سینیٹ اجلاس، اراکین کا قصور میں کمسن بچی زینب کے قاتل کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ 

 
0
550

اسلام آباد،جنوری 24 (ٹی این ایس): اراکین سینیٹ نے قصور میں کمسن بچی زینب کے قاتل کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سزاؤں کے سخت نہ ہونے تک ایسے واقعات نہیں رک سکتے، زینب کا قاتل وحشی اور درندہ ہے، اسے نشان عبرت بنایا جانا چاہئے، انسانی معاشرتی اور سماجی تقاضوں کے مطابق درندے کو سخت سے سخت سزا دی جائے، ہمیں یورپ کے پیچھے لگ کر اپنے معاشرے کو برباد نہیں کرنا چاہئے، جس تیزی سے جرائم بڑھ رہے ہیں ان کی روک تھام کیلئے سزائیں بھی سخت دینا ہوں گی۔ شرعی احکامات کی عمل داری کو یقینی بناتے ہوئے وحشیوں کو سنگسار کیا جانا چاہئے۔بدھ کو سینیٹ کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سینیٹر رحمن ملک نے کہا کہ قصور میں معصوم بچی زینب کیساتھ پیش آنیوالے واقعہ کے حوالے سے قائمہ کمیٹی نے اتفاق رائے سے ایک بل تیار کیا ہے جس کا مقصد ایسے واقعات کی روک تھام کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ زینب کے قاتل کو سرعام پھانسی دینے کیلئے قانون میں ترمیم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اسے حکومتی بل کے طور پر لے آئے تو یہ زیادہ بہتر ہو گا۔

سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ یہ سزا اسلامی تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہے، مجرم کو مثالی سزا دی جانی چاہئے تاکہ دوسروں کو اس سے عبرت حاصل ہو۔ سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے کہا کہ کمیٹی نے جو سزا تجویز کی ہے وہ بالکل ٹھیک ہے۔ نئے قوانین حالات اور ضرورت کے مطابق بنتے رہتے ہیں، ایسے وحشیوں کو سزائیں نہ دی گئیں تو دوبارہ اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ جتنا گھناؤنا یہ جرم ہے اس کی سزا بھی اتنی ہی سخت ہونی چاہئے۔ سینیٹر خوش بخت شجاعت نے کہا کہ اس گھناؤنے واقعہ پر پوری قوم سراپا احتجاج ہے اور مجرم کو سخت سے سخت سزادیناپوری قوم کی آواز ہے ۔انہوں نے کہا کہ ریل کی پٹڑی اکھاڑنے اور کسی کی عصمت دری کر کے اسے قتل کرنے میں فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی، معاشرتی اور سماجی تقاضوں کے مطابق اس درندے کو جتنی سخت سزا دی جائے کم ہوگی بلکہ میں تو یہ تجویز کرونگی کہ اسے کچرا کنڈی میں بند کر کے سنگسار کر دیا جائے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ اگرچہ بحیثیت پارٹی ہم سزائے موت کیخلاف ہیں لیکن جیسے یہ جرم ہوا ہے اور اس طرح کے دیگر واقعات بھی ہو رہے ہیں ان کی روک تھام کیلئے قائمہ کمیٹی نے منظور کی گئی ترمیم پر عمل درآمد ہونا چاہئے، انہوں نے کہا کہ معصوم بچوں اور بچیوں کیساتھ زیادتی کرنیوالوں کو نشان عبرت بنایا جانا چاہئے۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ ہمیں یورپ کے پیچھے لگ کر اپنے معاشرے کو برباد نہیں کرنا چاہئے، یہ درندہ 2015ء سے وحشیانہ حرکتیں کر رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جس تیزی سے جرائم بڑھ رہے ہیں ان کی روک تھام کیلئے سزائیں بھی سخت دینا ہونگی۔ انہوں نے کہا کہ شرعی احکامات کی عمل داری کو یقینی بناتے ہوئے وحشیوں کو سنگسار کیا جانا چاہئے۔ سینیٹر حافظ حمد اﷲ نے کہا کہ درندوں کیساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہئے اور انہیں سخت سے سخت سزا دے کر نشان عبرت بنایا جانا چاہئے۔

سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے سرعام پھانسی دینے کے معاملے پر اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ضیا دور کی طرف واپس نہیں جانا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مجرم کو جیل میں پھانسی دی جائے یا اسے کسی چوک میں لٹکایا جائے ، انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ایسی سزائیں دی جاتی رہی ہیں لیکن تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ ایسی سزاؤں کا جرائم کی شرح پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ 27 ایسے جرائم ہیں جن کی سزا موت ہے، ریل کی پٹڑی اکھاڑنے کی بھی سزا موت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے سے کل دیگر جرائم میں ملوث افراد کو بھی سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ سامنے آ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسے پھانسی دینی ہے تو اس حوالے سے جیل مینوئل پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ سینیٹر سعود مجید نے کہا کہ سخت سزاؤں سے ہی ہم جرائم کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ قصور میں درندگی کے جو واقعات ہوئے ہیں ان کے بعد کسی کو سرعام پھانسی دینے پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ سرعام پھانسی دینے کے مطالبہ پر اعتراض درست نہیں ہے، انہوں نے کہاکہ کمسن بچیوں کیساتھ زیادتی اور ان کو قتل کرنیوالے کو جتنی بھی کڑی سزا دی جائے گی وہ کم ہوگی۔ سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ کمسن بچیوں کے قاتل کو سرعام پھانسی دے کر دوسروں کیلئے عبرت کا نشان بنایا جائے۔سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ سزائیں سخت ہوں گی تو جرائم میں بھی کمی آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ قصور کے واقعہ کے مجرم کو سرعام پھانسی پر لٹکایا جانا چاہئے۔ سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ سرعام پھانسی سے خوف پیدا ہوتا ہے میں قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی سفارش کی حمایت کرتا ہوں۔سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ ہمیں فوجداری انصاف کے قانون کو بہتر بنانا ہوگا، سرعام پھانسی کی سزا کے حوالے سے ہر کیس کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہے۔ اس حوالے سے فیصلے کا اختیار جج کو دیا جانا چاہئے۔ اراکین سینیٹ کی جانب سے اس معاملے پر تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کے بعد چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے اپنے اجلاس میں اس سلسلے میں قرارداد کی منظوری دی ہے کہ مجرموں کو سخت سزا دینے کیلئے پھانسی کے قانون میں ترمیم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ارکان کی اس معاملہ پر مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1978ء کے جیل قوانین کے رول 354 کی موجودگی میں کیا یہ ضروری ہے کہ قانون میں ترمیم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ چھوٹے بچوں ،بچیوں سے زیادتی اور قتل کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے سے متعلق قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی سفارش کا معاملہ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بھجوا رہے ہیں۔ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ اور قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے ارکان بھی اس میں شرکت کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ وزارت قانون اور وزیر قانون کو بھی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف بلا سکتی ہے ۔ انہوں نے ہدایت کی کہ قائمہ کمیٹی اپنی سفارش تفصیلی غور کے بعد اس اجلاس کے اختتام سے پہلے ایوان میں پیش کرے۔