دہشتگردی کو ہر شکل میں مسترد کرتے ہیں ٗ سردار ایاز صادق

 
0
351

اسلام آباد دسمبر 24 (ٹی این ایس)سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ دہشتگردی کو ہر شکل میں مسترد کرتے ہیں ٗ دنیا میں دہشت گردی سے اب تک 2 لاکھ سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں ٗ دہشت گردی سے پاکستان کو اب تک 120 ارب ڈالر کا مالی نقصان بھی پہنچا ٗپارلیمانی ڈپلومیسی سے چیلنجز کا مقابلہ بہتر انداز میں کیا جا سکتا ہے ٗآپس کے اختلافات سے ترقی نہیں رکنی چاہیے ٗضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے کی مدد اور دوستی کیلئے ایک دوسریکاہاتھ تھام لیں۔وہ چھ علاقائی ملکوں پاکستان، ایران، ترکی، افغانستان، چین اور روس کے سپیکرز کی پہلی کانفرنس میں خیر مقدمی خطاب کر رہے تھے۔

اس موقع پر صدر مملکت ممنون حسین، سینٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی، افغانستان کے اولیسی جرگے کے سپیکرعبدالروف ابراہیمی،ایران کی مجلس شوریٰ کے سپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی،روس کے ایوان زیریں ڈوما کے چیئرمین وولوڈین وائیاچسلاؤوکٹو رو وچ،ترکی کی گرینڈ اسمبلی کے سپیکر اسماعیل کبہرمان اور چین کی قومی عوامی کانگریس کے نائب چیئرمین ژیانگ پنگ نے بھی خطاب کیا۔کانفرنس میں متعلقہ وفود، اراکین پارلیمنٹ، میڈیا کے نمائندوں اور دیگر شخصیات نے بھی شرکت کی۔سپیکر سردار ایاز صادق نے اپنے خطاب کے دوران مہمانان خصوصی اور دیگر شرکاء کی کانفرنس میں شرکت پر انہیں خوش آمدید کہا۔انھوں نے کہا کہ کانفرنس
کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر آپ سب کا خیر مقدم کرنا میری لیے خصوصی عزت وشرف کا باعث ہے۔

انہوں نے کہا کہ قدرت نے ہماری چھ اقوام کو ایک خوبصورت جغرافیائی لڑی میں پرودیا ہے اور ہماری تاریخ نے مشترکہ موروثیت کو ایک عمدہ خوبصورت روایاتی اور علاقائی لباس میں ملبوس کر دیا ہے، اسی طرح ہماری ثقافتوں اور تجارت کی آزمائش پر پورا اْترنے والے تعلقات ہیں۔انہوں نے کہا کہ صدیوں سے، تاریخی شاہراہ ریشم کے ذریعے ہمارے آباؤ اجداد ایک دوسرے کی سرزمین پر سفر کر ر ہے ہیں اور اشیاء، عقائد اور خیالات کا تبادلہ کر رہے ہیں،اس دیرینہ رابطے نے نہ صرف ایک قدرتی سنگم پیدا کیا بلکہ ہماری متعلقہ معیشتوں کے لیے قابل ستائش عنصر ہے اور اس نے ہمارے لوگوں کو بھی باہم مربوط کیا ہے اسی وجہ سے ہم ایک دوسرے کے قدرتی اتحادی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج چھ ممالک کے منتخب نمائندگان اس ہال میں اکھٹے ہوئے ہیں جو اس کرہْ ارض پر کل بنی نوع انسان کے ایک چوتھائی حصہ کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہ کل افرادی قوت کا 30 فیصد ہیں، ہم میں سے تین ممالک یعنی چین، روسی فیڈریشن اور ایران دنیا کے قدرتی وسائل کے سب سے بڑے ذخائر کے ساتھ سب سے بڑی چھ اقوام میں شامل ہیں،دنیا کی آدھی کپاس صرف چین اور پاکستان پیدا کرتے ہیں اس کے علاوہ افغانستان کے قدرتی وسائل اسے د نیا کا امیر ترین خطہ بنا سکتے ہیں جبکہ تعمیرات کے بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں اس کی مہارت نے ترکی کو دنیا میں درجہ بندی کے اعلیٰ درجوں پر لاکھڑا کیا ہے اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کی مدد اور دوستی کے لئے آپس میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں۔

