پاکستان ٗ ترکمانستان ‘افغانستان ‘ اور بھارت گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دیگا ٗوزیر اعظم 

 
0
524

سرحت آباد فروری 23(ٹی این ایس)وزیر اعظم شاہدخاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان ٗ ترکمانستان ‘افغانستان ‘ اور بھارت گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دیگا اور خطے کی عوام کو متحد کرنے میں مدد ملے گی ٗگیس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں ترکمانستان کے صدر قربان گل بردی محمدوف کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ٗ سی پیک وسطی ایشیائی ریاستوں کیلئے سب سے باکفایت رابطہ ہے ٗون بیلٹ ون روڈ اقدام سے شاندار مواقع میسر ہوں گے ٗرواں مالی سال کیلئے قومی معیشت کی شرح نمو 6 فیصد تک پہنچ جائے گی ۔ وہ جمعہ کو ترکمانستان کے سرحدی شہر سرحت آباد میں تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت ، بجلی کی ترسیل اور آپٹکس کے منصوبوں کے افتتاح کے موقع پر خطاب کررہے تھے ۔ ۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے منصوبے کو اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ تمام فریقوں کیلئے یکساں فوائد کاحامل ہے اور اس سے پورے خطے کو فائدہ ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ تاپی گیس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں ترکمانستان کے صدر قربان گل بردی محمدوف کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے اس منصوبے کو ایک حقیقت میں بدل دیاجس سے خطے میں تاریخی روابط کے احیائے نو کے مواقع سامنے آئے ہیں، الحمداللہ تاپی منصوبہ سے ایک حقیقت میں بدل رہا ہے اور یہ ایک تاریخی موقع ہے جو خطے کے ممالک کے تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترکمانستان ‘افغانستان ‘ پاکستان اور انڈیا تاپی منصوبے کے شراکت دار ہیں اور ترکمانستان کے صدر قربان علی بردی محمدوف کے وژن سے تاپی گیس پائپ لائن کے منصوبے کو انرجی اور کمیونیکیشن کوریڈور بنایا گیا ہے جس سے خطے کے ممالک کے سڑک‘ ریل ‘بجلی ‘ گیس ‘ آئی ٹی سمیت دیگر مختلف شعبوں میں باہمی رابطوں میں اضافہ ہوگا اور خطے میں امن و امان کی بحالی اور معاشی و اقتصادی ترقی میں مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ تاپی منصوبہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دے گا ۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس منصوبے سے پاکستان میں توانائی کی کل ضرورت کا10فیصد پوراکرنے میں مدد ملے گی۔ اس سے ملک میں قدرتی گیس کی مجموعی طلب کا 20 فیصد حاصل ہو گا جو 9 ملین ٹن امپورٹ کے برابر ہے۔ اس منصوبے سے پاکستان کو قدرتی گیس کی ضروریات و سکیورٹی کویقینی بنانے میں مدد ملے گی، یہ صرف ایک پائپ لائن کا منصوبہ نہیں ہے ، اس طرح کے مزید منصوبوں کے نتیجے میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ وزیراعظم نے کہاکہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے لئے سب سے باکفایت رابطہ ہے ، ون بیلٹ ون روڈ اقدام سے شاندار مواقع میسر ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ کے نتیجہ میں ہماری توانائی کی ضروریات بڑھ رہی ہیں اور توانائی کی ضروریات کی تکمیل کے لئے صرف تاپی منصوبہ کو ہی مکمل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس حوالے سے کئی نئے منصوبے بھی شروع کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت نے توانائی بحران کے خاتمے کے لئے جامع اقدامات کئے ، گزشتہ چار سالوں میں قومی گرڈ میں 10ہزار میگاواٹ بجلی شامل کی گئی، 2019ء کے اختتام پر پاکستان میں 2500 کلومیٹر طوالت کی حامل موٹر ویز موجود ہوں گی۔ پاکستان نے اپنے مسائل پر قابو پا کر اقتصادی ترقی حاصل کی ہے اور رواں مالی سال کے لئے قومی معیشت کی شرح نمو 6 فیصد تک پہنچ جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ چین کے تعاون سے شروع کیا جانا والا چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) خطے کے ممالک کے باہمی رابطوں کو فروغ دے گا جبکہ گوادر کی بندرگاہ سے ہونے والی اقتصادی سرگرمیوں کے نتیجہ میں وسطی ایشیاء ممالک کے رابطوں کو بڑھایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت موٹرویز کی تعمیر سے سڑک کے ذریعے رابطوں کے نتیجہ میں خطے کی معاشی ترقی میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے پرکشش مواقع موجود ہیں اور سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کے تحفظ ‘ منافع جات کی منتقلی سمیت امن وامان اور استحکام کی ضمانت دی جاتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ تاپی گیس منصوبے اور انرجی و کمیونیکیشن کوریڈور کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے حوالے سے تمام شراکت داروں اور بالخصوص تاپی منصوبہ کو حقیقت کا روپ دینے کے سلسلے میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی معاونت قابل قدر ہے۔ قبل ازیں رات گئے میری آمد پر شاہد خاقان عباسی نے روہیت محل میں ترکمانستان کے صدر قربان گلی بردی محمدوف سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ تعاون، توانائی ، تجارت اور ٹرانزٹ کوریڈور کی حیثیت سے تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کی اہمیت کو اجاگر کیا اور علاقائی سیکورٹی کے معاملات سمیت باہمی دلچسپی کے مختلف موضوعات پر مفید بات چیت کی گئی۔ ترکمانستان کے صدر نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وفد کے دیگر ارکان کا گرمجوشی سے خیر مقدم کیا۔ ترکمانستان سے بجلی کی خریداری کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ یہ دونوں ملکوں کے مابین دو طرفہ تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ ترکمانستان کو سمندر کیلئے سب سے موثر رسائی میسر کرے گا۔ وزیراعظم نے ترکمانستان کے صدر کو موٹرویز سمیت پاکستان بھر میں روڈ نیٹ ورک میں کامیاب توسیع کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ نیٹ ورک مغربی چین اور علاقائی ممالک کے ساتھ پاکستان کو منسلک کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو خطے میں رابطوں کا مرکز دیکھنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ سی پیک بیلٹ اینڈ روڈ اینیشیٹیو کا اہم حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکمانستان کے مابین تجارت بالخصوص لائیو سٹاک، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور زراعت کے شعبوں میں قریبی تعاون کی ضرورت ہے۔ پاکستان ترکمانستان مشترکہ حکومتی کمیشن دونوں ملکوں کے مابین تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے ایک مثالی فورم ہے۔ انہوں نے دونوں ملکوں کے مابین فوجی اور دفاعی تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا اور ترکمانستان کو دفاعی ضروریات پوری کرنے کی پیشکش کی۔ اس موقع پر ترکمانستان کے صدر قربان گلی بردی محمدوف نے تاپی منصوبے کی افتتاحی تقریب اور لنک آف منصوبوں میں شرکت کیلئے وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا۔ ترکمانستان کے صدر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ترکمانستان پاکستان کے ساتھ اپنے خصوصی تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکمانستان پاکستان تعلقات توانائی اور سیکورٹی کے دو ستونوں کی بنیاد پر استوار ہیں اور تاپی فلیگ شپ منصوبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریل، روڈ ، آئی ٹی اور فائبر آپٹیک بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔ رابطوں کے حوالے سے انہوں نے گوادر پورٹ منصوبے میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ۔ ترکمانستان کے صدر نے اس توقع کا اظہار کیا کہ پاکستان تاپی گیس منصوبے سے بھرپور استفادہ کرے گا۔ جب تاپی پاکستان پہنچے گا تو پاکستان کی صنعت مزید ترقی کرے گی۔ انہوں نے دونوں ملکوں کے مابین تعلیم، سائنس، صحت اور کھیلوں کے شعبوں میں تعاون مزید مستحکم کرنے پرزور دیا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے مابین ثقافت اور ہیومینٹیرین تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔مملکتی وزیر برائے پٹرولیم جام کمال خان‘ صوبائی وزیر لیبر اینڈ ایچ آر اشفاق سرور‘ ترکمانستان میں پاکستانی سفیر مراد اشرف جنجوعہ اور دیگر اعلی افسران وزیراعظم کے وفد میں شامل تھے۔