تعلیم، صحت کے شعبوں میں کام نہ ہوا تو اورنج لائن سمیت تمام منصوبے بند کر دیں گے‘ چیف جسٹس پاکستان

 
0
257

لاہور جنوری 6(ٹی این ایس) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے نجی میڈیکل کالجز میں اضافی فیسوں سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کام نہ ہوا تو اورنج لائن سمیت تمام منصوبے بند کر دیں گے جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک بھر میں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال پر پابندی عائد کرتے ہوئے ہدایت جاری کی ہے کہ اگر ینگ ڈاکٹرز کو کوئی مسئلہ درپیش ہے تو وہ عدالت سے رجوع کریں۔ہفتہ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں مفاد عامہ کے تحت از خود نوٹسز پر سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے تمام نجی میڈیکل کالجز کے مالکان اور سی ای اوز سے کالجز کی عمارتوں، فیسوں کے اسٹرکچر اور لیب کی سہولیات سے متعلق بیان حلفی حاصل کیے جبکہ نجی میڈیکل کالجز کے اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی جمع کرائی گئیں۔چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ اب کوئی میڈیکل کالج رجسٹرڈ نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اب تک جوفیسیں وصول کی ہیں اگر ان میں پیسے زیادہ ہوئے تو وہ بھی واپس کرنے پڑیں گے۔آپ نے 6 لاکھ 42ہزار روپے فیس لی ہم نے ابھی سب دیکھنا ہے، صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے اندرون سندھ اوربلوچستان بھی جائیں گے،غریب کا بچہ ڈاکٹر بننا چاہتا ہے لیکن وسائل نہیں، چیف جسٹس آف پاکستان نے میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے 6 لاکھ 42 ہزار فیس مقرر کر دی۔چیف جسٹس نے تنبیہ کی کہ جس نے مقررہ فیس سے ایک روپیہ زیادہ وصول کی تو اس کی خیر نہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ کسی خرابی کے پیچھے کرپشن نظر آئی تو اسے نہیں چھوڑوں گا۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے ملک ہوتے ہیں، ملک کی خدمت کرنا ہوگی،.بدنصیب ہیں وہ لوگ جن کے ملک ہیں اور وہ اسکی قدر نہیں کرتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی سائنس کی سب کو سمجھ آنا شروع ہوگئی،خرابی پکڑی گئی تو تمام پرائیویٹ میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیاں بند کرا دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی اپنی مارکنگ ہوتی ہے،اپنے طلبا ء کو پاس کرتے ہیں۔ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ ایک جگہ داخلہ ہو اور ایک میرٹ ہو، ڈونیشن اور پیسے کی بنیاد پر داخلے نہیں ہوں گے۔سپریم کورٹ نے میڈیکل کالجز کمیشن کیلئے عائشہ حامد ایڈووکیٹ کو معاون مقرر کر دیا۔چیف جسٹس کی سربراہی میں فاضل بنچ نے سرکاری ہسپتالوں کی زار پر از خودنوٹس کی سماعت بھی کی۔عدالت کے حکم پر لاہور کے سرکاری ہسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس حاضر ہوئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہسپتالوں کی صورتحال اچھی نہیں، ہسپتالوں کی مکمل حالت زار پر حلفیہ بیان کے ساتھ عدالت میں رپورٹس جمع کروائیں۔

چیف جسٹس نے تمام ہسپتالوں کی آڈٹ اور ہسپتالوں میں جان بچانے والی ادویات کی موجودگی کی بھی رپورٹ طلب کر تے ہوئے ریمارکس د ئیے کہ ازخود نوٹس کا مقصد ایکشن لینا نہیں بلکہ ہسپتالوں کی حالت زار کو بہتر کرنا ہے۔چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری ہسپتالوں میں دوائی تک میسر نہیں، ایک ہسپتال میں یہاں تک صورتحال تھی کہ مریض کو ٹانکا لگانے والا آلہ بھی موجود نہیں تھا۔چیف جسٹس پاکستان نے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار بہتر بنانے سے متعلق پالیسی بناکر پندرہ روز میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔چیف جسٹس پاکستان نے سرکاری و نجی ہسپتالوں کے دورے کیلئے کمیٹی بھی تشکیل دی جس میں سینئر ڈاکٹرز اور وکلا شامل ہوں گے۔دوران سماعت فاضل عدالت نے چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت سے استفسار کیا کہ عوام کو ہسپتالوں میں صحت کی سہولتیں کیوں فراہم نہیں کی جارہی،کیا یہ بھی عدالت کی ذمہ داری ہے جس پر سیکرٹری صحت نے کہا کہ انتظامیہ کو ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کا سامنا رہتا ہے جس کے باعث مریضوں کو سہولیات فراہم کرنے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ ہسپتالوں میں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال نہیں ہوگی اور اگر ینگ ڈاکٹرز کو کوئی مسئلہ درپیش ہے تو وہ عدالت سے رجوع کریں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کام نہ ہوا تو اورنج لائن سمیت تمام منصوبے بند کردیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہجو سرکاری ڈاکٹر اپنے پرائیویٹ کلینک چلا رہے ہیں وہ بند کروادیں گے،یہ میرا پیشن ہے اور میں یہ ٹھیک کرکے رہوں گا،میرے پاس وسائل کی کمی نہیں،کلینک پر لکھ دیں کہ بوجہ ہسپتال میں کام کلینک بند ہے،ہمارے بندے جاکر کلینک پربیٹھ جائیں گے،آپ اپنے تین سال ملک کو دے دیں نہ کمائیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ اپنی مشہوری کی بجائے ہسپتالوں کو ادویات فراہم کریں،پنجاب حکومت اپنی تشہیر پر کروڑ وں روپے اشتہارات کی مد میں لگا رہی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے حکومت پنجاب کی تشہیر کے لیے کیے گئے اخراجات کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتہ چل جائے گا کہ پنجاب حکومت صحت کے معاملے میں مخلص ہے تو ہمیں مداخلت کی ضرورت نہیں۔انہوں نے کہا کہ صحت شہریوں کا بنیادی حق ہے،ہسپتالوں میں مشینیں خراب ہیں اور کسی کو ہوش نہیں،مفت ادویات مل نہیں رہیں اور تشہیر پر خرچ کیا جاریا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ وقت ابھی سے شروع ہوتا ہے اور10 دن میں تفصیلات پیش کی جائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ تمام ایم ایس میٹنگ کر کے ایس او پی بنا کر دیں، ہمارا مقصد آپ کو گرانا نہیں بلکہ سپورٹ فراہم کرنا ہے۔