سپیکر نے کہا کہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سرد جنگ کے بعد کی دنیا دو طاقتوں پر مشتمل دور سے زیادہ خطرناک اور زیادہ غیر محفوظ ثابت ہوئی ہے۔ایک طرف ایک طاقتی ظہور نے یک رخی اور عالمگیر بالا دستی کو راستہ فراہم کیا ہے جبکہ دوسری طرف غیر ریاستی عناصر کے قیام میں لائے جانے کے عمل سے بین الاقوامی سرحدوں اور قوموں کی خود مختاری کی عزت کے معیارات خطرے میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دس سال کے دوران دہشتگردوں کے بظاہر نہ ختم ہونے والے حملوں کے سلسلے سے دنیا کاکوئی کونہ بھی محفوظ نہیں رہا ہے اور دو لاکھ سے زائد زندگیاں ان حملوں کی نذر ہوئی ہیں اور ان حملوں کا شکار ہونیو الے تقریباً آدھے لوگ بدقسمتی سے ہمارے خطے سے تعلق رکھتے تھے۔درحقیقت ہمارے زیادہ ترمتعلقہ ممالک نے القاعدہ، طالبان، مشرقی ترکستان اسلامی تحریک اور اب داعش کے واضح خطرے کے ذریعے زیادہ سے زیادہ حملوں کا سامنا کیا ہے۔

سردار ایاز صادق نے کہا کہ براعظم بھر میں بے قصور مر د، عورتیں اور بچے بے گھر کر دیے گئے ا ور انہیں اپنی سر زمین چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ پنا ہ گزینوں کی کثیر ترین تعداد کو پناہ دینے میں سرفہرست دنیا کے پانچ ممالک میں سے تین یعنی ترکی، پاکستان اور ایران کی اس کانفرنس میں نمائندگی کی گئی ہے۔انھوں نے کہا کہ عالمی معیشت کو ہونے والے بے حد نقصان کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ نائن الیون سے اب تک، صرف پاکستان کی معیشت کو 911 ارب امریکی ڈالروں سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا جس کی وجہ ایسے بزدلانہ حملے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ منشیات کی غیر قانونی تجارت کے تناسب میں اضافے سے مزید سنگین ہو گیا جس کی روک تھام نہیں ہو سکی اور یہ دہشت گر دی میں استعمال ہونے والے سرمائے کا بڑا ماخذ ہے۔

سردار ایاز صادق نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد پوست کی بڑھتی ہوئی کاشت، زائد پیداواری سہولیات اور منشیات کی بڑھتی ہوئی تجارت کے سد باب اور تباہ کاری میں مسلسل ناکام کیوں رہا ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب بہت سے لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ سپیکر نے کہا کہ اگر چہ مذہبی جنون عالمی دہشت گر دی کی بڑی وجہ گر دانا جاتا ہے تا ہم ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ قوم پر ستی اورظلم وستم نے بھی اس مسئلے کو مزید سنگین کر دیا ہے۔ مشر ق وسطیٰ کے جلتے ہوئے میدانوں سے کشمیر میں بنیادی حق خود ارادیت سے انکار تک دنیا انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات سے نبر د آزما ہونے میں ناکام رہی ہے۔بیت المقدس سے متعلق پیدا کیا جانے والا حالیہ اختلاف نہ صرف بین الاقوامی قانون اور اس سے متعلق اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کی طر ف ایک قدم ہے بلکہ امن کی کاوشوں کو نقصان پہنچانے کی دانستہ کوشش ہے۔ یہ دنیا کے لوگوں کو مزید تقسیم کرنے اور مذہبی دشمنی کو ہوا دینے کی طرف ایک قدم ہے

