پاکستان اور افغانستان کا معاشی مستقبل ایک دوسرے سے وابستہ ہے،مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ

 
0
1041

اسلام آباد11مئی (ٹی این ایس)مشیر قومی سلامتی لیفٹننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کا معاشی مستقبل ایک دوسرے سے وابستہ ہے، دونوں ممالک کے پاس ترقی کے کثیر مواقع ہیں، جن کے ذریعے وہ یورپ، افریقہ اور ایشیاء کے دیگر ممالک کی منڈیوں سے منسلک ہوسکتے ہیں،دونوں ممالک دنیا کے تجارتی اور اقتصادی گڑھ بننے کی اہلیت رکھتے ہیں، آج تک کسی نے بھی افغانستان اور خطے میں امن قائم کرنے کے لئے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں ،لیکن پاکستان اس سلسلے میں سنجیدہ ہے اور ہم ہر اس امن عمل کی حمایت کریں گے جس کی سربراہی خود افغانستان کرتا ہو، ان خیالات کا اظہار انھوں نے گزشتہ روز اسلام آباد میں افغانستان میں امن اور ترقی کے موضوع پر منعقد ہونے والے ایک سیمینار سے خطاب میں کیا۔سیمینار کا اہتمام Sustainable Development Policy Institute (SDPI)اورحکومت پاکستان کے قومی سلامتی ڈویژن کے اشتراک سے کیا گیا۔

اپنے خطاب میں ناصر جنجوعہ کا کہنا تھا کہ امن نہ صرف پاکستان اور افغانستان بلکہ پورے خطے اور دنیا کے لئے ضروری ہے۔ افغانستان ایشیاء کا دل ہے اور اس خطے کی سلامتی اور ترقی افغانستان میں امن سے وابستہ ہے۔ بدقسمتی سے افغانستان کے بچوں نے 1979کے بعد جنگ کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھا، جبکہ افغانستان کے بعد پاکستان دہشت گردی اور عدم استحکام سے متاثر ہونے والا دوسرا بڑاملک ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام افغانستان کو ایک پرامن، مستحکم اور ترقی یافتہ ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ناصر جنجوعہ نے کہا کہ سی پیک چین کے ایک پٹی اور ایک شاہراہ منصوبے کے خواب کا صرف آدھا حصہ ہے، اس خواب کی تکمیل افغانستان کے ذریعے ہوتی ہے جو پورے وسط ایشیاء اور یورپ کو آپس میں منسلک کرتا ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جو خطے کی معیشتوں کو تقویت فراہم کرسکتا ہے، اورہمیں سی پیک سے آگے بڑھ کر پوری دنیا سے منسلک ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف ایک کامیاب جنگ لڑی ہے اور اس کامیابی کو دوام بخشنے کی شدید ضرورت ہے۔

اس موقع پر SDPIکے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالقیوم سلہری نے اپنے خطاب میں کہا کہ سی پیک اس وقت تک صرف سڑک اور ریل پٹری ہی رہے گی جب تک خطے کے ممالک بالخصوص افغانستان اور بھارت کی سرحدوں پر امن قائم نہیں ہوتا۔ انھوں نے کہا کہ خطے کا فائدہ صرف ایک پرامن اور مستحکم افغانستان میں ہے،جبکہ عدم اعتماد کے موجودہ ماحول میں چین کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ چین بہت جلد خطے کا مشترکہ اقتصادی نسب نما بن جائے گااور خطے میں امن کے قیام کے بعد اس کی سرمایہ کاری زبردست ترقی کا باعث بنے گی۔ سینئیر تجزیہ کار اور افغان امور کے ماہر امتیاز گل نے اپنے خطاب میں کہ جب تک ہم افغانستان سے فرسودہ پلاننگ کمیشن رجیم کے ذریعے تعلقات نبھائیں گے اور سول ملٹری مشترکہ میکانزم کے ذریعے ایک مکمل حکومتی اپروچ نہیں اپنائیں گے اس وقت تک ہم وہاں امن کے قیام کے فائدوں سے دور رہیں گے۔ سول اور ملٹری بیوروکریسی کو چاہئیے کہ وہ مدد اور تعاون کے لئے بیرونی دنیا کی جانب دیکھنے کی بجائے اقتصادی اور انسانی ترقی کو ایک باوقار قوم کی حیثیت سے رہنے کے ذرائع بنائیں۔ خطے میں امن و استحکام لانے کے لئے افغانستان کے معاملے میں سمارٹ حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ۔ افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند کااس موقع پر کہنا تھا کہ امریکہ کا افغانستان میں اپنے مقاصد واضح نہ کرنا، موجودہ حکومت کا امن اقدامات میں عدم دلچسپی اور اس سے کمزور وابستگی اور افغان طالبان کا ایک سیاسی طاقت بننے کی اہلیت نہ رکھنا افغانستان میں قیام امن کی راہ میں تین بڑی رکاوٹیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ جب تک افغانستان میں عدم استحکام ہوگا کوئی بھی ملک فائدہ حاصل نہیں کرسکے گا اور جب افغانستان میں امن قائم ہوجائے گا تو خطے کے تمام ممالک عدم استحکام اور دہشت گردی سے محفوظ ہوجائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ جب تک امریکی افواج افغانستان میں موجود رہیں گی اس وقت تک وہاں امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔ افغانستان میں وسیع بنیادوں پر قائم ایک کثیرنسلی حکومت کی ضرورت ہے جس میں طالبان کا بھی حصہ ہواور یہی وہاں امن و استحکام کی واحد یقینی ضمانت ہے۔ پاکستان کو چاہئیے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دیتے وقت اس عنصر کوذہن میں رکھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ چین کا ثالثی کردار مستقل طور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے قومی سلامتی ڈویژن کے سیکرٹری سید افتخار حسین بابر نے کہا کہ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ایک بڑی ترجیح ہے اور پاکستان اسے نہایت اہمیت دیتا ہے۔ افغانستان کے 17 سالہ جنگ نے پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کی سربراہی میں افغان امن عمل کو ترجیح دیتا ہے۔ افغانستان میں امن قائم کئے بغیر علاقائی روابط اور وابستگی ناممکن ہے۔