( اصغرعلی مبارک )
اسلام آباد (ٹی این ایس) وفاقی حکومت اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا ایک ارب 30 کروڑ ڈالر کے نئے معاہدے پر اتفاق ہوگیاہے اور دونوں فریقین نے جاری 37 ماہ کے بیل آؤٹ پروگرام کے پہلے جائزے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ بورڈ کی منظوری تک حکومت 28 ماہ پر محیط نئے ماحولیاتی لچکدار قرض پروگرام کے تحت ایک ارب 30 کروڑ ڈالر حاصل کرسکتی ہے۔ اس سے پاکستان کو 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پروگرام کے تحت ایک ارب ڈالر کی سہولت بھی ملے گی، جس سے پاکستان کو ملنے والی رقم 2 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ طے پاگیا ہے، مخالفین نے ڈھنڈورے پیٹے کہ اب آیا منی بجٹ، لیکن الحمدللہ، منی بجٹ نہیں آیا۔وزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ حالیہ عرصے میں مہنگائی، دہشت گردی سمیت کئی چیلنجز کا ہم نے بطور قوم سامنا کیا، بالخصوص عوام الناس نے مشکلات برداشت کیں، اگر ان کی قربانیاں نہ ہوتیں تو آئی ایم ایف سے یہ معاہدہ ناممکن تھا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے پر میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر تجارت سمیت تمام متعلقہ وزرا، اداروں اور ان کے سربراہوں، بالخصوص آرمی چیف کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھی اپنا حصہ ڈالا، آپ سب کی محنت نہ ہوتی تو یہ معاہدہ اتنی جلدی نہ کرپاتے۔وزیراعظم نے کہا کہ کپتان اکیلا کچھ نہیں کرسکتا، 11 لوگوں کی ٹیم میں ایک کپتان ہوتا ہے، پچھلے سال کے مقابلے میں محصولات کی وصولی میں 26 فیصد اضافہ ہوا، مہنگائی کی شرح میں تاریخی کمی آئی۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں کھربوں روپے کے ٹیکس کے مقدمات سالوں سے زیر التوا پڑے ہیں، اس میں قصور کس کا ہے، عدالتوں کا یا ایف بی آر کا، یہ تو وقت طے کرے گا، آپ سوچیں کہ حکومت کی کوششوں سے چند ہفتوں میں 34 ارب روپے خزانے میں آئے، اب ہم نے تمام تر توجہ ان مقدمات کو چلانے پر مختص کر دی ہے، تاکہ یہ پیسہ قومی خزانے میں آسکے اور قطرہ قطرہ کرکے سمندر بن جائے۔انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن پر تیزی سے کام جاری ہے، اب جو ٹربیونلز کی ہائرنگ ہورہی ہے، اس میں پروفیشنل چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور کارپوریٹ وکلا کو لایا جارہا ہے، مارکیٹ سے مسابقت پر ایسے لوگوں کو لایا جارہا ہے، یہ سب سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں کسی سفارش کے بغیر میرٹ پر کیا جارہا ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ عدالتوں میں ٹیکس مقدمات کی پیروی کے لیے ایف بی آر کی جانب سے او ایس ڈی افسران کو بھیجا جاتا تھا، اب ہم خود اس کی نگرانی کے لیے ایک قدم آگے جارہے ہیں۔ سیلز ٹیکس کی چوری کے معاملے میں شوگر سیکٹر کو میں نے خود منتخب کیا ہے، گزشتہ سال اور رواں مالی سال کے ابتدائی 3 ماہ میں 12 ارب روپے کے سیلز ٹیکس کی وصولی کا فرق ہے، یہ پہلی بار ہوا ہے کہ سیلز ٹیکس شوگر اندسٹری سے بڑھ کر ملا ہے، اور مالی سال کے اختتام پر 60 ارب روپے اضافی سیلز ٹیکس وصول ہونے کی توقع ہے۔اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی والدہ کے انتقال پر فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔دریں اثنا، وفاقی کابینہ اجلاس کے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ سولر نیٹ میٹرنگ ریگولیشنز اسٹیک ہولڈرز سے مزید مشاورت کے بعد دوبارہ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ وفاقی کابینہ کو آئی ایم ایف سے 1.3 ارب ڈالر کے قرض معاہدے پر بریفنگ دی گئی۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 7 ارب ڈالر معاہدے کا پہلا جائزہ مکمل ہو گیا، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے گورننس میں بہتری کے حکومتی اقدامات کو سراہا۔ اعلامیے کے مطابق سی سی پی اے کو بیگاس سے بجلی پیداوار کے نظرثانی شدہ معاہدوں پر دستخط کی منظوری دی گئی، اسی طرح وسل بلوئر پروٹیکشن اینڈ وجیلینس کمیشن ایکٹ 2025 کی اصولی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کے لیے انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس آن سروسز، ایف ڈی ای قوانین میں ترمیم کی منظوری دی گئی ہے، اسی طرح پرمننٹ فیکلٹی، ریسرچرز کی آمدن پر ٹیکس ریبیٹ بحالی سے متعلق انکم ٹیکس ترمیمی بل کی منظوری دی گئی ہے۔ مزید بتایا گیا کہ وفاقی کابینہ نے کابینہ کمیٹی نجکاری کے 11 مارچ کے فیصلوں کی توثیق کر دی، ای سی سی کے 13 اور 21 مارچ کے فیصلوں کی توثیق بھی کی گئی۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سولر نیٹ میٹرنگ ریگولیشنز اسٹیک ہولڈرز سے مزید مشاورت کے بعد دوبارہ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ بجلی صارفین تک پہنچانے کی منظوری دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ 13 مارچ 2025 کو اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے گرڈ صارفین پر بڑھتے ہوئے مالی بوجھ کو کم کرنے کے لیے نیٹ میٹرنگ ریگولیشنز میں ترامیم کی منظوری دے دی تھی، جس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ سولر صارفین سے فی یونٹ بجلی 10 روپے میں خریدی جائے گی۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ سولر نیٹ میٹرنگ کے سبب گرڈ سے منسلک صارفین کو بھاری بل ادا کرنا پڑ رہے ہیں، دسمبر 2024 تک سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد 2 لاکھ 83 ہزار تھی۔ وزارت خزانہ کے اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ سال سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کو 159 ارب روپے ادا کیےگئے، اصلاحات نہ ہونے پر ادائیگی کا بوجھ 2034 تک 4 ہزار 240 ارب تک پہنچ سکتا ہے۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ 80 فیصد سولر نیٹ میٹرنگ صارفین 9 بڑے شہروں، پوش علاقوں میں موجود ہیں۔وفاقی حکومت اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایک ارب 30 کروڑ ڈالر کے نئے معاہدے کے اتفاق پر پاکستان میں آئی ایم ایف مشن چیف نیتھن پورٹر کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم نے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت 37 ماہ کے توسیعی انتظامات کے پہلے جائزے اور آئی ایم ایف کے ’ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی ٹرسٹ‘ کے تحت 28 ماہ کے نئے معاہدے پر پاکستانی حکام کے ساتھ عملے کی سطح کا معاہدہ (ایس ایل اے) کیا ہے، جس کی مجموعی رسائی 28 ماہ کے دوران تقریباً ایک ارب 30 کروڑ ڈالر ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے اکتوبر میں آئی ایم ایف کے آر ایس ایف سے ایک ارب ڈالر کی درخواست کی تھی، آر ایس ایف کے تحت فنڈنگ ان ممالک کو فراہم کی جاتی ہے جو موافقت کے ذریعے آب و ہوا کی تباہ کاریوں کے خلاف لچک پیدا کرنے کے لیے اعلیٰ معیار کی اصلاحات کا عہد کرتے ہیں۔ یہ قرض 30 سال میں واپس کیا جا سکتا ہے، جس میں 10 سال کی رعایت بھی شامل ہے اور عام طور پر ای ایف ایف کی شرائط سے سستا ہے، جیسے 7 ارب ڈالر کا قرض پروگرام جو جاری ہے۔ سال 2024 کے وسط میں حاصل ہونے والے اس پروگرام نے معیشت کے استحکام میں اہم کردار ادا کیا اور حکومت نے کہا ہے کہ ملک طویل المدتی بحالی کی راہ پر گامزن ہے۔ گزشتہ 18 ماہ کے دوران پاکستان نے چیلنجنگ عالمی ماحول کے باوجود میکرو اکنامک استحکام کی بحالی اور اعتماد کی بحالی میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔آئی ایم ایف مشن چیف نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری کے بعد پاکستان کو ای ایف ایف کے تحت تقریباً ایک ارب ڈالر تک رسائی حاصل ہو جائے گی، جس سے اس پروگرام کے تحت مجموعی طور پر 2 ارب ڈالر کی ادائیگی ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف عہدیدار نے پاکستان کے بارے میں کہا کہ اگرچہ معاشی نمو معتدل ہے، افراط زر 2015 کے بعد سے اپنی کم ترین سطح پر آچکی ہے، مالی حالات میں بہتری آئی ہے، خودمختار ی کے پھیلاؤ میں نمایاں کمی آئی اور بیرونی توازن مضبوط ہے۔ وزارت خزانہ نے اپنے ماہانہ معاشی آؤٹ لک میں کہا ہے کہ گزشتہ ماہ تقریباً ایک دہائی کی کم ترین سطح پر سست روی کے بعد اپریل میں افراط زر میں 3 فیصد تک اضافے کا امکان ہے۔ افراط زر کئی مہینوں سے کم ہو رہی ہے، جو مئی 2023 میں تقریباً 40 فیصد تک بڑھنے کے بعد فروری میں 1.5 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اجناس کی قیمتوں میں جغرافیائی سیاسی مسائل، عالمی مالیاتی حالات سخت ہونے یا بڑھتی ہوئی تحفظ پسندی جیسے منفی خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ اس طرح کے خطرات پاکستان کے ’مشکل سے حاصل کردہ میکرو اکنامک استحکام‘ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ مزید کہا کہ آب و ہوا سے متعلق خطرات پاکستان کے لیے ایک اہم چیلنج بنے ہوئے ہیں، جس سے موافقت کے اقدامات سمیت لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کے مطابق اس سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران حاصل کی گئی پیش رفت کو جاری رکھا جائے، پبلک فنانس کو مزید مضبوط بنایا جائے، قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنایا جائے، بیرونی بفرز کی تعمیر نو کی جائے اور نجی شعبے کی قیادت میں مضبوط، جامع اور پائیدار ترقی کی حمایت میں خرابیوں کو ختم کیا جائے’۔ فنڈ نے نوٹ کیا کہ پاکستان نے ای ایف ایف کے تعاون سے چلنے والے پروگرام کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور آر ایس ایف کی حمایت یافتہ معاہدے کے تحت اصلاحات کو آگے بڑھا کر اپنی کوششوں کو تقویت دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی پالیسی ترجیحات میں عوامی قرضوں کو کم کرنے کے لیے مالی استحکام جاری رکھنا، سماجی اور ترقیاتی اخراجات کے لیے جگہ پیدا کرنا، مالی ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر مزید پیش رفت کرنا، مناسب طور پر سخت مالیاتی پالیسی کو برقرار رکھنا، ٹیرف کو کم کرنے کے لئے توانائی کے شعبے میں لاگت کو کم کرنے والی اصلاحات کو جاری رکھنا؛ اور آب و ہوا کی اصلاحات کی کوششوں میں اضافہ کرنا شامل ہے۔ یہ یاد رہے کہ 3 مارچ 2025 کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا وفد ایک ارب ڈالر قسط پر مذاکرت کیلئےپاکستان پہنچا تھااور اقتصادی جائزہ مذاکرات 14 مارچ تک جاری رہے۔ پہلے جائزہ مذاکرات 7 ارب ڈالرز کے قرض پروگرام کے تحت ہوئے، جائزہ کی کامیابی پرپاکستان کو تقریباً ایک ارب ڈالرز کی قسط جاری کی جائے گی۔دوسرے مرحلے میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پالیسی لیول مذاکرات ہوں گے، پاکستان 7 ارب ڈالرز قرض پروگرام کی شرائط پر عملدرآمد رپورٹ پیش کرے گا۔ پاکستان رواں مالی سال کی پہلی ششماہی رپورٹ آئی ایم ایف کو پیش کرے گا، آئی ایم ایف وفد وزارت خزانہ ، ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک حکام سے ملاقاتیں کرے گا۔ یاد رہے کہ 12 فرور ی2025 کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر ( ایم ڈی) کرسٹالینا جارجیوا نے اعتراف کیا تھا کہ معیشت مستحکم ہونے کے بعد پاکستان ترقی کی جانب گامزن ہے، وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات میں کرسٹالینا جارجیوز نے آئی ایم ایف پروگرام مؤثر طریقے سے نافذ کرنے پر حکومتِ پاکستان کی کوششوں کو سراہا تھا۔ دبئی میں ورلڈ گورنمنٹس سمٹ (ڈبلیو جی ایس) کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف سے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے ملاقات کی تھی ، اس موقع پر پاکستان کے جاری آئی ایم ایف پروگرام اور حکومتی اصلاحات کے ذریعے حاصل ہونے والے میکرو اکنامک استحکام پر گفتگو کی گئی تھی ۔ ملاقات میں ادارہ جاتی اصلاحات کے نفاذ اور مالیاتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کے عزم کو اجاگر کیا گیا، جو کہ پاکستان کے معاشی استحکام کی بحالی اور ملک میں پائیدار ترقی و مستقبل کیلئے کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی توسیعی فنڈ سہولت کے تحت ہونے والی پیش رفت کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا ، جس نے پاکستان کی معیشت کو مستحکم اور اسے طویل مدتی بحالی کی راہ پر گامزن کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا وزیر اعظم نے اصلاحات کی رفتار بالخصوص ٹیکس اصلاحات، توانائی کے شعبے کی بہتر کارکردگی اور نجی شعبے کی ترقی جیسے اہم شعبوں میں پیش رفت کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا تھا ۔ وزیراعظم نے مینجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کو پاکستان کے معاشی استحکام کے لائحہ عمل، مؤثر کارکردگی اور منصوبہ بندی کی پائیداری کے لیے حکومت کے عزم کا یقین دلایا تھا جو پاکستان میں جامع اور پائیدار ترقی کے حصول کے لیے اہم اجزا ہیں۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے آئی ایم ایف کے تعاون سے چلنے والے پروگرام کو موثر طریقے سے نافذ کرنے میں حکومتِ پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ ملکی معیشت استحکام کے بعد ترقی کی سمت میں گامزن ہے اور افراط زر میں کمی کے ساتھ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے، انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا تھا کہ پاکستان معاشی بحالی کے حصول کے بعد ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ کرسٹالینا جارجیوا نے ملک کے اصلاحاتی ایجنڈے پر عملدرآمد کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت اور ذاتی عزم کی بھی تعریف کی تھی ، جنہوں نے پاکستان کے معاشی استحکام اور ترقی کے حصول میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے طویل مدتی معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے مسلسل مالیاتی نظم و ضبط، ادارہ جاتی اصلاحات اور موثر گورننس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے پاکستان کے اصلاحاتی ایجنڈے کی حمایت کے لیے آئی ایم ایف کے عزم کا اعادہ کیاتھا, وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت حکومت کی پالیسیوں کے نتائج سے امید کا اظہار کیا۔وزیر خزانہ اورنگ زیب نے بتایا کہ ہم اپنے راستے پر قائم رہنے اور ٹیکسوں، توانائی اور سرکاری ملکیت والے کاروباری اداروں (ایس او ایز) کے حوالے سے ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل درآمد جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں، تاکہ ہمارے ملک کو پائیدار پیداواری صلاحیت اور برآمدات پر مبنی ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ 350 ارب ڈالر کی معیشت آئی ایم ایف کے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے تحت مستحکم ہوئی، جس سے اسے ڈیفالٹ خطرے سے بچنے میں مدد ملی ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کے معاہدے کا انتظار کر رہی تھی، جس کے تحت بیل آؤٹ پیکج کا پہلا جائزہ لیا جائے گا اور سالانہ بجٹ سے جو عام طور پر جون میں پیش کیا جاتا ہے، اس سے قبل ایک ارب ڈالر کی تقسیم کی جائے گی