ملٹری اکاؤنٹس ایمپلائز ہاؤسنگ اسکیم  کے نام سے ایک جعلی رہائشی منصوبہ کا ایک نیا اور سنسنی خیز اسکینڈل،

 
0
677

1964 کے سرونٹ کنڈکٹ رولز کی دھجیاں اڑا کرمعصوم شہریوں سے کروڑوں اینٹھ لئے گئے

 اسکیم کو جعلی و غیر قانونی قرار اور  بینک اکاؤنٹ  منجمد کئے جانے کے بعد بحال کیا گیا

ایل ڈی اے نے غیر قانونی قرار دینے کے باوجود تعمیراتی کام کو نہ روکا 

قومی احتساب بیورو، وزارتِ دفاع اور آڈیٹر جنرل پاکستان نے  اس جعلی منصوبہ کی  فوری تحقیقات کرنے کا حکم جاری کردیا

اسلام آباد، دسمبر 07 (ٹی این ایس):  سابق ملٹری اکاؤنٹس جنرل کی طرف سے ملٹری اکاؤنٹس ایمپلائز ہاؤسنگ اسکیم  کے نام سے ایک جعلی رہائشی منصوبہ کا ایک نیا اور سنسنی خیز اسکینڈل سامنے آیا ہے جس میں محکمہ کی لاہور شاخ کے بعض ملازمین اور پراپرٹی ڈیلر بھی ملوث پائے جاتے ہیں

ٹی این ایس کے ذرائع کی طرف سے لگائی جانے والی کھوج سے حاصل ہونے والی یہ عجب کہانی سطحی جائیزہ لینے پر ہی ک سوالات کو جنم دیتی ہے اور یہ سوالات از خود اسبات کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ہیں کہ یہ اسکینڈل کم وسعت کا نہیں ہے اور اس میں ملوث لوگ نہ صرف ایک زنجیر کی طرح نظر آتے ہیں بلکہ یہ زنجیر  دوسرے ادروں تک   جاتی بھی معلوم پڑتی ہے۔

قومی احتساب بیورو، وزارتِ دفاع اور آڈیٹر جنرل پاکستان نے  اس جعلی منصوبہ کی  فوری تحقیقات کرنے کا حکم جاری کردیا ہےجس میں یقینا بہت بڑے انکشافات کی توقع کی جارہی ہے۔

ٹی این ایس کے ذرائع کے مطابق ملٹری اکاؤنٹس کے نام سے شروع کردہ اس جعلی رہائشی اسکیم کے تحت معصوم شہریوں سے کروڑوں اینٹھ لئے گئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ  1964 کے سرونٹ کنڈکٹ رولز کے مطابق سرکاری ملازم نہ خود سے ایسا منصوبہ شروع کر سکتا ہےاور  نہ ہی کسی دوسرے کرواسکتا ہے۔ مگر یہاں اس قانون کی دوبار دھجیاں اڑائی گئی ہیں کہ نہ صرف اسے ساز باز کرکے شروع کیا گیا بلکہ پابندی لگنے کے بعد بحال بھی کیا گیا اور اس سارے عمل میں کم و بیش وہی ملوث ہاتھ ہی نظر آتے ہیں۔ ذرا سی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جعلی اسکیم کے خلاف کاروائی بھی جعلی ہی رہی ہے جس کا مقصد صرف اتنا رہا کہ دھویں کو فضاء میں پھیلنے نہ دیا جائے۔

ذرائع کے مطابق2016  میں ہی  سابق ملٹری اکاؤنٹس جنرل فرہاد خان نے مذکورہ اسکیم کو جعلی و غیر قانونی قرار دیا اور اسے روکنے اور اسکے بینک اکاؤنٹ ‘ نمبر0270420000079 عسکری کمرشل بینک، زی بلاک ، ڈی ایچ اے برانچ’ کو منجمد کرنے کا حکم دیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ اخبارات میں باضابطہ  تشہیر کرکے عوام الناس کو انتباہ کیا گیا کہ مذکورہ اسکیم جعلی ہے اور اسکا ادارہ کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج اور محکمانہ انکوائری شروع کرنے اور بعد ازاں کیس کو نیب و ایف آئی اے کو بھیجنے کے احکامات بھی صادر کئے گئے تھے مگر کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی گئی۔

ذرائع کے مطابق محکمہ نے 5 اکتوبر 2017 کو وزارت دفاع کو بھی لکھا کہ ملٹری اکاؤنٹس ایمپلائز ہاؤسنگ اسکیم   کاآفیشلی کوئی وجود نہیں رکھتی۔

ذرائع کے مطابق ملٹری اکاؤٹنٹ جنرل ڈاکٹر وحید احمد ،جو اب اس جعلی ہاؤسنگ اسکیم کے سرپرست بھی ہیں نے پراپرٹی ڈیلرس اور محکمہ کی لاہور شاخ کی ایمپلائز ایسو سی ایشن  کے بعض ارکان کے ساتھ ساز باز کرکے اس اسکیم کو دوبارہ شروع کیا اور بینک اکاؤنٹ جو 2016 میں منجمد کیا گیا تھا  کو جون 2017 میں محکمہ کے سربرا کی سرکردگی میں نہ صرف بحال کیا گیا بلکہ نئے بینک اکاؤٹ کھولنے کی اجازت دیکر کالا دھن اس میں منتقل بھی  کردیا گیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  منجمد بینک اکاؤنٹ کس کے کہنے پر کھولا گیا اور کس قانون و ضابطہ کے تحت راج ڈویلپرس کو نیا اکاؤنٹ کھول کر رقم اسمیں منتقل کرنے کی اجازت دی گئی جبکہ 1965 کا قانون اسکی اجازت نہیں دیتا؟

ذرائع کے مطابق لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی،جو ہاؤسنگ اسکیمز کو این او سی جاری کرتی ہےنے مذکورہ ہاؤسنگ اسکیم کے غیر قانونی  اور جعلی ہونے کے بارے میں  اخبارات کے ذریعہ اشتہاری مہم بھی چلائی مگرعجیب بات ہے کہ ایک ماہ  گذر جانے کے بعد بھی اسکیم میں تعمیراتی کام کو روکنے کا کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا۔

ٹی این ایس نے ملڑی اکاؤنٹنٹ جنرل ڈاکٹر وحید احمد سے متعدد بار رابطہ کرکے انکا موقف یا وحاحت لینے کی کوشش کی مگر انھوں نے کوئی جواب نہ دیا۔