چیف جسٹس آف پاکستان ایرا کے تحت بالا کو ٹ ما نسہرہ میں پرا جیکٹس کی عدم تکمیل با رئے از خود نو ٹس کیس کی سماعت

 
0
359

اسلام آباد،اپریل 25(ٹی این ایس) : چیف جسٹس آف پاکستان میا ں ثا قب نثار ایرا کے تحت بالا کو ٹ ما نسہرہ میں پرا جیکٹس کی عدم تکمیل با رئے از خود نو ٹس کیس کی سماعت کے دوران بالا کو ٹ روانہ ہو گئے ،چیف جسٹس میا ں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس سید سجاد علی شا ہ پر تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا تھا کہ بالا کوٹ کے شہریو ں کی جانب سے چیف جسٹس کو بتایا گیا کہ2005کے زلزلہ مظاہرین کے لیے بین الا قوامی ڈونرز کے تحت مو صول ہو نے والی امداد کو درست طرح استعمال نہیں کیا گیا اورکالج و ہسپتال سمیت پرا جیکٹس کی تکمیل نہیں ہو سکی اور متا ثرین آج بھی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ما نسہرہ بالا کوٹ میں بحالی کے کامو ں کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا اور درخواست گزارو ں اور دیگر حکام کو بھی ہدا یت کی کہ وہ ان کے فالو کر تے ہوئے بالا کوٹ پہنچ جا یں ،چیف جسٹس نے بالا کو ٹ جا نے کے لیے ہیلی کاپٹر کی دستیا بی اور کرا ئے کے با رئے میں استفسار کیا اور بعد میں چیف جسٹس نے بتایا کہ ہم کو ہیلی نہیں مل رہاہم بذریعہ رو ڑ جا یں گے اور دو بجے تک پہنچ جا یں گے اور پھر رات کا بھی دیکھیں گے جس پر چیف جسٹس نے زاتی خرچ پر بذریعہ رو ڑ روانگی کا فیصلہ کیا اور کہا کہ کیا را ستے میں کوئی ڈھا بہ بھی دستیاب ہو گا تو عدالت کو بتایا گیا کہ را ستے میں ڈھا بے موجود ہیں ۔

کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ مجھ کو ان سب پر شرم آتی ہے جو اس کے ذمہ دار ہیںیہ ایک فٹ کیس ہے کہ نیب جس کی روزانہ کی بنیاد پراس کی نگرانی کر ئے ، لوگ بیمار ہو جا یں تو کہا ں جا یں ،میں اس کے ذمہ دارو ں کو بلا رہا ہو ں سارے ذمہ دار آکر بتایں کہ انہو ں نے وصول ہو نے والے فندز کے ساتھ کیا کیا ، ایرا بتا ئے کہ اس نے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں تیرہ سال کیا کام کیا ہے؟چیف جسٹس نے ایرا کے بریگیڈیئر سے مکالمہ کیا اور کہا کہ آپ پاک فوج سے ہیں، ڈیپوٹیشن  پر آتے ہیں، متاثرہ علاقوں میں جاتے ہوں گے تو سرینا ہوٹل میں ٹھہرتے ہوں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں آپ کی کوٹھیاں ہوں گی، بچے اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہوں گے، ان لوگوں کا سوچیں تیرہ سال سے ٹینٹ میں رہ رہے ہیں، ان کے بچے کہاں پڑھتے ہیں، کبھی ان کے ساتھ ٹینٹ میں رہیں تو پتہ چلے،چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو یہ بتایا جائے کہ کیا ہے، بالاکوٹ کا کیا بنا؟ جو بیرونی امداد آئی تھی کیا حکومت کے خزانے میں چلی گئی، بیرون ملک مقیم مخیر پاکستانیوں نے بھی اربوں روپے دیے تھے، کل کتنی رقم تھی؟جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ اکنامک افیئرز ڈویژن کے اعداد و شمار کے مطابق دو ارب نواسی کروڑ ڈالر بیرونی عطیات ملے، پاکستانیوں کی جانب سے دیے گئے عطیات کی تفصیلات اکنامک افئیرز ڈویژن کے پاس نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایرا صرف عمل درآمد کی اتھارٹی ہے، منصوبے حکومت نے منظور کرنے ہوتے ہیں ۔متاثرین کے وکیل نے کہا کہ زلزلے کے بعد اسلام آباد میں ڈونرز کانفرنس میں عالمی نمائندوں نے شرکت کی، اس میں ساڑھے چھ ارب ڈالر کی امداد کے وعدے کئے گئے، تین ارب ساٹھ کروڑ ڈالر اسی وقت دے دیے گئے تھے ۔ 2010 تک ایرا کے اکاونٹ میں پچاسی ارب روپے موجود تھے جن میں سے پچپن ارب روپے بے نظیر انکم سپورٹ فنڈز کو منتقل کیے گئے ۔

