حارث نے اعتراض اٹھایا کہ ان دستاویزات پر کمپنیز کی مہر یا سیل موجود نہیں ہے جس کے جواب میں سدرہ منصور نے کہا کہ جی نہیں ہیں اور مہر ہونا ضروری بھی نہیں ہے۔سدرہ منصور نے اپنے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا کہ 2000 سے 2005 تک کے آڈٹ کے دوران حدیبیہ پیپر ملز کے اکاﺅنٹ میں 49 لاکھ 46 ہزار کی ہی رقم موجود رہی۔

قبل ازیں نوازشریف اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ عدالت میں پیشی کے لیے جوڈیشل کمپلیکس پہنچے تو حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے راہنما اور وفاقی وزراءخواجہ سعد رفیق، مریم اورنگزیب‘طلال چوہدری‘طارق فضل‘ طارق فاطمی‘پرویزرشید‘مصدق ملک اور اسلام آباد کے میئر میان انصر ان کے خیرمقدم کے لیے موجود تھے۔سماعت کے موقع پر فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کے باہر سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے اور پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری تعینات رہی ‘اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے نوازشریف ‘مریم صفدر اور کیپٹن صفدرکے لیے روٹ بھی مقررکیا گیا۔

احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر ایون فیلڈ پراپرٹیز اور العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس کی 12 ویں جبکہ فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس کی 13ویں سماعت ہوئی۔ شریف خاندان کے افراد کیخلاف نیب ریفرنسز میں باقاعدہ ٹرائل آج سے شروع ہوگیا ہے۔ دریں اثناءعدالت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ عدلیہ کے دہرے معیار کے خلاف جدوجہد کو جلد منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

عدالتوں کا دہرا معیار ہے جو جلد اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا۔نوازشریف نے کہا کہ عدالتوں کا دہرا معیار ہے، اس دہرے معیار کے خاتمے کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے اور جلد منطقی انجام تک پہنچائیں گے، احتساب کو کہیں اور سے کنٹرول کیا جارہا ہے اور جو قصور ہم نے کیا اس کا ہم سے انتقام لیا جارہا ہے۔انہوں نے کہاکہ عدالت میں سیاسی مخالفین جیسے سوال پوچھے گئے، ہمیں سزا دی نہیں بلکہ دلوائی جارہی ہے، ایسا پیغام ملا کہ نواز شریف کو ہر قیمت پر سزا دینی ہی ہے، یہ احتساب نہیں انتقام ہے اس کے باوجود بھی ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں۔

سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ 1999ءمیں بھی کہا تھا کہ طیارہ ہائی جیک کے جھوٹے کیس میں سزا دلوائی جارہی ہے، اس وقت بھی مجھے پھنسایا گیا اور آج بھی وہی معاملہ دہرایا جارہا ہے، سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے فیصلے میں ایسے ریمارکس دیے جیسے ہمارے سیاسی مخالفین دیتے ہیں، وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں بلکہ نیب کو واضح پیغام تھا کہ نوازشریف کو ہر قیمت پر سزا دینی ہے۔

عمران خان کو ضمانت ملنے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہاکہ عدالتوں کا ہمارے لیے الگ معیار ہے اور دوسروں کے لیے الگ ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں ایسا پیغام تھا کہ نواز شریف کو ہر قیمت پر سزا دینی ہے تاہم سزا دی نہیں جارہی بلکہ دلوائی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں ایسے ریمارکس تھے جیسے ہمارے سیاسی مخالفین دیتے ہیں۔