امارات کے سرکاری اور نجی ادارے ملازمت کے لیے ڈگری پر تجربے کو فوقیت دینے لگے

 
0
485

اداروں کے مالکان کے نزدیک محض یونیورسٹی کی ڈگری ہونا قابلیت کا معیار نہیں ہے
دُبئی ستمبر 26 (ٹی این ایس): متحدہ عرب امارات کے سرکاری اور نجی ادارے ملازمتوں کے لیے اُن افراد کو ترجیح دے رہے ہیں جو متعلقہ شعبے میں وسیع تجربے کے حا مل اور اُن کی شخصیت پیشہ ورانہ سوچ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ اکثر فرمز کے مالکان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کی ڈگری ہونا کوئی قابلیت کا معیار نہیں ہے۔ اس وقت پُوری دُنیا میں تعلیمی قابلیت کے بجائے پیشہ ورانہ تجربے کو اہمیت دی جا رہی ہے۔
یہاں تک کہ اعلیٰ یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو بھی گھاس نہیں ڈالی جا رہی۔ ایک اہم حکومتی ادارے دُبئی ایگزیکٹو آفس میں ایڈوائزر کے عہدے پر تعینات ڈاکٹر سید فاروق کا کہنا ہے کہ اُن کے ادارے نے ڈگری یافتہ نوجوانوں کو فوقیت دینا چھوڑ دی ہے۔ کیونکہ یہ محسوس کیا گیا ہے کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ تجربہ کار شخص یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے شخص سے کہیں زیادہ قابلیت کا مالک ہوتا ہے، کیونکہ یہ ڈگریاں تعلیم کو ظاہر کرتی ہیں، ان کا قابلیت اور تجربے سے کوئی تعلق نہیں۔
آج ہر ادارے کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے لوگ بھرتی کیے جائیں جو اپنی تخلیقی سوچ کی بنا پر متعلقہ ادارے میں جِدت اور مفید اصلاحات متعارف کرا سکیں۔ وہ کچھ ایسا منفرد کریں جو ادارے کو زیادہ سے زیادہ منفعت بخش بنا سکے۔ تعلیمی شعبے میں زیادہ نمبروں کے حصول کا یہ مطلب نہیں کہ وہ طالب علم عملی شعبے میں بھی اتنا ہی کامیاب و کامران ٹھہرے۔
مائیکروسافٹ کمپنی کے ریجنل جنرل مینجر سید حشیش کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کچھ معاملات میں یونیورسٹی کی ڈگریاں ضروری ہیں۔ تاہم ڈگری یافتہ نوجوان کے پاس منفرد سوچ اور کارگزاری کا جذبہ ہونا بھی ضروری ہے۔ مائیکروسافٹ کمپنی کے بانی مشہور عالمِ شخصیت بِل گیٹس کی مثال ہی لیجیے، جسے یونیورسٹی کی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ مگر اُس کی ذہانت نے اُسے دُنیا بھر میں شہرت بخش دی۔
ہمارے لیے یونیورسٹی کا ڈگری یافتہ ہونا یا نہ ہونا اہم نہیں بلکہ یہ بات اہم ہے کہ کسی میں اپنے ادارے کو ترقی دینے کا کتنا مادہ موجود ہے۔ ہماری ترجیح وہ لوگ ہوتے ہیں جو نِت نئے تجربے پر یقین رکھتے ہیں، دُوسروں کی بات سُن اور سمجھنے کی قابلیت رکھتے ہوں، اور ’میں سب کچھ جانتا ہوں‘ کے بجائے ’سب کچھ جاننے کی خواہش‘ رکھتے ہوں۔ان خیالات کا اظہار ایک نجی تعلیمی ادارے کی جانب سے منعقدہ پینل گفتگو کے دوران کیا گیا۔