ختم نبوت حلف نامے میں تبدیلی  سے متعلق راجہ ظفر الحق کی رپورٹ، تجویز ایک خاتون وزیرنے دی تھی، ذمہ داروں کی مبہم انداز میں نشاندہی کی

 
0
1011

اسلام آباد، نومبر 27 (ٹی این ایس):  ختم نبوت ﷺکے معاملے پر حلف نامے میں تبدیلی کی راجہ ظفرالحق کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کے مندرجات سامنے آگئے  ہیں جن کے مطابق تبدیلی کی تجویز ایک خاتون وزیرنے دی تھی ۔

رپورٹ کے مطابق خاتون وزیر کی دلیل یہ تھی کہ حلف نامے کی تصدیق کیلئے اوتھ کمشنر کے پاس جانا پڑتاہے ، اس لیے لفظ حلف کو حذف کردیا جائے اور” میں حلفاً اقرارکرتا/کرتی” کی جگہ صرف “اقرارکرتا/ کرتی” استعمال کیاجائے ۔

مذہبی جماعت کے دھرنے کی وجہ سے استعفیٰ دینے والے وزیرقانون زاہد حامد کی سربراہی میں بننے والی16رکنی انتخابی اصلاحات کمیٹی نے تجویز کی مخالفت کی تھی تاہم خاتون وزیر  کا موقف تھا کہ آمروں  کے دور بنائے گئے نامزدگی فارم میں تبدیلی ممکن ہوتی ہے ، لہٰذا اسے رولز سے نکال کر انتخابی اصلاحات اور ایکٹ میں شامل کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی تبدیلی نہ کی جاسکے جس کی وجہ سے یہ تجویز بالآخر قبول کرلی گئی ۔

رپورٹ کے مطابق خاتون وزیر  کی تجویز تھی کہ میں اقرارکرتاکرتی ہوں لکھاجائے کیونکہ جب میں حلفیہ اقرار کرتی ہوں لکھاہوتو لفظ حلف کی وجہ سے اوتھ کمشنر کے پاس تجویز کیلئے جانا پڑتاہے ، یعنی صرف لفظ ” حلف“ حذف کیا گیا تھا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل زاہد حامد پر ہی سارا الزام لگ رہا تھا لیکن اب صورتحال کچھ واضح ہوگئی جبکہ دوسری طرف تحریک لبیک کے دھرنا قائدین کیساتھ ہونیوالے معاہدے کی تحت یہ رپورٹ ایک ماہ میں منظرعام پر لائی جائے گی ۔

رپورٹ میں مبہم انداز میں دو وزرا کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن صاف صاف انداز میں یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا گیا کہ آیا وہ ذمہ دار بھی تھے۔

رپورٹ کے اہم اقتباسات  کا ترجمہ ملاحظہ کیجئے

” یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ ایک بہت ہی حساس معاملہ ہے، ہم تفتیش کرنا چاہتے تھے کہ کس طرح اور کیوں اصل حلف نامہ تبدیل ہوا تھا۔ اس کے لئے ہم نے (۔۔۔۔۔نام۔۔۔۔۔۔) سے مشورہ کیا، دو یا تین مرتبہ۔ (…..نام……..) ان میں سے ایک تھے جنہوں نے کمیٹی کی سطح پر مسودہ تیار کیا تھا۔ (…..نام……)کے ساتھ تین یا چار اجلاس کیے گئے جس کے دوران انہوں نے تسلیم کیا کہ بنیادی طور پر یہ ان کی پہلی ذمہ داری تھی کہ وہ یہ دیکھتے کہ مسودے میں کوئی متنازع بات شامل نہ ہو لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی قانونی مہارت، تجربے اور زبان پر عبور کے باوجود اپنا فرض ادا نہ کر سکے۔

اس کمیٹی کی تعیناتی کے اعلان کے ساتھ ہی شدید ردعمل، جس میں بتدریج اضافہ ہوا اور جو بڑھ رہا تھا، اب کم ہوگیا ہے لیکن یہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔ آج میں نے اخبار میں مولانا فضل الرحمن کا بیان پڑھا ہے کہ بنیادی طور پر ہم حلف نامے پر بحث کے دوران اپنی ذمہ داری ادا نہ کرنے کے اجتماعی طور پر ذمہ دار تھے۔

ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ عوام ان لوگوں کے خلاف ایکشن کی توقع کر رہے ہیں جنہوں نے اقرار نامے کو تبدیل کیا اور اس مسئلےکی وجہ بنے۔ مذکورہ بالا کی روشنی میں ہم تجویز پیش کرتے ہیں کہ ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لازمی طور پر لیا جانا چاہیے لیکن ہم اسے آپ کی بصیرت اور معقول فیصلے پر چھوڑتے ہیں۔”

دستخط

راجہ محمد ظفرالحق، مشاہد اللہ خان