۔سیکیورٹی کونسل میں18 دسمبر کا فیصلہ کن ووٹ جس میں 14 ممالک فلسطینی عوام کی حالت زار پر اظہار ہمدر دی کے لئے ایک ملک کو قائل نہ کر سکے، یہ ہمیں باور کرواتا ہے کہ دنیا کو مزید منصفانہ اور مساوی نظام کی ضرورت ہے جو کہ اصولی اور اخلاقی احترام پر مبنی ہو،یہی وہ چیلنج ہیں جن سے ہماری اقوام کو براہ راست خطرہ لاحق اور در حقیقت ہمارے ممالک کا وجود، مساجد، مندر،چرچ، سکو ل، کام کے مقامات اور گھر خطرے کی زد میں ہیں۔ہمارا مستقبل بھی خطرے سے دو چار ہے۔چنانچہ لو گوں کی آواز ہونے کے ناطے ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔اراکین پارلیمنٹ ہونے کی حیثیت سے ہم نے سیکھا ہے کہ اختلافات کو کیسے ختم کیا جائے اور اختلافات کے باوجود اتفاق رائے کیسے پیدا کیا جائے۔ یہ پارلیمانی سفارتکاری کا حسن بھی ہے جس کے ذریعے عوام کے حقیقی نمائندے تمام بڑے تنازعات کے پر امن حل کے لئے گفت و شنید کر سکتے ہیں۔

اس کانفرنس کا اصل مقصد بھی یہی ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ہم چھ فریقین کے مابین اگرکوئی اختلاف رائے ہو تو اسے سنا جائے، اس پر بحث ہونی چاہیے اور اس کا حل نکانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ بطور ہمسایہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہے اوراس کے لئے ہمیں امن، اعتماد اور باہمی احترام کی فضاء میں رہناہو گا۔ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارے اختلافات ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ بے پناہ استعداد کے حامل ہونے کے باوجود ہم اس سے استفادہ کر نے میں ناکام رہے ہیں۔ مشترکہ سرحدیں ہونے کے باوجود،ہم چھ ممالک کے درمیان علاقائی تعلق انتہائی نچلی سطح پر رہا ہے، بذریعہ ریلوے قابل اعتماد رابطہ نہیں جبکہ ہماری اپنی ایئر لائنز بھی ایک دوسرے ممالک میں کم ہی فعال ہیں نتیجتاہمارے درمیان سیاحت کا شعبہ بھی کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہم ثقافتی مشابہت کے حامل ہیں تاہم جدا گانہ زبان کی بناء پرعوامی سطح پر رابطے میں بھی رکاوٹ ہے اس کے علاوہ اپنے اپنے تعلیمی اداروں کے ذریعہ علاقائی زبان کے فروغ کے لئے متعلقہ ریاستی سطح پر بہت تھوڑی کاوش کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مختصر یہ کہ ہم اقوام گمشدہ مواقع جات اور نظر انداز کر دہ امکانات کی مثالی تصویر پیش کر تے ہیں اس لیے ہمیں اس صورت حال کو بدلنا ہو گا۔سپیکر نے کہا کہ میں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ خطے میں دہشت گر دی کے سیا ہ بادل ہماری راہ میں رکاوٹ ہیں مگر ہمیں یہ فراموش نہیں کر نا چاہیے کہ نا امیدی میں بھی امید کی کرنیں ہوتی ہیں۔ اس کانفرنس جیسے پلیٹ فارموں پر اپنے تجربات کے تبادلے سے ہم باہمی طور پر عصری مسائل کا انتہائی قابل عمل حل ڈھونڈ سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران، میری نظر مسلسل حالات کے دھارے پر رہی ہے اور میں نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ تمام عالمی مسائل پر کئی حوالوں سے ہماری متعلقہ اقوام کی حکمت عملی ایک جیسی رہی ہے۔سپیکر نے کہا کہ ہم سب دہشت گر دی کی تمام صورتوں اور جہتوں کی مذمت کر تے ہیں، ہم نے مسلسل ان تمام مسائل جو انسانیت کے لئے سخت مصیبت کا باعث ہیں، کا مذاکرات کے ذریعے حل پر زور دیا ہے، ہم خطے کے مسائل کے مقامی حل کی حمایت کر تے ہیں اس سے مجھے یقین ہو چلا ہے کہ ہماری اقوام کے درمیان ترقی کے لئے اتحاد ممکن ہے۔

