سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں آئندہ سماعت پرسیکورٹی حکام اوراٹارنی جنرل کوطلب کرلیا

 
0
404

اسلام آباد،اپریل 25(ٹی این ایس) : سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں آئندہ سماعت پرسیکورٹی حکام اوراٹارنی جنرل کوطلب کرلیا ہے،دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کوئی خود کو قانون سے بالاترنہ سمجھے، یہ ملک اشاروں پرنہیں چلے گا، معزز چیف جسٹس کو گالیاں دی جاتی ہیں مگر کسی کو پرواہ نہیں ۔دھرنے دینے والے لوگ چہیتے ہیں، دشمن سے نہیں ملک کے اندر موجود لوگوں سے خوفزدہ ہیں،یہ ریاست کا دکھ ہے،مجھے کرسی پرانصاف کے تقاضوں کے لئے بٹھایاہے، حلف سے ہٹ کر اس کرسی پر بیٹھنے کا جواز نہیں۔ کیا پاکستان کو سیکورٹی ریاست بنانا چاہتے ہیں؟ ہم دشمن سے نہیں ملک کے اندر موجود لوگوں سے خوفزدہ ہیں، ملک کون چلارہاہے؟ کیا ملک کو آزادی کے لئے حاصل کیا یاغلامی کے لئے؟ جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا مزید کوئی رپورٹ آئی ہے؟ تو ڈپٹی اٹارنی جنرل سہل محمود نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل ملک سے باہر ہیں، پیمرا سے رپورٹ مانگی گئی تھی جو عدالت میں جمع کرائی گئی ہے، جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ہما رے حکم نامے میں لکھا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل کے مطابق آئی ایس آئی کی دھرنا قائدین کے بارے میں رپورٹ تسلی بخش نہیں، اس کے بعد کیا ہوا؟ ملک کیسے چلایا جا رہا ہے؟ براہ کرم خاموش رہنے کی بجائے جواب دیں، بولیں۔ڈپٹی اٹارنی جنرل سہل محمود نے کہا کہ یہ میرے علم میں نہیں تھا ۔ جسٹس قاضی فائز  عیسیٰ نے کہا کہ یہ بات نہ کریں، لیفٹیننٹ کمانڈر شفیق الرحمان کی موجودگی میں تو نہ کہیں، ہمیں بھی بتا دیں ملک کیسے چلا رہے ہیں، میرے چچا نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا، میرے باپ نے بھی، مجھے بتانے کی ضرورت نہیں، ہم نے پاکستان کس لیے بنایا تھا کہ خوف میں زندگی گزاریں؟ کچھ لوگ قانون سے بالاتر ہیں؟جسٹس مشیر عالم نے پوچھا کہ اٹارنی جنرل نے رپورٹ دیکھی تھی یا نہیں؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے کہا کہ کرنل صاحب آئے ہیں ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صاحب صاحب نہ کہیں، صرف کرنل کہہ دینا کافی ہے، ہم برطانوی غلامی کے دور میں نہیں رہ رہے ۔ کیا پاکستان میں آئین ختم ہو گیا ہے؟ کیا ہو گیا ہے کراچی میں اونچے کھمبوں پر ان کے(دھرنا والو ں ) بینرز لگے ہیں، کیا ریاست میں ایک خاص نکتہ نظر کو پروان چڑھایا جا رہا ہے؟ ملک کو دنیا میں ‘لافنگ اسٹاک ‘بنا رہے ہیں، کیا اب یہاں ڈنڈا پاور کی حکمرانی ہوگی؟جسٹس مشیر عالم نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ اٹارنی جنرل سے ہدایات لے لیتے تاکہ عدالت کو کچھ بتا سکتے ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ آپ کو تنخواہ کون دے رہا ہے، آئی ایس ائی کو کون تنخواہ ادا کر رہا ہے ۔ ڈپٹی اٹارنی نے جواب دیا کہ حکومت پاکستان تنخواہ دے رہی ہے ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان کے عوام، ہم سب کی تنخواہ ملک کے عوام کی جیبوں سے آتی ہے ۔ کوئی خود کو قانون سے بالاتر نہ سمجھے، یہ ملک اشاروں پر نہیں چلے گا، ملک کو فوج نے نہیں بنایا ۔ ہم ان کے بچے ہیں جنہوں نے یہ ملک بنایا، یہ قلم سے بنا، طاقت سے نہیں ۔ ہم کیس ختم کر کے جاتے ہیں تو سوشل میڈیا پر بیان آ جاتے ہیں، اوپر سے کہیں اور سے حکم آیا ہے، بس بہت ہو گیا ہے، اگر آئین نہیں پسند تو اسلام سے ہی محبت کر لیں جو کہتا ہے کہ کسی کے مال پر آنچ نہیں آنا چاہیے ،یہ بڑی بڑی تقریریں کرتے ہیں، غلیظ ترین گالیاں دیتے ہیں، ہم اور آپ عوام کے خادم ہیں، حکمران نہیں، جو شریف ہے وہ خاموش اور چپ چاپ، جو بدمعاش ہیں وہ آگے ہیں، آپ کس سے خوفزدہ ہیں، بولتے کیوں نہیں؟ کیا ہم ایک آزاد ملک نہیں، کسی شہری کی املاک پر آنچ نہیں آنی چاہیے، تاریخ پڑھیں پاکستان کس طرح بنایا گیا، قائداعظم کے اردگرد ایسی لیڈر شپ تھی جو پاکستان بنانا چاہتے تھے، قائداعظم کے ساتھ کوئی بریگیڈ نہیں تھی، نہیں اب ہم بول بھی نہیں سکتے ۔ سیکرٹری دفاع کہاں ہیں؟ وہ بہت بڑے آدمی ہیں عدالت کیوں آئیں گے ، ججوں پر حملوں کی پاکستان میں آزادی ہے، ، معزز چیف جسٹس کو گالیاں دی جاتی ہیں مگر کسی کو پرواہ نہیں ، سیکورٹی اداروں کو دھرنے والوں کے پس منظر اور زرائع آمدن کا پتہ نہیں ۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ائی ایس آئی کی رپورٹ میں فنڈز کے بارے میں معلومات موجود ہیں ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا یہ لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان لوگوں نے چندہ اکٹھا کیا ہے، پینتیس ہزار لوگوں نے دھرنا قائدین کو چندہ دیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ کیوں فرض نہ کریں ہمارے دشمنوں نے یہ پیسہ دیا، ایسے لوگوں کو سوشل میڈیا ملا ہے اس میڈیا کو پیمرا چھو نہیں سکتا ، جو گاڑیاں جلائیں تشدد کریں، راستے بند کریں ان پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھاتا، ہم نے آئین کی بات اٹھائی ہے، کیا زندگی اور آزادانہ نقل و حرکت آئینی حق نہیں ہے ۔ آئین پاکستان کی دھجیاں اڑائیں، پولیس والے کی آنکھ نکال دی اس پر ہاتھ نہیں ڈالتے یا ڈال نہیں سکتے ، ہمیں صبح سے رات تک گالیاں پڑتی ہیں، غلیظ گالیاں اسی منہ سے نکل رہی ہیں جس سے رحمت اللعالمین کے عشق کا دعویٰ کرتے ہیں ، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ اسلام نہیں ہے اسلام امن سے پھیلا ہے ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ لوگ اسلام کے دشمن ہیں، اسلام کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں کہ لوگ اسلام سے نفرت کریں ۔ ان کا کوئی آیا ہے؟ عدالت کو بتایا گیا کہ دھرنے والوں کی طرف سے کوئی نہیں آیا تو جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ان کو بہتر میڈیا ملا ہوا ہے، ان کو کوئی چھو نہیں سکتا،ایجنسیوں کو نہیں معلوم دھرنے کے لیڈرٹیکس دیتے ہیں یانہیں ،یجنسیوں کو نہیں معلوم ان کے ذرائع آمدن کیا ہیں،جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ کیا دھرنے کے لیڈر کے فنڈز کاآڈٹ کرلیاگیا ہے اور کیا کیافنڈز کو ثابت کرنے کی دستاویزہے اس با رئے بھی آگاہ کیا جائے ،وزارت دفا ع کے نما ئندے نے بتایا کہ آئی ایس آئی ایک انٹیلیجنس ادارہ ہے،دھرنے کے لیڈر خطیب ہیں ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیایہ سرکاری خطیب ہیں ،اس خطیب کوتنخواہ کون اداکرتاہے ، کیاغیبی قوتیں معاوضہ اداکرتی ہے،کیا دھرنے والے لیڈران کے اکاوئنٹس ہیں۔بینک اکاوئنٹس ہوں گے سے کیا مراد ہے۔جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ اٹارنی جنرل کب دستیاب ہوں گے،اٹارنی جنرل آئیندہ سماعت پر مکمل معلومات کیساتھ پیش ہوں۔