سپریم کورٹ: شاہ رخ جتوئی اور مرتضی لاشاری کی درخواست ضمانت مسترد

 
0
349

سپریم کورٹ کو سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا اختیار حاصل ہے، اس وقت فیصلہ درست نہیں تھا اس لیے اس میں مداخلت کی گئی،سندھ ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ریمارکس

اسلام آباد، مارچ 05 (ٹی این ایس):  سپریم کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی اور مرتضی لاشاری کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے اس کیس میں سندھ ہائی کورٹ کو میرٹ پر فیصلہ کرنے کا حکم جاری کردیا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے شاہ زیب قتل کیس میں ملزمان کی جانب سے دائر نظر ثانی اپیل پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو بتایا جائے کہ شاہ رخ قتل کیس میں غلطی کہاں ہوئی ہے، اگر کوئی غلطی نظر آئی تو اسے ضرور ٹھیک کریں گے۔شاہ رخ جتوئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالتِ عظمی میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184 کی شق 3 کا استعمال خالصتا عوامی مفاد کے لیے ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اپنے طریقے سے دلائل دینے کا پورا حق حاصل ہے کیونکہ ہم نے کبھی بھی کسی کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے سے نہیں روکا اور ہمیں انصاف کے تقاضوں کو بھی پورا کرنا ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کے پاس فیصلے پر اس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی، جس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے شفاف ٹرائل کا حق نہیں ملے گا۔

شاہ رخ جتوئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ کیا سپریم کورٹ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے؟ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کو سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا اختیار حاصل ہے، اس وقت فیصلہ درست نہیں تھا اس لیے اس میں مداخلت کی گئی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سندھ ہائی کورٹ کے جج صاحبان عدالتِ عظمی کے فیصلے کے خلاف گئے تھے اگر وہ اس کی صحیح تشریح کر لیتے تو یہ فیصلہ نہ دیتے۔لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ شاہ زیب قتل کیس کی ایف آئی آر میں انسدادِ دہشتگردی کی دفعات شامل نہیں تھیں جبکہ اس واقعے کو جاگیردارانہ طرز کی دہشتگردی قرار دیا گیا۔چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سپریم کورٹ آئے ہیں تاہم ہم اس معاملے کو دیکھیں گے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہم نے صرف شاہ زیب قتل ازخود نوٹس کے پہلے فیصلے کو برقرار رکھا جبکہ ہم نے صرف انسدادِ دہشتگردی کی دفعات کے تحت ٹرائل کرنے کا کہا تھا۔عدالت نے شاہ زیب قتل کیس میں مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی اور مرتضی لاشاری کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کو حکم جاری کیا کہ اس معاملے میں میرٹ پر فیصلہ کیا جائے۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 20 فروری کو شاہ زیب قتل کیس کے مجرم شاہ رخ جتوئی نے سپریم کورٹ از خود نوٹس کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کی تھی۔شاہ رخ جتوئی نے نظر ثانی اپیل میں موقف اپنایا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی دفعات اور گرفتاری کا حکم فوجداری قوانین میں طے شدہ اصولوں کے منافی ہے اور دعوی کیا کہ شاہ زیب قتل کیس میں دہشت گردی کی یہ دفعات نہیں لگائی جاسکتیں۔

24 دسمبر 2012 میں کراچی میں ڈیفنس کے علاقے میں 20 سالہ نوجوان شاہ زیب شاہ رخ جتوئی اور سمیت 4 ملزمان نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔انسدادِ دہشت گردی عدالت نے نوجوان شاہ زیب کو قتل کرنے کے جرم میں شارخ جتوئی اور سراج علی تالپور کو سزائے موت سنادی تھی جبکہ سجاد علی تالپور اور غلام مرتضی لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔عدالت کی جانب سے سزائے موت سنانے کے چند ماہ بعد شاہ زیب کے والدین نے معافی نامہ جاری کردیا تھا جس کو سندھ ہائی کورٹ نے منظور کیا تھا۔شاہ زیب کے والدین کی جانب سے معافی نامہ جاری کرنے کے بعد سزائے موت دہشت گردی کی دفعات کے باعث برقرار تھی تاہم 11 نومبر 2017 کو سندھ ہائی کورٹ نے سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ تفتیش کا حکم جاری کردیا تھا۔

23 دسمبر 2017 کو کراچی کی ایک سیشن عدالت کی جانب سے رہائی کے حکم دیا گیا تھا جس کے بعد شازیب قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت دیگر ملزمان کو رہا کردیا گیا تھا۔یاد رہے کہ 26 دسمبر 2017 کو وکلا، انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر اور کراچی کے دیگر شہریوں نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں کے مقدمے کو سیشن عدالت بھیجنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

سپریم کورٹ نے یکم فروری کو شاہ زیب قتل کیس میں متفرق درخواستوں کی سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے شاہ رخ جتوئی سمیت 3 ملزمان کو دی جانے والی ضمانت اور مذکورہ کیس دوبارہ سول عدالت میں چلانے کا فیصلہ معطل کرکے ملزمان کی دوبارہ گرفتاری کا حکم دیا تھا۔بعدِ ازاں سپریم کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں 28 نومبر کو سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے دیا جانے والا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پولیس کو ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا تھا۔سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے ملزمان کو کمرہ عدالت سے گرفتار کیا اور انہیں متعلقہ تھانے میں منتقل کیا گیا۔علاوہ ازیں عدالت نے تمام دائر درخواستوں کو از خود نوٹس میں تبدیل کردیا اور ریمارکس دیئے کہ اس کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