بلوچستان اسمبلی میں بغاوت:وزیراعلی زہری کو65اراکین کے ایوان میں سے33کی حمایت درکار

 
0
328

کوئٹہ ،جنوری08(ٹی این ایس):تحریک عدم اعتماد کوناکام بنانے کےلئے وزیراعلیٰ بلوچستان ثناءاللہ زہری کو 65کے ایوان میں سے 33اراکین کی حمایت درکار ہوگی۔اس طرح اسپیکراسمبلی راحیلہ حمیدخان درانی اوروزیراعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری کے علاوہ اراکین کی تعداد63 ہے۔وزیراعلیٰ کےخلاف تحریک عدم اعتماد مسلم لیگ( ن) کی اتحادی مسلم لیگ(ق) کے رکن اسمبلی میرعبدالقدوس بزنجو اور مجلس وحدت مسلمین کے سیدآغامحمدرضا نے دیگر12 اراکین کی جانب سے جمع کرائی تھی۔

اس طرح تحریک عدم اعتماد جمع کرانےوالے اراکین کی تعداد14بنتی ہے،جس کے بعد 3نون لیگی وزرا اور دو مشیروں کے استعفوں سے نون لیگ کی اپنی صفوں میں دراڑ پڑ گئی ہے۔نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق تحریک کے محرک عبدالقدوس بزنجو کادعویٰ ہے کہ انہیں 22نون لیگی اراکین میں سے 18کی حمایت حاصل ہے، تاہم موجودہ زمینی صورتحال اور قرائن سے پتا چلتاہے کہ نون لیگیوں میں سے نصف سے زائد وزیراعلیٰ کاساتھ چھوڑ چکے ہیں جبکہ ان کاساتھ دینے والوں میں حزب اختلاف میں شامل جے یو آئی (ف )کے 8 مسلم لیگ (ق) کے5، بی این پی مینگل کے 2 اراکین کے علاوہ بی این پی عوامی، اے این پی اور مجلس وحدت مسلمین کے ایک‘ ایک رکن شامل ہیں۔

ایک آزاد رکن اور نیشنل پارٹی کے ایک رکن کےساتھ یہ تعداد 32 تک جا پہنچتی ہے، جمعیت علماءاسلام (ف)کے حوالے سے خاص بات یہ ہے کہ ان کے 4 اراکین پہلے ہی تحریک عدم اعتماد جمع کرانےوالوں میں شامل تھے اس لئے لگتا یہی ہے کہ جے یوآئی کے تمام اراکین وزیراعلیٰ کےخلاف تحریک کاساتھ دیں گے۔اس صورتحال کے بعد اگر وزیراعلیٰ کی پوزیشن کو دیکھاجائے تو ان کا دعویٰ کہ انہیں اب بھی 40 سے زائد اراکین کی حمایت حاصل ہے، درست نہیں لگتا جبکہ ان کے حمایتی نون لیگی اراکین کی تعداد 10 رہ گئی ہے، اس کے باوجود اتحادی جماعتوں پشتونخواہ میپ اور نیشنل پارٹی کو ملا کر انہیں کل 33 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔

ایک یا دو مزید اراکین کے ادھر یا ادھر ہونے سے صورتحال یکسر بدل سکتی ہے لگتا یہی ہے کہ مقررہ تعداد میں اراکین کی حمایت بہرحال وزیراعلیٰ کےلئے ایک چیلنجنگ ٹاسک ہے۔سنیئرصحافی وسیاسی تجزیہ نگار حامد میر کا کہنا ہے کہ وزیراعلی بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کی طرف سے نہیں آئی بلکہ بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل اتحادیوں کی طرف سے لائی گئی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) اپنے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تلاش کررہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی کوس رہی ہے حالانکہ بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پاس ایک بھی نشست نہیں ہے۔

لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے بہت سے مبصرین بلوچستان کے زمینی حقائق سے کوئی آگاہی نہیں رکھتے لیکن وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم ا عتماد کے بارے میں زمینی حقائق کو سمجھے بغیر تبصرے کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بغاوت کے شعلے 2015ءسے سلگ رہے ہیں جب سینیٹ کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے دی گئی ٹکٹوں پر پارٹی کے اندر بغاوت ہوگئی تھی۔

مسلم لیگ(ن) کی طرف سے کلثوم پروین کو سینیٹ کا ٹکٹ دئیے جانے پر پارٹی کے اپنے ہی ایم پی اے قیادت سے ناراض ہوگئے تھے کلثوم پروین 2003میں مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر سینیٹر بنیں۔2009ءمیں انہیں مسلم لیگ(ق) نے ٹکٹ دینے سے انکار کردیا تو وہ آزاد امیدوار کے طور پر سامنے آگئیں اور کامیاب ہو کر بی این پی عوامی میں چلی گئیں۔ 2015میں سینیٹ کا الیکشن قریب آیا تومسلم لیگ (ن) نے بلوچستان میں اپنے پرانے کارکنوں کو چھوڑ کر کلثوم پروین کو ٹکٹ دے دیا۔

بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے اراکین اسمبلی کے پاس سادہ اکثریت نہیں ۔حامد میر کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد مسلم لیگ نون کے اراکین اور اتحادی مل کر لائے ہیں جبکہ سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل بھی اس تحریک عدم اعتماد کی حمایت کررہے ہیں۔