عدالت کو متاثرین نے بتایا کہ ایرا کے انتظامی اخراجات  ایک ارب باسٹھ کروڑ ہیں جو بانوے فیصد بنتے ہیں، جبکہ تعمیر نو اور آباد کاری پر صرف آٹھ فیصد اخراجات ہوتے ہیں، یہ رپورٹ سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں دو سال قبل پیش کی گئی تھی ۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایرا میں کتنے ملازم ہیں؟ جس پر ایک بریگیڈئیر نے بتایا کہ گیارہ سو افراد ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کس کس کے عزیز بھرتی کئے گئے، اپنے چاچے مامے بھرتی کئے گئے ۔ بریگیڈئیر نے کہا کہ میں نے تو نہیں رکھے ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ حاضر سروس بریگیڈئیر ہیں؟ جس پر اثبات میں جواب دیتے ہوئے بریگیڈئیر نے کہا کہ نیو بالاکوٹ سٹی کیلئے اراضی لی گئی اور ڈیڑھ ارب روپے وفاقی حکومت نے ادا کیے تھے ،اراضی ماسٹر پلان کے مطابق ڈویلپ کی گئی مگر اس دوران مقامی لوگوں نے ہنگامے کیے تو کام بند کرنا پڑا، سیشن جج نے اپنے رپورٹ میں لکھا ہے کہ ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے ۔عدالت کے استفسار انہو ں نے مزید بتایا کہ اگر حالات سازگار ہوں تو دو سال کے اندر نیو بالاکوٹ کو بنا سکتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن حالات میں تیرہ سال سے مقامی لوگ رہ رہے ہیں کیا آپ رہ سکتے ہیں؟ بریگیڈئیر نے بتایا کہ جن علاقوں میں رہا ہوں وہاں کوئی نہیں رہ سکتا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت رہے ہوں گے جب فوج میں خدمات انجام دے رہے تھے، اب تو کوٹھی میں رہتے ہوں گے اور جب متاثرہ علاقوں میں جاتے ہوں گے تو سرینا ہوٹل میں رہتے ہوں گے ۔بریگیڈئیر نے جواب دیا کہ میں اگر وہاں جاوں گا تو اپنے استحقاق کے مطابق سرکار نے جس ہوٹل کی اجازت دی ہو اسی طرح کے اچھے ہوٹل میں رہتا ہوں ۔عدالت کو متا ثرین کی جانب سے بتایا گیا کہ اس ایریا میں کامو ں کے لیے ایرا نے اچھی پلا ننگ نہیں کی ،اس میں ما نسہرہ کی ضلعی حکومت ذمہ دار نہیں ،بالا کوٹ سے لیکر کاغان ناران تک کوئی داکٹر نہیں ہے اور زلزلہ کے بعد کسی نے ادھر کا دورہ نہیں کیا ،جب نو ٹس لای گیا تو اس کے بعد کل ہی بالا کو ٹ میں کنگ عبداللہ ہسپتال کا افتتاح کیا گیا ہے لیکن وہا ں پر سہو لتیں دستیاب نہیں ہیں ،جو کام ہوا وہ اپ کے نو ٹس کی وجہ سے ہوا ہے ابھی تک وہا ں آئی سی سی یو اور سی سی یو نہیں ہے ،وہا ں کے قریبی اضلاح میں بھی کوئی لیڈی ہسپتال نہیں ہے،اپ بالا کو ٹ کا دورہ کر یں تو تمام حقیقات اپ کو معلوم ہو جائے گی ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بالا کو ٹ چلتے ہیں اور جا کر دیکھیں گے۔جس کے بعد دن گیا رہ بجے چیف جسٹس با قی بورڈ ڈسچارج کر کے بالا کو ٹ کے لیے روانہ وہ گئے۔