’ونڈ رش اسکینڈل‘ میں کئی تارکین وطن کو غلط طریقے سے ملک بدر کیے جانے پر برطانوی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا

 
0
475

لندن،اپریل  29 (ٹی این ایس):’ونڈ رش اسکینڈل‘ میں کئی تارکین وطن کو غلط طریقے سے ملک بدر کیے جانے کے بعد برطانوی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ برطانیہ میں یہ بحث بھی زور پکڑ رہی ہے کہ بریگزٹ کے بعد برطانوی امیگریشن پالیسی کے خدوخال کیسے ہوں گے۔ 1948ء میں دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ نے ویسٹ انڈیز سے کئی ’مہمان مزدور‘ بلائے تھے۔ کئی دہائیوں سے برطانیہ میں قانونی طور پر مقیم ان مہمان مزدوروں کے اہل خانہ کو ملک بدر کیے جانے کے بعد لندن حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

بعد ازاں برطانیہ نے ’ونڈ رش اسکینڈل‘ سے متاثر افراد سے معذرت کرتے ہوئے انہیں برطانوی پاسپورٹ جاری کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ’مائیگرنٹ وائس‘ سے تعلق رکھنے والے نازک رمضان سمیت کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ ونڈ رش اسکینڈل برطانوی حکومت کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف روا رکھے گئے معاندانہ ماحول کا نتیجہ ہے۔ رمضان کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی 2013ء میں اختیار کی گئی تھی اور اس وقت موجودہ وزیر اعظم تھریسا مے ملکی وزیر داخلہ تھیں۔ تب انہوں نے خود ہی کہا تھا کہ تارکین وطن کے خلاف اس سخت پالیسی کا مقصد غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف انتہائی مشکل ماحول پیدا کرنا ہے۔ یورپی یونین سے برطانوی اخراج کا عمل 29 مارچ 2019ء تک مکمل ہو جائے گا۔ بریگزٹ کے حامیوں کی خواہش ہے کہ لندن حکومت مہاجرت کے خلاف مزید سخت پالیسی اپنائے۔ دوسری جانب کاروباری حلقوں کو خطرہ ہے کہ ہنرمند تارکین وطن کو ملازمتیں فراہم کرنے میں مشکلات کے باعث ان کے کاروبار متاثر ہوں گے۔

مہاجرت سے متعلق برطانوی وزیر کیرولین نوکس کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کے بعد کے دور کے لیے نئی امیگریشن پالیسی کا اعلان رواں برس موسم خزاں میں کر دیا جائے گا۔ بریگزٹ سے سب سے زیادہ متاثر برطانیہ میں مقیم یورپی یونین کے شہری ہوں گے جب کہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن پر بریگزٹ کے براہ راست اثرات مرتب ہونے کے امکانات کم ہی ہیں۔