عدالت کو پیمرا کے وکیل نے بتایا کہ نجی چینل 92 نے پیمرا کے کوڈ اف کنڈیکٹ کی خلاف ورزی کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ نے کہا کہ پیمرا کی ہدایات کے بعد ٹی وی چینلز کے پاں کانپ رہے ہوں گیے۔پیمرا نے بڑا سیریس ایکشن لیا ہے۔ پیمرا کے وکیل نے بتایا کہ پیمرا نے ٹی وی چینلز کو تنبیہ کی ہے۔جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ پیمرانے اپنامنہ کالاکیوں کیا،پیمرانے اتنی تکلیف کیوں کی،یہ میرادکھ نہیں میرے ملک کادکھ ہے،سیکیورٹی ایجنسی اپنے بقاکاجواز دے ،ریاست مظلوم کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے ،ریاست ظالم کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی،طاقتورکوانصاف کی ضرورت نہیں،مظلوم کوانصاف کی ضرورت ہوتی ہے،کچھ چینل غائب ہو جاتے ہیں۔کیا چیز نشر ہو گی کیا نشر نہیں ہو گی یہ کیا بات ہے۔چیرمین پیمرا کی تقرری کیوں نہیں ہوئی۔جیو نیوز کے صحافی نے بتایا کہ پر اسرار ہاتھوں سے ہمارے جیو نیوز چینل کو غائب کر دیا جاتا ہے۔پیمرا کے وکیل نے کہا کہ کچھ حد تک جیو ٹی وی کی نشریات کے بند ہونے کی رپورٹ ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مارشل لا کے دور میں میڈیا کو آزادی نہیں ہوتی،میں بڑا ڈر پوک شخص ہوں ،مجھے کرسی پرانصاف کے تقاضوں کے لئے بٹھایاہے ،وہ انصاف میں نہیں کرسکتا ،کیوں نہیں کرسکتاکیوںکہ آپ کاتعاون نہیں ہے،کن علاقوں میں جیوکی نشریات بند ہے ،آئی ایس آئی سے سروے کروالیتے ہیں، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آئی ایس آیی سے ہدایات لیتاہوں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہدایات لینے سے آپکی کیامراد ہے ،آپ ہدایات لیں گے یاانھیں دیں گے،کیاکینٹ ایریاپاکستان کاحصہ نہیں ،دھرنے والوں نے ملک کاکروڑوں کانقصان کیا،ایسے لوگ ہمارے چہیتے ہیں ،جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ پیمرا غیر فعال ہے تو اتھارٹی کوکون چلا رہا ہے ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا اپ ایسا پاکستان چاہتے ہیںمیں ایسا پاکستان نہیں چاہتا۔کیا پاکستان کو سیکورٹی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔میرے آباو اجداد نے اس ملک میں حصہ دالا وہ مسلم لیگ کا حصہ تھے۔کوئی چینل قانون کی خلاف ورزی کرے تو پیمرا میں شکایت کریں۔ڈان ٹی وی چینل بھی کافی علاقوں میں بند ہے،ڈان کی بنیاد قائداعظم نے رکھی ،ملک کوکون چلارہاہے،کیاملک کوآزادی کے لئے حاصل کیایاغلامی کے لئے،جن کولوگوں نے پاکستان میں تباہی برپاکی ان کی کوریج اب بھی جاری ہے ،حلف سے ہٹ کراس کرسی پربیٹھنے کاجوازنہیںوزارت دفاع کے نما ئندہ نے کہا کہ کینٹ میں جیو ٹی وی کی نشریات چل رہی ہیں ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیاہم آپ کابیان ریکارڈ کرلیںتو وزارت دفاع کے نما ئندہ نے کہا کہ عدالت میرابیان ریکارڈ کرے ۔عدالت نے قرار دیا کہ پیمرا کی جانب سے ٹی وی چینلز کو صرف نوٹس جاری محض دکھاوا اور مایوس کن اقدام ہے، عدالت نے آئندہ سماعت پر سیکورٹی حکام، اٹارنی جنرل کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی اور قرار دیا کہ چیرمین پیمرا کا عہدہ خالی ہے اور تاحال تقرری نہیں ہو سکی،عدالت فروری میں چار ہفتوں میں چیرمین پیمرا کی تقرری کا حکم دے چکی ہے،چیئرمین پیمرا کی تقرری کے حوالے سے عدالتی احکامات کی تعمیل کی جائے، عدم تعمیل پر ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیا جائے گا، مقدمے کی مزید سماعت دس روز کے لیے ملتوی کردی گئی۔