انھوں نے کہا کہ میں یہ بتا تے ہوئے بھی خوشی محسوس کرتا ہوں کہ تین سالوں پر محیط عرصے میں اپنے معزز ہم منصبوں کے ساتھ متعدد ملاقاتوں میں، میں نے خیالات میں یکسانیت پائی۔ اس حوصلہ افزائی کی بناء پر میں نے اس
کانفرنس کی تجویز پیش کی اور گزشتہ سال جولائی میں،سیؤل میں دوسری یوریشن کانفرنس کے موقع پر جب ہم مل بیٹھے تو اس تجویز کو بھر پور پذیرائی ملی۔ میری اب یہ تجویز ہے کہ اس فورم کو مستقل اساس مہیا کی جائے اور ہماری یہ کانفرنس ہر سال منعقد ہوا کرے۔سردار ایاز صادق نے کہا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے لیے باعث فخر ہوگا کہ ایک مستقل سیکرٹریٹ بننے اورفورم کے قواعد پر باہمی اتفاق رائے ہونے تک یہ اس کے سیکرٹریٹ کے طور پر کام کرے۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ بھی تجویز پیش کرتا ہوں ہماری متعلقہ پارلیمانوں میں سیکورٹی اور تجارت کے حوالے سے متعلقہ کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے ہوں تاکہ ہماری
سوچ بچار کے باقاعدہ اتباع کو یقینی بنایا جائے اور اپنے اپنے ممالک میں مجلس ہائے عاملہ کو پارلیمانی بصیرت فراہم کی جاتی رہے۔ہمارے فورم کو علم و فضل کے اداروں کی سرپرستی کرنی چاہیے اور ہمیں اپنے اپنے ممالک کے تھنک ٹینکس کو اپنے مسائل پر مشترکہ طور پر توجہ مرکوزکرنا چاہیے اور اپنے عوام کو قریب سے قریب تر لانا چاہیے۔ اپنی پارلیمنٹ کی طرف سے میں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمانی سروسزاس نوعیت کے باہمی رابطے کے لئے ہمہ وقت دستیاب ہوگا۔

سپیکر نے کہا کہ میں یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس کر رہا ہوں قومی اسمبلی اور سینٹ آ ف پاکستان میں جملہ پارلیمانوں کے ساتھ دوستی گروپ تشکیل دے دیے گئے ہیں، ایسے فورم اگر تمام علاقائی پارلیمانوں میں قائم کر دیئے جائیں تو ان سے باقاعدہ باہمی رابطوں اور خیالات کے تبادلوں کی بابت استفادہ کیا جا سکتا ہے۔مختصر یہ کہ اگر ہم میں سے ہر کوئی اس سمت چند قدم اٹھالے تو میں انتہائی یقین سے کہہ سکتا ہو ں کہ ہم اپنی مشترکہ منزل مقصود کو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ خواب کی قوت پر یقین کیا ہے،آج یہ میری خوش قسمتی ہے کہ وہ خواب جو میں تین سالوں سے دیکھ رہا تھا بالآخر حقیقت بن گیا تاہم چینی محاورے کے ہزار میل کے سفر کا یہ محض ایک پہلا قدم ہے۔انہوں نے کہا کہ میں میکسم گور کی کے الفاظ میں آپ کو متنبہ کرنا چاہوں گاکہ ہمیں ماضی کے نہاں خانوں سے نکلنا ہوگا کیونکہ یہ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔ہمیں اقبال کی خودی سے رہنمائی لینی چاہیے جس میں وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود(نئے خیالات کے ذریعے نئی دنیا تخلیق کی جاتی ہے)۔انھوں نے کہا کہ آئیں رومی کے افکار سے ہم اپنا روحانی سبق ’’صبروتحمل کے کانوں سے سنیں!جذبہ رحمدلی کی آنکھوں سے دیکھیں! محبت کی زبان بولیں‘‘ اور اس پر میں اختتام کرتا ہوں اور اس ہال میں نظر دوڑاتا ہوں توحا فظ شیراز میرے ذہن میں آتے ہیں جو کہہ رہے ہیں ’’آپ کا اور ہمارا دل کا رشتہ ہے‘‘۔