اصغرخان عملدرآمد کیس: تمام اداروں کو ایف آئی اے سے تعاون کا حکم

 
0
293

لاہور12جون (ٹی این ایس) سپریم کورٹ نے اصغرخان عملدرآمد کیس میں وزارت دفاع سمیت تمام اداروں کو ایف آئی اے سے تعاون کرنے کا حکم دیا ہے۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اصغر خان عملدرآمد کے معاملے کی سماعت کی۔اس موقع پر سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی، میر حاصل بزنجو، عابدہ حسین، غلام مصطفی کھر، ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن، اسد درانی اور روئیداد خان سمیت دیگر پیش ہوئے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ ‘ کیا نواز شریف نے بیان ریکارڈ کرادیا’ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ ان کی جانب سے بیان آچکا ہے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اصغر خان عمل درآمد کیس میں مزید تاخیر برادشت نہیں کریں گے، ایک منٹ ضائع کیے بغیر تفتیش مکمل کریں اور ایف آئی اےجس کو بلائے اس کو جانا ہوگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس عدالت کے دائرہ میں کسی ایجنسی کا کوئی زور نہیں ہے۔جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پرویز مشرف کو پاکستان آنے میں جو رکاوٹ تھی وہ ختم کردی اب ان کی بہادری پر ہے کہ وہ آتے ہیں یا نہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پرویز مشرف آئیں اور دکھائیں کہ وہ کتنے بہادر ہیں، وہ آئیں گے تو قانون کے تحت کارروائی ہوگی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کہا کہ میں بھاٹی سے الیکشن لڑوں تو نہیں جیت سکتا، ہاشمی صاحب میں نے الیکشن نہیں لڑنا آئین کا تحفظ کرنا ہے۔
1990ء کی انتخابی مہم کے حوالے سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس انتخابی مہم کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل جماعتوں اور رہنماؤں میں پیسے تقسیم کیے گئے۔اس حوالے سے ایئر فورس کے سابق سربراہ اصغر خان مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، یہ کیس پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہے۔خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے ایک بیان حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ سیاسی رہنماؤں میں یہ پیسے مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب سے لے کر بانٹے گئے تھے۔پیسے لینے والوں میں غلام مصطفیٰ کھر، حفیظ پیرزادہ، سرور چیمہ، معراج خالد اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا نام بھی سامنے آیا تھا۔اصغر خان کیس میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پیسے بانٹنے کا یہ سارا عمل اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور دیگر قیادت کے بھی علم میں تھا۔سپریم کورٹ نے 2012 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم اور 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درنی پر عائد کی تھی۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا۔مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت مسترد کرچکی ہے۔